مالك، عن يحيى بن سعيد، عن القاسم بن محمد، انه سمعه يقول: اتت امراة إلى عبد الله بن عباس، فقالت: إني نذرت ان انحر ابني، فقال ابن عباس: لا تنحري ابنك، وكفري عن يمينك، فقال شيخ عند ابن عباس: وكيف يكون في هذا كفارة؟ فقال ابن عباس: إن الله قال: «الذين يظاهرون منكم من نسائهم» (58-المجادلة:2)ثم جعل فيه من الكفارة ما رايت.مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ ابْنِي، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تَنْحَرِي ابْنَكِ، وَكَفِّرِي عَنْ يَمِينِكِ، فَقَالَ شَيْخٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ: وَكَيْفَ يَكُونُ فِي هَذَا كَفَّارَةٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللهَ قَالَ: «الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ» (58-المجادلة:2)ثُمَّ جَعَلَ فِيهِ مِنَ الْكَفَّارَةِ مَا رَأَيْتَ.
قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک عورت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آکر کہنے لگی کہ بے شک میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اپنے بیٹے کو قربان کروں گی تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تو اپنے بیٹے کو نحر (ذبح) نہ کر اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما پاس موجود ایک بزرگ کہنے لگے کہ بھلا اس صورت میں کفارہ کیسے پڑے گا (یہ تو معصیت کی نذر ہے اور وہ تو لغو شمار ہوتی ہے) تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ» (58-المجادلة:2)”وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں“۔ (ظہار کرنا بھی ایک معصیت ہے) پھر اللہ نے اس میں بھی وہ کفارہ مقرر کیا ہے جو تمہیں معلوم ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20079، 20136، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 4070، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4333، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15903، 15906، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12514، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 7»