نا نا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم، ثنا ابي، وشعيب، قالا: حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عبد الله بن عمرو، عن ابي بكر الصديق رضوان الله عليه انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: " علمني دعاء ادعو به في صلاتي" نَا نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، ثنا أَبِي، وَشُعَيْبٌ، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاتِي"
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھادیں جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جو میں اپنی نماز اور اپنے گھر میں مانگا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ دعا مانگا کرو «اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَبِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ”اے اللہ، بیشک میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے ہیں اور تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے، لہٰذا تو اپنے پاس سے مجھے مغفرت و بخشش عطا فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بہت زیادہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ» یعنی سورة النصر آخر تک نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز میں یہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا، «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي» ”اے اللہ، تو پاک ہے ساتھ اپنی تعریفوں کے، اے اللہ، مجھے معاف فرما ـ“
حضرت ابومالک اشجعی اپنے والد گرامی سے روایت کر تے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح کے وقت حاضر ہوتے چنانچہ مرد و خواتین آتے اور عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول، جب میں نماز پڑھوں تو کیسے دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”اس طرح مانگا کرو «اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي» ”اے اللہ، مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطا کر، مجھے عافیت سے نواز دے اور مجھے رزق عطا فرما۔“ تو تیرے لئے تیری دنیا اور آخرت (کی ہر خیر و بھلائی) جمع کر دی جائے گی۔“
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں یہ دیا مانگتے ہوئے سنا، «اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابَاً يَسِيرَاً» ”اے اللہ، مجھ سے آسان حساب لینا“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آسان حساب کیسا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کے اعمال نامے کو دیکھ کر (اس کے گناہوں سے) درگزر کیا جائے گا۔ کیونکہ اے عائشہ رضی اللہ عنہا، اس دن جس سے تفصیلی حساب لیا گیا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ اور مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے ذریعے اُس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ کانٹا جو اُسے چبھتا ہے، (وہ بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے)۔“ دونوں راویوں نے ایک جیسے الفاظ بیان کیے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کچھ کلمات سکھا دیں جو میں اپنی نماز میں بطور دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس مرتبہ «سُبْحَانَ اللَٰه» دس مرتبہ «الحَمْدُ لِلَٰه» اور دس دفعہ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھ لیا کرو، پھر اپنی حاجت و ضرورت کا سوال کرو تو وہ فرمائے گا کہ ہاں، ہاں (تمہاری دعا و التجا قبول ہے۔)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ”مجھے تم دکھائے گئے ہو کہ تم قبروں میں دجّال کے فتنے کی طرح آزمائے جارہے ہو۔ حضرت عمرہ کہتی ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نماز میں یہ دیا مانگتے ہوئے سنا کرتی تھی۔ «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» ۔ ”اے اﷲ، میں جہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ» ”اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں دجّال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ، میں گناہ میں ملوث ہونے اور قرض میں پھنسنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”ایک کہنے والے نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے کس قدر زیادہ پناہ مانگتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک آدمی جب مقروض ہوجاتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔“
544. فرض نماز میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنا جائز ہے جبکہ نمازی کوئی ایسی چیز دیکھے یا سنے کہ جس پر حمد و ثناء بیان کرنا واجب ہو یا وہ اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہتا ہو۔
نا احمد بن عبدة الضبي ، اخبرنا حماد يعني ابن زيد ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ح وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، ح وحدثنا إسماعيل بن بشر بن منصور السلمي ، نا عبد الاعلى ، عن عبيد الله ، ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن بزيع ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا عبيد الله يعني ابن عمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، وهذا لفظ حديث حماد بن زيد، قال: كان قتال بين بني عمرو بن عوف، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فصلى الظهر ثم اتاهم ليصلح بينهم، ثم قال لبلال:" يا بلال، إذا حضرت صلاة العصر ولم آت فمر ابا بكر فليصل بالناس، فلما حضرت العصر، اذن بلال، ثم اقام، ثم قال لابي بكر: تقدم، فتقدم ابو بكر، فدخل في الصلاة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل يشق الناس، حتى قام خلف ابي بكر، قال: وصفح