وغسل الإناء من ولوغ الكلب «وفيه دليل على نقض قول من زعم ان الماء طاهر، والامر بغسل الإناء تعبد، إذ غير جائز ان يامر النبي صلى الله عليه وسلم بهراقة ماء طاهر غير نجس» وَغَسْلِ الْإِنَاءِ مِنْ وُلُوغِ الْكَلْبِ «وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى نَقْضِ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْمَاءَ طَاهِرٌ، وَالْأَمْرُ بِغَسْلِ الْإِنَاءِ تَعَبُّدٌ، إِذْ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَأْمُرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَرَاقَةِ مَاءٍ طَاهِرٍ غَيْرِ نَجِسٍ»
اس میں ان علماء کے موقف کے خلاف دلیل ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پانی پاک ہے اور برتن کو دھونا تعبدی امر ہے، کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پاک، غیر نجس پانی کو بہانے (اور ضائع) کرنے کا حکم دیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کُتّا منہ ڈال کر پی لے تو اُسے چاہیے کہ اُس (مشروب) کو بہا دے، اور اُسے اُس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیئے، اور جب تم میں سے کسی (کے جوتے) کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ اس (جوتے) میں نہ چلے حتیٰ کہ اسے مرمّت کروا لے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب حكم ولوع الكلب: 9، سنن النسائي: 66، مسند احمد: 253/2، 443، 477، 480، من طريق الأعمش: ومصنف عبدالرزاق: 20216، وابن شيبة: 228/2»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے۔“(کس حصّے کو لگتا رہا ہے) یہ عبدالجبار کی حدیث ہے۔ اُنہوں نے اپنی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام صراحت سے لینے کی بجائے «رواية» کے لفظ استعمال کیئے ہیں۔ (اس کا مطلب ہے کہ یہ روایت مرفوعاً بیان کی گئی ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحيح البخارى: كتاب الوضوء: باب الاستححمار وترا: 157، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب كراهة غمس المتوضيء وغيره بده المشكوك فى نجاستها.... 278، سنن ترمذي: 24، سنن نسائي: 1، والبيهقي فى الكبرىٰ: رقم: 203، من طريق أبى سلمة بن عبد الرحمن عن ابي هريرة، و أحمد: 395/2، 507، وابن أبى شيبة: 98/1، وفى 203/14، من طريق سيرين عن ابي هريرة به»
77. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے“ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اسے علم نہیں ہے کہ اس کا ہاتھ اس کے جسم پر کہاں لگا ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی شخص نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ دھوئے بغیر اپنے وضو کے برتن کے پانی میں نہ ڈالے، کیونکہ اُسے معلوم نہیں کہ اُس کا ہاتھ اس کے جسم کے کسی حِصّے کو لگا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح البخارى: كتاب الوضوء: 157، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب كراهة اغمس المتوضى وغيره يده المشكوك فى: 278، سنن ترمذي: 24، سنن نسائي: 1، سنن ابي داود: 94، سنن ابن ماجه: 387، مسند احمد: 455/2، موطا امام مالك: 33، سنن الدارمي: 759، و ابن حبان: 1064، 1065، من طريق خالد الخلداء عن عبدالله بن شفيق»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی کہ ہمیں تنگی کے وقت کے متعلق بیان کریں، تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہم شدید گرمی میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا تو ہمیں پیاس لگی (جبکہ پانی موجود نہ تھا) یہاں تک کہ ہم خیال کرنے لگے کہ عنقریب ہماری گردنیں کٹ جائیں گی (یعنی پیاس سے موت آ جائے گی) حتیٰ کہ ایک شخص پانی کی تلاش میں جاتا، وہ (جلدی) واپس نہ آتا تو خیال کیا جاتا کہ اس کی گردن کٹ گئی ہے۔ (پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ) ایک شخص اپنے اونٹ کو ذبح کرتا، اس کی لید نچوڑتا اور (پانی) پی لیتا اور جو باقی بچتا اسے اپنے پیٹ پر ڈال لیتا۔ (یہ حالات دیکھ کر) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر و بھلائی کی دعا کا عادی بنایا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت بھلائی کی دعا فرماتے ہیں) تو ہمارے لیے دعا فرمائیں (کہ اللہ تعالیٰ اس تنگی سے نجات عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اسے پسند کرتے ہو؟ (کہ میں تمہارے لیے دعا کروں)“ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کے لیے) ہاتھ بلند کیے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا ختم کر کے) ہاتھ لوٹائے نہیں تھے کہ آسمان پربادل اُمڈ آئے، اندھیرا چھا گیا اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ صحابہ کرام نے تمام برتن بھر لیے، پھر ہم نے (پڑاؤ والی جگہ سے) نکل کر دیکھا تو معسکر کے باہر بارش نہیں برسی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لید کا نچوڑا ہوا پانی ناپاک ہوتا تو کسی آدمی کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اسے پیٹ پر ڈالتا، کیونکہ اس طرح تو اس کے بدن کا کچھ حصّہ ناپاک ہو جاتا۔ اور اس کے پاس پاک پانی بھی نہیں ہے کہ اُس سے ناپاک حصّہ دھو لے۔ البتہ پانی نہ پینے کی صورت میں جان تلفی کا خطرہ ہو تو زندہ رہنے کے لیے ناپاک پانی پینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے، مردار (کا گوشت) خون اور خنزیر کا گوشت کھائے بغیر جان تلفی کا خطرہ ہو تو ان چیزوں کو مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے کھانا جائز رکھا ہے- حالانکہ مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ناپاک ہے اور ان سے مستغنی شخص کے لیے حرام ہیں۔ مضطر شخص کے لیے جان بچانے کے لئے انہیں کھانا جائز ہے۔ اسی طرح موت کے خطرے کے وقت مضطر (مجبور) شخص کے لیے ناپاک پانی پینا بھی جائز ہے۔ تا کہ اسے پی کر اپنی جان بچا سکے لیکن ناپاک پانی اپنے جسم کے کسی حصّے پر لگانا جبکہ اُسے یقینی علم ہو کہ اگر وہ اسے اپنے بدن پر نہ ڈالے تو اُس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ اس پانی کو جسم کے کسی حصّے پر لگانے سے اس کی زندگی کی بقا کا تعلق ہے، اور نہ اُس کے پاس پاک پانی ہو کہ وہ اس سے بدن کے ناپاک ہونے والے حصّے کو دھو لے، تو اس حالت میں ایسے پانی کا استعمال نا جائز ہے اور نہ یہ کام کرنے کی کسی شخص کے لیے کوئی گنجائش ہے۔
والدليل على ان خراطيم ما ياكل الميتة من السباع، ومما لا يجوز اكل لحمه من الدواب والطيور إذا ماس الماء الذي دون القلتين ولا نجاسة مرئية بخراطيمها ومناخيرها إن ذلك لا ينجس الماء، إذ العلم محيط ان الهرة تاكل الفار، وقد اباح النبي صلى الله عليه وسلم الوضوء بفضل سؤرها، فدلت سنته على ان خرطوم ما ياكل الميتة إذا ماس الماء الذي دون القلتين لم ينجس ذلك خلا الكلب الذي قد حض النبي صلى الله عليه وسلم بالامر بغسل الإناء من ولوغه سبعا، وخلا الخنزير الذي هو انجس من الكلب او مثلهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ خَرَاطِيمَ مَا يَأْكُلُ الْمَيْتَةَ مِنَ السِّبَاعِ، وَمِمَّا لَا يَجُوزُ أَكْلُ لَحْمِهِ مِنَ الدَّوَابِّ وَالطُّيُورِ إِذَا مَاسَّ الْمَاءَ الَّذِي دُونَ الْقُلَّتَيْنِ وَلَا نَجَاسَةَ مَرْئِيَّةٌ بِخَرَاطِيمِهَا وَمَنَاخِيرِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَا يُنَجِّسُ الْمَاءَ، إِذِ الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّ الْهِرَّةَ تَأْكُلُ الْفَأْرَ، وَقَدْ أَبَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوُضُوءَ بِفَضْلِ سُؤْرِهَا، فَدَلَّتْ سُنَّتُهُ عَلَى أَنَّ خُرْطُومَ مَا يَأْكُلُ الْمَيْتَةَ إِذَا مَاسَّ الْمَاءَ الَّذِي دُونَ الْقُلَّتَيْنِ لَمْ يَنْجُسْ ذَلِكَ خَلَا الْكَلْبِ الَّذِي قَدْ حَضَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَمْرِ بِغَسْلِ الْإِنَاءِ مِنْ وُلُوغِهِ سَبْعًا، وَخَلَا الْخِنْزِيرِ الَّذِي هُوَ أَنْجَسُ مِنَ الْكَلْبِ أَوْ مِثْلُهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ مردار کھانے والے درندوں کی سونڈیں اور وہ چوپائے اور پرندے جن کا گوشت کھانا حرام ہے، جب یہ اس پانی کو چھولیں، (اس سے پی لیں) جو دو مٹکوں سے کم ہو اور ان کی سونڈوں اور چونچوں پر نجاست نظرنہ آ ئے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ بلّی چوہے کھاتی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جوٹھے پانی سے وضو کرنا جائز رکھا ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اس بات کی دلیل ہے کہ مردار کھانے والے جانوروں کی سونڈیں جب دو مٹکوں سے کم پانی کو چھولیں تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا، سوائے کُتّے کے، جس کے برتن میں منہ ڈالنے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے، اور خنزیر کے سوا، جو کُتّے سے بھی زیادہ یا اُس جیسا ناپاک ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ”بیشک وہ ناپاک نہیں ہے، وہ تو گھر والوں (غلاموں، لونڈیوں) کی طرح ہے، یعنی بِلّی۔“ امام ذہبی میزان میں فرماتے ہیں کہ سلیمان بن مسافع مجھول ہے۔
