وحدثني مالك انه بلغه، ان عبد الله بن مسعود، كان يقول: " لا يزال العبد يكذب وتنكت في قلبه نكتة سوداء حتى يسود قلبه كله، فيكتب عند الله من الكاذبين" وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ يَقُولُ: " لَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَتُنْكَتُ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ حَتَّى يَسْوَدَّ قَلْبُهُ كُلُّهُ، فَيُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْكَاذِبِينَ"
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہمشہ آدمی جھوٹ بولا کرتا ہے، پہلے اس کے دل میں ایک نکتہ سیاہ ہوتا ہے، پھر سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ (اس کا نام) اللہ کے ہاں جھوٹوں میں لکھ لیا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبدالله بن وهب فى «الجامع» : 524، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 18»
وحدثني مالك، عن صفوان بن سليم ، انه قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايكون المؤمن جبانا؟ فقال: نعم"، فقيل له:" ايكون المؤمن بخيلا؟ فقال: نعم"، فقيل له:" ايكون المؤمن كذابا؟ فقال: لا" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ"، فَقِيلَ لَهُ:" أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ"، فَقِيلَ لَهُ:" أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا؟ فَقَالَ: لَا"
حضرت صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا: کیا مؤمن بودا بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر پوچھا: کیا مؤمن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر پوچھا: کیا مؤمن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه عبدالله بن وهب فى «الجامع» : 521، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 4812، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 19»
حدثني مالك، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله يرضى لكم ثلاثا، ويسخط لكم ثلاثا، يرضى لكم ان تعبدوه، ولا تشركوا به شيئا، وان تعتصموا بحبل الله جميعا، وان تناصحوا من ولاه الله امركم، ويسخط لكم قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا، وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلَاثًا، يَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، وَأَنْ تَنَاصَحُوا مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ أَمْرَكُمْ، وَيَسْخَطُ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ خوش ہوتا ہے تین باتوں پر، اور ناراض ہوتا ہے تین باتوں پر، خوش ہوتا ہے اس سے کہ پوجو تم اسی کو، اور شریک نہ کرو اس کے ساتھ کسی کو، اور پکڑے رہو اللہ کی رسی کو (یعنی قرآن کو)، اور نصیحت کرو اپنے حاکم کو (یعنی نیک باتیں اسے بتلاؤ اور بری باتوں سے بچاؤ)، اور ناراض ہوتا ہے بہت باتیں کر نے سے، اور مال تلف کر نے سے (یعنی بے جا خرچ کرنے سے)، اور بہت سے مانگنے اور سوال کرنے سے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1715، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3388، 4560، 5720، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16753، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6316، بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 442، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 20»
وحدثني مالك، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من شر الناس ذو الوجهين: الذي ياتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذُو الْوَجْهَيْنِ: الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت برا سب آدمیوں میں ذوالوجہین (دوغلا) ہے، جو ایک گروہ کے پاس جائے وہاں انہی کی سی بات کہہ دے، جب دوسرے گروہ میں آئے وہاں اُن کی بات کہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3493، 3495، 6058، 7179، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1818، 2526، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 92، 5754، 5755، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4872، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2025، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5378، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9998، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1074، 1075، 1076، 1166، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 21»
حدثني مالك انه بلغه، ان ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: يا رسول الله انهلك وفينا الصالحون؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم " إذا كثر الخبث" حَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ " إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ"
اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اس وقت بھی تباہ ہوں گے جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! جب گناہ بہت ہونے لگیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، یہ سند منقطع ہے اور یہ روایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہی نہیں ہے، البتہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے۔ دیکھئے: بخاری: 3346، مسلم: 2880، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 22»
