177. منی کے انزال کے بغیر جماع کرنے سے غسل نہ کرنے کی رخصت کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کا بیان، اس کے کچھ احکام منسوخ ہوچکے ہیں
حضرت یزید بن خالد جہنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اُس شخص کے متعلق پوچھا جو جماع کرتا ہے تو منی کا انزال نہیں ہوتا (تو وہ کیا کرے؟) انہوں نے فرمایا کہ اُس پر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ نے فرمایا کہ میں نے یہ حُکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ وہ (یزید رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا زبیر بن عوام، سیدنا طلحہ بن عبید الله اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے (یہی مسئلہ) پوچھا تو اُنہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا- حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے (یہ مسئلہ) پوچھا تو اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی جواب نقل کیا۔
سیدنا سہل انصاری رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کے زمانہ) کو پایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وہ پندرہ برس کے تھے، کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ فتویٰ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیا کرتے تھے کہ پانی پانی سے ہے، غسل منی نکلنے سے واجب ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں اس کی رخصت دی تھی، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حُکم دے دیا تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ اپنے استاد احمد بن منیع رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ پانی پانی سے واجب ہوتا ہے۔ یہ فتویٰ اسلام کے شروع میں بطور رخصت تھا پھر اس سے منع کر دیا گیا۔ امام صاحب ایک اور سند ذکر کرتے ہیں۔
نا ابو موسى ، نا محمد بن جعفر ، نا معمر ، عن الزهري ، قال: اخبرني سهل بن سعد ، قال: إنما كان قول الانصار: " الماء من الماء، رخصة في اول الإسلام، ثم امرنا بالغسل" . قال ابو بكر: في القلب من هذه اللفظة التي ذكرها محمد بن جعفر، اعني قوله: اخبرني سهل بن سعد، واهاب ان يكون هذا وهما من محمد بن جعفر، او ممن دونه، لان ابن وهب روى، عن عمرو بن الحارث، عن الزهري، قال: اخبرني من ارضى، عن سهل بن سعد، عن ابي بن كعب، هذه اللفظة حدثنيها احمد بن عبد الرحمن بن وهب، حدثنا عمي، قال: حدثني عمرو، وهذا الرجل الذي لم يسمه عمرو بن الحارث يشبه ان يكون ابا حازم سلمة بن دينار، لان ميسرة بن إسماعيل روى هذا الخبر عن ابي غسان محمد بن مطرف، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، عن مسلم بن الحجاج، وقال: حدثنا ابو جعفر الحمالنا أَبُو مُوسَى ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: إِنَّمَا كَانَ قَوْلُ الأَنْصَارِ: " الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ، رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الإِسْلامِ، ثُمَّ أُمِرْنَا بِالْغُسْلِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي الْقَلْبِ مِنْ هَذِهِ اللَّفْظَةِ الَّتِي ذَكَرَهَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَعْنِي قَوْلَهُ: أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَأَهَابُ أَنْ يَكُونَ هَذَا وَهْمًا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَوْ مِمَّنْ دُونَهُ، لأَنَّ ابْنَ وَهْبٍ رَوَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ أَرْضَى، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، هَذِهِ اللَّفْظَةُ حَدَّثَنِيهَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرٌو، وَهَذَا الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يُسَمِّهِ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ أَبَا حَازِمٍ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ، لأَنَّ مَيْسَرَةَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ رَوَى هَذَا الْخَبَرَ عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْحَجَّاجِ، وَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْحَمَّالُ
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار صحابہ کا یہ فتوی تھا کہ (غسل کا) پانی (منی کے) پانی سے واجب ہوتا ہے۔ یہ ابتدائے اسلام میں رخصت تھی پھر ہمیں غسل کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محمد بن جعفر نے اپنی روایت میں جو یہ کہا ہے کہ «اخبرني سهل بن سعد» ”مجھے سھل بن سعد نے روایت بیان کی۔“ تو اس لفظ کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا ہے، مجھے خدشہ ہے کہ یہ محمد بن جعفر یا ان سے نیچے کے کسی راوی کا وہم ہے (یعنی امام زہری یہ روایت براہ راست حضرت سہل سے بیان نہیں کرتے بلکہ ان کے درمیان ایک استاد کا واسطہ ہے) کیونکہ ابن وھب نے عمرو بن حارث سے اور انہوں نے امام زہری سے روایت کی تو انہوں نے کہا کہ «اخبرني من ارضي عن سهل بن سعد عن ابي بن كعب» ”مجھے میرے پسندیدہ استاد نے حضرت سہل بن سعد سے اور انہوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے۔“ امام صاحب کہتےہیں کہ مجھے یہ روایت احمد بن عبدالر حمان بن وہب نے اپنے چچا سے اور اُنہوں نے عمرو سے بیان کی ہے۔ اورعمر وبن حارث نے اپنی سند میں شخص کا نام نہیں لیا (اور اسے پسنددیدہ شخص قرار دیا ہے) ممکن ہے وہ ابوحازم سلمہ بن دینار ہوں۔ کیونکہ میسرہ بن اسماعیل نے یہ حدیث غسان محمد بن مطرف سے اور اُنہوں نے ابو حازم سے اور انہوں نے سہل بن سعد سے اور انہوں نے مسلم بن حجاج سے بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو جعفر حمال نے بیان کیا ہے۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (صحابہ کرام) بیٹھے ہوئے تھے تو اُنہوں نے غسل واجب کرنے والی چیز کا تذکرہ کیا۔ حاضرین میں ایک مہاجر صحابی نے فرمایا کہ جب ختنہ (شرمگاہ) ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جا تا ہے حاضرین میں سے ایک انصاری صحابی نے فرمایا کہ نہیں حتیٰ کہ وہ (منی) زوراور جوش سے نکل جا ئے۔ (اس تذکرے کو سن کر) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں اس کے متعلق خبر لا کر دیتا ہوں۔ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اُنہیں سلام کیا، پھر عرض کی کہ میں آپ سے ایک چیز کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں مگر اس سے شرماتا ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، ایسا سوال پوچھتے ہوئے مت شرماؤ جسے تم اپنے جننے والی (حقیقی) ماں سے پوچھ سکتے ہو۔ بیشک میں بھی تمہاری ماں ہوں “ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ غسل کس چیز سے واجب ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تم علم والے (باخبر اور مسئلے سےواقف) کے پاس آئے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (مرد) عورت کےچاروں شاخوں کےدرمیان بیٹھ گیا اور ختنہ ختنے سے مل گیا تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔“
والدليل على ضد قول من زعم ان الجنب إذا دخل نهرا ناويا للسباحة فماس الماء جميع بدنه، ولم ينو غسلا ولا اراده إذا فرض الغسل، ولا تقربا إلى الله- عز وجل- او صب عليه ماء وهو مكره، فماس الماء جميع جسده ان فرض الغسل ساقط عنه.وَالدَّلِيلُ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْجُنُبَ إِذَا دَخَلَ نَهْرًا نَاوِيًا لِلسِّبَاحَةِ فَمَاسَّ الْمَاءُ جَمِيعَ بَدَنِهِ، وَلَمْ يَنْوِ غُسْلًا وَلَا أَرَادَهُ إِذَا فُرِضَ الْغُسْلُ، وَلَا تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ- عَزَّ وَجَلَّ- أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ وَهُوَ مُكْرَهٌ، فَمَاسَّ الْمَاءُ جَمِيعَ جَسَدِهِ أَنَّ فَرْضَ الْغُسْلِ سَاقِطٌ عَنْهُ.
اور ان علماء کے دعویٰ کے برعکس دلیل کا بیان جو کہتے ہیں کہ جنبی شخص جب تیراکی کی نیت سے نہر میں داخل ہو گیا، اور پانی اس کے سارے بدن کو لگ گیا حالانکہ غسل فرض ہونے کے بعد اُس نے غسل کی نیت کی نہ اٌس کا ارادہ کیا اور نہ اللہ تعالی کے تقرب کا حصول اس کا مقصد تھا، یا اُس پر زبردستی پانی ڈال دیا گیا جسے وہ نا پسند کرے جو اُس کے سارے جسم کو لگ گیا تو غسل کی فرضیت اس سے ساقط ہو جائے گی۔
قال ابو بكر: قد امليت خبر عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " الاعمال بالنية , وإنما لامرئ ما نوى.قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَمْلَيْتُ خَبَرَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ , وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى.
امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بیان کر چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پرہے اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اُس نے نیت کی۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عورتوں سے ایک ہی غسل کےساتھ شب باشی کیا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ مشہور سند میں معمر قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیں کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی (سب) عورتوں سے ایک غسل سے شب باشی کیا کرتے تھے۔ (امام صاحب کہتے ہیں) رباطی (راوی) نے عن معمر کہا اور «يطيف» کی بجائے «يطوف» کہا ہے (معنی ایک ہی ہے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات اور دن کے وقت، میں ایک ہی غسل کے ساتھ اپنی تمام بیویوں کے پاس چکّر لگا لیا کرتے تھے اور وہ گیارہ تھیں۔ (قتادہ) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے؟َ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم (آپس میں) گُفتگو کیا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی علماء میں سے ایک عالم آیا تو اُس نے کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر سلام ہو، تو میں نے اُسے ایسے زور سے دھکا دیا کہ وہ گر تے گر تے بچا۔ اُس نے کہا کہ تم مجھے دھکا کیوں دیتے ہو؟ میں نے کہا: تم (نبی علیہ السلام کا نام لینے کی بجائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہہ سکتے؟ یہودی (عالم) نے کہا کہ ہم تو اُنہیں اسی نام سے پکارتے ہیں جو ان کے گھر والوں نے ان کا رکھا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میرا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو میرے گھر والوں نے رکھا ہے۔“ یہودی نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھنے کے لئے آیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا: ”اگر میں تمہیں کچھ بیان کروں تو کیا وہ تمہیں نفع دے گا؟“ اُس نے کہا میں اپنے دونوں کانوں سے سنوں گا (یغی پوری توجہ سے آپ کا ارشاد سنوں گا) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس ایک چھڑی سے کریدنے لگے (جیسے متفکر شخص کرتا ہے) پھر فرمایا: ”پوچھو۔“ یہودی نے کہا کہ (اس دن) لوگ کہاں ہوں گے جس دن یہ زمین و آسمان دوسری زمین و آسمان سے بدل دی جائی گے؟َ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ) اندھیرے میں پل صراط کے قریب ہوں گے۔“ اُس نے کہا کہ سب سے پہلے کن لوگوں کو (پُل صراط عبور کرنے کی) اجازت ملےگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فقراء مہاجرین کو۔“ اُس نے کہا کہ جنّت میں داخل ہونے پراُنہیں کیا تحفہ ملےگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مچھلی کےجگرکا ٹکڑا“۔ اُس نے پوچھا کہ اس کے بعد اُن کی غذا کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”اُن کے لیے جنّت کا وہ بیل ذبح کیا جائے گا جو جنّت کےاطراف میں چرا کرتا تھا۔“ اُس نے سوال کیاکہ اس کھانے کے بعد وہ کیا پیئں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنّت کے سلسبیل نامی چشمے سے پیئں گے۔“ اٗس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے متعلق پوچھنے کے لئے آیا ہوں جسے اہل زمین میں سے ایک نبی اور ایک دو آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں تمہیں اُس چیز کے متعلق بتا دوں تو کیا وہ تمہیں نفع دے گی؟“ اُس نے کہا کہ میں اپنے دونوں کانوں سے سنوں گا۔ اُس نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بچّے کے متعلق پوچھنے کے لئے آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرد کا پانی سفید ہوتا ہے اور عورت کا زرد ہوتا ہے، جب دونوں پانی اکٹھّے ہوتے ہیں اور مرد کی منی عورت کی منی پر غالب آجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حُکم سے لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اور جب عورت کی منی مرد کی منی پر غالب آجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حُکم سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔“ یہودی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں۔ پھر وہ چلا گیا۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے مجھ سے جن جن چیزوں کے متعلق پوچھا، مجھے اُن میں سے کسی چیز کا علم نہیں تھا حتیٰ کہ الله تعالیٰ نے مجھے اس کا علم دے دیا۔“