حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص اور سیدنا کعب بن احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو اپنی نماز میں شک کرے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھیں ہیں یا چار۔ پس دونوں نے جواب دیا کہ ایک رکعت مزید پڑھ کر وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے سہو کے کر لے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3883، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4444، شركة الحروف نمبر: 202، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 64»
وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر كان إذا سئل عن النسيان في الصلاة، قال: " ليتوخ احدكم الذي يظن انه نسي من صلاته فليصله" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنِ النِّسْيَانِ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: " لِيَتَوَخَّ أَحَدُكُمُ الَّذِي يَظُنُّ أَنَّهُ نَسِيَ مِنْ صَلَاتِهِ فَلْيُصَلِّهِ"
حضرت نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نماز میں بھول جانے کے بارے میں سوال ہوا تو کہا: وہ سوچ لے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اُس کو۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن الاعرج ، عن عبد الله ابن بحينة ، انه قال: " صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين، ثم قام فلم يجلس، فقام الناس معه فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه، كبر ثم سجد سجدتين وهو جالس قبل التسليم، ثم سلم" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَلَمْ يَجْلِسْ، فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَنَظَرْنَا تَسْلِيمَهُ، كَبَّرَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ التَّسْلِيمِ، ثُمَّ سَلَّمَ"
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھا کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور نہ بیٹھے، تب لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے، پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل کیا نماز کو اور ہم انتظار کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے تکبیر کہی اور دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 829، 830، 1224، 1225، 1230، 6670، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 570، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1029، 1030، 1031، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1938، 1939، 1941، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1178، 1179، 1221، 1222،، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 600، 601، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1034، والترمذي فى «جامعه» برقم: 391، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1540، 1541، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1206، 1207، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2846، 2847، 3884، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1412، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23385، والحميدي فى «مسنده» برقم: 927، 928، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2639، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3449، شركة الحروف نمبر: 204، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 65»
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن هرمز ، عن عبد الله ابن بحينة ، انه قال: " صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، فقام في اثنتين ولم يجلس فيهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين، ثم سلم بعد ذلك" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: " صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَامَ فِي اثْنَتَيْنِ وَلَمْ يَجْلِسْ فِيهِمَا، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ"
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، اور دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوگئے اور نہ بیٹھے، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا کر چکے نماز کو تو دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا اس کے بعد۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1225، 1230، 6670، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 570، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1207، والحميدي فى «مسنده» برقم: 927، 928، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2639، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3449، 3450، 3451، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4482، شركة الحروف نمبر: 205، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 66»
