صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
سفر میں پانی کی عدم موجودگی اور اس بیماری کی وجہ سے تیّمم کرنے کے ابواب کا مجموعہ
209. ‏(‏207‏)‏ بَابُ إِبَاحَةِ التَّيَمُّمِ بِتُرَابِ السِّبَاخِ ‏
209. شورزدہ کھاری زمین کی مٹی سے تیمّم کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: Q265
Save to word اعراب
ضد قول من زعم من اهل عصرنا ان التيمم بالسبخة غير جائز، وقود هذه المقالة يقود إلى ان التيمم بالمدينة غير جائز، إذ ارضها سبخة، وقد خبر النبي صلى الله عليه وسلم انها طيبة او طابة‏.‏ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسَّبِخَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، وَقَوَدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ يَقُودُ إِلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالْمَدِينَةِ غَيْرُ جَائِزٍ، إِذْ أَرْضُهَا سَبِخَةٌ، وَقَدْ خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا طَيْبَةُ أَوْ طَابَةُ‏.‏
ہمارے اس ہم عصر کے دعویٰ کے برعکس جو کہتا ہے کہ کھاری زمین کی مٹّی سے تیمّم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ مدینہ منورہ میں تیمّم کرنا جائز نہیں کیونکہ مدینہ منورہ کی زمین شورزدہ ہے۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ طیبہ اور طابہ (پاکیزہ اور عمدہ) ہے۔ (یعنی بوقت ضرورت اس سے تیمّم کیا جا سکتا ہے۔)

حدیث نمبر: 265
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهم يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية، فذكر الحديث بطوله، وقال في الخبر: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد اريت دار هجرتكم، اريت سبخة ذات نخل بين لابتين، وهما الحرتان" ، فذكر الحديث بطوله في هجرة النبي صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة. قال ابو بكر: ففي قول النبي صلى الله عليه وسلم:" اريت سبخة ذات نخل بين لابتين"، وإعلامه إياهم انها دار هجرتهم، وجميع المدينة، كانت هجرتهم دلالة على ان جميع المدينة سبخة، ولو كان التيمم غير جائز بالسبخة، وكانت السبخة على ما توهم بعض اهل عصرنا، انه من البلد الخبيث، بقوله: والذي خبث لا يخرج إلا نكدا سورة الاعراف آية 58، لكان قود هذه المقالة ان ارض المدينة خبيثة لا طيبة، وهذا قول بعض اهل العناد، لما ذم اهل المدينة، فقال: إنها خبيثة، فاعلم ان النبي صلى الله عليه وسلم سماها طيبة او طابة، فالارض السبخة هي طيبة، على ما خبر النبي صلى الله عليه وسلم ان المدينة طيبة، وإذا كانت طيبة وهي سبخة، فالله عز وجل قد امر بالتيمم بالصعيد الطيب في نص كتابه، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان المدينة طيبة او طابة مع إعلامه إياهم انها سبخة، وفي هذا ما بان وثبت ان التيمم بالسباخ جائزنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلا وَهُمْ يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ فِي الْخَبَرِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ، وَهُمَا الْحَرَّتَانِ" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ فِي هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ سَبِخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لابَتَيْنِ"، وَإِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا دَارُ هِجْرَتِهِمْ، وَجَمِيعُ الْمَدِينَةِ، كَانَتْ هِجْرَتَهُمْ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ الْمَدِينَةِ سَبِخَةٌ، وَلَوْ كَانَ التَّيَمُّمُ غَيْرَ جَائِزٍ بِالسَّبِخَةِ، وَكَانَتِ السَّبِخَةُ عَلَى مَا تَوَهَّمَ بَعْضُ أَهْلِ عَصْرِنَا، أَنَّهُ مِنَ الْبَلَدِ الْخَبِيثِ، بِقَوْلِهِ: وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلا نَكِدًا سورة الأعراف آية 58، لَكَانَ قَوْدُ هَذِهِ الْمَقَالَةِ أَنَّ أَرْضَ الْمَدِينَةِ خَبِيثَةٌ لا طَيِّبَةٌ، وَهَذَا قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِنَادِ، لَمَّا ذَمَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: إِنَّهَا خَبِيثَةٌ، فَاعْلَمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهَا طَيْبَةً أَوْ طَابَةً، فَالأَرْضُ السَّبِخَةُ هِيَ طَيِّبَةٌ، عَلَى مَا خَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ، وَإِذَا كَانَتْ طَيِّبَةً وَهِيَ سَبِخَةٌ، فَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَمَرَ بِالتَّيَمُّمِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ فِي نَصِّ كِتَابِهِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمَدِينَةَ طَيْبَةٌ أَوْ طَابَةٌ مَعَ إِعْلامِهِ إِيَّاهُمْ أَنَّهَا سَبِخَةٌ، وَفِي هَذَا مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّ التَّيَمُّمَ بِالسِّبَاخِ جَائِزٌ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مجھے میرے والدین کی شناخت ہوئی (یعنی جب میں نےہوش سنبھالا) تووہ دونوں دین دارتھے۔اورکوئی دن ہم پر ایسا نہیں گزرتا مگر اس میں صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے پاس تشریف لاتے تھے. پھر مکمل حدیث بیان کی. اور اس روایت میں ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارا ہجرت کا گھر دکھا دیا گیا ہے۔ مجھے دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شور زدہ زمین دکھائی گئی ہے۔ «‏‏‏‏لابتين» ‏‏‏‏ سے مراد مدینہ منورہ کے دوحرے ہیں یعنی سیاہ پھتریلی زمین والے حصّے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّہ سے مدینہ کی طرح ہجرت کے متعلق طویل حدیث بیان کی۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس فر مان " مجھے دوسیا ہ پتھر یلی زمینوں کے درمیان کھجوروں والی شورزدہ زمیں دکھائی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُنہیں بتانا کہ وہ اُن کی ہجر ت کی جگہ ہے۔ اور پورا مد ینہ منوّرہ اُن کی ہجرت گاہ تھا، میں یہ دلیل ہے کہ پورا مدینہ شور زدہ ہے۔ اور اگر شور زدہ زمین سے تمیّم کرنا ناجائز نہ ہوتا اور شورزدہ زمین ناپاک و خبیث چیز ہوتی جیسا کہ ہمارے بعض ہم عصروں کا خیال ہے، اللہ تعا لیٰ کے اس فرمان سے دلیل لیتے ہوئے: «‏‏‏‏وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا» ‏‏‏‏ اور جو خراب (زمین) ہے اُس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے۔ (سورة الأعراف) تو ان کے دعوے کا مطلب یہ ہوتا کہ مدینہ منوّرہ خبیث و ناپاک ہے طیبہ (پاکیزہ اور عمدہ) نہیں ہے۔ یہ بعض اہل عناد کا قول ہے جو اُنہوں نے مدینہ منوّرہ کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خبیث زمین ہے۔ خوب جان لو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طیبہ یا طابہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا شوریدہ زمین ہی پاکیزہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ ہے۔ اور جب مدینہ طیبہ (پاکیزہ) ہے حالانکہ وہ کھاری زمین ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پاک مٹی سے تیمّم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مدینہ منوّرہ طیبہ (پاک) اور طابہ (عمدہ زمین) ہے اور اُنہیں یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کھاری اور شور والی زمین ہے۔ تو اس سے واضح ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ شور والی زمین سے تیمّم کرنا جائز ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.