صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْمَاءِ الَّذِي لَا يَنْجُسُ، وَالَّذِي يَنْجُسُ إِذَا خَالَطَتْهُ نَجَاسَةٌ
اس پانی کے ابواب کے مجموعے کا بیان جو ناپاک نہیں ہوتا اور وہ پانی جو نجاست ملنے سے ناپاک ہو جاتا ہے
78. (78) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمَاءَ إِذَا خَالَطَهُ فَرْثُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ لَمْ يَنْجُسْ
اس بات کی دلیل کا بیان کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کی گوبر اگر پانی میں مل جائے تو وہ پانی ناپاک نہیں
حدیث نمبر: 101
نا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي عُتْبَةَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: حَدِّثْنَا مِنْ شَأْنِ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ، فَقَالَ عُمَرُ : خَرَجْنَا إِلَى تَبُوكَ فِي قَيْظٍ شَدِيدٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا أَصَابَنَا فِيهِ عَطِشٌ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّ رِقَابَنَا سَتَنْقَطِعُ، حَتَّى أَنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَذْهَبُ يَلْتَمِسُ الْمَاءَ فَلا يَرْجِعُ حَتَّى يَظُنَّ أَنَّ رَقَبَتَهُ سَتَنْقَطِعُ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ يَنْحَرُ بَعِيرَهُ، فَيَعْصِرُ فَرْثَهُ فَيَشْرَبُهُ، وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ عَلَى كَبِدِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ عَوَّدَكَ فِي الدُّعَاءِ خَيْرًا، فَادْعُ لَنَا، فَقَالَ:" أَتُحِبُّ ذَلِكَ؟"، قَالَ: نَعَمْ، فَرَفَعَ يَدَهُ فَلَمْ يُرْجِعْهُمَا حَتَّى قَالَتِ السَّمَاءُ فَأَظْلَمَتْ، ثُمَّ سَكَبَتْ، فَمَلَئُوا مَا مَعَهُمْ، ثُمَّ ذَهَبْنَا نَنْظُرُ فَلَمْ نَجِدْهَا جَازَتِ الْعَسْكَرَ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَلَوْ كَانَ مَاءُ الْفَرْثِ إِذَا عُصِرَ نَجِسًا، لَمْ يَجُزْ لِلْمَرْءِ أَنْ يَجْعَلَهُ عَلَى كَبِدِهِ فَيَنْجُسَ بَعْضُ بَدَنِهِ، وَهُوَ غَيْرُ وَاجِدٍ لِمَاءٍ طَاهِرٍ يَغْسِلُ مَوْضِعَ النَّجَسِ مِنْهُ، فَأَمَّا شُرْبُ الْمَاءِ النَّجِسِ عِنْدَ خَوْفِ التَّلَفِ إِنْ لَمْ يَشْرَبْ ذَلِكَ الْمَاءَ، فَجَائِزٌ إِحْيَاءُ النَّفْسِ بِشُرْبِ مَاءٍ نَجِسٍ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَبَاحَ عِنْدَ الاضْطِرَارِ إِحْيَاءَ النَّفْسِ بِأَكْلِ الْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَلَحْمِ الْخِنْزِيرِ إِذَا خِيفَ التَّلَفَ إِنْ لَمْ يَأْكُلْ ذَلِكَ، وَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ نَجَسٌ مُحَرَّمٌ عَلَى الْمُسْتَغْنِي عَنْهُ، مُبَاحٌ لِلْمُضْطَرِّ إِلَيْهِ لإِحْيَاءِ النَّفْسِ بِأَكْلِهِ، فَكَذَلِكَ جَائِزٌ لِلْمُضْطَرِّ إِلَى الْمَاءِ النَّجِسِ أَنْ يُحْيِيَ نَفْسَهُ بِشُرْبِ مَاءٍ نَجِسٍ إِذَا خَافَ التَّلَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِتَرْكِ شُرْبِهِ، فَأَمَّا أَنْ يَجْعَلَ مَاءً نَجِسًا عَلَى بَعْضِ بَدَنِهِ، الْعِلْمُ مُحِيطٌ أَنَّهُ إِنْ لَمْ يَجْعَلْ ذَلِكَ الْمَاءَ النَّجِسَ عَلَى بَدَنِهِ لَمْ يَخَفِ التَّلَفَ عَلَى نَفْسِهِ، وَلا كَانَ فِي إِمْسَاسِ ذَلِكَ الْمَاءِ النَّجِسِ بَعْضَ بَدَنِهِ إِحْيَاءَ نَفْسِهِ بِذَلِكَ، وَلا عِنْدَهُ مَاءٌ طَاهِرٌ يَغْسِلُ مَا نَجُسَ مِنْ بَدَنِهِ بِذَلِكَ الْمَاءِ فَهَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، وَلا وَاسِعٍ لأَحَدٍ فِعْلُهُ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی کہ ہمیں تنگی کے وقت کے متعلق بیان کریں، تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہم شدید گرمی میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا تو ہمیں پیاس لگی (جبکہ پانی موجود نہ تھا) یہاں تک کہ ہم خیال کرنے لگے کہ عنقریب ہماری گردنیں کٹ جائیں گی (یعنی پیاس سے موت آ جائے گی) حتیٰ کہ ایک شخص پانی کی تلاش میں جاتا، وہ (جلدی) واپس نہ آتا تو خیال کیا جاتا کہ اس کی گردن کٹ گئی ہے۔ (پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ) ایک شخص اپنے اونٹ کو ذبح کرتا، اس کی لید نچوڑتا اور (پانی) پی لیتا اور جو باقی بچتا اسے اپنے پیٹ پر ڈال لیتا۔ (یہ حالات دیکھ کر) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر و بھلائی کی دعا کا عادی بنایا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت بھلائی کی دعا فرماتے ہیں) تو ہمارے لیے دعا فرمائیں (کہ اللہ تعالیٰ اس تنگی سے نجات عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اسے پسند کرتے ہو؟ (کہ میں تمہارے لیے دعا کروں)“ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کے لیے) ہاتھ بلند کیے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا ختم کر کے) ہاتھ لوٹائے نہیں تھے کہ آسمان پربادل اُمڈ آئے، اندھیرا چھا گیا اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ صحابہ کرام نے تمام برتن بھر لیے، پھر ہم نے (پڑاؤ والی جگہ سے) نکل کر دیکھا تو معسکر کے باہر بارش نہیں برسی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لید کا نچوڑا ہوا پانی ناپاک ہوتا تو کسی آدمی کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اسے پیٹ پر ڈالتا، کیونکہ اس طرح تو اس کے بدن کا کچھ حصّہ ناپاک ہو جاتا۔ اور اس کے پاس پاک پانی بھی نہیں ہے کہ اُس سے ناپاک حصّہ دھو لے۔ البتہ پانی نہ پینے کی صورت میں جان تلفی کا خطرہ ہو تو زندہ رہنے کے لیے ناپاک پانی پینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے، مردار (کا گوشت) خون اور خنزیر کا گوشت کھائے بغیر جان تلفی کا خطرہ ہو تو ان چیزوں کو مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے کھانا جائز رکھا ہے- حالانکہ مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ناپاک ہے اور ان سے مستغنی شخص کے لیے حرام ہیں۔ مضطر شخص کے لیے جان بچانے کے لئے انہیں کھانا جائز ہے۔ اسی طرح موت کے خطرے کے وقت مضطر (مجبور) شخص کے لیے ناپاک پانی پینا بھی جائز ہے۔ تا کہ اسے پی کر اپنی جان بچا سکے لیکن ناپاک پانی اپنے جسم کے کسی حصّے پر لگانا جبکہ اُسے یقینی علم ہو کہ اگر وہ اسے اپنے بدن پر نہ ڈالے تو اُس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ اس پانی کو جسم کے کسی حصّے پر لگانے سے اس کی زندگی کی بقا کا تعلق ہے، اور نہ اُس کے پاس پاک پانی ہو کہ وہ اس سے بدن کے ناپاک ہونے والے حصّے کو دھو لے، تو اس حالت میں ایسے پانی کا استعمال نا جائز ہے اور نہ یہ کام کرنے کی کسی شخص کے لیے کوئی گنجائش ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف