سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اثنا میں کہ میں بیت اللہ کے پاس سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا جب میں نے ایک کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا کہ تین میں سے درمیان والے کو لے لو۔ چنانچہ میرے پاس سونے کا ایک تھال لایا گیا جس میں آب زمزم تھا-“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا سینہ یہاں سے یہاں تک کھولا گیا۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد کیا ہے؟ کہا کہ مراد یہ ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ پیٹ کے نچلے حصّے تک چیرا گیا تو میرا دل نکالا گیا، اُسے آب زمزم سے دھویا گیا پھر اُسے اُس کی جگہ لوٹا دیا گیا۔ پھر اُسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ پھر میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتاہے مجھے اُس پرسوارکیا گیا، پھرمیں چل پڑاحتیٰ کہ ہم آسمانِ دنیا پر پہنچ گئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کُھلوایا تو کہا گیا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اُنہیں بلایا گیا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا (فرشتوں نے) کہا کہ خوش آمدید، آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے والد بزرگوار آدم علیہ السلام ہیں۔ میں نے اُنہیں سلام کیا تو اُنہوں نے فرمایا، نیک بیٹے اور نیک بخت نبی کو خوش آمدید، فرمایا کہ پھر ہم چلتے رہے حتیٰ کہ دوسرے آسمان پر آگئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جواب دیا کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اُنہیں بلایا گیا ہے؟ کہا کہ ہاں۔ تو ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا (فرشتوں نے) کہا کہ خوش آمدید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا مبارک ہو۔ پھر میں سیدنا یحییٰ اور عیسی علیہ السلام کے پاس گیا تو میں نے کہا کہ ”اے جبرائیل یہ دو کون حضرات ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا کہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔ سعید کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اُنہوں نے اپنی روایت میں کہا تھا کہ ”دو خالہ زاد بھائی“ تو میں نے اُن دونوں کو سلام کیا۔“ اور انہوں نے فرمایا، نیک بھائی اور برگزیدہ نبی کو خوش آمدید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ہم چلتے ہوئے تیسرے آسمان پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا کہ کون ہے، اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور فرشتوں نے کہا، خوش آمدید، خوش آمدید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے انہیں سلام کیا۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نیک نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید۔ پھر ہم چوتھے آسمان کی طرف چل پڑے وہاں بھی جبرائیل اور ربانوں کی سابقہ کلام کی طرح بات چیت ہوئی۔ پھر میں سیدنا ادریس علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے اُنہیں سلام کیا، اُنہوں نے فرمایا کہ صالح بھائی اور برگزیدہ نبی کو خوش آمدید پھر ہم پانچویں آسمان پر پہنچے تو میں سیدنا ہارون علیہ السلام کے پاس آیا اور اُنہیں سلام کیا۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نیک بخت بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید۔ پھر ہم چھٹے آسمان کی طرف چل پڑے۔ پھرمیں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ ان سب پراللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔ میں نے اُنہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید۔ پھرجب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے اور فرمایا، پھر میں سدرۃ المنتہی کی طرف لوٹ آیا۔“ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ”اس (بیری) کے بیر ہجر بستی کے مٹکوں جیسے ہیں۔ اور اس کے پتّے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں۔“ اور اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار نہریں سدرہ کی جڑ سے نکلتی ہوئی دیکھیں۔ دو نہریں ظاہری ہیں اور دو باطنی ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل، یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ دو باطنی (ڈھانپی ہوئی) نہریں تو جنّت میں گئی ہیں۔ اور یہ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر ہمارے لئے بیت المعمور بلند کر دیا گیا۔ میں نے کہا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ ہر روز ستّر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں۔ جب وہ اس سے نکل جاتے ہیں تو پھر دوبارہ کبھی اس میں نہیں لوٹتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے پاس دو برتن لائے گئے ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ دونوں برتن مجھے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو اختیار کیا۔ تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے ٹھیک انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوخیر و بھلائی والی چیز اختیار کرنے کی راہنمائی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت بھی آپ کی پیروی کرے گی۔ پھرمجھ پرہرروز پچاس نمازیں فرض کی گئیں، میں اُنہیں لیکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو اُنہوں نے پوچھا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کس چیز کا حُکم دیا گیا؟ میں نے کہا کہ ہر روز پچاس نمازوں کا حُکم دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بیشک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی، میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور اُنہیں بڑی اچھی طرح پرکھا ہے (اُنکی اصلاح کرنے کی بھر پور کو شش کی ہے) آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اپنی اُمت کے لیے تخفیف کا مطالبہ کریں۔ میں واپس گیا (اور کمی کا مطالبہ کیا) تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں پھر میں مسلسل اپنے رب اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان چکّر لگاتا رہا، اللہ تعالیٰ مجھے کمی سے نوازتا رہا اور موسیٰ علیہ السلام مجھے (مزید) کمی کا مطالبہ کرنے کا کہتے رہے۔ حتیٰ کہ میں ہر روز پانچ نمازوں کی ادائیگی کا حُکم لیکر لوٹ آیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی، میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور بنی اسرائیل کا بڑا سخت امتحان لیا ہے - آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اپنی اُمّت کے لئے کمی کا سوال کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے رب کے پاس بہت بار جاچکا ہوں حتیٰ کہ مجھے شرم آنے لگی ہے۔ لہٰذا اب میں راضی ہوں اور (اسی حکم کو) تسلیم کرتا ہوں۔“ تو مجھے آواز دی گئی بیشک میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا کر دیا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ نے اُنہیں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اسراء والی رات کے متعلق بیان فرمایا پھر مکمل حدیث ذکر کی۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے جارود رحمہ اللہ سے پوچھا جبکہ وہ میرے پہلو میں تشریف فرما تھے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مراد ہے (کہ میرا سینہ یہاں سے یہاں تک کھولا گیا) اُنہوں نے فرمایا کہ (اس کا مطلب ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسلی کی ہڈی سے لیکر (زیرِ ناف) بالوں تک کھولا گیا۔ اور میں نے اُنہیں یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے بالوں سے لیکر (زیرِ ناف) بالوں تک کھولا گیا۔ پھر محمد بن یحییٰ نے مکمل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سعید کی روایت میں قتادہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے: «فقلت له» ”میں نے ان سے کہا“ اس سے مراد یہ نہیں کہ اُنہوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا تھا بلکہ اُن کی اس سے مراد یہ ہے کہ اُنہوں نے جارود سے کہا تھا۔
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ بیشک ابتداء میں نماز دورکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز (دورکعت) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز (چار رکعت) مکمّل کر دی گئی۔ تومیں نے عروہ سے کہا کہ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ (سفر میں) پوری نماز ادا کرتی ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تاویل جیسی تاویل کرتی تھیں۔ امام صاحب اپنے استاد سعید بن عبدالرحمٰن مخزومی کی سند مذکورہ روایت ہی کی طرح بیان کرتے ہیں مگر اس میں «سمع، اخبرني» کی بجائے تمام جگہ «عن» سے روایت کی گئی ہے۔
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر میں چار رکعت اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔
236. گذشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان ہے: ”ابتداء میں نماز دورکعت فرض کی گئی تھی“
والدليل على ان قولها: إن الصلاة اول ما افترضت ركعتان ارادت بعض الصلاة دون جميعها «ارادت الصلوات الاربعة دون المغرب، وكذلك ارادت، ثم زيد في صلاة الحضر ثلاث صلوات خلا الفجر والمغرب، والدليل على ان قول ابن عباس فرض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر اربعا، إنما اراد خلا الفجر والمغرب، وكذلك ارادوا في السفر ركعتين خلا المغرب، وهذا من الجنس الذي نقول في كتبنا من الفاظ العام التي يراد بها الخاص» وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ قَوْلَهَا: إِنَّ الصَّلَاةَ أَوَّلُ مَا افْتُرِضَتْ رَكْعَتَانِ أَرَادَتْ بَعْضَ الصَّلَاةِ دُونَ جَمِيعِهَا «أَرَادَتِ الصَّلَوَاتِ الْأَرْبَعَةِ دُونَ الْمَغْرِبِ، وَكَذَلِكَ أَرَادَتْ، ثُمَّ زِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ ثَلَاثَ صَلَوَاتٍ خَلَا الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ قَوْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَرَضَ اللَّهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، إِنَّمَا أَرَادَ خَلَا الْفَجْرِ وَالْمَغْرِبِ، وَكَذَلِكَ أَرَادُوا فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ خَلَا الْمَغْرِبِ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ فِي كُتُبِنَا مَنْ أَلْفَاظِ الْعَامِّ الَّتِي يُرَادُ بِهَا الْخَاصُّ»
اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچھ نمازیں ہیں، سب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز مغرب کے علاوہ چار نمازیں ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ”پھر حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد نماز فجر اور مغرب کے علاوہ دیگر تین نمازیں ہیں۔ اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضور میں چار رکعت نماز فرض کی ہے تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مغرب اور فجر کے علاوہ دیگر نمازیں ہیں۔ اس طرح سفر میں دو رکعت ہیں، سے ان کی مراد مغرب کے علاوہ نمازیں ہیں۔ یہ اسی جنس سے ہے جسے ہم اپنی کتابوں میں کہتے ہیں کہ یہ الفاظ عام ہیں ان کی مراد خاص ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ (ابتدائے اسلام میں) سفر اور حضر کی نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ میں مقیم ہو گئے تو حضر کی نماز میں دو دو رکعت زیادہ کر دی گئیں اور نماز فجر کی لمبی قراءت کی وجہ سے (پہلی حالت پر) اور نماز مغرب کو دن کے وتر ہونے کی وجہ سے (پہلی حالت ہی) پر چھوڑ دیا گیا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ میرے علم کے مطابق اسے محبوب بن حسن کے سوا کسی راوی نے مسند بیان نہیں کیا۔ اس روایت کو داؤد کے شاگردوں نے بیان کرتے ہوئے «عن الشعبي عن عائشه» کہا ہے (یعنی اٗنہوں نے شعبی کے استاد مسروق کو ذکر نہیں کیا) جبکہ محبوب بن حسن نے (مسروق کا نام لیکر) سند کو متصل بیان کیا ہے۔
والدليل على ان لا فرض من الصلاة إلا الخمس، وان كل ما سوى الخمس من الصلاة فتطوع ليس شيء منها فرض إلا الخمس فقطوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنْ لَا فَرْضَ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا الْخَمْسَ، وَأَنَّ كُلَّ مَا سِوَى الْخَمْسِ مِنَ الصَّلَاةِ فَتَطَوُّعٌ لَيْسَ شَيْءٌ مِنْهَا فَرْضٌ إِلَّا الْخَمْسُ فَقَطْ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ صرف پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ان پانچ کے علاوہ جتنی نمازیں ہیں وہ سب نفلی ہیں۔ سوائے پانچ نمازوں کے کوئی نماز فرض نہیں ہے۔
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نمازوں میں سے کیا فرض کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ نمازں ہیں الایہ کہ تم کوئی نفلی نماز پڑھ لو۔“ اُس نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زکوٰۃ میں سے کیا فرض کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے (زکوٰۃ) کے متعلق اسلامی احکام بتائے۔ اُس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معزز و مکرم بنایا ہے میں نفلی کام بلکل نہیں کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کیا ہے میں اس میں کوئی کمی نہیں کروںگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے باپ کی قسم، اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔“ یا فرمایا: ”اس کے باپ کی قسم، اگر اس نے سچ کہا ہے تو جنّت میں داخل ہو جائے گا۔“
حضرت ابوجمرہ ضبعی نصر بن عمران رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میرے پاس ایک گھڑا ہے جس میں میں نبیذ بناتا ہوں۔ اور اس سے پیتا ہوں۔ پھر جب میں لوگوں کے پاس دیر تک بیٹھتا ہوں تو اُس کی حلاوت کی وجہ سے رسوائی اور بدنامی سے ڈرتا ہوں (کہ لوگ خیال کریں گے کہ یہ نشہ ہے) اُنہوں نے فرمایا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وفد کو خوش آمدید، نہ ذلیل و خوار ہوئے اور نہ شرمندہ و نادم ہوئے۔“(یعنی خوشی سے مسلمان ہو کر معزز ہوئے) تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، بیشک ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے مشرک (حائل) ہیں۔ اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف حرمت والے مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دین کے جملہ احکام بیان فرمائیں کہ جب ہم انہیں حاصل کر کے ان کے مطابق عمل کر لیں (یا جب ہم میں سے کوئی شحص ان کے مطابق عمل کرلے) تو جنّت میں داخل ہو جائے اور ہم اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ان کی دعوت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار چیزوں کا حُکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حُکم دیتا ہوں۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بخوبی جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا اور غنیمتوں میں سے پانچواں حصّہ ادا کرنا، اور میں تمہیں کدّو کے برتن، کُریدی ہوئی لکڑی کے برتن، سبزلاکھی مرتبان اور تارکول لگے برتن میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔“
إذ الإيمان والإسلام إسمان بمعنى واحد» خبر عمر بن الخطاب في مسالة جبريل النبي صلى الله عليه وسلم عن الإسلام قد امليته في كتاب الطهارة.إِذِ الْإِيمَانُ وَالْإِسْلَامُ إسْمَانِ بِمَعْنًى وَاحِدٍ» خَبَرُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي مَسْأَلَةِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْإِسْلَامِ قَدْ أَمْلَيْتُهُ فِي كِتَابِ الطَّهَارَةِ.
جبرائیل علیہ السلام کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے بارے میں پوچھنے کے متعلق سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نے کتاب الطهارة میں املا کر دی ہے۔