وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " إذا نتجت الناقة، فليحمل ولدها حتى ينحر معها، فإن لم يوجد له محمل، حمل على امه، حتى ينحر معها" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " إِذَا نُتِجَتِ النَّاقَةُ، فَلْيُحْمَلْ وَلَدُهَا حَتَّى يُنْحَرَ مَعَهَا، فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ لَهُ مَحْمَلٌ، حُمِلَ عَلَى أُمِّهِ، حَتَّى يُنْحَرَ مَعَهَا"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جب جنے اونٹنی ہدی کی تو اس کے بچے کو بھی ساتھ لے چلیں اور اپنی ماں کے ساتھ قربانی کریں، اگر اس کے لے چلنے کے لیے کوئی سواری نہ ہو تو اپنی ماں پر سوار کر دیا جائے تاکہ اس کے ساتھ نحر کیا جائے۔
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، ان اباه ، قال: " إذا اضطررت إلى بدنتك، فاركبها ركوبا غير فادح، وإذا اضطررت إلى لبنها فاشرب بعد ما يروى فصيلها، فإذا نحرتها، فانحر، فصيلها معها" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ ، قَالَ: " إِذَا اضْطُرِرْتَ إِلَى بَدَنَتِكَ، فَارْكَبْهَا رُكُوبًا غَيْرَ فَادِحٍ، وَإِذَا اضْطُرِرْتَ إِلَى لَبَنِهَا فَاشْرَبْ بَعْدَ مَا يَرْوَى فَصِيلُهَا، فَإِذَا نَحَرْتَهَا، فَانْحَرْ، فَصِيلَهَا مَعَهَا"
حضرت ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ حضرت عروہ رحمہ اللہ کہتے تھے کہ اگر تجھ کو احتیاج پڑے تو اپنی ہدی پر سوار ہو جا، مگر نہ ایسا کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے، اور جب ضرورت ہو تجھ کو اس کے دودھ کی تو پی لے جب بچہ اس کا سیر ہو جائے۔ پھر جب تو اس کو نحر کرے تو اس کے بچے کو بھی اس کے ساتھ نحر کرے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10212، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15150، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 3751، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 144»
حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر " انه كان إذا اهدى هديا من المدينة، قلده واشعره بذي الحليفة، يقلده قبل ان يشعره. وذلك في مكان واحد، وهو موجه للقبلة، يقلده بنعلين، ويشعره من الشق الايسر، ثم يساق معه، حتى يوقف به مع الناس بعرفة، ثم يدفع به معهم إذا دفعوا، فإذا قدم منى غداة النحر نحره قبل ان يحلق، او يقصر، وكان هو ينحر هديه بيده، يصفهن قياما، ويوجههن إلى القبلة، ثم ياكل ويطعم" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ " أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَهْدَى هَدْيًا مِنْ الْمَدِينَةِ، قَلَّدَهُ وَأَشْعَرَهُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، يُقَلِّدُهُ قَبْلَ أَنْ يُشْعِرَهُ. وَذَلِكَ فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ، وَهُوَ مُوَجَّهٌ لِلْقِبْلَةِ، يُقَلِّدُهُ بِنَعْلَيْنِ، وَيُشْعِرُهُ مِنَ الشِّقِّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ يُسَاقُ مَعَهُ، حَتَّى يُوقَفَ بِهِ مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، ثُمَّ يَدْفَعُ بِهِ مَعَهُمْ إِذَا دَفَعُوا، فَإِذَا قَدِمَ مِنًى غَدَاةَ النَّحْرِ نَحَرَهُ قَبْلَ أَنْ يَحْلِقَ، أَوْ يُقَصِّرَ، وَكَانَ هُوَ يَنْحَرُ هَدْيَهُ بِيَدِهِ، يَصُفُّهُنَّ قِيَامًا، وَيُوَجِّهُهُنَّ إِلَى الْقِبْلَةِ، ثُمَّ يَأْكُلُ وَيُطْعِمُ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ہدی لے جاتے مدینہ سے تو تقلید کرتے اس کی (تقلید کے معنی گلے میں کچھ لٹکانے کے ہیں)، اور اشعار کرتے تھے اس کا ذوالحلیفہ میں (اشعار ایک طرف سے اونٹ کا کوہان چیر کر خون بہا دینا)، مگر تقلید اشعار سے پہلے کرتے، لیکن دونوں ایک ہی مقام میں کرتے اس طرح پر کہ ہدی کا منہ قبلہ کی طرف کر کے پہلے اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دیتے، پھر اشعار کرتے بائیں طرف سے، اور ہدی کو اپنے ساتھ لے جاتے یہاں تک کہ عرفہ کے روز عرفات میں بھی سب لوگوں کے ساتھ رہتے، پھر جب لوگ لوٹتے تو ہدی بھی لوٹ کر آتی، جب منیٰ میں صبح کو یوم النحر میں پہنچتے تو اس کو نحر کرتے قبل حلق یا قصر کے۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی ہدی کو آپ نحر کرتے۔ ان کو کھڑا کرتے صف باندھ کر، منہ ان کا قبلہ کی طرف کرتے، پھر ان کو نحر کرتے۔ اور ان کا گوشت آپ بھی کھاتے اور دوسروں کا بھی کھلاتے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10171، 10286، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13373، 13714، 15206، 15728، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 145»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر كان إذا طعن في سنام هديه وهو يشعره، قال: " بسم الله، والله اكبر" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا طَعَنَ فِي سَنَامِ هَدْيِهِ وَهُوَ يُشْعِرُهُ، قَالَ: " بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب اپنی ہدی کے کوہان میں زخم لگاتے شعار کے لیے تو کہتے: اللہ کے نام سے جو بڑا ہے۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " الهدي ما قلد، واشعر، ووقف به بعرفة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " الْهَدْيُ مَا قُلِّدَ، وَأُشْعِرَ، وَوُقِفَ بِهِ بِعَرَفَةَ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ ہدی وہ جانور ہے جس کی تقلید اور اشعار ہو، اور کھڑا کیا جائے عرفات میں۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ،" ان عبد الله بن عمر كان يجلل بدنه القباطي والانماط والحلل، ثم يبعث بها إلى الكعبة، فيكسوها إياها" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ،" أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُجَلِّلُ بُدْنَهُ الْقُبَاطِيَّ وَالْأَنْمَاطَ وَالْحُلَلَ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهَا إِلَى الْكَعْبَةِ، فَيَكْسُوهَا إِيَّاهَا"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اونٹوں کو جو ہدی کے ہوتے تھے، مصری کپڑے اور چارجامی اور جوڑے اوڑھاتے تھے (بعد قربانی کے)، ان کپڑوں کو بھیج دیتے تھے کعبہ شریف اوڑھانے کو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10185، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16066، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 146»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، انه سال عبد الله بن دينار ما كان عبد الله بن عمر يصنع بجلال بدنه حين كسيت الكعبة هذه الكسوة، قال:" كان يتصدق بها" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ مَا كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَصْنَعُ بِجِلَالِ بُدْنِهِ حِينَ كُسِيَتْ الْكَعْبَةُ هَذِهِ الْكِسْوَةَ، قَالَ:" كَانَ يَتَصَدَّقُ بِهَا"
امام مالک رحمہ اللہ نے پوچھا حضرت عبداللہ بن دینار سے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اونٹ کی جھول کو کیا کرتے تھے جب کعبہ شریف کا غلاف بن گیا تھا؟ انہوں نے کہا: صدقہ میں دے دیتے تھے۔
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " في الضحايا والبدن الثني فما فوقه" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " فِي الضَّحَايَا وَالْبُدْنِ الثَّنِيُّ فَمَا فَوْقَهُ"
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: قربانی کے لیے پانچ برس یا زیادہ کا اونٹ ہونا چاہیے۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر " كان لا يشق جلال بدنه، ولا يجللها، حتى يغدو من منى إلى عرفة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " كَانَ لَا يَشُقُّ جِلَالَ بُدْنِهِ، وَلَا يُجَلِّلُهَا، حَتَّى يَغْدُوَ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ"
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اونٹوں کے جھول نہیں پھاڑتے تھے اور نہ جھول پہناتے تھے یہاں تک کہ منیٰ سے جاتے عرفہ کو۔