صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
سفر میں پانی کی عدم موجودگی اور اس بیماری کی وجہ سے تیّمم کرنے کے ابواب کا مجموعہ
204. باب
204. باب
حدیث نمبر: Q260
Save to word اعراب
وعند المرض الذي يخاف في إمساس الماء مواضع الوضوء والبدن في غسل الجنابة للمريض المخوف او الالم الموجع او التلفوَعِنْدَ الْمَرَضِ الَّذِي يُخَافُ فِي إِمْسَاسِ الْمَاءِ مَوَاضِعَ الْوُضُوءِ وَالْبَدَنِ فِي غُسْلِ الْجَنَابَةِ لِلْمَرِيضِ الْمُخَوَّفِ أَوِ الْأَلَمِ الْمُوجِعِ أَوِ التَّلَفِ
جس میں مریض اعضائے وضو پر پانی لگانے اورغسل جنابت میں جسم دھونے سے ہلاک ہونے یا شدید درد میں مُبتلا ہونے سے ڈرتا ہے۔
205. ‏(‏203‏)‏ بَابُ ذِكْرِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَةِ الصَّلَاةِ بِلَا تَيَمُّمٍ عِنْدَ عَدَمِ الْمَاءِ قَبْلَ نُزُولِ آيَةِ التَّيَمُّمِ
205. اس بات کا بیان کہ آیت تیمّم کے نزول سے پہلے پانی کی عدم موجودگی میں بغیر تیمّم کیے نماز پڑھنا جائز تھا۔
حدیث نمبر: 261
Save to word اعراب
نا محمد بن العلاء بن كريب ، نا ابو اسامة ، عن هشام يعني ابن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها استعارت قلادة من اسماء فهلكت، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا من اصحابه في طلبها، فادركتهم الصلاة فصلوا بغير وضوء، فلما اتوا النبي صلى الله عليه وسلم شكوا ذلك إليه،" فنزلت آية التيمم" ، قال اسيد بن حضير: جزاك الله خيرا , فوالله ما نزل بك امر قط إلا جعل الله لك منه مخرجا، وجعل للمسلمين فيه بركةنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، نا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ قِلادَةً مِنْ أَسْمَاءَ فَهَلَكَتْ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ناسًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ،" فَنَزَلَتْ آيَةَ التَّيَمُّمِ" ، قَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكَ أَمْرٌ قَطُّ إِلا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار اُدھار لیا (ایک جگہ پڑاؤ کے دوران) وہ گم ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ صحابہ کرام کو اُسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ تو نماز کا وقت ہو گیا، اُنہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے اس کا شکوہ کیا۔ اس پر آیت تیمّم نازل ہوئی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (‏‏‏‏اے اُم المؤمنین) اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم، جب بھی آپ کسی مشکل میں گرفتار ہوئیں تو اللہ تعالی نےآپ کی نجات کی راہ بنادی اور مسلمانوں کے لیے اُس میں خیر و برکت عطا کردی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
206. ‏(‏204‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي النُّزُولِ فِي السَّفَرِ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ لِلْحَاجَةِ تَبْدُو مِنْ مَنَافِعِ الدُّنْيَا
206. سفر میں دنیوی منفعت کے لیے کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کی رخصت ہے جہاں ضرورت کے لیے پانی نہ ہو
حدیث نمبر: 262
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا عبد الله بن وهب بن مسلم ، ان مالكا حدثه، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله تعالى عنها، انها قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء او بذات الجيش انقطع عقد لي، فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فاتى الناس إلى ابي بكر الصديق رضي الله تعالى عنه، فقالوا: الا ترى إلى ما صنعت عائشة؟ اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي قد نام" ، فذكر الحديث بطولهنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبِ بْنِ مُسْلِمٍ ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَقَالُوا: أَلا تَرَى إِلَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ على فَخِذِي قَدْ نَامَ" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے حتیٰ کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر تھے تو میرا ہار ٹوٹ گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی تلاش میں رُک گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رُک گئے۔ جبکہ وہ پانی کے مقام پر نہیں تھے۔ تو لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ جانتے نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے؟ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے جبکہ وہ پانی کے مقام پر نہیں ہیں اور نہ اُن کے پاس پانی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو چُکے تھے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
