وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر " اشترى راحلة باربعة ابعرة مضمونة عليه يوفيها صاحبها بالربذة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " اشْتَرَى رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ يُوفِيهَا صَاحِبَهَا بِالرَّبَذَةِ"
نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سانڈنی چار اونٹوں کے بدلے میں خریدی، اور یہ ٹھہرایا کہ ان چار اونٹوں کو ربذہ میں بائع کو پہنچائیں گے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: قبل الحديث: 2228Q، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11100، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20801، والشافعي فى «الاُم» برقم: 37/3، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 60»
وحدثني، عن مالك، انه سال ابن شهاب عن " بيع الحيوان اثنين بواحد إلى اجل. فقال: لا باس بذلك" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنْ " بَيْعِ الْحَيَوَانِ اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ. فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ" .
امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے پوچھا کہ ایک جانور کے بدلے میں دو جانور بیچنا، میعاد پر بیچنا درست ہے؟ انہوں نے کہا: کچھ قباحت نہیں۔
. قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، انه لا باس بالجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم يدا بيد، ولا باس بالجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم الجمل بالجمل يدا بيد والدراهم إلى اجل، قال: ولا خير في الجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم الدراهم نقدا والجمل إلى اجل، وإن اخرت الجمل والدراهم لا خير في ذلك ايضا. . قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا بَأْسَ بِالْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ الْجَمَلُ بِالْجَمَلِ يَدًا بِيَدٍ وَالدَّرَاهِمُ إِلَى أَجَلٍ، قَالَ: وَلَا خَيْرَ فِي الْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ الدَّرَاهِمُ نَقْدًا وَالْجَمَلُ إِلَى أَجَلٍ، وَإِنْ أَخَّرْتَ الْجَمَلَ وَالدَّرَاهِمَ لَا خَيْرَ فِي ذَلِكَ أَيْضًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے بدلنے میں کچھ قباحت نہیں، اس طرح ایک اونٹ اور کچھ روپے دے کر دوسرا اونٹ لے لینے میں، اگرچہ اونٹ کو نقد دے اور روپوں کو ادھار رکھے، اور روپے نقد دے اور اونٹ کو ادھار رکھے، یا دونوں کو ادھار رکھے تو بہتر نہیں ہے۔
قال مالك: ولا باس ان يبتاع البعير النجيب بالبعيرين او بالابعرة من الحمولة من ماشية الإبل، وإن كانت من نعم واحدة فلا باس ان يشترى منها اثنان بواحد إلى اجل إذا اختلفت فبان اختلافها، وإن اشبه بعضها بعضا واختلفت اجناسها او لم تختلف فلا يؤخذ منها اثنان بواحد إلى اجل. قَالَ مَالِك: وَلَا بَأْسَ أَنْ يَبْتَاعَ الْبَعِيرَ النَّجِيبَ بِالْبَعِيرَيْنِ أَوْ بِالْأَبْعِرَةِ مِنَ الْحَمُولَةِ مِنْ مَاشِيَةِ الْإِبِلِ، وَإِنْ كَانَتْ مِنْ نَعَمٍ وَاحِدَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى مِنْهَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ إِذَا اخْتَلَفَتْ فَبَانَ اخْتِلَافُهَا، وَإِنْ أَشْبَهَ بَعْضُهَا بَعْضًا وَاخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُهَا أَوْ لَمْ تَخْتَلِفْ فَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر دو تین اونٹ لادنے کے دے کر ایک اونٹ سواری کا خریدے تو کچھ قباحت نہیں، اگر ایک نوع کے جانور جیسے اونٹ یا بیل آپس میں ایسا اختلاف رکھتے ہوں کہ ان میں کھلم کھلا فرق ہو تو ایک جانور دے کر دو جانور خریدنا نقد یا ادھار دونوں طرح سے درست ہے، اگر ایک دوسرے کے مشابہ ہوں خواہ جنس ایک ہو یا مختلف، تو ایک جانور دے کر دو جانور لینا وعدے پر درست نہیں ہے۔
قال مالك: وتفسير ما كره من ذلك: ان يؤخذ البعير بالبعيرين ليس بينهما تفاضل في نجابة ولا رحلة، فإذا كان هذا على ما وصفت لك فلا يشترى منه اثنان بواحد إلى اجل، ولا باس ان تبيع ما اشتريت منها قبل ان تستوفيه من غير الذي اشتريته منه إذا انتقدت ثمنه. قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنْ يُؤْخَذَ الْبَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ لَيْسَ بَيْنَهُمَا تَفَاضُلٌ فِي نَجَابَةٍ وَلَا رِحْلَةٍ، فَإِذَا كَانَ هَذَا عَلَى مَا وَصَفْتُ لَكَ فَلَا يُشْتَرَى مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، وَلَا بَأْسَ أَنْ تَبِيعَ مَا اشْتَرَيْتَ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ تَسْتَوْفِيَهُ مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ إِذَا انْتَقَدْتَ ثَمَنَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونٹ یکساں ہوں ان میں باہم فرق نہ ہو ذات میں اور بوجھ لادنے میں، تو ایسے اونٹوں میں سے دو اونٹ دے کر ایک اونٹ لینا وعدے پر درست نہیں، البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ اونٹ خرید کر قبل قبضہ کرنے کے دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالے جب کہ قیمت اس کی نقد لے لے۔
