عن سليمان بن يسار، انه اخبره ان عبد الرحمٰن بن الاسود بن عبد يغوث فني علف دابته، فقال لغلامه: خذ من حنطة اهلك طعاما، فابتع بها شعيرا ولا تاخذ إلا مثله. عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَنِيَ عَلَفُ دَابَّتِهِ، فَقَالَ لِغُلَامِهِ: خُذْ مِنْ حِنْطَةِ أَهْلِكَ طَعَامًا، فَابْتَعْ بِهَا شَعِيرًا وَلَا تَأْخُذْ إِلَّا مِثْلَهُ.
حضرت عبدالرحمٰن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہو گیا، انہوں نے اپنے غلام سے کہا: گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جَو تُلوا لا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 52»
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا، ان لا تباع الحنطة بالحنطة، ولا التمر بالتمر، ولا الحنطة بالتمر، ولا التمر بالزبيب، ولا الحنطة بالزبيب، ولا شيء من الطعام كله إلا يدا بيد، فإن دخل شيئا من ذلك الاجل لم يصلح، وكان حراما، ولا شيء من الادم كلها إلا يدا بيد. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، أَنْ لَا تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ، وَلَا التَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَلَا الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ، وَلَا التَّمْرُ بِالزَّبِيبِ، وَلَا الْحِنْطَةُ بِالزَّبِيبِ، وَلَا شَيْءٌ مِنَ الطَّعَامِ كُلِّهِ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ الْأَجَلُ لَمْ يَصْلُحْ، وَكَانَ حَرَامًا، وَلَا شَيْءَ مِنَ الْأُدْمِ كُلِّهَا إِلَّا يَدًا بِيَدٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے، اور کھجور بدلے میں کھجور کے، اور گیہوں بدلے میں کھجور کے، اور کھجور بدلے میں انگور کے، مگر نقداً نقد، کسی طرف میعاد نہ ہو، اگر میعاد ہوگی تو حرام ہو جائے گا، اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقداً نقد لے۔
قال مالك: ولا يباع شيء من الطعام والادم، إذا كان من صنف واحد: اثنان بواحد، فلا يباع مد حنطة بمدي حنطة، ولا مد تمر بمدي تمر، ولا مد زبيب بمدي زبيب، ولا ما اشبه ذلك من الحبوب والادم كلها، إذا كان من صنف واحد، وإن كان يدا بيد، إنما ذلك بمنزلة الورق بالورق، والذهب بالذهب لا يحل في شيء من ذلك الفضل، ولا يحل إلا مثلا بمثل يدا بيد. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يُبَاعُ شَيْءٌ مِنَ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ، إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ: اثْنَانِ بِوَاحِدٍ، فَلَا يُبَاعُ مُدُّ حِنْطَةٍ بِمُدَّيْ حِنْطَةٍ، وَلَا مُدُّ تَمْرٍ بِمُدَّيْ تَمْرٍ، وَلَا مُدُّ زَبِيبٍ بِمُدَّيْ زَبِيبٍ، وَلَا مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْحُبُوبِ وَالْأُدْمِ كُلِّهَا، إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ، وَإِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ، إِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ، وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ لَا يَحِلُّ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ الْفَضْلُ، وَلَا يَحِلُّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی، جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلاً ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں، یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں، یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے، اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی، یا روٹی کے ساتھ لگانے کی، جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقداً نقد ہو، جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں بیچے تو کمی بیشی درست نہیں، بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقداً نقد ہوں۔
قال مالك: وإذا اختلف ما يكال او يوزن مما يؤكل او يشرب، فبان اختلافه، فلا باس ان يؤخذ منه اثنان بواحد يدا بيد، ولا باس ان يؤخذ صاع من تمر بصاعين من حنطة، وصاع من تمر بصاعين من زبيب، وصاع من حنطة بصاعين من سمن، فإذا كان الصنفان من هذا مختلفين، فلا باس باثنين منه بواحد او اكثر من ذلك يدا بيد، فإن دخل في ذلك الاجل فلا يحل. قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا اخْتَلَفَ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا يُؤْكَلُ أَوْ يُشْرَبُ، فَبَانَ اخْتِلَافُهُ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ، وَصَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ زَبِيبٍ، وَصَاعٌ مِنْ حِنْطَةٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ سَمْنٍ، فَإِذَا كَانَ الصِّنْفَانِ مِنْ هَذَا مُخْتَلِفَيْنِ، فَلَا بَأْسَ بِاثْنَيْنِ مِنْهُ بِوَاحِدٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَ فِي ذَلِكَ الْأَجَلُ فَلَا يَحِلُّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے، مگر نقداً نقد ہونا چاہیے، جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں، یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے، یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقداً نقد ہوں، میعاد نہ ہو، اگر میعاد ہوگی تو درست نہیں۔ _x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے، یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقداً نقد، کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔
