قال مالك، في رجل وقع بامراته في الحج ما بينه وبين ان يدفع من عرفة، ويرمي الجمرة: إنه يجب عليه الهدي وحج قابل، قال: فإن كانت إصابته اهله بعد رمي الجمرة، فإنما عليه ان يعتمر ويهدي، وليس عليه حج قابل. قَالَ مَالِك، فِي رَجُلٍ وَقَعَ بِامْرَأَتِهِ فِي الْحَجِّ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَنْ يَدْفَعَ مِنْ عَرَفَةَ، وَيَرْمِيَ الْجَمْرَةَ: إِنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِ الْهَدْيُ وَحَجُّ قَابِلٍ، قَالَ: فَإِنْ كَانَتْ إِصَابَتُهُ أَهْلَهُ بَعْدَ رَمْيِ الْجَمْرَةِ، فَإِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَعْتَمِرَ وَيُهْدِيَ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ حَجُّ قَابِلٍ.
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص نے صحبت کی اپنی عورت سے عرفات سے لوٹنے کے بعد اور کنکریاں مارنے سے پہلے تو اس پر ہدی واجب ہوگی اور سال آئندہ پھرحج کر نا ہو گا۔ اگر بعد کنکریاں مارنے کے (قبل طواف الزیارۃ کے) جماع کیا تو اس پر ایک عمرہ اور ایک ہدی لازم ہو گی، اور سال آئندہ حج کرنا ضروری نہیں۔
قال مالك: والذي يفسد الحج او العمرة، حتى يجب عليه في ذلك الهدي في الحج او العمرة، التقاء الختانين، وإن لم يكن ماء دافق، قال: ويوجب ذلك ايضا الماء الدافق إذا كان من مباشرة، فاما رجل ذكر شيئا حتى خرج منه ماء دافق، فلا ارى عليه شيئا. قَالَ مَالِك: وَالَّذِي يُفْسِدُ الْحَجَّ أَوِ الْعُمْرَةَ، حَتَّى يَجِبَ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ الْهَدْيُ فِي الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ، الْتِقَاءُ الْخِتَانَيْنِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَاءٌ دَافِقٌ، قَالَ: وَيُوجِبُ ذَلِكَ أَيْضًا الْمَاءُ الدَّافِقُ إِذَا كَانَ مِنْ مُبَاشَرَةٍ، فَأَمَّا رَجُلٌ ذَكَرَ شَيْئًا حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ مَاءٌ دَافِقٌ، فَلَا أَرَى عَلَيْهِ شَيْئًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فر مایا کہ حج یا عمرہ اس صحبت سے فاسد ہوتا ہے جس میں دخول ہو جائے اگرچہ انزال نہ ہو۔ اور جو انزال ہو مباشرت سے بدون دخول کے، جب بھی حج فاسد ہو گا۔ لیکن اگر کسی شخص نے دل میں کچھ خیال کیا اور انزال ہو گیا تو اس پر کچھ واجب نہ ہو گا۔
قال مالك: ولو ان رجلا قبل امراته، ولم يكن من ذلك ماء دافق، لم يكن عليه في القبلة إلا الهدي۔ قَالَ مَالِك: وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا قَبَّلَ امْرَأَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ ذَلِكَ مَاءٌ دَافِقٌ، لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ فِي الْقُبْلَةِ إِلَّا الْهَدْيُ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فر مایا کہ اگر کسی شخص نے بوسہ لیا اپنی عورت کا اور انزال نہ ہوا تو اس پر ہدی لازم ہو گی۔ ایک بکری بھی کافی ہو جائے گی۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس عورت سے اس کے خاوند نے جماع کیا کئی مرتبہ اس کی رضامندی سے، اور عورت احرام باندھے تھی حج کا، تو عورت پر قضا اس حج کی سال آئندہ میں اور ہدی واجب ہوگی، اور جو عورت عمرہ کا احرام باندھے تھی تو اس پر قضا اس عمرہ کی اور ہدی واجب ہوگی۔
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه قال: اخبرني سليمان بن يسار ، ان ابا ايوب الانصاري خرج حاجا حتى إذا كان بالنازية من طريق مكة اضل رواحله، وإنه قدم على عمر بن الخطاب يوم النحر فذكر ذلك له، فقال عمر : " اصنع كما يصنع المعتمر، ثم قد حللت فإذا ادركك الحج قابلا فاحجج، واهد ما استيسر من الهدي" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ خَرَجَ حَاجًّا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالنَّازِيَةِ مِنْ طَرِيقِ مَكَّةَ أَضَلَّ رَوَاحِلَهُ، وَإِنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَوْمَ النَّحْرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ عُمَرُ : " اصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْمُعْتَمِرُ، ثُمَّ قَدْ حَلَلْتَ فَإِذَا أَدْرَكَكَ الْحَجُّ قَابِلًا فَاحْجُجْ، وَأَهْدِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ"
