قال مالك: فالامر عندنا الذي لا اختلاف فيه، انه يغير من ذلك ما شاء غير التدبير۔ قَالَ مَالِك: فَالْأَمْرُ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، أَنَّهُ يُغَيِّرُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ غَيْرَ التَّدْبِيرِ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک ہر وصیت کو بدل سکتا ہے سوائے تدبیر کے۔
حدثني حدثني مالك، عن عبد الله بن ابي بكر بن حزم ، عن ابيه ، ان عمرو بن سليم الزرقي اخبره، انه قيل لعمر بن الخطاب: إن هاهنا غلاما يفاعا لم يحتلم من غسان ووارثه بالشام، وهو ذو مال، وليس له هاهنا إلا ابنة عم له. قال عمر بن الخطاب : " فليوص لها". قال: فاوصى لها بمال، يقال له: بئر جشم . قال عمرو بن سليم: فبيع ذلك المال بثلاثين الف درهم، وابنة عمه التي اوصى لها هي ام عمرو بن سليم الزرقيحَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: إِنَّ هَاهُنَا غُلَامًا يَفَاعًا لَمْ يَحْتَلِمْ مِنْ غَسَّانَ وَوَارِثُهُ بِالشَّامِ، وَهُوَ ذُو مَالٍ، وَلَيْسَ لَهُ هَاهُنَا إِلَّا ابْنَةُ عَمٍّ لَهُ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : " فَلْيُوصِ لَهَا". قَالَ: فَأَوْصَى لَهَا بِمَالٍ، يُقَالُ لَهُ: بِئْرُ جُشَمٍ . قَالَ عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ: فَبِيعَ ذَلِكَ الْمَالُ بِثَلَاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَابْنَةُ عَمِّهِ الَّتِي أَوْصَى لَهَا هِيَ أُمُّ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ
حضرت عمرو بن سلیم زرقی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اس جگہ مدینہ میں ایک لڑکا ہے قریب بلوغ کے، مگر بالغ نہیں ہوا، قبیلہ غسان سے، اور اس کے وارث شام میں ہیں، اور اس کے پاس مال ہے، اور یہاں اس کا کوئی وارث نہیں سوائے ایک چچا زاد بہن کے۔ تو سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کو وصیت کرے۔ اس لڑکے نے مال کی وصیت جس کا نام بئر جشم تھا، اپنی چچا زاد بہن کے واسطے کی۔ عمرو بن سلیم نے کہا: وہ مال تیس ہزار درہم کا بکا۔ اور اس کی چچا زاد بہن عمرو بن سلیم کی ماں تھی۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12780، 21634، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 6087، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16410، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 430، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 2»
وحدثني وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد، عن ابي بكر بن حزم، ان" غلاما من غسان حضرته الوفاة بالمدينة، ووارثه بالشام، فذكر ذلك لعمر بن الخطاب، فقيل له: إن فلانا يموت، افيوصي؟ قال: " فليوص" . قال يحيى بن سعيد: قال ابو بكر: وكان الغلام ابن عشر سنين او اثنتي عشرة سنة. قال: فاوصى ببئر جشم، فباعها اهلها بثلاثين الف درهم. وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، أَنَّ" غُلَامًا مِنْ غَسَّانَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ بِالْمَدِينَةِ، وَوَارِثُهُ بِالشَّامِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ فُلَانًا يَمُوتُ، أَفَيُوصِي؟ قَالَ: " فَلْيُوصِ" . قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ الْغُلَامُ ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ أَوِ اثْنَتَيْ عَشَرَةَ سَنَةً. قَالَ: فَأَوْصَى بِبِئْرِ جُشَمٍ، فَبَاعَهَا أَهْلُهَا بِثَلَاثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ.
