وعند المرض الذي يخاف في إمساس الماء مواضع الوضوء والبدن في غسل الجنابة للمريض المخوف او الالم الموجع او التلفوَعِنْدَ الْمَرَضِ الَّذِي يُخَافُ فِي إِمْسَاسِ الْمَاءِ مَوَاضِعَ الْوُضُوءِ وَالْبَدَنِ فِي غُسْلِ الْجَنَابَةِ لِلْمَرِيضِ الْمُخَوَّفِ أَوِ الْأَلَمِ الْمُوجِعِ أَوِ التَّلَفِ
جس میں مریض اعضائے وضو پر پانی لگانے اورغسل جنابت میں جسم دھونے سے ہلاک ہونے یا شدید درد میں مُبتلا ہونے سے ڈرتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار اُدھار لیا (ایک جگہ پڑاؤ کے دوران) وہ گم ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ صحابہ کرام کو اُسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ تو نماز کا وقت ہو گیا، اُنہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے اس کا شکوہ کیا۔ اس پر آیت تیمّم نازل ہوئی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اے اُم المؤمنین) اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم، جب بھی آپ کسی مشکل میں گرفتار ہوئیں تو اللہ تعالی نےآپ کی نجات کی راہ بنادی اور مسلمانوں کے لیے اُس میں خیر و برکت عطا کردی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے حتیٰ کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر تھے تو میرا ہار ٹوٹ گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی تلاش میں رُک گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رُک گئے۔ جبکہ وہ پانی کے مقام پر نہیں تھے۔ تو لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ جانتے نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے؟ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے جبکہ وہ پانی کے مقام پر نہیں ہیں اور نہ اُن کے پاس پانی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو چُکے تھے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔
207. اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سابقہ انبیائے کرام پر اور آپ کی امت کی سابقہ امتوں پر، پانی کی عدم موجودگی میں مٹی سے تیمّ کرنے کی اجازت دے کر جو فضیلت عطا کی ہے اس کا بیان
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اُمّت (اُمّت محمدیہ) کو لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ ہمارے لئے زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنا دی گئی ہیں۔ اور مجھے سورۃ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے خزانے کے گھر سے عطا کی گئ ہیں۔ اس سے مجھ سے پہلے کسی کو کچھ دیا گیا ہے نہ میرے بعد کسی کو دیا جاےُ گا۔
وإن كان التراب على بساط او ثوب وإن لم يكن على الارض مع الدليل على ان خبر ابي معاوية الذي ذكرناه مختصر " جعلت لنا الارض طهورا " اي عند الإعواز من الماء إذا كان المحدث غير مريض مرضا يخاف- إن ماس الماء- التلف او المرض المخوف او الالم الشديد، لا انه جعل الارض طهورا، وإن كان المحدث صحيحا واجدا للماء، او مريضا لا يضر إمساس البدن الماء.وَإِنْ كَانَ التُّرَابُ عَلَى بِسَاطٍ أَوْ ثَوْبٍ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَى الْأَرْضِ مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ خَبَرَ أَبِي مُعَاوِيَةَ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مُخْتَصَرٌ " جُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ طَهُورًا " أَيْ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ إِذَا كَانَ الْمُحْدِثُ غَيْرَ مَرِيضٍ مَرَضًا يَخَافُ- إِنْ مَاسَّ الْمَاءَ- التَّلَفَ أَوِ الْمَرَضَ الْمُخَوِّفَ أَوِ الْأَلَمَ الشَّدِيدَ، لَا أَنَّهُ جَعَلَ الْأَرْضَ طَهُورًا، وَإِنْ كَانَ الْمُحْدِثُ صَحِيحًا وَاجِدًا لِلْمَاءِ، أَوْ مَرِيضًا لَا يَضُرُّ إِمْسَاسَ الْبَدَنِ الْمَاءُ.
