موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: نذروں کے بیان میں
3. بَابُ الْعَمَلِ فِي الْمَشْيِ إِلَى الْكَعْبَةِ
3. کعبہ کی طرف پیدل چلنے کا بیان
حدیث نمبر: 1015Q1
Save to word اعراب
قال مالك: ان احسن ما سمعت من اهل العلم في الرجل يحلف بالمشي إلى بيت اللٰه. او المراة. فيحنث او تحنث. انه إن مشى الحالف منهما في عمرة فإنه يمشي حتى يسعى بين الصفا والمروة. فإذا سعى فقد فرغ. وانه إن جعل على نفسه مشيا في الحج، فإنه يمشي حتى ياتي مكة. ثم يمشي حتى يفرغ من المناسك كلها. ولا يزال ماشيا حتى يفيض.قَالَ مَالِكٌ: أَنَّ أَحْسَنَ مَا سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَحْلِفُ بِالْمَشْيِ إِلَى بَيْتِ اللّٰهِ. أَوِ الْمَرْأَةِ. فَيَحْنَثُ أَوْ تَحْنَثُ. أَنَّهُ إِنْ مَشَى الْحَالِفُ مِنْهُمَا فِي عُمْرَةٍ فَإِنَّهُ يَمْشِي حَتَّى يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. فَإِذَا سَعَى فَقَدْ فَرَغَ. وَأَنَّهُ إِنْ جَعَلَ عَلَى نَفْسِهِ مَشْيًا فِي الْحَجِّ، فَإِنَّهُ يَمْشِي حَتَّى يَأْتِيَ مَكَّةَ. ثُمَّ يَمْشِي حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الْمَنَاسِكِ كُلِّهَا. وَلَا يَزَالُ مَاشِيًا حَتَّى يُفِيضَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے یہ پسند ہے جو میں نے سنا اہلِ علم سے کہ اگر مرد یا عورت قسم کھائے کعبہ شریف کو پیدل جانے کی، پھر قسم اس کی ٹوٹے اور اس کو پیدل جانا کعبہ کا لازم آئے، تو عمرہ میں جب تک سعی سے فارغ ہو پیدل چلے، اور حج میں جب تک طوافِ زیارت سے فارغ ہو پیدل چلے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 5»
حدیث نمبر: 1015Q2
Save to word اعراب
قال مالك: ولا يكون مشي إلا في حج او عمرة. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَكُونُ مَشْيٌ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ.
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: پیدل چلنے کی نذر دو ہی چیزوں میں ہوتی ہے، حج یا عمرے میں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 5»
4. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ النُّذُورِ فِي مَعْصِيَةِ اللّٰهِ
4. جو نذریں درست نہیں جن میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے ان کا بیان
حدیث نمبر: 1015
Save to word اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن حميد بن قيس ، وثور بن زيد الديلي انهما اخبراه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدهما يزيد في الحديث على صاحبه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا قائما في الشمس، فقال:" ما بال هذا؟" فقالوا: نذر ان لا يتكلم ولا يستظل من الشمس، ولا يجلس ويصوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مروه فليتكلم، وليستظل وليجلس وليتم صيامه" .حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ ، وَثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَحَدُهُمَا يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ عَلَى صَاحِبِهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا قَائِمًا فِي الشَّمْسِ، فَقَالَ:" مَا بَالُ هَذَا؟" فَقَالُوا: نَذَرَ أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ وَلَا يَسْتَظِلَّ مِنَ الشَّمْسِ، وَلَا يَجْلِسَ وَيَصُومَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرُوهُ فَلْيَتَكَلَّمْ، وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَجْلِسْ وَلْيُتِمَّ صِيَامَهُ" .