حضرت ابوبکر بن حزم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا غسان کا مرنے لگا مدینہ میں، اور وارث اس کے شام میں تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا: کیا وصیت کرے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وصیت کرے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا: وہ لڑکا دس برس کا تھا یا بارہ برس کا، اور بئر جشم (اس مال کا نام تھا) چھوڑ گیا اس کی وصیت کر گیا، لوگوں نے اسے تیس ہزار درہم کا بیچا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21635، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3330، 3333، 3334، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 430، 431، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16409، 16410، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 3»
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: الامر المجتمع عليه عندنا، ان الضعيف في عقله والسفيه والمصاب الذي يفيق، احيانا تجوز وصاياهم إذا كان معهم من عقولهم ما يعرفون ما يوصون به، فاما من ليس معه من عقله ما يعرف بذلك ما يوصي به وكان مغلوبا على عقله، فلا وصية لهقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّ الضَّعِيفَ فِي عَقْلِهِ وَالسَّفِيهَ وَالْمُصَابَ الَّذِي يُفِيقُ، أَحْيَانًا تَجُوزُ وَصَايَاهُمْ إِذَا كَانَ مَعَهُمْ مِنْ عُقُولِهِمْ مَا يَعْرِفُونَ مَا يُوصُونَ بِهِ، فَأَمَّا مَنْ لَيْسَ مَعَهُ مِنْ عَقْلِهِ مَا يَعْرِفُ بِذَلِكَ مَا يُوصِي بِهِ وَكَانَ مَغْلُوبًا عَلَى عَقْلِهِ، فَلَا وَصِيَّةَ لَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ ضعیف العقل اور نادان اور مجنوں کی جس کو کبھی آفاقہ ہوجاتا ہے، وصیت درست ہے، جب اتنی عقل رکھتے ہوں کہ وصیت جو کریں اس کو سمجھیں، اگر اتنی بھی عقل نہ ہو تو اس کی وصیت درست نہیں ہے۔
حدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه ، انه قال: جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي، فقلت: يا رسول الله، قد بلغ بي من الوجع ما ترى، وانا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي، افاتصدق بثلثي مالي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا". فقلت: فالشطر؟ قال:" لا". ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الثلث، والثلث كثير، إنك ان تذر ورثتك اغنياء، خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا اجرت حتى ما تجعل في في امراتك". قال: فقلت: يا رسول الله، ااخلف بعد اصحابي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا، إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك ان تخلف حتى ينتفع بك اقوام ويضر بك آخرون. اللهم امض لاصحابي هجرتهم، ولا تردهم على اعقابهم. لكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مات بمكة" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا". فَقُلْتُ: فَالشَّطْرُ؟ قَالَ:" لَا". ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ". قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَأُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ. اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ. لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ" .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے (یعنی بیمار پرسی کے لیے) حجة الوداع کے سال، میں اور میرا مرض شدید تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیماری کا حال تو آپ دیکھتے ہیں، اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے، کیا میں دو تہائی مال اللہ واسطے دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: آدھا مال دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ پھر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی مال للہ دے دے، اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ فقیر بھیک منگا چھوڑ جائے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اور تو جو چیز صرف کرے گا اللہ کی رضامندی کے واسطے تجھ کو اس کا ثواب ملے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بی بی کے منہ میں دیتا ہے اس کا بھی ثواب ملے گا۔“ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جاؤں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو پیچھے رہ جائے گا اور نیک کام کرے گا، تیرا درجہ بلند ہوگا، اور شاید تو زندہ رہے (مکہ میں نہ مرے)، یہاں تک کہ نفع دے اللہ جل جلالہُ تیرے سبب سے ایک قوم کو اور نقصان دے ایک قوم کو، اے پروردگار! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کردے، اور مت پھیر دے ان کو اس ہجرت سے ان کی ایڑیوں پر۔