صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
اذان اور اقامت کے ابواب کا مجموعہ
372. ‏(‏139‏)‏ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى الْمُنْصِتِ السَّامِعِ قِرَاءَةَ السَّجْدَةِ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ السُّجُودُ إِذَا لَمْ يَسْجُدِ الْقَارِئُ،
372. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب آیت سجدہ پر قاری قرآن سجدہ نہ کرے تو خاموشی سے سننے والے کے لیے سجدہ تلاوت کرنا واجب نہیں ہے، اس شخص کے قول کے بر خلاف جو گمان کرتا ہے کہ آیت سجدہ کی تلاوت غور سے اور خاموشی کے ساتھ سننے والے شخص پر سجدہ تلاوت واجب ہے
حدیث نمبر: Q568
Save to word اعراب
ضد قول من زعم ان السجدة على من استمع لها وانصت‏.‏ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ السَّجْدَةَ عَلَى مَنِ اسْتَمَعَ لَهَا وَأَنْصَتَ‏.‏
اس شخص کے قول کے برخلاف جو گمان کرتا ہے کہ آیت سجدہ کی تلاوت غور سے اور خاموشی کے ساتھ سننے والے شخص پر سجدہ واجب ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 568
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، حدثنا ابن ذئب . ح وحدثنا بندار مرة، حدثنا يحيى، وعثمان بن عمر ، عن ابن ابي ذئب ، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط ، عن عطاء بن يسار ، عن زيد بن ثابت ، قال: " قرات على النبي صلى الله عليه وسلم النجم، فلم يسجد" . قال ابو بكر: وروى ابو صخر هذا الخبر، عن ابن قسيط ، عن خارجة بن زيد ، وعطاء بن يسار جميعا، حدثنا بهما احمد بن عبد الرحمن بن وهب ، نا عمي ، عن ابي صخر ، بالإسنادين منفردين. ورواه يزيد بن خصيفة ، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط ، عن عطاء بن يسار انه اخبره، انه سال زيد بن ثابت، وزعم انه قرا على رسول الله صلى الله عليه وسلم والنجم إذا هوى، فلم يسجد. ناه علي بن حجر ، نا إسماعيل بن جعفر ، عن يزيد بن خصيفةنا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ ذِئْبٍ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مَرَّةً، حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: " قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ، فَلَمْ يَسْجُدْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَرَوَى أَبُو صَخْرٍ هَذَا الْخَبَرَ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ جَمِيعًا، حَدَّثَنَا بِهِمَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، نا عَمِّي ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ ، بِالإِسْنَادَيْنِ مُنْفَرِدَيْنِ. وَرَوَاهُ يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى، فَلَمْ يَسْجُدْ. نَاهُ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «‏‏‏‏سورۃ النجم» ‏‏‏‏ کی تلاوت کر کے سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ تلاوت نہ کیا۔ امام صاحب اسی روایت ابوصخر سے دو مختلف سندوں سے بیان کرتے ہیں کہ جناب عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا، بیشک اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «‏‏‏‏وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ» ‏‏‏‏ [ سورة النجم ] پڑھ کر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ تلاوت نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
373. ‏(‏140‏)‏ بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ عِنْدَ انْقِضَاءِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ الَّتِي يَجْهَرُ الْإِمَامُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ‏.‏
373. جن نمازوں میں امام جہری قرأت کرتا ہے ان میں سورہ فاتحہ کے اختتام پر بلند آواز سے آمین کہنے کا بیان
حدیث نمبر: 569
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، وسعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، وعلي بن خشرم ، وهذا حديث المخزومي، نا سفيان ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا امن القارئ، فامنوا، فإن الملائكة تؤمن، فمن وافق تامينه تامين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه" . قال المخزومي مرة: قال: سمعت الزهرينا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ الْمَخْزُومِيِّ، نا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ تُؤَمِّنُ، فَمَنَ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" . قَالَ الْمَخْزُومِيُّ مَرَّةً: قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ لہٰذا جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی اُس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 570