قال مالك فيمن سها في صلاته فقام بعد إتمامه الاربع، فقرا ثم ركع، فلما رفع راسه من ركوعه ذكر انه قد كان اتم: إنه يرجع فيجلس ولا يسجد، ولو سجد إحدى السجدتين لم ار ان يسجد الاخرى، ثم إذا قضى صلاته فليسجد سجدتين وهو جالس بعد التسليمقَالَ مَالِك فِيمَنْ سَهَا فِي صَلَاتِهِ فَقَامَ بَعْدَ إِتْمَامِهِ الْأَرْبَعَ، فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ ذَكَرَ أَنَّهُ قَدْ كَانَ أَتَمَّ: إِنَّهُ يَرْجِعُ فَيَجْلِسُ وَلَا يَسْجُدُ، وَلَوْ سَجَدَ إِحْدَى السَّجْدَتَيْنِ لَمْ أَرَ أَنْ يَسْجُدَ الْأُخْرَى، ثُمَّ إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ التَّسْلِيمِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص چار رکعتیں پڑھ کر بھولے سے کھڑا ہو جائے اور قراءت کرے اور رکوع کرے پھر جب سر اُٹھائے رکوع سے یاد کرے کہ وہ چاروں رکعتیں پڑھ کر نماز کو قائم کر چکا تھا تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے اور سجدہ نہ کرے اور اگر ایک سجدہ کر چکا ہے تو دوسرا نہ کرے، پھر تشہد پڑھ کر دو سجدے کرے سہو کے بعد سلام کے۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن علقمة بن ابي علقمة ، عن امه ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: اهدى ابو جهم بن حذيفة لرسول الله صلى الله عليه وسلم خميصة شامية لها علم، فشهد فيها الصلاة فلما انصرف، قال: " ردي هذه الخميصة إلى ابي جهم فإني نظرت إلى علمها في الصلاة فكاد يفتنني" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ ، عَنْ أُمِّهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَهْدَى أَبُو جَهْمِ بْنُ حُذَيْفَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةً شَامِيَّةً لَهَا عَلَمٌ، فَشَهِدَ فِيهَا الصَّلَاةَ فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: " رُدِّي هَذِهِ الْخَمِيصَةَ إِلَى أبِي جَهْمٍ فَإِنِّي نَظَرْتُ إِلَى عَلَمِهَا فِي الصَّلَاةِ فَكَادَ يَفْتِنُنِي"
سیدہ مرجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ سیدنا ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں شام کی ایک چادر بھیجی، جس میں نقش (یعنی بیل بوٹے بنے ہوۓ تھے)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اوڑھ کر نماز کو آئے، پھر جب فارغ ہوئے نماز سے تو فرمایا: ”یہ چادر ابوجہم کو واپس بھیج دو، کیونکہ میں نے اس کے بیل بوٹوں کو نماز میں دیکھا، پس قریب تھا کہ میں غافل ہو جاؤں۔“
تخریج الحدیث: «حسن، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2337، 2338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم:، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 558، 849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 914، 4052، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3550، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3589، 3590، 3942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24721، 24827، والحميدي فى «مسنده» برقم: 172، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4414، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1389، شركة الحروف نمبر: 206، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 67»
وحدثني، مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لبس خميصة لها علم، ثم اعطاها ابا جهم واخذ من ابي جهم انبجانية له، فقال: يا رسول الله، ولم؟ فقال: " إني نظرت إلى علمها في الصلاة" وَحَدَّثَنِي، مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ خَمِيصَةً لَهَا عَلَمٌ، ثُمَّ أَعْطَاهَا أَبَا جَهْمٍ وَأَخَذَ مِنْ أَبِي جَهْمٍ أَنْبِجَانِيَّةً لَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِمَ؟ فَقَالَ: " إِنِّي نَظَرْتُ إِلَى عَلَمِهَا فِي الصَّلَاةِ"
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر شام کی بنی ہوئی نقش و نگار والی پہنی، پھر وہ چادر ابوجہم کو دے دی اور اس سے ایک موٹی سادہ چادر لے لی، تو ابوجہم نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کس لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے نماز میں اس کے نقش ونگار کی طرف دیکھا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 373، 752، 5817، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 556، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 928، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2337، 2338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 772، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 558، 849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 914، 4052، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3550، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3589، 3590، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24721، والحميدي فى «مسنده» برقم: 172، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4414، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1389، شركة الحروف نمبر: 207، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 68»
