قال مالك: وكذلك من سلف في صنف من الاصناف، فلا باس ان ياخذ خيرا مما سلف فيه او ادنى بعد محل الاجل، وتفسير ذلك: ان يسلف الرجل في حنطة محمولة فلا باس ان ياخذ شعيرا او شامية، وإن سلف في تمر عجوة، فلا باس ان ياخذ صيحانيا او جمعا، وإن سلف في زبيب احمر، فلا باس ان ياخذ اسود إذا كان ذلك كله بعد محل الاجل إذا كانت مكيلة ذلك سواء بمثل كيل ما سلف فيهقَالَ مَالِك: وَكَذَلِكَ مَنْ سَلَّفَ فِي صِنْفٍ مِنَ الْأَصْنَافِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ خَيْرًا مِمَّا سَلَّفَ فِيهِ أَوْ أَدْنَى بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ، وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ: أَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ فِي حِنْطَةٍ مَحْمُولَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ شَعِيرًا أَوْ شَامِيَّةً، وَإِنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ عَجْوَةٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ صَيْحَانِيًّا أَوْ جَمْعًا، وَإِنْ سَلَّفَ فِي زَبِيبٍ أَحْمَرَ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ أَسْوَدَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ كُلُّهُ بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ إِذَا كَانَتْ مَكِيلَةُ ذَلِكَ سَوَاءً بِمِثْلِ كَيْلِ مَا سَلَّفَ فِيهِ
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان سليمان بن يسار، قال: فني علف حمار سعد بن ابي وقاص، فقال لغلامه: " خذ من حنطة اهلك، فابتع بها شعيرا ولا تاخذ إلا مثله" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، قَالَ: فَنِيَ عَلَفُ حِمَارِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ لِغُلَامِهِ: " خُذْ مِنْ حِنْطَةِ أَهْلِكَ، فَابْتَعْ بِهَا شَعِيرًا وَلَا تَأْخُذْ إِلَّا مِثْلَهُ"
حضرت سلیمان بن یسار نے کہا: سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے گدھے کا چارہ تمام ہو گیا، انہوں نے اپنے غلام سے کہا: گھر میں سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جَو تُلوا لا زیادہ مت لینا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، أخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14190، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 50»
عن سليمان بن يسار، انه اخبره ان عبد الرحمٰن بن الاسود بن عبد يغوث فني علف دابته، فقال لغلامه: خذ من حنطة اهلك طعاما، فابتع بها شعيرا ولا تاخذ إلا مثله. عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَنِيَ عَلَفُ دَابَّتِهِ، فَقَالَ لِغُلَامِهِ: خُذْ مِنْ حِنْطَةِ أَهْلِكَ طَعَامًا، فَابْتَعْ بِهَا شَعِيرًا وَلَا تَأْخُذْ إِلَّا مِثْلَهُ.
حضرت عبدالرحمٰن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہو گیا، انہوں نے اپنے غلام سے کہا: گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جَو تُلوا لا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 52»
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان لا تباع الحنطة بالحنطة، ولا التمر بالتمر، ولا الحنطة بالتمر، ولا التمر بالزبيب، ولا الحنطة بالزبيب، ولا شيء من الطعام كله إلا يدا بيد، فإن دخل شيئا من ذلك الاجل لم يصلح، وكان حراما، ولا شيء من الادم كلها إلا يدا بيد. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنْ لَا تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ، وَلَا التَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَلَا الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ، وَلَا التَّمْرُ بِالزَّبِيبِ، وَلَا الْحِنْطَةُ بِالزَّبِيبِ، وَلَا شَيْءٌ مِنَ الطَّعَامِ كُلِّهِ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ الْأَجَلُ لَمْ يَصْلُحْ، وَكَانَ حَرَامًا، وَلَا شَيْءَ مِنَ الْأُدْمِ كُلِّهَا إِلَّا يَدًا بِيَدٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے، اور کھجور بدلے میں کھجور کے، اور گیہوں بدلے میں کھجور کے، اور کھجور بدلے میں انگور کے، مگر نقداً نقد، کسی طرف میعاد نہ ہو، اگر میعاد ہوگی تو حرام ہو جائے گا، اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقداً نقد لے۔
قال مالك: ولا يباع شيء من الطعام والادم، إذا كان من صنف واحد: اثنان بواحد، فلا يباع مد حنطة بمدي حنطة، ولا مد تمر بمدي تمر، ولا مد زبيب بمدي زبيب، ولا ما اشبه ذلك من الحبوب والادم كلها، إذا كان من صنف واحد، وإن كان يدا بيد، إنما ذلك بمنزلة الورق بالورق، والذهب بالذهب لا يحل في شيء من ذلك الفضل، ولا يحل إلا مثلا بمثل يدا بيد. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يُبَاعُ شَيْءٌ مِنَ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ، إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ: اثْنَانِ بِوَاحِدٍ، فَلَا يُبَاعُ مُدُّ حِنْطَةٍ بِمُدَّيْ حِنْطَةٍ، وَلَا مُدُّ تَمْرٍ بِمُدَّيْ تَمْرٍ، وَلَا مُدُّ زَبِيبٍ بِمُدَّيْ زَبِيبٍ، وَلَا مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْحُبُوبِ وَالْأُدْمِ كُلِّهَا، إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، وَإِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ، إِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ، وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ لَا يَحِلُّ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ الْفَضْلُ، وَلَا يَحِلُّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی، جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلاً ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں، یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں، یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے، اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی، یا روٹی کے ساتھ لگانے کی، جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقداً نقد ہو، جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں بیچے تو کمی بیشی درست نہیں، بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقداً نقد ہوں۔
قال مالك: وإذا اختلف ما يكال او يوزن مما يؤكل او يشرب، فبان اختلافه، فلا باس ان يؤخذ منه اثنان بواحد يدا بيد، ولا باس ان يؤخذ صاع من تمر بصاعين من حنطة، وصاع من تمر بصاعين من زبيب، وصاع من حنطة بصاعين من سمن، فإذا كان الصنفان من هذا مختلفين، فلا باس باثنين منه بواحد او اكثر من ذلك يدا بيد، فإن دخل في ذلك الاجل فلا يحل. قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا اخْتَلَفَ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا يُؤْكَلُ أَوْ يُشْرَبُ، فَبَانَ اخْتِلَافُهُ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ، وَصَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ زَبِيبٍ، وَصَاعٌ مِنْ حِنْطَةٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ سَمْنٍ، فَإِذَا كَانَ الصِّنْفَانِ مِنْ هَذَا مُخْتَلِفَيْنِ، فَلَا بَأْسَ بِاثْنَيْنِ مِنْهُ بِوَاحِدٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَ فِي ذَلِكَ الْأَجَلُ فَلَا يَحِلُّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے، مگر نقداً نقد ہونا چاہیے، جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں، یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے، یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقداً نقد ہوں، میعاد نہ ہو، اگر میعاد ہوگی تو درست نہیں۔ _x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے، یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقداً نقد، کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔
قال مالك: ولا تحل صبرة الحنطة، بصبرة الحنطة، ولا باس بصبرة الحنطة، بصبرة التمر يدا بيد، وذلك انه لا باس ان يشترى الحنطة بالتمر جزافا. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا تَحِلُّ صُبْرَةُ الْحِنْطَةِ، بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ، وَلَا بَأْسَ بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ، بِصُبْرَةِ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ جِزَافًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا جتنی چیزیں کھانے کی، یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں، جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقداً نقد ہو، اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں، جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