“ لیکن مصیبت زدہ سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ہیں، جن کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنج کرتے تھے اس وجہ سے کہ وہ مکہ میں مر گئے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 56، 1295، 2742، 2744، 3936، 4409، 5354، 5659، 5668، 6373، 6733، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1628، 1748، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2355، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4249، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1271، 2611، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3656، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6284، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2740، 2864، 3104، والترمذي فى «جامعه» برقم: 975، 2116، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3238، 3239، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2708، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 330، 331، 332، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6665،، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1457، والحميدي فى «مسنده» برقم: 66، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 696، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 4»
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول في الرجل يوصي بثلث ماله لرجل، ويقول: غلامي يخدم فلانا ما عاش، ثم هو حر فينظر في ذلك، فيوجد العبد ثلث مال الميت، قال: فإن خدمة العبد تقوم، ثم يتحاصان، يحاص الذي اوصي له بالثلث بثلثه، ويحاص الذي اوصي له بخدمة العبد بما قوم له من خدمة العبد، فياخذ كل واحد منهما من خدمة العبد او من إجارته إن كانت له إجارة بقدر حصته، فإذا مات الذي جعلت له خدمة العبد ما عاش عتق العبد. قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِثُلُثِ مَالِهِ لِرَجُلٍ، وَيَقُولُ: غُلَامِي يَخْدُمُ فُلَانًا مَا عَاشَ، ثُمَّ هُوَ حُرٌّ فَيُنْظَرُ فِي ذَلِكَ، فَيُوجَدُ الْعَبْدُ ثُلُثَ مَالِ الْمَيِّتِ، قَالَ: فَإِنَّ خِدْمَةَ الْعَبْدِ تُقَوَّمُ، ثُمَّ يَتَحَاصَّانِ، يُحَاصُّ الَّذِي أُوصِيَ لَهُ بِالثُّلُثِ بِثُلُثِهِ، وَيُحَاصُّ الَّذِي أُوصِيَ لَهُ بِخِدْمَةِ الْعَبْدِ بِمَا قُوِّمَ لَهُ مِنْ خِدْمَةِ الْعَبْدِ، فَيَأْخُذُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ خِدْمَةِ الْعَبْدِ أَوْ مِنْ إِجَارَتِهِ إِنْ كَانَتْ لَهُ إِجَارَةٌ بِقَدْرِ حِصَّتِهِ، فَإِذَا مَاتَ الَّذِي جُعِلَتْ لَهُ خِدْمَةُ الْعَبْدِ مَا عَاشَ عَتَقَ الْعَبْدُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو، اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے، پھر آزاد ہے، بعد اس کے اس غلام کی قیمت تہائی مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگادیں گے، اور اس غلام میں حصّہ کرلیں گے، جس کو تہائی مال کی وصیت کی ہے اس کا حصّہ ایک تہائی ہوگا، اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصّہ خدمت کے موافق ہوگا، بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصّہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مرجائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہوجائے گا۔
قال: وسمعت مالكا، يقول في الذي يوصي في ثلثه، فيقول لفلان كذا وكذا ولفلان كذا وكذا يسمي مالا من ماله، فيقول ورثته: قد زاد على ثلثه: فإن الورثة يخيرون بين ان يعطوا اهل الوصايا وصاياهم وياخذوا جميع مال الميت، وبين ان يقسموا لاهل الوصايا ثلث مال الميت فيسلموا إليهم ثلثه، فتكون حقوقهم فيه إن ارادوا بالغا ما بلغقَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِي الَّذِي يُوصِي فِي ثُلُثِهِ، فَيَقُولُ لِفُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَكَذَا يُسَمِّي مَالًا مِنْ مَالِهِ، فَيَقُولُ وَرَثَتُهُ: قَدْ زَادَ عَلَى ثُلُثِهِ: فَإِنَّ الْوَرَثَةَ يُخَيَّرُونَ بَيْنَ أَنْ يُعْطُوا أَهْلَ الْوَصَايَا وَصَايَاهُمْ وَيَأْخُذُوا جَمِيعَ مَالِ الْمَيِّتِ، وَبَيْنَ أَنْ يَقْسِمُوا لِأَهْلِ الْوَصَايَا ثُلُثَ مَالِ الْمَيِّتِ فَيُسَلِّمُوا إِلَيْهِمْ ثُلُثَهُ، فَتَكُونُ حُقُوقُهُمْ فِيهِ إِنْ أَرَادُوا بَالِغًا مَا بَلَغَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص وصیت کرے کئی آدمیوں کے لیے، پھر اس کے وارث یہ دعویٰ کریں کہ وصیت تہائی سے زیادہ ہے، تو وارثوں کو اختیار ہوگا، چاہے ہر ایک موصی لہُ کو اس کی وصیت ادا کریں اور میّت کا پورا ترکہ آپ لے لیں، یا تہائی مال موصی لہُ جتنے ہوں ان کے حوالہ کردیں، اور اپنے حصّوں کے موافق اس کو تقسیم کرلیں گے۔