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ حج کرنے کو نکلے، جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں (نازیہ ایک مقام کا نام ہے قریب صفرا وادی کے) تو ان کا اونٹ گم ہو گیا، سو آئے وہ مکہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس دسویں تاریخ کو ذی الحجہ کی اور بیان کیا ان سے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عمرہ کرے (یعنی طواف اور سعی جو عمرہ کے ارکان ہیں کر لے) اور احرام کھول ڈال، پھر سال آئندہ حج کے دن آئیں تو حج کر اور ہدی دے موافق اپنی طاقت کے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9821، 9822، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3133، والشافعي فى «الاُم» برقم: 166/2، والشافعي فى «المسنده» برقم: 596/1، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 153»
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، عن سليمان بن يسار ، ان هبار بن الاسود جاء يوم النحر، وعمر بن الخطاب ينحر هديه، فقال: يا امير المؤمنين اخطانا العدة كنا نرى ان هذا اليوم يوم عرفة، فقال عمر : " اذهب إلى مكة، فطف انت ومن معك، وانحروا هديا إن كان معكم، ثم احلقوا او قصروا، وارجعوا فإذا كان عام قابل فحجوا واهدوا، فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجع" . وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ هَبَّارَ بْنَ الْأَسْوَدِ جَاءَ يَوْمَ النَّحْرِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَنْحَرُ هَدْيَهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَخْطَأْنَا الْعِدَّةَ كُنَّا نَرَى أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمُ عَرَفَةَ، فَقَالَ عُمَرُ : " اذْهَبْ إِلَى مَكَّةَ، فَطُفْ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ، وَانْحَرُوا هَدْيًا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ، ثُمَّ احْلِقُوا أَوْ قَصِّرُوا، وَارْجِعُوا فَإِذَا كَانَ عَامٌ قَابِلٌ فَحُجُّوا وَأَهْدُوا، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ" .
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ہبار بن اسود آئے یوم النحر کو اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نحر کر رہے تھے اپنی ہدی کا، تو کہا انہوں نے: اے امیر المؤمنین! ہم نے تاریخ کے شمار میں غلطی کی، ہم سمجھتے تھے کہ آج کا روز عرفہ کا روز ہے (یعنی آج نویں تاریخ ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مکہ کو جاؤ اور تم اور تمہارے ساتھی سب طواف کرو، اگر کوئی ہدی تمہارے ساتھ ہو تو اس کو نحر کر ڈالو، پھر حلق کرو یا قصر، اور لوٹ جاؤ اپنے وطن کو، سال آئندہ آؤ اور حج کرو اور ہدی دو، جس کو ہدی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے جب لوٹے تب رکھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9930، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3134، 3135، والشافعي فى «الاُم» برقم: 166/2، والشافعي فى «المسنده» برقم: 596/1، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 154»
قال مالك: ومن قرن الحج والعمرة، ثم فاته الحج فعليه ان يحج قابلا، ويقرن بين الحج والعمرة، ويهدي هديين: هديا لقرانه الحج مع العمرة، وهديا لما فاته من الحجقَالَ مَالِك: وَمَنْ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، ثُمَّ فَاتَهُ الْحَجُّ فَعَلَيْهِ أَنْ يَحُجَّ قَابِلًا، وَيَقْرُنُ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، وَيُهْدِي هَدْيَيْنِ: هَدْيًا لِقِرَانِهِ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ، وَهَدْيًا لِمَا فَاتَهُ مِنَ الْحَجِّ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے قِران کیا، پھر اس کو حج نہ ملا تو وہ سال آئندہ بھی قران کرے، اور دو ہدی دے، ایک قران کی اور ایک حج کے فوت ہو جانے کی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے صحبت کی اپنی بیوی سے اور وہ منیٰ میں تھا، قبل طواف الزیارۃ کے؟ تو حکم کیا اس کو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ نحر کرنے کا۔