إذ الله عز وجل قبل وجه المصلي ما دام في صلاته مقبلا عليه إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قِبَلَ وَجْهِ الْمُصَلِّي مَا دَامَ فِي صَلَاتِهِ مُقْبِلًا عَلَيْهِ
کیونکہ اللہ عزوجل نمازی کے چہرے کی جانب ہوتے ہیں جب تک نمازی اپنی نماز میں اُس کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلے میں بلغم دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے رگڑ کر صاف کر دیا یا فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے کھرچ دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اُن پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اور فرمایا: ”بیشک ﷲ تعالیٰ تم میں سے کسی شخص کی نماز میں اُس کے چہرے کے سامنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کی جانب ہر گز ہرگز بلغم نہ پھینکے۔“
سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ شیث بن ربعی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو اپنے سامنے تھوک دیا، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ ”جب آدمی نماز شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرہ انور کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں پھر نمازی سے توجہ نہیں ہٹاتے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بے توجہ ہو جائے یا اس کا وضو ٹوٹ جائے۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے قبہ رخ تھوکا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کا تھوک اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لگا ہو۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی کے ساتھ اسے صاف کر دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں سخت غصّہ دیکھ رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ بلغم کس کی ہے؟“ وہ سب خاموش رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا تم میں سے کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو ایک شخص اُس کے سامنے آکر اُس کے چہرے پر تھوک دے؟“ صحابہ نے جواب دیا کہ نہیں، (ایسا کوئی بھی پسند نہیں کرے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری نمازوں میں تمہارے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا تم کوئی بھی گندگی اپنے سامنے مت پھینکا کرو لیکن (بوقتِ ضرورت) اپنی بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے ڈال لیا کرو۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقش و نگار والی ایک چادر میں نماز پڑھی تو فرمایا: ”مجھے اس کے بیل بوٹوں نے مشغول کر دیا تھا۔ لہٰذا یہ چادر حضرت ابوجہم کو دے آؤ اور مجھے انبجان کی بنی ہوئی (سادہ) چادر لا دو۔“ جناب مخزومی کی زہری سے جو روایت ہےاس میں بھی «انبجانية» کے الفاظ ہیں۔ امام صاحب ایک اور سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیان کیا کہ ”اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ باتوں پر عمل کرنے اور بنی اسرائیل کو اُن پر عمل کرانے کا حُکم دیا تو اُنہوں نے ان پر عمل کرانے میں تاخیر کی تو عیسٰی علیہ السلام نے اُن سے کہا، بیشک آپ کو پانچ باتوں پر عمل کرنے اور بنی اسرائیل کو ان پر عمل پیرا کرانے کا حُکم دیا گیا ہے، لہٰذا یا تو آپ انہیں ان کاموں کا حُکم دیں یا پھر میں کھڑے ہو کر انہیں ان باتوں کا حُکم دیتا ہوں ـ یحیٰی علیہ السلام نے فرمایا، اگر تم نے ان کلمات کو مجھ سے پہلے لوگوں تک پہنچایا تو مجھے ڈر ہے کہ میں عذاب میں مبتلا کر دیا جاؤں گا یا مجھے زمین میں دھنسا دیا جائے گا، لہٰذا اُنہوں نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا، حتیٰ کہ مسجد بھر گئی، یہاں تک کہ لوگ بلند ٹیلوں پر بیٹھ گئے، تو اُنہوں نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حُکم دیا کہ میں ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی ان پر عمل پیرا ہونے کا حُکم دوں - ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بناؤ ـ کیونکہ جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اُس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک غلام اپنے بہترین مال سونے یا چاندی کے عوض خریدا پھر اس سے کہا کہ یہ میرا گھر اور کاروبار ہے، لہٰذا اب میرے لئے کام کرو اور اپنی کمائی مجھے ادا کرو۔ لہٰذا اُس نے کام شروع کر دیا لیکن اپنی کمائی اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو ادا کرنا شروع کر دی۔ تو تم میں سے کون شخص ہے جسے یہ بات پسند ہو کہ اس کا بھی ایک ایسا ہی غلام ہو (مگر) وہ اپنی کمائی اپنے آقا کے علاوہ کسی اور شخص کو دے دے۔ (یاد رکھو) بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور رزق عطا کیا ہے، تو تم اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک مت بناؤ“ اور فرمایا: ”بیشک اللہ عزوجل تمہیں نماز پڑھنے کا حُکم دیتا ہے۔ (لہٰذا جب تم نماز کے لئے) چہرے سیدھے کرلو تو ادھ ادھر مت جھانکو کیونکہ اللہ بھی اپنا چہرہ اقدس اُس بندے کے لئے متوجہ کرتے ہیں جب وہ اُس کے لئے نماز پڑھتا ہے۔ پھر وہ اپنی چہرہ مبارک اُس وقت تک نہیں ہٹاتا جب تک بندہ اپنا چہرہ نہ ہٹالے۔“ اور پھر مکمّل حدیث بیان کی۔