قال مالك: ولا تحل صبرة الحنطة، بصبرة الحنطة، ولا باس بصبرة الحنطة، بصبرة التمر يدا بيد، وذلك انه لا باس ان يشترى الحنطة بالتمر جزافا. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا تَحِلُّ صُبْرَةُ الْحِنْطَةِ، بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ، وَلَا بَأْسَ بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ، بِصُبْرَةِ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ جِزَافًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا جتنی چیزیں کھانے کی، یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں، جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقداً نقد ہو، اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں، جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔
قال مالك: وكل ما اختلف من الطعام والادم فبان اختلافه، فلا باس ان يشترى بعضه ببعض جزافا يدا بيد، فإن دخله الاجل فلا خير فيه، وإنما اشتراء ذلك جزافا كاشتراء بعض ذلك بالذهب والورق جزافا. قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ مَا اخْتَلَفَ مِنَ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ جِزَافًا يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَهُ الْأَجَلُ فَلَا خَيْرَ فِيهِ، وَإِنَّمَا اشْتِرَاءُ ذَلِكَ جِزَافًا كَاشْتِرَاءِ بَعْضِ ذَلِكَ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ جِزَافًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا، اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ یبچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع نے دیدہ و دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا، تو ہو سکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع وزن چھپا کر بیچے تو مشتری کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے، اور ہمیشہ اہلِ علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔
. قال مالك: وذلك انك تشتري الحنطة بالورق جزافا، والتمر بالذهب جزافا فهذا حلال لا باس به. . قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ أَنَّكَ تَشْتَرِي الْحِنْطَةَ بِالْوَرِقِ جِزَافًا، وَالتَّمْرَ بِالذَّهَبِ جِزَافًا فَهَذَا حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا، یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں، البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔
قال مالك: ومن صبر صبرة طعام، وقد علم كيلها، ثم باعها جزافا وكتم على المشتري كيلها، فإن ذلك لا يصلح، فإن احب المشتري ان يرد ذلك الطعام على البائع رده بما كتمه كيله وغره، وكذلك كل ما علم البائع كيله، وعدده من الطعام، وغيره، ثم باعه جزافا، ولم يعلم المشتري ذلك، فإن المشتري إن احب ان يرد ذلك على البائع رده، ولم يزل اهل العلم ينهون عن ذلك. _x000D_ قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ صَبَّرَ صُبْرَةَ طَعَامٍ، وَقَدْ عَلِمَ كَيْلَهَا، ثُمَّ بَاعَهَا جِزَافًا وَكَتَمَ عَلَى الْمُشْتَرِيَ كَيْلَهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، فَإِنْ أَحَبَّ الْمُشْتَرِي أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ الطَّعَامَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ بِمَا كَتَمَهُ كَيْلَهُ وَغَرَّهُ، وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا عَلِمَ الْبَائِعُ كَيْلَهُ، وَعَدَدَهُ مِنَ الطَّعَامِ، وَغَيْرِهِ، ثُمَّ بَاعَهُ جِزَافًا، وَلَمْ يَعْلَمِ الْمُشْتَرِي ذَلِكَ، فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ إِنْ أَحَبَّ أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْ ذَلِكَ. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک مُد زبد اور ایک مُد لبن کو دو مُد زبد کے بدلے میں لینا درست نہیں، کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کو شریک کر کے برابر کر لی، اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئلہ اوپر بیان ہوچکا۔
قال مالك: ولا خير في الخبز قرص بقرصين، ولا عظيم بصغير، إذا كان بعض ذلك اكبر من بعض، فاما إذا كان يتحرى ان يكون مثلا بمثل فلا باس به وإن لم يوزن. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا خَيْرَ فِي الْخُبْزِ قُرْصٍ بِقُرْصَيْنِ، وَلَا عَظِيمٍ بِصَغِيرٍ، إِذَا كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ أَكْبَرَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَمَّا إِذَا كَانَ يُتَحَرَّى أَنْ يَكُونَ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يُوزَنْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگرآٹے کو گیہوں کے بدلے میں برابر بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔ اگر آدھا مُد گیہوں اور آدھا مُد آٹا ہو اس کو ایک مُد گیہوں بدلے میں بیچے تو درست نہیں، کیونکہ اس نے اپنے گیہوں کی عمدگی آٹا شریک کر کے برابر کرلی۔
قال مالك: والدقيق بالحنطة مثلا بمثل لا باس به، وذلك لانه اخلص الدقيق فباعه بالحنطة مثلا بمثل، ولو جعل نصف المد من دقيق، ونصفه من حنطة فباع ذلك بمد من حنطة، كان ذلك مثل الذي وصفنا لا يصلح، لانه إنما اراد ان ياخذ فضل حنطته الجيدة حتى جعل معها الدقيق فهذا لا يصلح.قَالَ مَالِكٌ: وَالدَّقِيقُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا بَأْسَ بِهِ، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَخْلَصَ الدَّقِيقَ فَبَاعَهُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَوْ جَعَلَ نِصْفَ الْمُدِّ مِنْ دَقِيقٍ، وَنِصْفَهُ مِنْ حِنْطَةٍ فَبَاعَ ذَلِكَ بِمُدٍّ مِنْ حِنْطَةٍ، كَانَ ذَلِكَ مِثْلَ الَّذِي وَصَفْنَا لَا يَصْلُحُ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ فَضْلَ حِنْطَتِهِ الْجَيِّدَةِ حَتَّى جَعَلَ مَعَهَا الدَّقِيقَ فَهَذَا لَا يَصْلُحُ.