حضرت حمید بن قیس اور ثور بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا ہوا دیکھا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا باعث پوچھا! لوگوں نے کہا: اس نے نذر کی ہے کہ میں کسی سے بات نہ کروں گا، نہ سایہ لوں گا، نہ بیٹھوں گا، اور روزہ سے رہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو حکم کرو بات کرے، سایہ میں آئے، بیٹھے، روزہ اپنا پورا کرے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6704، وأبو داود: 3300، وابن ماجه: 2136، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17673، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 6»
حدیث نمبر: 1015B1
Save to word اعراب
قال مالك: ولم اسمع ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امره بكفارة، وقد امره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتم ما كان لله طاعة، ويترك ما كان لله معصية قَالَ مَالِك: وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ بِكَفَّارَةٍ، وَقَدْ أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتِمَّ مَا كَانَ لِلَّهِ طَاعَةً، وَيَتْرُكَ مَا كَانَ لِلَّهِ مَعْصِيَةً
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کفارہ دینے کا حکم کیا ہو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عبادت ہے اس کو پورا کرے اور جو بُرا ہے اس کو ترک کرے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 6ق»
حدیث نمبر: 1016
Save to word اعراب
مالك، عن يحيى بن سعيد، عن القاسم بن محمد، انه سمعه يقول: اتت امراة إلى عبد الله بن عباس، فقالت: إني نذرت ان انحر ابني، فقال ابن عباس: لا تنحري ابنك، وكفري عن يمينك، فقال شيخ عند ابن عباس: وكيف يكون في هذا كفارة؟ فقال ابن عباس: إن الله قال: «‏‏‏‏الذين يظاهرون منكم من نسائهم» ‏‏‏‏ (58-المجادلة:2)ثم جعل فيه من الكفارة ما رايت.مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ ابْنِي، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تَنْحَرِي ابْنَكِ، وَكَفِّرِي عَنْ يَمِينِكِ، فَقَالَ شَيْخٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ: وَكَيْفَ يَكُونُ فِي هَذَا كَفَّارَةٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللهَ قَالَ: «‏‏‏‏الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ» ‏‏‏‏ (58-المجادلة:2)ثُمَّ جَعَلَ فِيهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ مَا رَأَيْتَ.
قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک عورت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آکر کہنے لگی کہ بے شک میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اپنے بیٹے کو قربان کروں گی تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تو اپنے بیٹے کو نحر (ذبح) نہ کر اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما پاس موجود ایک بزرگ کہنے لگے کہ بھلا اس صورت میں کفارہ کیسے پڑے گا (یہ تو معصیت کی نذر ہے اور وہ تو لغو شمار ہوتی ہے) تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «‏‏‏‏الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ» ‏‏‏‏ (58-المجادلة:2) وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں۔ (ظہار کرنا بھی ایک معصیت ہے) پھر اللہ نے اس میں بھی وہ کفارہ مقرر کیا ہے جو تمہیں معلوم ہی ہے۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20079، 20136، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 4070، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4333، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15903، 15906، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12514، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 7»
حدیث نمبر: 1017
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن طلحة بن عبد الملك الايلي ، عن القاسم بن محمد ابن الصديق ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من نذر ان يطيع الله فليطعه، ومن نذر ان يعصي الله فلا يعصه" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأَيْلِيِّ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ابْنِ الصِّدِّيقِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلَا يَعْصِهِ" .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال ہوا: ایک شخص نے کہا: مال میرا کعبہ کے دروازے پر وقف ہے۔ انہوں نے کہا: اس میں کفارہ قسم کا لازم آئے گا۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6696، 6700، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2241، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4387، 4388، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3817، 3818، 3819، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4729، 4730، 4731، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3289، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1526، 1526 م، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2383، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2126، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18920، 20116، 20147، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24709، 24775، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 8»