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ برتن سے وضو کیا کرتے تھے جبکہ بِلّی اس سے پی رہی ہوتی تھی۔ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بِلّی گھر کے متاع سے ہے۔“
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی بہو سیدہ کبشہ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اُن کے پاس تشریف لائے تو میں نے اُن کے لیے وضو کا پانی (برتن میں) ڈالا، (اسی دوران) ایک بِلّی آئی اور اُس میں سے پینے لگی، سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بِلّی کے لیے برتن جُھکادیا حتیٰ کہ اُس نے (سیر ہو کر پانی) پی لیا۔ سیدہ کبثہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اُنہوں نے مجھے اپنی طرف (تعجب بھری نظروں سے) دیکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ میری بھتیجی، کیا تم (اس منظرپر) تعجب کرتی ہو؟ وہ کہتی ہیں، میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو اُنہوں نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ نجس نہیں ہے۔ وہ تو تم پر چکّر لگانے والے (غلاموں) یا چکّر لگانے والیوں (لونڈیوں) میں سے ہے۔“
وفيه ما دل على ان لا نجاسة في الاحياء، وإن كان لا يجوز اكل لحمه، إلا ما خص به النبي صلى الله عليه وسلم الكلب، وكل ما يقع عليه اسم الكلب من السباع؛ إذ الذباب لا يؤكل، وهو من الخبائث التي اعلم الله ان نبيه المصطفى يحرمها في قوله: [ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث] [الاعراف: 157] وقد اعلم صلى الله عليه وسلم ان سقوط الذباب في الإناء لا ينجس ما في الإناء من الطعام والشراب لامره بغمس الذباب في الإناء إذا سقط فيه، وإن كان الماء اقل من قلتينوَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ لَا نَجَاسَةَ فِي الْأَحْيَاءِ، وَإِنْ كَانَ لَا يَجُوزُ أَكْلُ لَحْمِهِ، إِلَّا مَا خَصَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَلْبَ، وَكُلَّ مَا يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ الْكَلْبِ مِنَ السِّبَاعِ؛ إِذِ الذُّبَابُ لَا يُؤْكَلُ، وَهُوَ مِنَ الْخَبَائِثِ الَّتِي أَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّ نَبِيَّهُ الْمُصْطَفَى يُحَرِّمُهَا فِي قَوْلِهِ: [وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ] [الْأَعْرَافِ: 157] وَقَدْ أَعْلَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ سُقُوطَ الذُّبَابِ فِي الْإِنَاءِ لَا يُنَجِّسُ مَا فِي الْإِنَاءِ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ لِأَمْرِهِ بِغَمْسِ الذُّبَابِ فِي الْإِنَاءِ إِذَا سَقَطَ فِيهِ، وَإِنْ كَانَ الْمَاءُ أَقَلَّ مِنْ قُلَّتَيْنِ
اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ زندہ چیزوں میں پلیدی نہیں ہوتی، اگرچہ وہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھانا جائز نہ ہو۔ سوائے اُس جانور کے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کر دیا ہے جیسے کُتّا اور ہر وہ درندہ جس پر کُتّے کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیونکہ مکّھی کھائی نہیں جاتی اور وہ اُن ناپاک چیزوں میں سے ہے جن کے متعلق الله تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حرام قرار دے گا، اپنے اس فرمان میں «وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ» [ سورة الأعراف ]”وہ اُن کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام کرتے ہیں“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ برتن میں مکّھی گرنے سے اُس میں موجود کھانا اور مشروب ناپاک نہیں ہوتا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّھی کو برتن میں ڈبونے کا حکم دیا ہے جب وہ برتن میں گر جائے، اگر چہ پانی دو مٹکوں سے کم ہو۔