وحدثني، عن مالك، انه سال ابن شهاب عن " بيع الحيوان اثنين بواحد إلى اجل. فقال: لا باس بذلك" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنْ " بَيْعِ الْحَيَوَانِ اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ. فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ" .
امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے پوچھا کہ ایک جانور کے بدلے میں دو جانور بیچنا، میعاد پر بیچنا درست ہے؟ انہوں نے کہا: کچھ قباحت نہیں۔
. قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، انه لا باس بالجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم يدا بيد، ولا باس بالجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم الجمل بالجمل يدا بيد والدراهم إلى اجل، قال: ولا خير في الجمل بالجمل مثله وزيادة دراهم الدراهم نقدا والجمل إلى اجل، وإن اخرت الجمل والدراهم لا خير في ذلك ايضا. . قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا بَأْسَ بِالْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ الْجَمَلُ بِالْجَمَلِ يَدًا بِيَدٍ وَالدَّرَاهِمُ إِلَى أَجَلٍ، قَالَ: وَلَا خَيْرَ فِي الْجَمَلِ بِالْجَمَلِ مِثْلِهِ وَزِيَادَةِ دَرَاهِمَ الدَّرَاهِمُ نَقْدًا وَالْجَمَلُ إِلَى أَجَلٍ، وَإِنْ أَخَّرْتَ الْجَمَلَ وَالدَّرَاهِمَ لَا خَيْرَ فِي ذَلِكَ أَيْضًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے بدلنے میں کچھ قباحت نہیں، اس طرح ایک اونٹ اور کچھ روپے دے کر دوسرا اونٹ لے لینے میں، اگرچہ اونٹ کو نقد دے اور روپوں کو ادھار رکھے، اور روپے نقد دے اور اونٹ کو ادھار رکھے، یا دونوں کو ادھار رکھے تو بہتر نہیں ہے۔
قال مالك: ولا باس ان يبتاع البعير النجيب بالبعيرين او بالابعرة من الحمولة من ماشية الإبل، وإن كانت من نعم واحدة فلا باس ان يشترى منها اثنان بواحد إلى اجل إذا اختلفت فبان اختلافها، وإن اشبه بعضها بعضا واختلفت اجناسها او لم تختلف فلا يؤخذ منها اثنان بواحد إلى اجل. قَالَ مَالِك: وَلَا بَأْسَ أَنْ يَبْتَاعَ الْبَعِيرَ النَّجِيبَ بِالْبَعِيرَيْنِ أَوْ بِالْأَبْعِرَةِ مِنَ الْحَمُولَةِ مِنْ مَاشِيَةِ الْإِبِلِ، وَإِنْ كَانَتْ مِنْ نَعَمٍ وَاحِدَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى مِنْهَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ إِذَا اخْتَلَفَتْ فَبَانَ اخْتِلَافُهَا، وَإِنْ أَشْبَهَ بَعْضُهَا بَعْضًا وَاخْتَلَفَتْ أَجْنَاسُهَا أَوْ لَمْ تَخْتَلِفْ فَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر دو تین اونٹ لادنے کے دے کر ایک اونٹ سواری کا خریدے تو کچھ قباحت نہیں، اگر ایک نوع کے جانور جیسے اونٹ یا بیل آپس میں ایسا اختلاف رکھتے ہوں کہ ان میں کھلم کھلا فرق ہو تو ایک جانور دے کر دو جانور خریدنا نقد یا ادھار دونوں طرح سے درست ہے، اگر ایک دوسرے کے مشابہ ہوں خواہ جنس ایک ہو یا مختلف، تو ایک جانور دے کر دو جانور لینا وعدے پر درست نہیں ہے۔
قال مالك: وتفسير ما كره من ذلك: ان يؤخذ البعير بالبعيرين ليس بينهما تفاضل في نجابة ولا رحلة، فإذا كان هذا على ما وصفت لك فلا يشترى منه اثنان بواحد إلى اجل، ولا باس ان تبيع ما اشتريت منها قبل ان تستوفيه من غير الذي اشتريته منه إذا انتقدت ثمنه. قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنْ يُؤْخَذَ الْبَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ لَيْسَ بَيْنَهُمَا تَفَاضُلٌ فِي نَجَابَةٍ وَلَا رِحْلَةٍ، فَإِذَا كَانَ هَذَا عَلَى مَا وَصَفْتُ لَكَ فَلَا يُشْتَرَى مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ، وَلَا بَأْسَ أَنْ تَبِيعَ مَا اشْتَرَيْتَ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ تَسْتَوْفِيَهُ مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ إِذَا انْتَقَدْتَ ثَمَنَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونٹ یکساں ہوں ان میں باہم فرق نہ ہو ذات میں اور بوجھ لادنے میں، تو ایسے اونٹوں میں سے دو اونٹ دے کر ایک اونٹ لینا وعدے پر درست نہیں، البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ اونٹ خرید کر قبل قبضہ کرنے کے دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالے جب کہ قیمت اس کی نقد لے لے۔
قال مالك: ومن سلف في شيء من الحيوان إلى اجل مسمى فوصفه وحلاه ونقد ثمنه، فذلك جائز، وهو لازم للبائع والمبتاع على ما وصفا وحليا، ولم يزل ذلك من عمل الناس الجائز بينهم والذي لم يزل عليه اهل العلم ببلدناقَالَ مَالِك: وَمَنْ سَلَّفَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْحَيَوَانِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَوَصَفَهُ وَحَلَّاهُ وَنَقَدَ ثَمَنَهُ، فَذَلِكَ جَائِزٌ، وَهُوَ لَازِمٌ لِلْبَائِعِ وَالْمُبْتَاعِ عَلَى مَا وَصَفَا وَحَلَّيَا، وَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ مِنْ عَمَلِ النَّاسِ الْجَائِزِ بَيْنَهُمْ وَالَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ أَهْلُ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جانور میں سلف کرنا درست ہے جب میعاد معین ہو، اور اس جانور کے اوصاف اور حلیے بیان کردے اور قیمت دے دے، تو بائع کو اسی طرح کے جانور دینے ہوں گے اور مشتری کو لینے ہوں گے، ہمارے شہر کے لوگ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے رہے اور اسی کے قائل رہے۔