Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْمَاءِ الَّذِي لَا يَنْجُسُ، وَالَّذِي يَنْجُسُ إِذَا خَالَطَتْهُ نَجَاسَةٌ
اس پانی کے ابواب کے مجموعے کا بیان جو ناپاک نہیں ہوتا اور وہ پانی جو نجاست ملنے سے ناپاک ہو جاتا ہے
77. ‏(‏77‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ‏:‏ ‏"‏ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ مِنْهُ ‏"‏ أَيْ أَنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ أَتَتْ يَدُهُ مِنْ جَسَدِهِ
اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے“ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اسے علم نہیں ہے کہ اس کا ہاتھ اس کے جسم پر کہاں لگا ہے
حدیث نمبر: 100
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِخَبَرٍ غَرِيبٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي إِنَائِهِ أَوْ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا، فَإِنَّهُ لا يَدْرِي أَيْنَ أَتَتْ يَدُهُ مِنْهُ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے کوئی شخص نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ دھوئے بغیر اپنے وضو کے برتن کے پانی میں نہ ڈالے، کیونکہ اُسے معلوم نہیں کہ اُس کا ہاتھ اس کے جسم کے کسی حِصّے کو لگا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح البخارى: كتاب الوضوء: 157، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب كراهة اغمس المتوضى وغيره يده المشكوك فى: 278، سنن ترمذي: 24، سنن نسائي: 1، سنن ابي داود: 94، سنن ابن ماجه: 387، مسند احمد: 455/2، موطا امام مالك: 33، سنن الدارمي: 759، و ابن حبان: 1064، 1065، من طريق خالد الخلداء عن عبدالله بن شفيق»

صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 100 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 100  
فوائد:
شافعی دیگر کا قول ہے: اہل حجاز پتھروں سے استنجا کرتے تھے اور ان کے علاقے گرم تھے، چنانچہ جب وہ سوتے تو ان کے جسم پسینے سے شرابور ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے یہ اندیشہ لاحق رہتا کہ سونے والے کا ہاتھ نجاست کی جگہ، پھوڑے پھنسی یا کسی گندگی کو لگ سکتا ہے۔ (لٰہذا انہیں نیند سے بیداری کے بعد تین مرتبہ ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا) نیز اس حدیث سے کئی مسائل مستقبط ہوتے ہیں:
➊ .... قلیل پانی میں نجاست پڑنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے خواہ قلیل نجاست ہی ہو، جو پانی کے اوصاف ثلاثہ کو تبدیل نہ کرے، تب بھی یہ نجاست قلیل پانی کو ناپاک کر دیتی ہے۔ کیونکہ ہاتھ سے چپکی نجاست نظر نہ آنے کی وجہ سے انتہائی قلیل ہوتی ہے اور اہل حجاز کی عادت تھی کہ وہ چھوٹے برتن استعمال کرتے تھے جن کی مقدار دو مٹکوں سے کم ہوتی تھی۔
➋ ..... نجاست پر پانی کا ورود اور پانی میں نجاست کے واقع ہونے میں فرق ہے۔ چنانچہ پانی میں نجاست واقع ہو تو وہ پانی کو نجس کر دیتی ہے اور نجاست پر پانی واقع ہو تو وہ اس نجاست کو زائل کر دیتا ہے۔
➌ ..... نجاسات کو سات مرتبہ دھونا عام نہیں، بلکہ یہ شرعی حکم کتے کے برتن میں منہ ڈالنے کے ساتھ خاص ہے۔
➍ پتھروں اور ڈھیلوں سے موضع نجاست کی یقینی طہارت نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ جگہ نجس ہی رہتی ہے، البتہ نماز کی ادائیگی کے لیے اس نجاست سے درگزر کیا گیا ہے۔
➎ ..... نجاست کو تین مرتبہ دھونا مستحب ہے کیونکہ جب غیر یقینی نجاست کو تین مرتبہ دھونے کا حکم ہے تو حقیقی نجاست پر یہ حکم بالا ولٰی لاگو ہوتا ہے۔
[نووي: 3/ 178]
➏ .... بیدار ہونے کے بعد تین مرتبہ دھونے سے قبل برتن میں ہاتھ ڈالنا ممنوع ہے اور اس پر اجماع منقول ہے، لیکن جمہور علماء کا موقف ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں چنانچہ اگر کوئی شخص مخالفت کرتا ہوا پانی میں ہاتھ ڈبو دے تو وہ پانی ناپاک نہیں ہو گا اور نہ وہ شخص گناہ گار ہو گا۔
[نووي: 179/3]
   صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 100