Save to word اعراب
انا احمد بن عبدة الضبي ، اخبرنا عبد العزيز يعني ابن محمد الدراوردي ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا امن الإمام فامنوا، فمن وافق قوله قول الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه" . قال ابو بكر في قول النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا امن الإمام، فامنوا": ما بان وثبت ان الإمام يجهر بآمين، إذ معلوم عند من يفهم العلم ان النبي صلى الله عليه وسلم لا يامر الماموم ان يقول: آمين عند تامين الإمام، إلا والماموم يعلم ان الإمام يقوله، ولو كان الإمام يسر آمين لا يجهر به، لم يعلم الماموم ان إمامه قال: آمين، او لم يقله، ومحال ان يقال للرجل: إذا قال فلان كذا: فقل مثل مقالته، وانت لا تسمع مقالته، هذا عين المحال، وما لا يتوهمه عالم ان النبي صلى الله عليه وسلم يامر الماموم ان يقول آمين، إذا قاله إمامه وهو لا يسمع تامين إمامه. قال ابو بكر: فاسمع الخبر المصرح بصحة ما ذكرت ان الإمام يجهر بآمين عند قراءة فاتحة الكتابأنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَنَّ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَمَنَّ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا": مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الإِمَامَ يَجْهَرُ بِآمِينَ، إِذْ مَعْلُومٌ عِنْدَ مَنْ يَفْهَمُ الْعِلْمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ يَقُولَ: آمِينَ عِنْدَ تَأْمِينِ الإِمَامِ، إِلا وَالْمَأْمُومُ يَعْلَمُ أَنَّ الإِمَامَ يَقُولُهُ، وَلَوْ كَانَ الإِمَامُ يُسِرُّ آمِينَ لا يَجْهَرُ بِهِ، لَمْ يَعْلَمِ الْمَأْمُومُ أَنَّ إِمَامَهُ قَالَ: آمِينَ، أَوْ لَمْ يَقُلْهُ، وَمُحَالٌ أَنْ يُقَالَ لِلرَّجُلِ: إِذَا قَالَ فُلانٌ كَذَا: فَقُلْ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، وَأَنْتَ لا تَسْمَعُ مَقَالَتَهُ، هَذَا عَيْنُ الْمُحَالِ، وَمَا لا يَتَوَهَّمُهُ عَالِمٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ يَقُولَ آمِينَ، إِذَا قَالَهُ إِمَامُهُ وَهُوَ لا يَسْمَعُ تَأْمِينَ إِمَامِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَاسْمَعِ الْخَبَرَ الْمُصَرِّحَ بِصِحَّةِ مَا ذَكَرْتُ أَنَّ الإِمَامَ يَجْهَرُ بِآمِينَ عِنْدَ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو تو جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو گیا تو اُس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ میں اس بات کی دلیل ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بلند آواز سے آمین کہے گا، کیونکہ علم کو سمجھنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حُکم اسی وقت دیا ہے جب وہ اپنے امام کو آمین کہتے ہوئے سنے گا۔ اور اگر امام آہستہ آواز سے آمین کہے اور اسے بلند آواز سے نہ کہے تو مقتدی کو پتہ نہیں چلے گا کہ اُس کے امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ بات محال و ناممکن ہے کہ کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں شخص جب ایسے کہے تو تم بھی ویسے ہی کہنا حالانکہ تم اس کے قول کو سن نہ سکو۔ یہ تو بالکل ہی ناممکن اور محال بات ہے۔ ایسی محال بات کسی عالم شخص کے وہم میں بھی نہیں آسکتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو حُکم دیں کہ وہ اپنے امام کی آمین کے وقت آمین کہے حالانکہ وہ اپنے امام کی آمین کو سنتا ہی نہ ہو۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لیجیئے اب وہ صریح اور واضح حدیث سنیئے جو ہماری بات کے صحیح ہونے کی دلیل ہے کہ «‏‏‏‏سورة الفاتحة» ‏‏‏‏ کی قراءت کرنے کے بعد بلند آواز سے آمین کہے گا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 571
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اُم القرآن کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی بلند آواز سے آمین کہتے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 572
Save to word اعراب
حضرت نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب امام کے ساتھ ہوتے اور وہ اُم القرآن پڑھتا تو لوگ آمین کہتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آمین کہتے اور وہ اسے سنّت سمجھتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 573