قال مالك: ومن سلف في شيء من الحيوان إلى اجل مسمى فوصفه وحلاه ونقد ثمنه، فذلك جائز، وهو لازم للبائع والمبتاع على ما وصفا وحليا، ولم يزل ذلك من عمل الناس الجائز بينهم والذي لم يزل عليه اهل العلم ببلدناقَالَ مَالِك: وَمَنْ سَلَّفَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْحَيَوَانِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَوَصَفَهُ وَحَلَّاهُ وَنَقَدَ ثَمَنَهُ، فَذَلِكَ جَائِزٌ، وَهُوَ لَازِمٌ لِلْبَائِعِ وَالْمُبْتَاعِ عَلَى مَا وَصَفَا وَحَلَّيَا، وَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ مِنْ عَمَلِ النَّاسِ الْجَائِزِ بَيْنَهُمْ وَالَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جانور میں سلف کرنا درست ہے جب میعاد معین ہو، اور اس جانور کے اوصاف اور حلیے بیان کردے اور قیمت دے دے، تو بائع کو اسی طرح کے جانور دینے ہوں گے اور مشتری کو لینے ہوں گے، ہمارے شہر کے لوگ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے رہے اور اسی کے قائل رہے۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن بيع حبل الحبلة" . وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية، كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة ثم تنتج التي في بطنهاحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ" . وَكَانَ بَيْعًا يَتَبَايَعُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ الرَّجُلُ يَبْتَاعُ الْجَزُورَ إِلَى أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ ثُمَّ تُنْتَجَ الَّتِي فِي بَطْنِهَا
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا حبل الحبلہ کی بیع سے، یہ بیع ایامِ جاہلیت میں مروج تھی، آدمی اونٹ خریدتا تھا اس وعدے پر کہ جب اونٹنی کا بچہ ہوگا اور پھر بچے کا بچہ اس وقت میں دام لوں گا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2143، 2256، 3843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1514، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4946، 4947، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4629، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6173، 6174، 6175، 6176، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3380، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1229، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2197، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10971، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5307، والحميدي فى «مسنده» برقم: 706، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5653، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 62»
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، انه قال: " لا ربا في الحيوان، وإنما نهي من الحيوان عن ثلاثة: عن المضامين، والملاقيح، وحبل الحبلة. والمضامين: بيع ما في بطون إناث الإبل. والملاقيح: بيع ما في ظهور الجمال" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا رِبًا فِي الْحَيَوَانِ، وَإِنَّمَا نُهِيَ مِنَ الْحَيَوَانِ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ الْمَضَامِينِ، وَالْمَلَاقِيحِ، وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ. وَالْمَضَامِينُ: بَيْعُ مَا فِي بُطُونِ إِنَاثِ الْإِبِلِ. وَالْمَلَاقِيحُ: بَيْعُ مَا فِي ظُهُورِ الْجِمَالِ" .
سعید بن مسیّب نے کہا: حیوان میں ربا نہیں ہے، بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں، ایک مضامین کی، دوسرے ملاقیح کی، تیسرے حبل الحبلہ کی۔ مضامین وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں۔ ملاقیح وہ جانور جو نر کے پشت میں ہیں، حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہو چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10568، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3359، والبزار فى «مسنده» برقم: 7785، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14137، والشافعي فى «الاُم» برقم: 37/3 118 256/7، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 63»
. قال مالك: لا ينبغي ان يشتري احد شيئا من الحيوان بعينه إذا كان غائبا عنه، وإن كان قد رآه ورضيه على ان ينقد ثمنه لا قريبا ولا بعيدا. . قَالَ مَالِك: لَا يَنْبَغِي أَنْ يَشْتَرِيَ أَحَدٌ شَيْئًا مِنَ الْحَيَوَانِ بِعَيْنِهِ إِذَا كَانَ غَائِبًا عَنْهُ، وَإِنْ كَانَ قَدْ رَآهُ وَرَضِيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُدَ ثَمَنَهُ لَا قَرِيبًا وَلَا بَعِيدًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کر چکا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع مشتری سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے، البتہ اگر غیرمعین جانور کو اوصاف بیان کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