وحدثني، مالك، عن عبد الله بن ابي بكر ، ان ابا طلحة الانصاري كان يصلي في حائطه، فطار دبسي فطفق يتردد يلتمس مخرجا، فاعجبه ذلك فجعل يتبعه بصره ساعة ثم رجع إلى صلاته، فإذا هو لا يدري كم صلى، فقال:" لقد اصابتني في مالي هذا فتنة فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له الذي اصابه في حائطه من الفتنة، وقال: يا رسول الله، هو صدقة لله فضعه حيث شئت" وَحَدَّثَنِي، مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ يُصَلِّي فِي حَائِطِهِ، فَطَارَ دُبْسِيٌّ فَطَفِقَ يَتَرَدَّدُ يَلْتَمِسُ مَخْرَجًا، فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ فَجَعَلَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ سَاعَةً ثُمَّ رَجَعَ إِلَى صَلَاتِهِ، فَإِذَا هُوَ لَا يَدْرِي كَمْ صَلَّى، فَقَالَ:" لَقَدْ أَصَابَتْنِي فِي مَالِي هَذَا فِتْنَةٌ فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ لَهُ الَّذِي أَصَابَهُ فِي حَائِطِهِ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ صَدَقَةٌ لِلَّهِ فَضَعْهُ حَيْثُ شِئْتَ"
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے، تو ایک چڑیا اُڑی اور باغ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگی، کیونکہ باغ اس قدر گنجان تھا اور پیڑ آپس میں اس طرح ملے ہوۓ تھے کہ چڑیا کو نکلنے کی جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ پس یہ بات آپ کو بہت اچھی لگی اور اپنے باغ کا یہ حال دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے، پس ایک گھڑی تک اُس کی طرف دیکھتے رہے، پھر نماز کا خیال آیا سو بھول گئے کہ کتنی رکعتیں پڑھیں، تب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس مال سے آزمایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جو کچھ باغ میں ہوا تھا سارا قصہ بیان کیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ باغ اللہ رب العزت کے واسطے صدقہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں اِس کو صرف کریں۔
تخریج الحدیث: «ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3944، والبيهقي فى «معرفة السنن الآثار» برقم: 1150، شركة الحروف نمبر: 208، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 69»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر ، ان رجلا من الانصار كان يصلي في حائط له بالقف واد من اودية المدينة في زمان الثمر والنخل قد ذللت، فهي مطوقة بثمرها فنظر إليها، فاعجبه ما راى من ثمرها ثم رجع إلى صلاته، فإذا هو لا يدري كم صلى، فقال: لقد اصابتني في مالي هذا فتنة فجاء عثمان بن عفان وهو يومئذ خليفة فذكر له ذلك، وقال: " هو صدقة، فاجعله في سبل الخير" فباعه عثمان بن عفان بخمسين الفا فسمي ذلك المال الخمسين وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ يُصَلِّي فِي حَائِطٍ لَهُ بِالْقُفِّ وَادٍ مِنْ أَوْدِيَةِ الْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ الثَّمَرِ وَالنَّخْلُ قَدْ ذُلِّلَتْ، فَهِيَ مُطَوَّقَةٌ بِثَمَرِهَا فَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَأَعْجَبَهُ مَا رَأَى مِنْ ثَمَرِهَا ثُمَّ رَجَعَ إِلَى صَلَاتِهِ، فَإِذَا هُوَ لَا يَدْرِي كَمْ صَلَّى، فَقَالَ: لَقَدْ أَصَابَتْنِي فِي مَالِي هَذَا فِتْنَةٌ فَجَاءَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةٌ فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: " هُوَ صَدَقَةٌ، فَاجْعَلْهُ فِي سُبُلِ الْخَيْرِ" فَبَاعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ بِخَمْسِينَ أَلْفًا فَسُمِّيَ ذَلِكَ الْمَالُ الْخَمْسِينَ
سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار میں سے اپنے باغ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور وہ باغ قف میں تھا جو ایک وادی کا نام ہے جو مدینے کی وادیوں میں سے ہے، ایسے موسم میں جبکہ کھجور پک کر لٹک رہی تھی گویا پھلوں کے طوق شاخوں کے گلوں میں پڑے تھے، تو اس نے نماز میں اس طرف دیکھا اور نہایت پسند کیا پھلوں کو، پھر جب نماز کا خیال کیا تو بھول گیا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں، تو کہا کہ مجھے اس مال میں اللہ رب العزت کی طرف سے آزمائش ہوئی۔ پس وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا جو ان دنوں خلیفہ تھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) اور اُن سے یہ قصہ بیان کیا، پھر کہا کہ اب یہ (باغ) صدقہ ہے تو اس کو نیک کاموں میں صرف کیجئے۔ سو اس کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچاس ہزار میں بیچا اور اس مال کا نام ہوگیا پچاس ہزارہ۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وانفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 209، فواد عبدالباقي نمبر: 3 - كِتَابُ الصَّلَاةِ-ح: 70»