سعید بن مسیّب نے کہا کہ پھر ذی الحجہ کا مہینہ نہ گزرا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے۔ (فیروز مجوسی کے ہاتھ سے، اللہ جل جلالہُ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعاء کو قبول فرمایا اور ان کو درجہ شہادت عطاء کیا)۔
وحدثني وحدثني مالك انه بلغه، ان عثمان بن عفان اتي بامراة قد ولدت في ستة اشهر، فامر بها ان ترجم، فقال له علي بن ابي طالب: " ليس ذلك عليها، إن الله تبارك وتعالى، يقول في كتابه: وحمله وفصاله ثلاثون شهرا سورة الاحقاف آية 15، وقال: والوالدات يرضعن اولادهن حولين كاملين لمن اراد ان يتم الرضاعة سورة البقرة آية 233، فالحمل يكون ستة اشهر، فلا رجم عليها". فبعث عثمان بن عفان في اثرها، فوجدها قد رجمت وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ وَلَدَتْ فِي سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: " لَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا سورة الأحقاف آية 15، وَقَالَ: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ سورة البقرة آية 233، فَالْحَمْلُ يَكُونُ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَا رَجْمَ عَلَيْهَا". فَبَعَثَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فِي أَثَرِهَا، فَوَجَدَهَا قَدْ رُجِمَتْ
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت آئی جس کا بچہ چھ مہینے میں پیدا ہوا تھا، آپ نے اس کے رجم کا حکم کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس پر رجم نہیں ہو سکتا، اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے اپنی کتاب میں: ”آدمی کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہوتا ہے۔“ اور دوسری جگہ فرماتا ہے: ”مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں، جو شخص رضاعت کو پورا کرنا چاہے۔“ تو حمل کے چھ مہینے ہوئے اس وجہ سے رجم نہیں ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر لوگوں کو بھیجا اس عورت کے پیچھے (تاکہ اس کو رجم نہ کریں)، دیکھا تو وہ رجم ہو چکی تھی۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17035، 17059، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13441، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4855، 4856، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 11»
حدثني مالك، انه سال ابن شهاب عن الذي يعمل عمل قوم لوط؟ فقال ابن شهاب: " عليه الرجم احصن او لم يحصن" حَدَّثَنِي مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنِ الَّذِي يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ؟ فَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ: " عَلَيْهِ الرَّجْمُ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ"
امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے پوچھا: جو کوئی لواطت کرے اس کا کیا حکم ہے؟ ابن شہاب نے کہا کہ اس کو رجم کرنا چاہیے خواہ محصن ہو یا غیر محصن۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13485، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28337، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 11ق»
حدثني مالك، عن زيد بن اسلم ، ان رجلا اعترف على نفسه بالزنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم بسوط، فاتي بسوط مكسور، فقال:" فوق هذا". فاتي بسوط جديد لم تقطع ثمرته، فقال:" دون هذا". فاتي بسوط قد ركب به ولان، فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلد، ثم قال:" ايها الناس، قد آن لكم ان تنتهوا عن حدود الله، من اصاب من هذه القاذورات شيئا، فليستتر بستر الله، فإنه من يبدي لنا صفحته، نقم عليه كتاب الله" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنّ رَجُلًا اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوْطٍ، فَأُتِيَ بِسَوْطٍ مَكْسُورٍ، فَقَالَ:" فَوْقَ هَذَا". فَأُتِيَ بِسَوْطٍ جَدِيدٍ لَمْ تُقْطَعْ ثَمَرَتُهُ، فَقَالَ:" دُونَ هَذَا". فَأُتِيَ بِسَوْطٍ قَدْ رُكِبَ بِهِ وَلَانَ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجُلِدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تَنْتَهُوا عَنْ حُدُودِ اللَّهِ، مَنْ أَصَابَ مِنْ هَذِهِ الْقَاذُورَاتِ شَيْئًا، فَلْيَسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ يُبْدِي لَنَا صَفْحَتَهُ، نُقِمْ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ"
سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اقرار کیا زنا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑا منگوایا تو نیا کوڑا آیا جس کا سرا بھی نہیں کٹا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے نرم لاؤ۔“ پھر ایک کوڑا آیا جو بالکل ٹوٹا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے سخت لاؤ۔“ پھر ایک کوڑا آیا جو سواری میں کام آیا تھا اور نرم ہو گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا اس کوڑے سے مارنے کا، بعد اس کے فرمایا: ”اے لوگوں! اب وہ وقت آگیا ہے کہ تم باز رہو اللہ کی حدوں سے، جو شخص اس قسم کا کوئی گناہ کرے تو چاہیے کہ چھپا رہے اللہ کے پردے میں، اور جو کوئی کھول دے گا اپنے پردے کو تو ہم موافق کتاب اللہ کے اس پر حد قائم کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17652، 17678، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 3406، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5258، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 244/4، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13583، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 12»
حدثني حدثني مالك، عن نافع ، ان صفية بنت ابي عبيد اخبرته، ان ابا بكر الصديق " اتي برجل قد وقع على جارية بكر فاحبلها، ثم اعترف على نفسه بالزنا ولم يكن احصن، " فامر به ابو بكر فجلد الحد، ثم نفي إلى فدك" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ " أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ وَقَعَ عَلَى جَارِيَةٍ بِكْرٍ فَأَحْبَلَهَا، ثُمَّ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا وَلَمْ يَكُنْ أَحْصَنَ، " فَأَمَرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ فَجُلِدَ الْحَدَّ، ثُمَّ نُفِيَ إِلَى فَدَكَ" .
حضرت صفیہ بنت ابی عیبد سے روایت ہے کہ لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو لائے جس نے ایک باکرہ (کنواری) لونڈی سے زنا کر کے اس کو حاملہ کر دیا تھا، بعد اس کے زنا کا اقرار کیا اور وہ محصن (شادی شدہ) نہ تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حکم کیا اس کو کوڑا مارنے کا، اس کو حد پڑی، بعد اس کے نکال دیا گیا فدک کی طرف (فدک ایک موضع ہے مدینہ سے دو دن کی راہ پر)۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17073، 17074، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 3219، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5060، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13311، 13312، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29392، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 13»
قال مالك، في الذي يعترف على نفسه بالزنا، ثم يرجع عن ذلك، ويقول: لم افعل، وإنما كان ذلك مني على وجه كذا وكذا لشيء يذكره: إن ذلك يقبل منه، ولا يقام عليه الحد، وذلك ان الحد الذي هو لله لا يؤخذ إلا باحد وجهين، إما ببينة عادلة تثبت على صاحبها، وإما باعتراف يقيم عليه حتى يقام عليه الحد، فإن اقام على اعترافه اقيم عليه الحد.قَالَ مَالِك، فِي الَّذِي يَعْتَرِفُ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَا، ثُمَّ يَرْجِعُ عَنْ ذَلِكَ، وَيَقُولُ: لَمْ أَفْعَلْ، وَإِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنِّي عَلَى وَجْهِ كَذَا وَكَذَا لِشَيْءٍ يَذْكُرُهُ: إِنَّ ذَلِكَ يُقْبَلُ مِنْهُ، وَلَا يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَذَلِكَ أَنَّ الْحَدَّ الَّذِي هُوَ لِلَّهِ لَا يُؤْخَذُ إِلَّا بِأَحَدِ وَجْهَيْنِ، إِمَّا بِبَيِّنَةٍ عَادِلَةٍ تُثْبِتُ عَلَى صَاحِبِهَا، وَإِمَّا بِاعْتِرَافٍ يُقِيمُ عَلَيْهِ حَتَّى يُقَامَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، فَإِنْ أَقَامَ عَلَى اعْتِرَافِهِ أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص زنا کا اقرار کرے، بعد اس کے منکر ہو جائے اور کہے: میں نے زنا نہیں کیا، بلکہ میں نے فلانا کام کیا (جیسے اپنی عورت سے حالتِ حیض میں جماع کیا، اس کو زنا سمجھا) تو اس پر حد نہ پڑے گی، کیونکہ حد پڑنے میں یا تو گواہ عادل ہونے چاہییں یا اقرار ہو جس پر وہ قائم رہے حد پڑنے تک۔
قال مالك: الذي ادركت عليه اهل العلم، انه لا نفي على العبيد إذا زنواقَالَ مَالِك: الَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا نَفْيَ عَلَى الْعَبِيدِ إِذَا زَنَوْا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے اپنے شہر کےعالموں کو اس پر پایا کہ غلام اگر زنا کریں تو وہ جلا وطن نہ کئے جائیں گے۔
حدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن ابي هريرة ، وزيد بن خالد الجهني ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الامة إذا زنت ولم تحصن؟ فقال: " إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها ولو بضفير" . قال ابن شهاب: لا ادري ابعد الثالثة او الرابعة؟ قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: والضفير: الحبل. حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْأَمَةِ إِذَا زَنَتْ وَلَمْ تُحْصِنْ؟ فَقَالَ: " إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ" . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: لَا أَدْرِي أَبَعْدَ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ؟ قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَالضَّفِيرُ: الْحَبْلُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ لونڈی غیر محصنہ جب زنا کرے تو کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مارو، پھر اگر زنا کرے تو پھر اس کو کوڑے مارو، پھر اگر زنا کرے تو پھر اس کو کوڑے مارو۔“ بعد اس کے چوتھی مرتبہ یا تیسری مرتبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچ ڈالو ایسی لونڈی کو اگرچہ ایک رسّی کے عوض میں ہو۔“ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن شہاب رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ آیا تیسری بار کے بعد (اسے بیچنے کا حکم ہوا) یا چوتھی بار (کے بعد)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: (حدیث کے لفظ) «الضَّفِيرُ» کے معنی رسی کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2152، 2153، 2232، 2234، 2555، 6837، 6839، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1703، 1704، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4444، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7259، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4469، 4470، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1440، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2371، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2565، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17181، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17183، والحميدي فى «مسنده» برقم: 831، 1113، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 14»
حدثني حدثني مالك، عن نافع ، ان عبدا كان يقوم على رقيق الخمس، وانه استكره جارية من ذلك الرقيق، فوقع بها، " فجلده عمر بن الخطاب ونفاه، ولم يجلد الوليدة لانه استكرهها" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنّ عَبْدًا كَانَ يَقُومُ عَلَى رَقِيقِ الْخُمُسِ، وَأَنَّهُ اسْتَكْرَهَ جَارِيَةً مِنْ ذَلِكَ الرَّقِيقِ، فَوَقَعَ بِهَا، " فَجَلَدَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَنَفَاهُ، وَلَمْ يَجْلِدِ الْوَلِيدَةَ لِأَنَّهُ اسْتَكْرَهَهَا"
نافع سے روایت ہے کہ ایک غلام مقرر تھا ان غلام اور لونڈیوں پر جو خمس میں آئی تھیں، اس نے انہیں غلام اور لونڈیوں میں سے ایک لونڈی سے زبردستی جماع کیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو کوڑے مارے اور نکال دیا، اور لونڈی کو نہ مارا کیونکہ اس پر جبر ہوا تھا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17096، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم:3250، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5069، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13468، 13470، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 15»
سیدنا عبداللہ بن عیاش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو اور کئی جوانوں کو جو قریش کے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم کیا حد مارنے کا، تو ہم نے لونڈیوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے زنا میں، وہ لونڈیاں امارت یعنی بیت المال کی تھیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17089، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5104، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13608، 13609، 13611، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28973، فواد عبدالباقي نمبر: 41 - كِتَابُ الْحُدُودِ-ح: 16»