القوم، وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لا يلتفت، فلما راى ابو بكر التصفيح لا يمسك عنه التفت فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم اي امضه، فلما قال: لبث ابو بكر هنيهة، يحمد لله على قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: امضه، ثم مشى ابو بكر القهقرى على عقبيه فتاخر، فلما راى ذلك النبي صلى الله عليه وسلم تقدم فصلى بالناس، فلما قضى صلاته، قال:" يا ابا بكر ما منعك إذ اومات إليك الا تكون مضيت" قال: لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال النبي صلى الله عليه وسلم للناس:" إذا نابكم في صلاتكم شيء فليسبح الرجال وليصفح النساء" وقال ابن ابي حازم في حديثه: فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم هكذا، يامره ان يصلي، فرفع ابو بكر يده فحمد الله، ثم رجع القهقرى وراءه، وقال عبد الاعلى في حديثه:" فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، اي كما انت، فرفع ابو بكر يديه فحمد الله، واثنى عليه لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجع القهقرى". قال ابو بكر: وبعضهم يزيد على بعض في الحديثنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، ح وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ السُّلَمِيُّ ، نَا عَبْدُ الأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، ثُمَّ قَالَ لِبِلالٍ:" يَا بِلالُ، إِذَا حَضَرَتْ صَلاةُ الْعَصْرِ وَلَمْ آتِ فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ، أَذَّنَ بِلالٌ، ثُمَّ أَقَامَ، ثُمَّ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ: تَقَدَّمْ، فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَدَخَلَ فِي الصَّلاةِ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَشُقُّ النَّاسَ، حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: وَصَفَّحَ الْقَوْمُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ لا يَلْتَفِتُ، فَلَمَّا رَأَى أَبُو بَكْرٍ التَّصْفِيحَ لا يُمْسَكُ عَنْهُ الْتَفَتَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيِ امْضِهْ، فَلَمَّا قَالَ: لَبِثَ أَبُو بَكْرٍ هُنَيْهَةً، يَحْمَدُ لِلَّهِ عَلَى قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: امْضِهْ، ثُمَّ مَشَى أَبُو بَكْرٍ الْقَهْقَرَى عَلَى عَقِبَيْهِ فَتَأَخَّرَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقَدَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى صَلاتَهُ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَلا تَكُونَ مَضَيْتَ" قَالَ: لَمْ يَكُنْ لابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ:" إِذَا نَابَكُمْ فِي صَلاتِكُمْ شَيْءٌ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ وَلْيُصَفِّحِ النِّسَاءُ" وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَازِمٍ فِي حَدِيثِهِ: فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا، يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ، وَقَالَ عَبْدُ الأَعْلَى فِي حَدِيثِهِ:" فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْ كَمَا أَنْتَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحَدِيثِ
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، پھر اُن کے پاس ان کی صلح کرانے کے لئے تشریف لائے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ ”اے بلال جب نماز عصر کا وقت ہو جائے اور میں واپس نہ آؤں تو ابوبکر کو کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔“ چنانچہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی، پھر اقامت کہی، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آگے بڑھیے، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کر دی، اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگئے اور لوگوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے آگے بڑھے یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، صحابی کہتے ہیں کہ لوگوں نے تالی بجائی اور سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ جب نماز شروع کر دیتے تو اِدھر اُدھر توجہ نہیں دیتے تھے، پس پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ تالی مسلسل بج رہی ہے تو اُنہوں نے پھرنا چاہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ نماز جاری رکھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”نماز جاری رکھو“”پر کچھ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایڑیوں کے بل چل کر پیچھے آگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمّل کرلی تو فرمایا: ”اے ابوبکر، جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو پھرتمہیں نماز جاری رکھنے سے کس چیز نے منع کیا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ”جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو مرد «سُبْحَانَ اللَٰه» کہیں اور عورتیں تالی بجائیں“۔ جناب ابن ابی حازم کی رویت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اس طرح اشارہ کیا اور انہیں نماز جاری رکھنے کا حُکم دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور «الحَمْدُ لِلَٰه» کہا، پھر الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ جناب عبدالاعلی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو (یعنی نماز جاری رکھو) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اپنے ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے لوٹ آئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے دوسروں کے مقابلہ میں حدیث کے الفاظ میں اضافہ بیان کیا ہے۔