207. ‏(‏205‏)‏ بَابُ ذِكْرِ مَا كَانَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- فَضَّلَ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَهُ، وَفَضَّلُ أُمَّتَهُ عَلَى الْأُمَمِ السَّالِفَةِ قَبْلَهُمْ بِإِبَاحَتِهِ لَهُمُ التَّيَمُّمَ بِالتُّرَابِ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ
207. اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سابقہ انبیائے کرام پر اور آپ کی امت کی سابقہ امتوں پر، پانی کی عدم موجودگی میں مٹی سے تیمّ کرنے کی اجازت دے کر جو فضیلت عطا کی ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 263
Save to word اعراب
نا سلم بن جنادة القرشي ، نا ابو معاوية ، عن ابي مالك وهو سعيد بن طارق الاشجعي ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فضلت هذه الامة على الناس بثلاث: جعلت لنا الارض مسجدا وطهورا، وجعلت صفوفنا كصفوف الملائكة، واعطيت هذه الآيات من آخر سورة البقرة، من بيت كنز تحت العرش لم يعط منه احد قبلي ولا احد بعدي" نا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ ، نا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ طَارِقٍ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُضِّلَتْ هَذِهِ الأُمَّةُ عَلَى النَّاسِ بِثَلاثٍ: جُعِلَتْ لَنَا الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَجُعِلَتْ صُفُوفَنَا كَصُفُوفِ الْمَلائِكَةِ، وَأُعْطِيتُ هَذِهِ الآيَاتِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، مِنْ بَيْتِ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَ مِنْهُ أَحَدٌ قَبْلِي وَلا أَحَدٌ بَعْدِي"
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اُمّت (اُمّت محمدیہ) کو لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ ہمارے لئے زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنا دی گئی ہیں۔ اور مجھے سورۃ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے خزانے کے گھر سے عطا کی گئ ہیں۔ اس سے مجھ سے پہلے کسی کو کچھ دیا گیا ہے نہ میرے بعد کسی کو دیا جاےُ گا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
208. ‏(‏206‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ التُّرَابِ فَالتَّيَمُّمُ بِهِ جَائِزٌ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ،
208. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جس چیز پر مٹی کا اطلاق ہوتا ہے پانی کی کمی اور قلت کے وقت اس سے تیمّم کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: Q264
Save to word اعراب
وإن كان التراب على بساط او ثوب وإن لم يكن على الارض مع الدليل على ان خبر ابي معاوية الذي ذكرناه مختصر ‏"‏ جعلت لنا الارض طهورا ‏"‏ اي عند الإعواز من الماء إذا كان المحدث غير مريض مرضا يخاف- إن ماس الماء- التلف او المرض المخوف او الالم الشديد، لا انه جعل الارض طهورا، وإن كان المحدث صحيحا واجدا للماء، او مريضا لا يضر إمساس البدن الماء‏.‏وَإِنْ كَانَ التُّرَابُ عَلَى بِسَاطٍ أَوْ ثَوْبٍ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَى الْأَرْضِ مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ خَبَرَ أَبِي مُعَاوِيَةَ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مُخْتَصَرٌ ‏"‏ جُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ طَهُورًا ‏"‏ أَيْ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ إِذَا كَانَ الْمُحْدِثُ غَيْرَ مَرِيضٍ مَرَضًا يَخَافُ- إِنْ مَاسَّ الْمَاءَ- التَّلَفَ أَوِ الْمَرَضَ الْمُخَوِّفَ أَوِ الْأَلَمَ الشَّدِيدَ، لَا أَنَّهُ جَعَلَ الْأَرْضَ طَهُورًا، وَإِنْ كَانَ الْمُحْدِثُ صَحِيحًا وَاجِدًا لِلْمَاءِ، أَوْ مَرِيضًا لَا يَضُرُّ إِمْسَاسَ الْبَدَنِ الْمَاءُ‏.‏
اگرچہ مٹی کسی چٹائی یا کپڑے پر ہو، اور اگرچہ زمین پر نہ ہو اس دلیل کے ساتھ کہ سیدنا ابو معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہم نے بیان کی ہے وہ مختصر ہے۔ «‏‏‏‏جعلت لنا الأرض طهورا» ‏‏‏‏ ہمارے لیے زمین کو پاک کرنے والی بنادیا گیا ہے یعنی پانی کی قلّت نایابی کی صورت میں جبکہ محدث ایسا مریض بھی نہ ہو جو پانی کے استعال کی صورت میں ہلاک ہونے، مرض بڑھنے یا شدید درد میں مُبتلا ہونے سے ڈرتا ہے (یعنی تندرست آدمی پانی کی عدم موجودگی میں تیمّم کرسکتا ہے) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے زمین کو پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے اگر چه محدث تندرست ہو، پانی اس کے پاس موجود ہو یا وہ ایسا مریض بھی نہ ہو جسے جسم پر پانی لگانے سے کوئی خدشہ ہو (تو وہ بھی تیمّم کر سکتا ہے۔)
حدیث نمبر: 264
Save to word اعراب
