وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه انه كان لا يؤتى ابدا بطعام ولا شراب حتى الدواء فيطعمه او يشربه، إلا قال: " الحمد لله الذي هدانا واطعمنا وسقانا ونعمنا الله اكبر، اللهم الفتنا نعمتك بكل شر فاصبحنا منها، وامسينا بكل خير فنسالك تمامها وشكرها، لا خير إلا خيرك، ولا إله غيرك إله الصالحين ورب العالمين، الحمد لله ولا إله إلا الله ما شاء الله ولا قوة إلا بالله، اللهم بارك لنا فيما رزقتنا وقنا عذاب النار" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ لَا يُؤْتَى أَبَدًا بِطَعَامٍ وَلَا شَرَابٍ حَتَّى الدَّوَاءُ فَيَطْعَمَهُ أَوْ يَشْرَبَهُ، إِلَّا قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا وَأَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَنَعَّمَنَا اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ أَلْفَتْنَا نِعْمَتُكَ بِكُلِّ شَرٍّ فَأَصْبَحْنَا مِنْهَا، وَأَمْسَيْنَا بِكُلِّ خَيْرٍ فَنَسْأَلُكَ تَمَامَهَا وَشُكْرَهَا، لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ إِلَهَ الصَّالِحِينَ وَرَبَّ الْعَالَمِينَ، الْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" .
حضرت عروہ بن زبیر کے سامنے جب کوئی کھانے پینے کی چیز آتی یہاں تک کہ دوا بھی تو اس کو کھاتے پیتے اور کہتے: سب خوبیاں اسی پروردگار کو لائق ہیں جس نے ہم کو ہدایت کی، اور کھلایا، اور پلایا، اور نعمتیں عطا فرمائیں، وہ اللہ بڑا ہے، اے پروردگار! تیری نعمت اس وقت آئی جب ہم سراسر برائی میں مصروف تھے، ہم نے صبح کی اور شام کی اس نعمت کی وجہ سے اچھی طرح، ہم چاہتے ہیں تو پورا کرے اس نعمت کو، اور ہمیں شکر کی توفیق دے، سوائے تیری بہتری کے کہیں بہتری نہیں ہے، کوئی معبود برحق نہیں سوائے تیرے۔ اے پروردگار نیکوں کے، اور پالنے والے سارے جہاں کے، سب خوبیاں اللہ کو زیبا ہیں، کوئی سچا معبود نہیں سوائے اس کے، جو چاہتا ہے اللہ وہی ہوتا ہے، کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے، یا اللہ برکت دے ہماری روزی میں، اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔
قال يحيى: سئل مالك هل تاكل المراة مع غير ذي محرم منها او مع غلامها؟ فقال مالك: ليس بذلك باس، إذا كان ذلك على وجه ما يعرف للمراة ان تاكل معه من الرجال، قال: وقد تاكل المراة مع زوجها، ومع غيره ممن يؤاكله، او مع اخيها على مثل ذلك، ويكره للمراة ان تخلو مع الرجل ليس بينه وبينها حرمةقَالَ يَحْيَى: سُئِلَ مَالِك هَلْ تَأْكُلُ الْمَرْأَةُ مَعَ غَيْرِ ذِي مَحْرَمٍ مِنْهَا أَوْ مَعَ غُلَامِهَا؟ فَقَالَ مَالِك: لَيْسَ بِذَلِكَ بَأْسٌ، إِذَا كَانَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ مَا يُعْرَفُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَأْكُلَ مَعَهُ مِنَ الرِّجَالِ، قَالَ: وَقَدْ تَأْكُلُ الْمَرْأَةُ مَعَ زَوْجِهَا، وَمَعَ غَيْرِهِ مِمَّنْ يُؤَاكِلُهُ، أَوْ مَعَ أَخِيهَا عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، وَيُكْرَهُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَخْلُوَ مَعَ الرَّجُلِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا حُرْمَةٌ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اگر عورت غیر محرم مرد یا اپنے غلام کے ساتھ کھانا کھائے تو کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کچھ قباحت نہیں ہے جب کہ عزت کے موافق ہو (یعنی ایسی صورت ہو جو اس عورت کے لیے بہتر ہو) اور وہ یہ کہ اس جگہ اور لوگ بھی ہوں، اور کہا کہ عورت بھی اپنے خاوند کے ساتھ کھاتی ہے، کبھی غیر کے ساتھ جس کو خاوند کھانا کھلایا کرتا ہے، کبھی بھائی کے ساتھ، اور مکروہ ہے عورت کو خلوت کرنا غیر محرم کے ساتھ۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان عمر بن الخطاب ، قال: " إياكم واللحم فإن له ضراوة كضراوة الخمر" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " إِيَّاكُمْ وَاللَّحْمَ فَإِنَّ لَهُ ضَرَاوَةً كَضَرَاوَةِ الْخَمْرِ"
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بچو تم گوشت سے (یعنی بہت گوشت کھانے سے، اور اس کی عادت کرنے سے) کیونکہ گوشت کی طلب ہو جاتی ہے جیسے شراب پینے سے اس کی طلب ہو جاتی ہے (پھر چھوڑنا دشوار ہوتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن لغيره، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24520، ابوداؤد فى الزهد: 47/68، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 36»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، ان عمر بن الخطاب ادرك جابر بن عبد الله ومعه حمال لحم، فقال:" ما هذا؟" فقال: يا امير المؤمنين، قرمنا إلى اللحم فاشتريت بدرهم لحما، فقال عمر : " اما يريد احدكم ان يطوي بطنه عن جاره او ابن عمه، اين تذهب عنكم هذه الآية: اذهبتم طيباتكم في حياتكم الدنيا واستمتعتم بها سورة الاحقاف آية 20؟" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَدْرَكَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَمَعَهُ حِمَالُ لَحْمٍ، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَرِمْنَا إِلَى اللَّحْمِ فَاشْتَرَيْتُ بِدِرْهَمٍ لَحْمًا، فَقَالَ عُمَرُ : " أَمَا يُرِيدُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَطْوِيَ بَطْنَهُ عَنْ جَارِهِ أَوِ ابْنِ عَمِّهِ، أَيْنَ تَذْهَبُ عَنْكُمْ هَذِهِ الْآيَةُ: أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا سورة الأحقاف آية 20؟"
