وقال مالك: يدخل المعتكف المكان الذي يريد ان يعتكف فيه قبل غروب الشمس من الليلة التي يريد ان يعتكف فيها، حتى يستقبل باعتكافه اول الليلة التي يريد ان يعتكف فيها وَقَالَ مَالِك: يَدْخُلُ الْمُعْتَكِفُ الْمَكَانَ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ مِنَ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهَا، حَتَّى يَسْتَقْبِلَ بِاعْتِكَافِهِ أَوَّلَ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: معتکف کو سوا اپنے اعتکاف کے دوسرا شغل مثل تجارت وغیرہ کے درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کام کی ضرورت ہو تو اپنے لوگوں سے کہہ سکتا ہے، مثلاً کوئی بات متعلق ہو اپنے پیشہ یا تجارت کے یا خانگی کوئی کام ہو یا کوئی چیز بیچنا ہو یا کچھ کام، تو دوسروں سے کہہ سکتا ہے اس طرح پر کہ دل اس کا اس میں مشغول نہ ہو جائے، اور وہ کام خفیف ہو۔
والمعتكف مشتغل باعتكافه لا يعرض لغيره مما يشتغل به من التجارات او غيرها، ولا باس بان يامر المعتكف ببعض حاجته بضيعته ومصلحة اهله، وان يامر ببيع ماله او بشيء لا يشغله في نفسه، فلا باس بذلك إذا كان خفيفا ان يامر بذلك من يكفيه إياه وَالْمُعْتَكِفُ مُشْتَغِلٌ بِاعْتِكَافِهِ لَا يَعْرِضُ لِغَيْرِهِ مِمَّا يَشْتَغِلُ بِهِ مِنَ التِّجَارَاتِ أَوْ غَيْرِهَا، وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْمُرَ الْمُعْتَكِفُ بِبَعْضِ حَاجَتِهِ بِضَيْعَتِهِ وَمَصْلَحَةِ أَهْلِهِ، وَأَنْ يَأْمُرَ بِبَيْعِ مَالِهِ أَوْ بِشَيْءٍ لَا يَشْغَلُهُ فِي نَفْسِهِ، فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا كَانَ خَفِيفًا أَنْ يَأْمُرَ بِذَلِكَ مَنْ يَكْفِيهِ إِيَّاهُ
کہا مالک رحمہ اللہ نے: میں نے کسی اہلِ علم سے نہیں سنا جو اعتکاف میں کسی شرط کا لگاتا ہو، بلکہ اعتکاف بھی ایک عمل ہے اعمالِ خیر میں سے، مثل نماز اور روزہ اور حج کے۔ فرائض ہوں یا نوافل جو شخص کوئی عملِ خیر کرے تو چاہیے کہ طریقہ سنّت کا اختیار کرے، اور یہ بات درست نہیں ہے کہ کوئی طریقہ نیا نکالے جو اگلے مسلمانوں میں نہ تھا، نہ کوئی شرط ایجاد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا اور مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کو دیکھ کر اس کا طریقہ پہچان لیا۔
قال مالك: لم اسمع احدا من اهل العلم يذكر في الاعتكاف شرطا، وإنما الاعتكاف عمل من الاعمال، مثل الصلاة والصيام والحج وما اشبه ذلك من الاعمال ما كان من ذلك فريضة او نافلة، فمن دخل في شيء من ذلك فإنما يعمل بما مضى من السنة، وليس له ان يحدث في ذلك غير ما مضى عليه المسلمون، لا من شرط يشترطه ولا يبتدعه، وقد اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم وعرف المسلمون سنة الاعتكاف قَالَ مَالِك: لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَذْكُرُ فِي الْاعْتِكَافِ شَرْطًا، وَإِنَّمَا الْاعْتِكَافُ عَمَلٌ مِنَ الْأَعْمَالِ، مِثْلُ الصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ وَالْحَجِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا كَانَ مِنْ ذَلِكَ فَرِيضَةً أَوْ نَافِلَةً، فَمَنْ دَخَلَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَعْمَلُ بِمَا مَضَى مِنَ السُّنَّةِ، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْدِثَ فِي ذَلِكَ غَيْرَ مَا مَضَى عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ، لَا مِنْ شَرْطٍ يَشْتَرِطُهُ وَلَا يَبْتَدِعُهُ، وَقَدِ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَرَفَ الْمُسْلِمُونَ سُنَّةَ الْاعْتِكَافِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اعتکاف اور جوار ایک ہیں، اسی طرح اعتکاف صحرائی اور شہری آدمی کا یکساں ہے تمام احکام میں۔
حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان القاسم بن محمد، ونافعا مولى عبد الله بن عمر، قالا: " لا اعتكاف إلا بصيام، بقول الله تبارك وتعالى في كتابه: وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وانتم عاكفون في المساجد سورة البقرة آية 187، فإنما ذكر الله الاعتكاف مع الصيام" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، وَنَافِعًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَا: " لَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصِيَامٍ، بِقَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ سورة البقرة آية 187، فَإِنَّمَا ذَكَرَ اللَّهُ الْاعْتِكَافَ مَعَ الصِّيَامِ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ حضرت قاسم بن محمد اور نافع مولیٰ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے، دونوں کہتے تھے کہ اعتکاف بغیر روزے کے درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا اپنی کتاب میں: ”کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاری معلوم ہونے لگے سیادہ دھاری سے فجر کی۔ تمام کرو روزوں کو رات تک اور نہ چمٹو اپنی عورتوں سے جب تم اعتکاف سے ہو مسجدوں میں۔“ تو ذکر کیا اللہ جل جلالہُ نے اعتکاف کا روزے کے ساتھ۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 353/4-355، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 334/2، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2640 شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 642، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 4»