نا إسحاق بن إبراهيم بن حبيب بن الشهيد ، نا ابن فضيل ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة بن اليمان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فضلنا على الناس بثلاث: جعلت لنا الارض كلها مسجدا، وجعل ترابها لنا طهورا إذا لم نجد الماء، وجعلت صفوفنا كصفوف الملائكة، واوتيت هؤلاء الآيات من آخر سورة البقرة، من بيت كنز تحت العرش لم يعط منه احد قبلي , ولا احد بعدي" نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، نا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلاثٍ: جُعِلَتْ لَنَا الأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا، وَجُعِلَ تُرَابُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، وَجُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلائِكَةِ، وَأُوتِيتُ هَؤُلاءِ الآيَاتِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، مِنْ بَيْتِ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَ مِنْهُ أَحَدٌ قَبْلِي , وَلا أَحَدٌ بَعْدِي"
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے، ہمارے لئے پوری زمین مسجد بنائی گئی ہے، جب ہمیں پانی نہ ملےتو اُس کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنےوالی بنائی گئی ہے اور ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں اور سورة البقرة کے آخر کی یہ آیات مجھےعرش تلےکے خزانے کے گھر سےعطا کی گئی ہیں۔ اس میں سے مجھ سے پہلے کوئی (نبی) دیا گیا ہےنہ میرے بعد کسی کو دیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
209. ‏(‏207‏)‏ بَابُ إِبَاحَةِ التَّيَمُّمِ بِتُرَابِ السِّبَاخِ ‏
209. شورزدہ کھاری زمین کی مٹی سے تیمّم کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: Q265
Save to word اعراب
ضد قول من زعم من اهل عصرنا ان التيمم بالسبخة غير جائز، وقود هذه المقالة يقود إلى ان التيمم بالمدينة غير جائز، إذ ارضها سبخة، وقد خبر النبي صلى الله عليه وسلم انها طيبة او طابة‏.‏ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسَّبِخَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، وَقَوَدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ يَقُودُ إِلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالْمَدِينَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، إِذْ أَرْضُهَا سَبِخَةٌ، وَقَدْ خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا طَيْبَةُ أَوْ طَابَةُ‏.‏
ہمارے اس ہم عصر کے دعویٰ کے برعکس جو کہتا ہے کہ کھاری زمین کی مٹّی سے تیمّم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ مدینہ منورہ میں تیمّم کرنا جائز نہیں کیونکہ مدینہ منورہ کی زمین شورزدہ ہے۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ طیبہ اور طابہ (پاکیزہ اور عمدہ) ہے۔ (یعنی بوقت ضرورت اس سے تیمّم کیا جا سکتا ہے۔)
حدیث نمبر: 265
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهم يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية، فذكر الحديث بطوله، وقال في الخبر: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد اريت دار هجرتكم، اريت سبخة ذات نخل بين لابتين، وهما الحرتان" ، فذكر الحديث بطوله في هجرة النبي صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة. قال ابو بكر: ففي قول النبي صلى الله عليه وسلم:" اريت سبخة ذات نخل بين لابتين"، وإعلامه إياهم انها دار هجرتهم، وجميع المدينة، كانت هجرتهم دلالة على ان جميع المدينة سبخة، ولو كان التيمم غير جائز بالسبخة، وكانت السبخة على ما توهم بعض اهل عصرنا، انه من البلد الخبيث، بقوله: والذي خبث لا يخرج إلا نكدا سورة الاعراف آية 58، لكان قود هذه المقالة ان ارض المدينة خبيثة لا طيبة، وهذا قول بعض اهل العناد، لما ذم اهل المدينة، فقال: إنها خبيثة، فاعلم ان النبي صلى الله عليه وسلم سماها طيبة او طابة، فالارض السبخة هي طيبة، على ما خبر النبي صلى الله عليه وسلم ان المدينة طيبة، وإذا كانت طيبة وهي سبخة، فالله عز وجل قد امر بالتيمم بالصعيد الطيب في نص كتابه، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان المدينة طيبة او طابة مع إعلامه إياهم انها سبخة، وفي هذا ما بان وثبت ان التيمم بالسباخ جائزنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلا وَهُمْ يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ فِي الْخَبَرِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ، وَهُمَا الْحَرَّتَانِ" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِي هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ"، وَإِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا دَارُ هِجْرَتِهِمْ، وَجَمِيعُ الْمَدِينَةِ، كَانَتْ هِجْرَتَهُمْ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ الْمَدِينَةِ سَبِخَةٌ، وَلَوْ كَانَ التَّيَمُّمُ غَيْرَ جَائِزٍ بِالسَّبِخَةِ، وَكَانَتِ السَّبِخَةُ عَلَى مَا تَوَهَّمَ بَعْضُ أَهْلِ عَصْرِنَا، أَنَّهُ مِنَ الْبَلَدِ الْخَبِيثِ، بِقَوْلِهِ: وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلا نَكِدًا سورة الأعراف آية 58، لَكَانَ قَوْدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ أَنَّ أَرْضَ الْمَدِينَةِ خَبِيثَةٌ لا طَيِّبَةٌ، وَهَذَا قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِنَادِ، لَمَّا ذَمَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: إِنَّهَا خَبِيثَةٌ، فَاعْلَمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهَا طَيْبَةً أَوْ طَابَةً، فَالأَرْضُ السَّبِخَةُ هِيَ طَيِّبَةٌ، عَلَى مَا خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ، وَإِذَا كَانَتْ طَيِّبَةً وَهِيَ سَبِخَةٌ، فَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَمَرَ بِالتَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ فِي نَصِّ كِتَابِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ أَوْ طَابَةٌ مَعَ إِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا سَبِخَةٌ، وَفِي هَذَا مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسِّبَاخِ جَائِزٌ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مجھے میرے والدین کی شناخت ہوئی (یعنی جب میں نےہوش سنبھالا) تووہ دونوں دین دارتھے۔اورکوئی دن ہم پر ایسا نہیں گزرتا مگر اس میں صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے پاس تشریف لاتے تھے. پھر مکمل حدیث بیان کی. اور اس روایت میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارا ہجرت کا گھر دکھا دیا گیا ہے۔ مجھے دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شور زدہ زمین دکھائی گئی ہے۔ «‏‏‏‏لابتين» ‏‏‏‏ سے مراد مدینہ منورہ کے دوحرے ہیں یعنی سیاہ پھتریلی زمین والے حصّے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ سے مدینہ کی طرح ہجرت کے متعلق طویل حدیث بیان کی۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس فر مان " مجھے دوسیا ہ پتھر یلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شورزدہ زمیں دکھائی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُنہیں بتانا کہ وہ اُن کی ہجر ت کی جگہ ہے۔ اور پورا مد ینہ منوّرہ اُن کی ہجرت گاہ تھا، میں یہ دلیل ہے کہ پورا مدینہ شور زدہ ہے۔ اور اگر شور زدہ زمین سے تمیّم کرنا ناجائز نہ ہوتا اور شورزدہ زمین ناپاک و خبیث چیز ہوتی جیسا کہ ہمارے بعض ہم عصروں کا خیال ہے، اللہ تعا لیٰ کے اس فرمان سے دلیل لیتے ہوئے: «‏‏‏‏وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا» ‏‏‏‏ اور جو خراب (زمین) ہے اُس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے۔ (سورة الأعراف) تو ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا کہ مدینہ منوّرہ خبیث و ناپاک ہے طیبہ (پاکیزہ اور عمدہ) نہیں ہے۔ یہ بعض اہل عناد کا قول ہے جو اُنہوں نے مدینہ منوّرہ کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خبیث زمین ہے۔ خوب جان لو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طیبہ یا طابہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا شوریدہ زمین ہی پاکیزہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ ہے۔ اور جب مدینہ طیبہ (پاکیزہ) ہے حالانکہ وہ کھاری زمین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پاک مٹی سے تیمّم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ (پاک) اور طابہ (عمدہ زمین) ہے اور اُنہیں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کھاری اور شور والی زمین ہے۔ تو اس سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ شور والی زمین سے تیمّم کرنا جائز ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
210. ‏(‏208‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ ضَرْبَةٌ وَاحِدَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ لَا ضَرْبَتَانِ، مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَسْحَ الذِّرَاعَيْنِ فِي التَّيَمُّمِ غَيْرُ وَاجِبٍ
210. اس بات کی دلیل کا بیان کہ چہرے اور ہاتھوں کے لیے تیمّم میں ایک ہی ضرب (ایک دفعہ ہاتھ زمین پر مارنا) ہے۔ دوبار نہیں۔ اس بات کی دلیل کے ساتھ کہ تیمّم میں ذراعین (کہنیوں تک بازو) کا مسح کرنا واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 266
Save to word اعراب
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمّم کے متعلق فرمایا: چہرے اور دونوں ہاتھوں کے لئے ایک ہی ضرب ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 267
Save to word اعراب
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمّم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چہرے اور ہاتھوں کے لئے ایک ہی ضرب ہے (ایک بار ہاتھ مٹی پر مارنا ہے۔)

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

1    2    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.