وحدثني مالك، عن إسماعيل بن ابي حكيم ، انه سمع عمر بن عبد العزيز ، يقول:" كان يقال: إن الله تبارك وتعالى لا يعذب العامة بذنب الخاصة، ولكن إذا عمل المنكر جهارا استحقوا العقوبة كلهم" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، يَقُولُ:" كَانَ يُقَالُ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ، وَلَكِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْكَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ كُلُّهُمْ"
حضرت عمر بن عبدالعزیز کہتے تھے کہ اللہ جل جلالہُ کسی خاص شخصوں کے گناہ کے سبب عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا، مگر جب گناہ کی بات اعلانیہ کی جائے گی تو سب کے سب عذاب کے لائق ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 271، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 36245، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 7602، أبو نعيم فى «حلية الاولياء» برقم: 2985، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 23»
حدثني حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن انس بن مالك ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، وخرجت معه حتى دخل حائطا فسمعته، وهو يقول وبيني وبينه جدار وهو في جوف الحائط: عمر بن الخطاب امير المؤمنين بخ بخ والله " لتتقين الله او ليعذبنك" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ حَائِطًا فَسَمِعْتُهُ، وَهُوَ يَقُولُ وَبَيْنِي وَبَيْنَهُ جِدَارٌ وَهُوَ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بَخٍ بَخٍ وَاللَّهِ " لَتَتَّقِيَنَّ اللَّهَ أَوْ لَيُعَذِّبَنَّكَ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، اور آپ ایک باغ میں تھے، اور میرے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: واہ واہ اے خطاب کے بیٹے! ڈر اللہ سے نہیں تو اللہ عذاب کرے گا تجھ کو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابو داود فى الذهد: 55/75، ابن ابي سعد الطبقات الكبري: 292/3، وابن عساكر فى «تاريخ دمشق» برقم: 240/47، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 24»
قال مالك وبلغني، ان القاسم بن محمد، كان يقول: " ادركت الناس وما يعجبون بالقول" . قال مالك: يريد بذلك العمل، إنما ينظر إلى عمله ولا ينظر إلى قوله.قَالَ مَالِك وَبَلَغَنِي، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، كَانَ يَقُولُ: " أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَمَا يَعْجَبُونَ بِالْقَوْلِ" . قَالَ مَالِك: يُرِيدُ بِذَلِكَ الْعَمَلَ، إِنَّمَا يُنْظَرُ إِلَى عَمَلِهِ وَلَا يُنْظَرُ إِلَى قَوْلِهِ.
حضرت قاسم بن محمد کہتے تھے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ باتوں پر فریفتہ نہیں ہوتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: وہ اس سے عمل مراد لے رہے ہیں کہ بلاشبہ آدمی کے تو صرف اور صرف عمل ہی کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بات پر نظر نہیں کی جاتی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع حسن، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5046، عبدالله بن وهب فى «الجامع» : 406، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 25»
حدثني مالك، عن عامر بن عبد الله بن الزبير ، انه كان إذا سمع الرعد ترك الحديث، وقال: " سبحان الذي يسبح الرعد بحمده والملائكة من خيفته، ثم يقول: إن هذا لوعيد لاهل الارض شديد" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ تَرَكَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: " سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَوَعِيدٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ شَدِيدٌ"
حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر جب گرج کی آواز سنتے تو بات کرنا چھوڑ دیتے اور کہتے: پاک ہے وہ ذات جس کی پاکی بیان کرتا ہے رعد (ایک فرشتہ ہے جو مقرر ہے ابر (بادل) پر، اس کی آواز ہے جو گرج معلوم ہوتی ہے)، اور بیان کرتے ہیں فرشتے پاکی اس کی اس کے ڈر سے۔ پھر کہتے تھے: یہ آواز زمین کے رہنے والوں کے واسطے سخت وعید ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6563، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29205، بخاري فى «الادب المفرد» برقم: 723، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 26»
حدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ام المؤمنين، ان ازواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابي بكر الصديق، فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا نورث، ما تركنا فهو صدقة" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَيَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ"
اُم المؤمینن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چاہا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور اپنا ترکہ طلب کریں، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6727، 6730، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1758، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6611، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4427، 6311، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2976، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12861، 12862، وأحمد فى «مسنده» برقم: 26790، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9773، فواد عبدالباقي نمبر: 56 - كِتَابُ الْكَلَامِ-ح: 27»