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن حسان الازرق بخبر غريب، إن كان حفظ اتصال الإسناد، حدثنا ابن مهدي ، عن سفيان ، عن عاصم ، عن ابي عثمان ، عن بلال ، انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: " لا تسبقني بآمين" . قال ابو بكر: هكذا املى علينا محمد بن حسان هذا الحديث من اصله.. الثوري، عن عاصم، فقال: عن بلال، والرواة إنما يقولون في هذا الإسناد، عن ابي عثمان: ان بلالا قال للنبي صلى الله عليه وسلمحَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ الأَزْرَقُ بِخَبَرٍ غَرِيبٍ، إِنْ كَانَ حَفِظَ اتِّصَالَ الإِسْنَادِ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ بِلالٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَسْبِقْنِي بِآمِينَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَكَذَا أَمْلَى عَلَيْنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَصْلِهِ.. الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، فَقَالَ: عَنْ بِلالٍ، وَالرُّوَاةُ إِنَّمَا يَقُولُونَ فِي هَذَا الإِسْنَادِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ: أَنَّ بِلالا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ مجھ پر آمین (کہنے) میں سبقت نہ لیجائیں امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جناب محمد بن حسان نے یہ حدیث ہمیں اسی طرح املاء کراوئی ہے کہ یہ روایت امام سفیان ثوری اپنے استاد عاصم سے اور وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جبکہ دیگر رواۃ اس سند میں جناب عاصم کے استاد ابوعثمان کا اضافہ کرتے ہیں (اور وہ کہتے ہیں کہ) «‏‏‏‏ان بلا لا قال للنبي صلى الله عليه وسلم» ‏‏‏‏ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
374. ‏(‏141‏)‏ بَابُ ذِكْرِ حَسَدِ الْيَهُودِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى التَّأْمِينِ
374. مؤمنوں کے آمین کہنے پر یہودیوں کے حسد کرنے کا بیان، امام کی قرأت کے بعد بعض جاہل ائمہ اور مقتدیوں کا آمین کرنے سے روکنا یہودیوں کے طرز عمل کا حصّہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے بارے میں ان کے حسد کی نشانی ہے
حدیث نمبر: Q574
Save to word اعراب
ان يكون زجر بعض الجهال الائمة والمامومين عن التامين عند قراءة الإمام شعبة من فعل اليهود وحسدا منهم لمتبعي النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏أَنْ يَكُونَ زَجْرُ بَعْضِ الْجُهَّالِ الْأَئِمَّةَ وَالْمَأْمُومِينَ عَنِ التَّأْمِينِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْإِمَامِ شُعْبَةً مِنْ فِعْلِ الْيَهُودِ وَحَسَدًا مِنْهُمْ لِمُتَّبِعِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏.‏
امام کی قراءت کے بعد بعض جاہل ائمہ اور مقتدیوں کا آمین کرنے سے روکنا یہودیوں کے طرزعمل کا حصہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے بارے میں ان کے حسد کی نشانی ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 574
Save to word اعراب
نا ابو بشر الواسطي ، نا خالد يعني ابن عبد الله ، عن سهيل وهو ابن ابي صالح ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: دخل يهودي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: السام عليك يا محمد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" وعليك"، فقالت عائشة: فهممت ان اتكلم، فعلمت كراهية النبي صلى الله عليه وسلم لذلك، فسكت، ثم دخل آخر، فقال: السام عليك، فقال:" عليك"، فهممت ان اتكلم، فعلمت كراهية النبي صلى الله عليه وسلم لذلك، ثم دخل الثالث، فقال: السام عليك، فلم اصبر حتى، قلت: وعليك السام وغضب الله ولعنته، إخوان القردة والخنازير، اتحيون رسول الله صلى الله عليه وسلم بما لم يحيه الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا يحب الفحش ولا التفحش، قالوا قولا، فرددنا عليهم، إن اليهود قوم حسد، وهم لا يحسدونا على شيء كما يحسدونا على السلام، وعلى آمين" . قال ابو بكر: خبر ابن ابي مليكة، عن عائشة في هذه القصة قد خرجته في كتاب الكبيرنا أَبُو بِشْرٍ الْوَاسِطِيُّ ، نا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سُهَيْلٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ يَهُودِيٌّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَعَلَيْكَ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ، فَسَكَتُّ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ:" عَلَيْكَ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثُ، فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى، قُلْتُ: وَعَلَيْكَ السَّامُ وَغَضَبُ اللَّهِ وَلَعْنَتُهُ، إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ اللَّهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلا التَّفَحُّشَ، قَالُوا قَوْلا، فَرَدَدْنَا عَلَيْهِمْ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ، وَهُمْ لا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلامِ، وَعَلَى آمِينَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ قَدْ خَرَّجْتُهُ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے کہا «‏‏‏‏السام عليك يا محمد» ‏‏‏‏ اے محمد تم پر موت (نازل) ہو۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: «‏‏‏‏وعليك» ‏‏‏‏ اور تم پر بھی ہو۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بات کرنے کا ارادہ کیا مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا پسندیدگی معلوم ہونے پر خاموش رہی۔ پھر ایک اور یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے بھی کہا کہ آپ پر موت طاری ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: «‏‏‏‏وعليك» ‏‏‏‏ تم پر ہی ہو۔ میں نے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا لیکن میں جان گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بُرا سمجھتے ہیں (لہٰذا میں خاموش رہی) پھر تیسرا (یہودی) داخل ہوا تو اُس نے کہا کہ آپ پر موت (نازل) ہو۔ اس بار مجھ سے رہا نہ جاسکا یہاں تک کہ میں نے کہا، تجھ ہی پر موت نازل ہو اور تجھ پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت نازل ہو، اے بندروں اور خنزیروں کے بھائیو، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے الفاظ کے ساتھ سلام کرتے ہو جن الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام نہیں کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فحش گوئی اور بے حیائی کو پسند نہیں فرماتے، انہوں نے جیسے ہمیں سلام کیا، ویسے ہی ہم نے انہیں جواب دے دیا تھا۔ بلاشبہ یہودی بہت زیادہ حسد کرنے والی قوم ہے اور وہ ہم پر کسی چیز میں اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ ہمارے سلام اور آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس قصّے کے متعلق ابن ابی ملیکہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت كتاب الكبير میں بیان کر دی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
375. ‏(‏142‏)‏ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْإِمَامَ إِذَا جَهِلَ فَلَمْ يَقُلْ آمِينَ أَوْ نَسِيَهُ كَانَ عَلَى الْمَأْمُومِ-
375. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب امام لاعلمی یا بھول جانے کی وجہ سے آمین نہ کہے تو مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ سورہ فاتحہ کی قرأت کے اختتام پر امام کو (ولاالضالین) کہتے ہوئے سنے تو آمین کہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو آمین کہنے کا حکم دیا ہے جب اس کا امام (ولاالضالین) پڑھے جیسا کہ آپ نے مقتدی کو امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا حکم دیا ہے
حدیث نمبر: Q575
Save to word اعراب
إذا سمعه يقول ولا الضالين عند ختمه قراءة فاتحة الكتاب- ان يقول‏:‏ آمين‏.‏ إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر الماموم ان يقول‏:‏ آمين، إذا قال إمامه‏:‏ ولا الضالين، كما امره ان يقول آمين إذا قاله إمامه‏.‏إِذَا سَمِعَهُ يَقُولُ وَلَا الضَّالِّينَ عِنْدَ خَتْمِهِ قِرَاءَةَ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ- أَنْ يَقُولَ‏:‏ آمِينَ‏.‏ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ الْمَأْمُومَ أَنْ يَقُولَ‏:‏ آمِينَ، إِذَا قَالَ إِمَامُهُ‏:‏ وَلَا الضَّالِّينَ، كَمَا أَمَرَهُ أَنْ يَقُولَ آمِينَ إِذَا قَالَهُ إِمَامُهُ‏.‏
مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ سورہ فاتحہ کی قراءت کے اختتام پر امام کو (ولا الضالین) کہتے ہوئے سنے تو آمین کہے-کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو آمین کہنے کا حکم دیا ہے جب اس کا امام (ولاالضالین) پڑھے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث:

Previous    21    22    23    24    25    26    27    28    29    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.