سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اعمال (کی قبولیت) کا دارو مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ (یعنی اچھی یا بُری نیت کے مطابق جزا یا سزا ملے گی) تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی تو اُس کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول کے لئے یا کسی عورت سے شادی کے لیے تھی تو اُس کی ہجرت اُس کی طرف ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کی۔ احمد کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ «وانما لامري ما نوي» ”آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔“
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اعمال (کا اجر ثواب) نیت کے مطابق ہے۔ اور آدمی کے لیے وہی ہے جو اُس نے نیت کی۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے پانی تلاش کیا مگر اُنہیں نہ ملا۔ (وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پانی کی قلّت کی شکایت کی) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کیا تمہارے پاس) کچھ پانی ہے؟“(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک پانی کے اُس برتن میں رکھا، پھر فرمایا: ”بسم اللہ پڑھ کر وضو کرو“ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں کے درمیان سے پانی اُبلتا ہوا دیکھا جبکہ لوگ وضو کر رہے تھے حتیٰ کہ سب نے وضو کر لیا۔ ثابت کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ستّر کے قریب تھے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ ہر گز کسی برتن میں نہ ڈالے حتیٰ کہ اُسے تین بار دھو لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے۔“ امام فرماتے ہیں کہ ہمیں بشر بن معاذ نے یہ روایت مرفوع بیان کی اور کہا، «من انائه» ”اپنے برتن سے۔“
والدليل على ان امر النبي صلى الله عليه وسلم يجب قبوله إذا علم المرء به، وإن لم يدرك ذلك عقله ورايه قال الله- عز وجل-: [وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم] [الاحزاب: 36].وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِبُ قَبُولُهُ إِذَا عَلِمَ الْمَرْءُ بِهِ، وَإِنْ لَمْ يُدْرِكْ ذَلِكَ عَقْلُهُ وَرَأْيُهُ قَالَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ-: [وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ] [الْأَحْزَابِ: 36].
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کو جان لے تو اُسے قبول کرنا واجب ہے اگر چہ اسے اُس کی عقل و رائے قبول نہ کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ» [ سورة الأحزاب ] اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اُس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
حضرت سالم بن عبدالله اپنے والد محترم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری یا اُس کا ہاتھ کہاں گھومتا رہا تو ایک شخص نے (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) کہا کہ حوض کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کنکری ماری اور فرمایا، میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حدیث) بیان کرتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ حوض کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن لھیعہ جب روایت کرنے میں اکیلا ہو تو وہ اُن راویوں میں سے نہیں جنہوں نے اس روایت کو اس کتاب سے نکالا “ یہ (ابن لھیعہ کی) حدیث اس لیے ذکر کی ہے کہ اس کے ساتھ سند میں جابر بن اسماعیل بھی ہے۔
حضرت عبد خیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد (مسجد کے) صحن میں داخل ہوئے، پھر اپنے غلام سے کہا کہ میرے لیے وضو کا پانی لاؤ، تو غلام ایک برتن لایا جس میں پانی تھا اور ایک طشت (ہاتھ وغیرہ دھونے کا برتن جیسے تھال) لایا۔ عبد خیر کہتے ہیں کہ ہم بیٹھے اُن کی طرف دیکھ رہے تھے، تو اُنہوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے برتن پکڑا اور بائیں ہاتھ پر پانی انڈیلا، پھر اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر برتن اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور اپنے بائیں ہاتھ پر پانی بہایا اس طرح تین بار کیا۔ عبد خیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ہر بار اپنا ہاتھ برتن میں نہیں ڈالا حتیٰ کہ اُسے کئی بار دھو لیا، پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا (چُلّو سے) اپنا منہ بھرا، پھرکُلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے بائیں ہاتھ سے تین بار ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ کہنی سمیت تین بار دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ کہنی سمیت تین بار دھویا پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا حتیٰ کہ وہ پانی میں ڈوب گیا، پھر اُسے اُٹھایا اور اُس پر لگے ہوئے پانی کو بائیں ہاتھ پر لگایا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا، پھر اپنے دائیں پاؤں پر پانی بہایا اور اُسے بائیں ہاتھ سے تین بار دھویا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں قدم پر پانی بہایا اور اُسے بائیں ہاتھ سے تین بار دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ پانی میں ڈالا اور اُسے پانی سے بھرا، پھر اُسے پی لیا، پھر فرمایا، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ ہے، جو شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے طریقے کو دیکھنا پسند کرتا ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چُلّو پانی لیا (اور اُس سے) کُلّی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر ایک چُلّو لیا تو اُس سے اپنا چہرہ مبارک دھویا، پھر ایک چُلّو لیا تو اُس سے اپنا دایاں ہاتھ دھویا، ایک اور چُلّو لیا تو اپنا بایاں ہاتھ دھویا، اور ایک اور چُلّو لیا تو سر کا مسح کیا اور اپنے کانوں کے اندرونی اوربیرونی حصّےکا مسح کیا اور اپنی اُنگلیاں اُن میں داخل کیں پھر ایک چُلّو لے کراپنا دایاں پاؤں دھویا اور ایک اور چُلّو سے اپنا بایاں پاؤں دھویا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہوکر وضو کرے تو اُسے چاہیے کہ تین بار ناک جھاڑے کیونکہ شیطان اس کے نتھنوں میں رات گزارتا ہے۔“
حضرت لقیط بن صبرہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وضو کے متعلق بتایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”مکمّل وضو کرو، اُنگلیوں کا خلال کرو، اور اگر روزے کی حالت میں نہ ہو تو ناک میں خوب اچھی طرح پانی چڑھاؤ۔“