انا احمد بن عبدة الضبي ، اخبرنا عبد العزيز يعني ابن محمد الدراوردي ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا امن الإمام فامنوا، فمن وافق قوله قول الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه" . قال ابو بكر في قول النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا امن الإمام، فامنوا": ما بان وثبت ان الإمام يجهر بآمين، إذ معلوم عند من يفهم العلم ان النبي صلى الله عليه وسلم لا يامر الماموم ان يقول: آمين عند تامين الإمام، إلا والماموم يعلم ان الإمام يقوله، ولو كان الإمام يسر آمين لا يجهر به، لم يعلم الماموم ان إمامه قال: آمين، او لم يقله، ومحال ان يقال للرجل: إذا قال فلان كذا: فقل مثل مقالته، وانت لا تسمع مقالته، هذا عين المحال، وما لا يتوهمه عالم ان النبي صلى الله عليه وسلم يامر الماموم ان يقول آمين، إذا قاله إمامه وهو لا يسمع تامين إمامه. قال ابو بكر: فاسمع الخبر المصرح بصحة ما ذكرت ان الإمام يجهر بآمين عند قراءة فاتحة الكتابأنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَنَّ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَمَنَّ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا": مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ الإِمَامَ يَجْهَرُ بِآمِينَ، إِذْ مَعْلُومٌ عِنْدَ مَنْ يَفْهَمُ الْعِلْمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ يَقُولَ: آمِينَ عِنْدَ تَأْمِينِ الإِمَامِ، إِلا وَالْمَأْمُومُ يَعْلَمُ أَنَّ الإِمَامَ يَقُولُهُ، وَلَوْ كَانَ الإِمَامُ يُسِرُّ آمِينَ لا يَجْهَرُ بِهِ، لَمْ يَعْلَمِ الْمَأْمُومُ أَنَّ إِمَامَهُ قَالَ: آمِينَ، أَوْ لَمْ يَقُلْهُ، وَمُحَالٌ أَنْ يُقَالَ لِلرَّجُلِ: إِذَا قَالَ فُلانٌ كَذَا: فَقُلْ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، وَأَنْتَ لا تَسْمَعُ مَقَالَتَهُ، هَذَا عَيْنُ الْمُحَالِ، وَمَا لا يَتَوَهَّمُهُ عَالِمٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ الْمَأْمُومَ أَنْ يَقُولَ آمِينَ، إِذَا قَالَهُ إِمَامُهُ وَهُوَ لا يَسْمَعُ تَأْمِينَ إِمَامِهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَاسْمَعِ الْخَبَرَ الْمُصَرِّحَ بِصِحَّةِ مَا ذَكَرْتُ أَنَّ الإِمَامَ يَجْهَرُ بِآمِينَ عِنْدَ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو تو جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو گیا تو اُس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔“ میں اس بات کی دلیل ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بلند آواز سے آمین کہے گا، کیونکہ علم کو سمجھنے والا شخص بخوبی جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حُکم اسی وقت دیا ہے جب وہ اپنے امام کو آمین کہتے ہوئے سنے گا۔ اور اگر امام آہستہ آواز سے آمین کہے اور اسے بلند آواز سے نہ کہے تو مقتدی کو پتہ نہیں چلے گا کہ اُس کے امام نے آمین کہی ہے یا نہیں اور یہ بات محال و ناممکن ہے کہ کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں شخص جب ایسے کہے تو تم بھی ویسے ہی کہنا حالانکہ تم اس کے قول کو سن نہ سکو۔ یہ تو بالکل ہی ناممکن اور محال بات ہے۔ ایسی محال بات کسی عالم شخص کے وہم میں بھی نہیں آسکتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو حُکم دیں کہ وہ اپنے امام کی آمین کے وقت آمین کہے حالانکہ وہ اپنے امام کی آمین کو سنتا ہی نہ ہو۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لیجیئے اب وہ صریح اور واضح حدیث سنیئے جو ہماری بات کے صحیح ہونے کی دلیل ہے کہ «سورة الفاتحة» کی قراءت کرنے کے بعد بلند آواز سے آمین کہے گا۔