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک بوجھ تھا گوشت کا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہم کو خواہش ہوئی گوشت کھانے کی تو ایک درہم کا گوشت خریدا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اپنے پیٹ کو مارے اور ہمسائے کو کھلائے، یا چچا کے بیٹے کو کھلائے، کہاں بھلا دیا تم نے اس آیت کو: «﴿أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا﴾» یعنی: ”اڑا لیے تم نے اپنے مزے دنیا کی زندگی میں، اور خوب فائدے اٹھائے، تو آج کے دن چکھو ذلت کا عذاب۔“ آخر آیت تک۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن لغيره، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5672، 5673، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3719، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24514، 35612، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 36ق»
وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس خاتما من ذهب، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فنبذه، وقال: " لا البسه ابدا"، قال: فنبذ الناس بخواتيمهم وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَبَذَهُ، وَقَالَ: " لَا أَلْبَسُهُ أَبَدًا"، قَالَ: فَنَبَذَ النَّاسُ بِخَوَاتِيمِهِمْ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انگوٹھی سونے کی پہنا کرتے تھے، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے پھینک دیا اور فرمایا: ”اب کبھی اس کو نہ پہنوں گا۔“ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5865، 5866، 5867، 5873، 5876، 6651، 7298، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2091، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5491، 5494، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5167، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9403، 9443، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4218، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1741، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3639، 3645، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4282، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4677، والحميدي فى «مسنده» برقم: 692، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19474، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 37»
وحدثني، عن مالك، عن صدقة بن يسار ، انه قال: سالت سعيد بن المسيب عن لبس الخاتم، فقال: " البسه، واخبر الناس اني افتيتك بذلك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ عَنْ لُبْسِ الْخَاتَمِ، فَقَالَ: " الْبَسْهُ، وَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنِّي أَفْتَيْتُكَ بِذَلِكَ"
حضرت صدقہ بن یسار نے سعید بن مسیّب سے پوچھا انگوٹھی پہننے کی بابت؟ انہوں نے کہا: پہن! اور لوگوں سے کہہ دے میں نے تجھے پہننے کو کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1351، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25114، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 38»
وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن عباد بن تميم ، ان ابا بشير الانصاري اخبره، انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، قال: فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رسولا، قال عبد الله بن ابي بكر: حسبت انه قال والناس في مقيلهم: " لا تبقين في رقبة بعير قلادة من وتر او قلادة إلا قطعت" . قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: ارى ذلك من العينوَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، أَنَّ أَبَا بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ وَالنَّاسُ فِي مَقِيلِهِمْ: " لَا تَبْقَيَنَّ فِي رَقَبَةِ بَعِيرٍ قِلَادَةٌ مِنْ وَتَرٍ أَوْ قِلَادَةٌ إِلَّا قُطِعَتْ" . قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: أَرَى ذَلِكَ مِنَ الْعَيْنِ