حدیث نمبر: 1017B1
Save to word اعراب
قال يحيى: سمعت مالكا يقول: معنى قول رسول الله صلى الله عليه وسلم من نذر ان يعصي الله فلا يعصه، إن نذر ان يمشي إلى الشام، او إلى مصر، او إلى الربذة، او ما اشبه ذلك، مما ليس لله بطاعة، إن كلم فلانا، او ما اشبه ذلك، فليس عليه في شيء من ذلك شيء، إن هو كلمه، او حنث بما حلف عليه؛ لانه ليس لله في هذه الاشياء طاعة، وإنما يوفى لله بما له فيه طاعة. قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: مَعْنَى قَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللهَ فَلَا يَعْصِهِ، إِنْ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الشَّأْمِ، أَوْ إِلَى مِصْرَ، أَوْ إِلَى الرَّبَذَةِ، أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، مِمَّا لَيْسَ لِلهِ بِطَاعَةٍ، إِنْ كَلَّمَ فُلَانًا، أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ، إِنْ هُوَ كَلَّمَهُ، أَوْ حَنِثَ بِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ لِلهِ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ طَاعَةٌ، وَإِنَّمَا يُوَفَّى لِلهِ بِمَا لَهُ فِيهِ طَاعَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جو فرمان ہے کہ: جس نے یہ نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص یہ نذر مان لے کہ وہ ملک شام یا مصر یا ربذہ یا ان جیسی کسی جگہ کی طرف پیدل چل کر جائے گا، وہ (جگہیں) کہ جن (تک پیدل جانے) میں اللہ کی اطاعت نہیں ہے، (اور وہ اس طرح کی نذر ماننے سے پہلے یہ کہتا ہے کہ) اگر اس نے فلاں شخص سے کلام کیا یا اس کے مشابہہ کوئی اور بات کہی (تو مصر یا شام وغیرہ تک پیدل جاؤں گا)، چنانچہ اگر وہ اس سے کلام کرلے یا جس بات پر قسم اٹھائی تھی اس (کے خلاف عمل کرکے اس) کو توڑ دے تو اس پر ان میں سے کسی بھی چیز میں کچھ بھی لازم نہ ہوگا کیونکہ ان اشیاء میں اللہ کی اطاعت نہیں ہے اور اللہ کے لئے تو اس چیز کو پورا کیا جاتا ہے جس میں اس کی اطاعت ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 8»
5. بَابُ اللَّغْوِ فِي الْيَمِينِ
5. لغو قسم کا بیان
حدیث نمبر: 1018
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ام المؤمنين، انها كانت تقول: " لغو اليمين قول الإنسان: لا والله، وبلى والله" .حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: " لَغْوُ الْيَمِينِ قَوْلُ الْإِنْسَانِ: لَا وَاللَّهِ، وَبَلَى وَاللَّهِ" .
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ لغو قسم وہ ہے جو آدمی باتوں میں کہتا ہے (جیسے) نہیں واللہ، ہاں واللہ۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4613، وأبو داود: 3254، والنسائی فى «الكبريٰ» برقم: 11149، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 9»
حدیث نمبر: 1018B1
Save to word اعراب
قال مالك: احسن ما سمعت في هذا، ان اللغو حلف الإنسان على الشيء يستيقن انه كذلك، ثم يوجد على غير ذلك فهو اللغو قَالَ مَالِك: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي هَذَا، أَنَّ اللَّغْوَ حَلِفُ الْإِنْسَانِ عَلَى الشَّيْءِ يَسْتَيْقِنُ أَنَّهُ كَذَلِكَ، ثُمَّ يُوجَدُ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ اللَّغْوُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قسم کی تین قسمیں ہیں:
ایک لغو قسم وہ ہے کہ آدمی ایک بات کو سچ جان کر اس پر قسم کھائے، پھر اس کے خلاف نکلے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 9»
حدیث نمبر: 1018B2
Save to word اعراب
قال مالك: وعقد اليمين ان يحلف الرجل ان لا يبيع ثوبه بعشرة دنانير، ثم يبيعه بذلك او يحلف ليضربن غلامه، ثم لا يضربه ونحو هذا فهذا الذي يكفر صاحبه عن يمينه، وليس في اللغو كفارة قَالَ مَالِك: وَعَقْدُ الْيَمِينِ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَبِيعَ ثَوْبَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، ثُمَّ يَبِيعَهُ بِذَلِكَ أَوْ يَحْلِفَ لَيَضْرِبَنَّ غُلَامَهُ، ثُمَّ لَا يَضْرِبُهُ وَنَحْوَ هَذَا فَهَذَا الَّذِي يُكَفِّرُ صَاحِبُهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَلَيْسَ فِي اللَّغْوِ كَفَّارَةٌ
دوسرے منعقدہ قسم ہے جو آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر کھائے، مثلاً یوں کہے: قسم اللہ کی میں اپنا کپڑا دس دینار کو نہ بیچوں گا، پھر بیچ ڈالے یا قسم اللہ کی میں اس کے غلام کو ماروں گا، پھر اس کو نہ مارے۔ اس قسم پر کفارہ لازم آتا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 9»

Previous    1    2    3    4    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.