اگرچہ مٹی کسی چٹائی یا کپڑے پر ہو، اور اگرچہ زمین پر نہ ہو اس دلیل کے ساتھ کہ سیدنا ابو معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہم نے بیان کی ہے وہ مختصر ہے۔ «جعلت لنا الأرض طهورا» ”ہمارے لیے زمین کو پاک کرنے والی بنادیا گیا ہے“ یعنی پانی کی قلّت نایابی کی صورت میں جبکہ محدث ایسا مریض بھی نہ ہو جو پانی کے استعال کی صورت میں ہلاک ہونے، مرض بڑھنے یا شدید درد میں مُبتلا ہونے سے ڈرتا ہے (یعنی تندرست آدمی پانی کی عدم موجودگی میں تیمّم کرسکتا ہے) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے زمین کو پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے اگر چه محدث تندرست ہو، پانی اس کے پاس موجود ہو یا وہ ایسا مریض بھی نہ ہو جسے جسم پر پانی لگانے سے کوئی خدشہ ہو (تو وہ بھی تیمّم کر سکتا ہے۔)
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے، ہمارے لئے پوری زمین مسجد بنائی گئی ہے، جب ہمیں پانی نہ ملےتو اُس کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنےوالی بنائی گئی ہے اور ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں اور سورة البقرة کے آخر کی یہ آیات مجھےعرش تلےکے خزانے کے گھر سےعطا کی گئی ہیں۔ اس میں سے مجھ سے پہلے کوئی (نبی) دیا گیا ہےنہ میرے بعد کسی کو دیا جائے گا۔“
ضد قول من زعم من اهل عصرنا ان التيمم بالسبخة غير جائز، وقود هذه المقالة يقود إلى ان التيمم بالمدينة غير جائز، إذ ارضها سبخة، وقد خبر النبي صلى الله عليه وسلم انها طيبة او طابة.ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسَّبِخَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، وَقَوَدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ يَقُودُ إِلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالْمَدِينَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، إِذْ أَرْضُهَا سَبِخَةٌ، وَقَدْ خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا طَيْبَةُ أَوْ طَابَةُ.
ہمارے اس ہم عصر کے دعویٰ کے برعکس جو کہتا ہے کہ کھاری زمین کی مٹّی سے تیمّم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ مدینہ منورہ میں تیمّم کرنا جائز نہیں کیونکہ مدینہ منورہ کی زمین شورزدہ ہے۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ طیبہ اور طابہ (پاکیزہ اور عمدہ) ہے۔ (یعنی بوقت ضرورت اس سے تیمّم کیا جا سکتا ہے۔)
نا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهم يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية، فذكر الحديث بطوله، وقال في الخبر: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد اريت دار هجرتكم، اريت سبخة ذات نخل بين لابتين، وهما الحرتان" ، فذكر الحديث بطوله في هجرة النبي صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة. قال ابو بكر: ففي قول النبي صلى الله عليه وسلم:" اريت سبخة ذات نخل بين لابتين"، وإعلامه إياهم انها دار هجرتهم، وجميع المدينة، كانت هجرتهم دلالة على ان جميع المدينة سبخة، ولو كان التيمم غير جائز بالسبخة، وكانت السبخة على ما توهم بعض اهل عصرنا، انه من البلد الخبيث، بقوله: والذي خبث لا يخرج إلا نكدا سورة الاعراف آية 58، لكان قود هذه المقالة ان ارض المدينة خبيثة لا طيبة، وهذا قول بعض اهل العناد، لما ذم اهل المدينة، فقال: إنها خبيثة، فاعلم ان النبي صلى الله عليه وسلم سماها طيبة او طابة، فالارض السبخة هي طيبة، على ما خبر النبي صلى الله عليه وسلم ان المدينة طيبة، وإذا كانت طيبة وهي سبخة، فالله عز وجل قد امر بالتيمم بالصعيد الطيب في نص كتابه، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان المدينة طيبة او طابة مع إعلامه إياهم انها سبخة، وفي هذا ما بان وثبت ان التيمم بالسباخ جائزنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلا وَهُمْ يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ فِي الْخَبَرِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ، وَهُمَا الْحَرَّتَانِ" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِي هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ"، وَإِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا دَارُ هِجْرَتِهِمْ، وَجَمِيعُ الْمَدِينَةِ، كَانَتْ هِجْرَتَهُمْ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ الْمَدِينَةِ سَبِخَةٌ، وَلَوْ كَانَ التَّيَمُّمُ غَيْرَ جَائِزٍ بِالسَّبِخَةِ، وَكَانَتِ السَّبِخَةُ عَلَى مَا تَوَهَّمَ بَعْضُ أَهْلِ عَصْرِنَا، أَنَّهُ مِنَ الْبَلَدِ الْخَبِيثِ، بِقَوْلِهِ: وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلا نَكِدًا سورة الأعراف آية 58، لَكَانَ قَوْدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ أَنَّ أَرْضَ الْمَدِينَةِ خَبِيثَةٌ لا طَيِّبَةٌ، وَهَذَا قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِنَادِ، لَمَّا ذَمَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: إِنَّهَا خَبِيثَةٌ، فَاعْلَمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهَا طَيْبَةً أَوْ طَابَةً، فَالأَرْضُ السَّبِخَةُ هِيَ طَيِّبَةٌ، عَلَى مَا خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ، وَإِذَا كَانَتْ طَيِّبَةً وَهِيَ سَبِخَةٌ، فَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَمَرَ بِالتَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ فِي نَصِّ كِتَابِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ أَوْ طَابَةٌ مَعَ إِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا سَبِخَةٌ، وَفِي هَذَا مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسِّبَاخِ جَائِزٌ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مجھے میرے والدین کی شناخت ہوئی (یعنی جب میں نےہوش سنبھالا) تووہ دونوں دین دارتھے۔اورکوئی دن ہم پر ایسا نہیں گزرتا مگر اس میں صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے پاس تشریف لاتے تھے. پھر مکمل حدیث بیان کی. اور اس روایت میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارا ہجرت کا گھر دکھا دیا گیا ہے۔ مجھے دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شور زدہ زمین دکھائی گئی ہے۔ «لابتين» سے مراد مدینہ منورہ کے دوحرے ہیں یعنی سیاہ پھتریلی زمین والے حصّے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ سے مدینہ کی طرح ہجرت کے متعلق طویل حدیث بیان کی۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس فر مان " مجھے دوسیا ہ پتھر یلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شورزدہ زمیں دکھائی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُنہیں بتانا کہ وہ اُن کی ہجر ت کی جگہ ہے۔ اور پورا مد ینہ منوّرہ اُن کی ہجرت گاہ تھا، میں یہ دلیل ہے کہ پورا مدینہ شور زدہ ہے۔ اور اگر شور زدہ زمین سے تمیّم کرنا ناجائز نہ ہوتا اور شورزدہ زمین ناپاک و خبیث چیز ہوتی جیسا کہ ہمارے بعض ہم عصروں کا خیال ہے، اللہ تعا لیٰ کے اس فرمان سے دلیل لیتے ہوئے: «وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا» ”اور جو خراب (زمین) ہے اُس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے۔“(سورة الأعراف) تو ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا کہ مدینہ منوّرہ خبیث و ناپاک ہے طیبہ (پاکیزہ اور عمدہ) نہیں ہے۔ یہ بعض اہل عناد کا قول ہے جو اُنہوں نے مدینہ منوّرہ کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خبیث زمین ہے۔ خوب جان لو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طیبہ یا طابہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا شوریدہ زمین ہی پاکیزہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ ہے۔ اور جب مدینہ طیبہ (پاکیزہ) ہے حالانکہ وہ کھاری زمین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پاک مٹی سے تیمّم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ (پاک) اور طابہ (عمدہ زمین) ہے اور اُنہیں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کھاری اور شور والی زمین ہے۔ تو اس سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ شور والی زمین سے تیمّم کرنا جائز ہے۔
210. اس بات کی دلیل کا بیان کہ چہرے اور ہاتھوں کے لیے تیمّم میں ایک ہی ضرب (ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارنا) ہے۔ دوبار نہیں۔ اس بات کی دلیل کے ساتھ کہ تیمّم میں ذراعین (کہنیوں تک بازو) کا مسح کرنا واجب نہیں ہے
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمّم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چہرے اور ہاتھوں کے لئے ایک ہی ضرب ہے“(ایک بار ہاتھ مٹی پر مارنا ہے۔)