حدثني يحيى، عن زياد بن عبد الرحمن، قال: حدثنا مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن، ان ابا بكر بن عبد الرحمن " اعتكف فكان يذهب لحاجته تحت سقيفة في حجرة مغلقة في دار خالد بن الوليد، ثم لا يرجع حتى يشهد العيد مع المسلمين" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ زِيَاد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِك، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ " اعْتَكَفَ فَكَانَ يَذْهَبُ لِحَاجَتِهِ تَحْتَ سَقِيفَةٍ فِي حُجْرَةٍ مُغْلَقَةٍ فِي دَارِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، ثُمَّ لَا يَرْجِعُ حَتَّى يَشْهَدَ الْعِيدَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ"
حضرت سُمی مولیٰ ابی بکر سے روایت ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اعتکاف کرتے تو جاتے وقتِ حاجتِ ضروری کے واسطے ایک چھت دار کوٹھری میں جو بند رہتی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے گھر میں۔ پھر نہ نکلتے اعتکاف سے یہاں تک کہ حاضر ہوتے عید میں ساتھ مسلمانوں کے۔
حدثني يحيى، عن زياد، عن مالك انه راى بعض اهل العلم إذا اعتكفوا العشر الاواخر من رمضان لا يرجعون إلى اهاليهم حتى يشهدوا الفطر مع الناس حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ زِيَاد، عَنْ مَالِك أَنَّهُ رَأَى بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا اعْتَكَفُوا الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ لَا يَرْجِعُونَ إِلَى أَهَالِيهِمْ حَتَّى يَشْهَدُوا الْفِطْرَ مَعَ النَّاسِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے دیکھا بعض اہلِ علم کو جب اعتکاف کرتے رمضان کے اخیر دہے میں تو اپنے گھروں میں نہ آتے یہاں تک کہ عید الفطر کی نماز مسلمانوں کے ساتھ ادا کر لیتے۔
قال زياد: قال مالك: وبلغني ذلك عن اهل الفضل الذين مضوا وهذا احب ما سمعت إلي في ذلكقَالَ زِيَاد: قَالَ مَالِك: وَبَلَغَنِي ذَلِكَ عَنْ أَهْلِ الْفَضْلِ الَّذِينَ مَضَوْا وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: مجھ کو ایسا ہی پہنچا ہے اہلِ علم اور اہلِ فضل سے جو گزر گئے ہیں، اور یہ قول مجھ کو نہایت پسند ہے۔
حدثني زياد، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اراد ان يعتكف، فلما انصرف إلى المكان الذي اراد ان يعتكف فيه، وجد اخبية خباء عائشة، وخباء حفصة، وخباء زينب فلما رآها سال عنها، فقيل له: هذا خباء عائشة، وحفصة، وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آلبر تقولون بهن"، ثم انصرف فلم يعتكف حتى اعتكف عشرا من شوال حَدَّثَنِي زِيَاد، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ، وَجَدَ أَخْبِيَةً خِبَاءَ عَائِشَةَ، وَخِبَاءَ حَفْصَةَ، وَخِبَاءَ زَيْنَبَ فَلَمَّا رَآهَا سَأَلَ عَنْهَا، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا خِبَاءُ عَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَزَيْنَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آلْبِرَّ تَقُولُونَ بِهِنَّ"، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ حَتَّى اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا اعتکاف کا۔ جب آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ میں جہاں اعتکاف کرنا چاہتے تھے، پائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے۔ ایک خیمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا، اور ایک خیمہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا، اور ایک خیمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا۔ تو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کن کے خیمے ہیں؟“ لوگوں نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کیا تم نیکی کا گمان کرتے ہو ان عورتوں کے ساتھ۔“ پھر لوٹ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اعتکاف نہ کیا اور شوال کے دس روزہ میں اعتکاف کیا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2033، 2034، 2041، 2045، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1173، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2217، 2224، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3666، 3667، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 710، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 790، 3331، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2464، والترمذي فى «جامعه» برقم: 791، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1771، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8660، 8692، 8693، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25183، 26537، والحميدي فى «مسنده» برقم: 196، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4506، 4912، والبزار فى «مسنده» برقم:، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8031، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9740، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4709، شركة الحروف نمبر: 645، فواد عبدالباقي نمبر: 19 - كِتَابُ الِاعْتِكَافِ-ح: 7»