حضرت عباد بن تمیم سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی ان کو کہ وہ ساتھ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر میں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ سے کہلا بھیجا اور لوگ سو رہے تھے: ”نہ باقی رہے کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا یا کوئی گنڈا، مگر یہ کہ کاٹ ڈالا جائے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ وہ لوگ یہ گنڈا نظر کے واسطے باندھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3005، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2115، ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4698، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 8757، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2552، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10438، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22232، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 34182، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 7173، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 324، 325، والطبراني فى «الكبير» برقم: 750، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1511، فواد عبدالباقي نمبر: 49 - كِتَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-ح: 39»
وحدثني يحيى، عن مالك، عن محمد بن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، انه سمع اباه ، يقول: اغتسل ابي سهل بن حنيف بالخرار فنزع جبة كانت عليه وعامر بن ربيعة ينظر، قال: وكان سهل رجلا ابيض حسن الجلد، قال: فقال له عامر بن ربيعة: ما رايت كاليوم ولا جلد عذراء، قال: فوعك سهل مكانه واشتد وعكه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبر ان سهلا وعك، وانه غير رائح معك يا رسول الله، فاتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره سهل بالذي كان من امر عامر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علام يقتل احدكم اخاه؟ الا بركت إن العين حق توضا له"، فتوضا له عامر، فراح سهل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس به باس وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ ، يَقُولُ: اغْتَسَلَ أَبِي سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ بِالْخَرَّارِ فَنَزَعَ جُبَّةً كَانَتْ عَلَيْهِ وَعَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ يَنْظُرُ، قَالَ: وَكَانَ سَهْلٌ رَجُلًا أَبْيَضَ حَسَنَ الْجِلْدِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلَا جِلْدَ عَذْرَاءَ، قَالَ: فَوُعِكَ سَهْلٌ مَكَانَهُ وَاشْتَدَّ وَعْكُهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخْبِرَ أَنَّ سَهْلًا وُعِكَ، وَأَنَّهُ غَيْرُ رَائِحٍ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ سَهْلٌ بِالَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِ عَامِرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلَّا بَرَّكْتَ إِنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ تَوَضَّأْ لَهُ"، فَتَوَضَّأَ لَهُ عَامِرٌ، فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ
سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ (یعنی اسعد) کہتے تھے: میرے باپ نے غسل کیا خرار میں (ایک مقام ہے قریب جحفہ کے)، تو انہوں نے اپنا جبہ اتارا، اور سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے تھے، اور سیدنا سہل رضی اللہ عنہ خوش رنگ تھے، سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر کہا: میں نے تو آپ سا کوئی آدمی نہیں دیکھا، اور نہ کسی بکر (کنواری) عورت کا پوست، اسی وقت سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بخار آنے لگا اور سخت بخار آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شخص آیا اور بیان کیا کہ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بخار آگیا ہے، اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جائیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: ”کیا مار ڈالے گا ایک تم میں سے اپنے بھائی کو؟ (اور سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کو کہا) کیوں تو نے «بَارَكَ اللّٰهُ» نہیں کہا؟ (یعنی برکت دے اللہ جل جلالہُ، یا ماشاء الله لاقوة الا بالله جیسے دوسری روایت میں ہے)، نظر لگنا سچ ہے سہل کے لئے وضو کر۔“ پھر سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کے واسطے وضو کیا (دوسری حدیث میں اس کا بیان آتا ہے)، بعد اس کے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ اچھے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 3509، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6105، 6106، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5790، 5791، 5792، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7570، 7571، 7572، 9965، 9966، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19677، 19678، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16076، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19766، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24061، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2894، فواد عبدالباقي نمبر: 50 - كِتَابُ الْعَيْنِ-ح: 1»
وحدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، انه قال: راى عامر بن ربيعة سهل بن حنيف يغتسل، فقال: ما رايت كاليوم ولا جلد مخباة، فلبط سهل، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل: يا رسول الله هل لك في سهل بن حنيف؟ والله ما يرفع راسه، فقال:" هل تتهمون له احدا؟" قالوا: نتهم عامر بن ربيعة، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عامرا فتغيظ عليه، وقال: " علام يقتل احدكم اخاه؟ الا بركت اغتسل له"، فغسل عامر وجهه ويديه، ومرفقيه وركبتيه، واطراف رجليه وداخلة إزاره في قدح، ثم صب عليه فراح سهل مع الناس ليس به باس وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَى عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ يَغْتَسِلُ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ وَلَا جِلْدَ مُخْبَأَةٍ، فَلُبِطَ سَهْلٌ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؟ وَاللَّهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" هَلْ تَتَّهِمُونَ لَهُ أَحَدًا؟" قَالُوا: نَتَّهِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِرًا فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ؟ أَلَّا بَرَّكْتَ اغْتَسِلْ لَهُ"، فَغَسَلَ عَامِرٌ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ فِي قَدَحٍ، ثُمَّ صُبَّ عَلَيْهِ فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ
سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ (یعنی اسعد) سے روایت ہے کہ سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا تو کہا: میں نے آپ کا سا کوئی آدمی نہیں دیکھا، نہ کسی پردہ نشین (بالکل باہر نہ نکلنے والی) عورت کی ایسی کھال دیکھی۔ یہ کہتے ہی سیدنا سہل رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے (بیمار ہوکر) گر پڑے۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر بیان کیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی خبر بھی لیتے ہیں، قسم اللہ کی! وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دانست میں کس نے اس کو نظر لگائی؟“ انہوں نے کہا: سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اس پر غصے ہوئے، اور فرمایا: ”کیوں قتل کرتا ہے ایک تم میں سے اپنے بھائی کو؟ تو نے «بَارَكَ اللّٰهُ» کیوں نہ کہا؟ اب غسل کر اس کے واسطے۔“ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے اپنے منہ، اور ہاتھ، اور کہنیاں، اور گھٹنے، اور پاؤں کے کنارے، اور تہ بند کے نیچے کا بدن پانی سے دھو کر اس پانی کو ایک برتن میں جمع کیا، وہ پانی سیدنا سہل رضی اللہ عنہ پر ڈالا گیا، سیدنا سہل رضی اللہ عنہ اچھے ہو گئے اور لوگوں کے ساتھ چلے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7618، 7619، 9965، 9966، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6105، 6106، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5790، 5791، 5792، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3509، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19677، 19678، والبيهقي فى «دلائل النبوة» برقم: 136/6، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16227، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19766، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24061، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2894، فواد عبدالباقي نمبر: 50 - كِتَابُ الْعَيْنِ-ح: 2»
حدثني، عن مالك، عن حميد بن قيس المكي ، انه قال: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بابني جعفر بن ابي طالب، فقال لحاضنتهما:" ما لي اراهما ضارعين؟" فقالت حاضنتهما: يا رسول الله، إنه تسرع إليهما العين، ولم يمنعنا ان نسترقي لهما إلا انا لا ندري ما يوافقك من ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " استرقوا لهما، فإنه لو سبق شيء القدر لسبقته العين" حَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: دُخِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنَيْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لِحَاضِنَتِهِمَا:" مَا لِي أَرَاهُمَا ضَارِعَيْنِ؟" فَقَالَتْ حَاضِنَتُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ تُسْرِعُ إِلَيْهِمَا الْعَيْنُ، وَلَمْ يَمْنَعْنَا أَنْ نَسْتَرْقِيَ لَهُمَا إِلَّا أَنَّا لَا نَدْرِي مَا يُوَافِقُكَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَرْقُوا لَهُمَا، فَإِنَّهُ لَوْ سَبَقَ شَيْءٌ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ"
حضرت حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دایہ سے کہا: ”کیا سبب ہے یہ لڑکے دبلے ہیں؟“ وہ بولی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کو نظر لگ جاتی ہے، اور ہم نے منتر اس واسطے نہ کیا کہ معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منتر کرو ان کے واسطے، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھتی تو نظر بڑھتی۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 2059، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3510، وأحمد فى «مسنده» برقم: 28018، فواد عبدالباقي نمبر: 50 - كِتَابُ الْعَيْنِ-ح: 3»