قال مالك: احسن ما سمعت في وصية الحامل وفي قضاياها في مالها وما يجوز لها. ان الحامل كالمريض. فإذا كان المرض الخفيف، غير المخوف على صاحبه، فإن صاحبه يصنع في ماله ما يشاء. وإذا كان المرض المخوف عليه، لم يجز لصاحبه شيء إلا في ثلثه. قَالَ مَالِكٌ: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي وَصِيَّةِ الْحَامِلِ وَفِي قَضَايَاهَا فِي مَالِهَا وَمَا يَجُوزُ لَهَا. أَنَّ الْحَامِلَ كَالْمَرِيضِ. فَإِذَا كَانَ الْمَرَضُ الْخَفِيفُ، غَيْرُ الْمَخُوفِ عَلَى صَاحِبِهِ، فَإِنَّ صَاحِبَهُ يَصْنَعُ فِي مَالِهِ مَا يَشَاءُ. وَإِذَا كَانَ الْمَرَضُ الْمَخُوفُ عَلَيْهِ، لَمْ يَجُزْ لِصَاحِبِهِ شَيْءٌ إِلَّا فِي ثُلُثِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حاملہ بھی مثل بیمار کے ہے، اگر بیماری خفیف ہو جس میں موت کا خوف نہ ہو تو مالکِ مال کو اختیار ہے، جیسا چاہے تصرف کرے، البتہ جس بیماری میں موت کا خوف ہو تو تہائی سے زیادہ تصرف درست نہیں۔
قال مالك: وكذلك المراة الحامل اول. حملها بشر وسرور. وليس بمرض ولا خوف. لان اللٰه تبارك وتعالى قال في كتابه: ﴿فبشرناها بإسحاق ومن وراء إسحاق يعقوب﴾ وقال: ﴿فلما تغشاها حملت حملا خفيفا فمرت به فلما اثقلت دعوا اللٰه ربهما لئن آتيتنا صالحا لنكونن من الشاكرين﴾ [الاعراف: 189] فالمراة الحامل إذا اثقلت لم يجز لها قضاء إلا في ثلثها فاول الإتمام ستة اشهر. قال اللٰه تبارك وتعالى في كتابه: ﴿والوالدات يرضعن اولادهن حولين كاملين﴾ [البقرة: 233] وقال: ﴿وحمله وفصاله ثلاثون شهرا﴾ [الاحقاف: 15] فإذا مضت للحامل ستة اشهر من يوم حملت لم يجز لها قضاء في مالها إلا في الثلث. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ الْحَامِلُ أَوَّلُ. حَمْلِهَا بِشْرٌ وَسُرُورٌ. وَلَيْسَ بِمَرَضٍ وَلَا خَوْفٍ. لِأَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: ﴿فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ﴾ وَقَالَ: ﴿فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ [الأعراف: 189] فَالْمَرْأَةُ الْحَامِلُ إِذَا أَثْقَلَتْ لَمْ يَجُزْ لَهَا قَضَاءٌ إِلَّا فِي ثُلُثِهَا فَأَوَّلُ الْإِتْمَامِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ. قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾ [البقرة: 233] وَقَالَ: ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾ [الأحقاف: 15] فَإِذَا مَضَتْ لِلْحَامِلِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ مِنْ يَوْمَ حَمَلَتْ لَمْ يَجُزْ لَهَا قَضَاءٌ فِي مَالِهَا إِلَّا فِي الثُّلُثِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح حاملہ بھی اوائل حمل میں جب تک خوشی اور سرور اور صحت سے رہے، نہ مرض ہو نہ خوف، اپنے کل مال میں اختیار رکھے گی۔ اللہ جل جلالہُ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ”ہم نے بشارت دی سارہ کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔“ اور فرمایا اللہ جل جلالہُ نے: ”جب آدمی نے عورت سے جماع کیا تو اس کو حمل ہو گیا، ہلکا ہلکا چلتے پھرتے رہے، جب حمل بھاری ہوا تو دونوں نے دعا کی اللہ سے جو ان کا رب تھا کہ اگر تو ہم کو نیک (یا صحیح وسالم) بچہ دے گا تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔“ پس عورت حاملہ جب بوجھل ہوجائے تو اس وقت تہائی مال سے زیادہ اختیار نہیں رہتا، اور یہ بعد چھ مہینے کے ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”مائیں اپنے بچے کو دو برس کامل دودھ پلائیں جو شخص دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔“ اور پھر فرماتا ہے: ”حمل اور دودھ چھڑائی اس کی تیس مہینے میں ہوتی ہے۔“ تو جب حاملہ پر چھ مہینے گزر جائیں حمل کے روز سے، اس وقت سے اس کا تصرف تہائی مال سے زیادہ میں درست نہ ہو گا۔
قال مالك في الرجل يحضر القتال: إنه إذا زحف في الصف للقتال، لم يجز له ان يقضي في ماله شيئا. إلا في الثلث. وإنه بمنزلة الحامل والمريض المخوف عليه ما كان بتلك الحال. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَحْضُرُ الْقِتَالَ: إِنَّهُ إِذَا زَحَفَ فِي الصَّفِّ لِلْقِتَالِ، لَمْ يَجُزْ لَهُ أَنْ يَقْضِيَ فِي مَالِهِ شَيْئًا. إِلَّا فِي الثُّلُثِ. وَإِنَّهُ بِمَنْزِلَةِ الْحَامِلِ وَالْمَرِيضِ الْمَخُوفِ عَلَيْهِ مَا كَانَ بِتِلْكَ الْحَالِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص صفِ جنگ میں کھڑا ہو، اور لڑائی کو جائے اس کو بھی تہائی مال سے زیادہ اپنے مال میں تصرف درست نہیں، وہ بھی حاملہ اور بیمار کے حکم میں ہے۔