قال: حدثني يحيى بن يحيى الليثي، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب ، ان عمر بن عبد العزيز، اخر الصلاة يوما فدخل عليه عروة بن الزبير ، فاخبره، ان المغيرة بن شعبة، اخر الصلاة يوما وهو بالكوفة، فدخل عليه ابو مسعود الانصاري ، فقال: ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت ان " جبريل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: بهذا امرت" . فقال عمر بن عبد العزيز: اعلم ما تحدث به يا عروة، او إن جبريل هو الذي اقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة؟ قال عروة: كذلك كان بشير بن ابي مسعود الانصاري يحدث، عن ابيه. قال قال عروة : ولقد حدثتني عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، قبل ان تظهر" قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيى اللَّيْثِيّ، عَنْ مَالِك بْن أَنَس، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، فَأَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ " جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بِهَذَا أُمِرْتُ" . فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ بِهِ يَا عُرْوَةُ، أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ هُوَ الَّذِي أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ؟ قَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ قَالَ عُرْوَةُ : وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ"
محمد بن مسلم بن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ وقت نے ایک روز دیر کی عصر کی نماز میں تو ان کے پاس عروہ بن زبیر گئے اور ان کو خبر دی کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک روز دیر کی تھی عصر کی نماز میں جب وہ کوفہ کے حاکم تھے، پس ان کے پاس ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری گئے اور کہا کہ اے مغیرہ! یہ دیر میں نماز کیا ہے، کیا تم کو نہیں معلوم کہ جبرئیل علیہ السلام اترے آسمان سے اور نماز پڑھی انہوں نے (ظہر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عصر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (مغرب کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (عشا کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر نماز پڑھی جبرئیل علیہ السلام نے (فجر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی ان کے، پھر کہا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے: ایسا ہی تم کو حکم ہوا ہے۔ تب کہا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہ سمجھو تم جو روایت کرتے ہو کیا جبرئیل علیہ السلام نے قائم کیے نماز کے وقت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ عروہ نے کہا کہ ابومسعود بن عقبہ بن عمرو انصاری کے بیٹے بشیر ایسا ہی روایت کرتے تھے اپنے باپ سے۔ اور مجھ سے روایت کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے عصر کی اور دھوپ حجرے کے اندر ہوتی تھی دیواروں پر چڑھنے سے پہلے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 521، 522، 544، 545، 546، 3103، 3221، 4007، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 610، 611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1448، 1449، 1450، 1494، 1521، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 697، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 493، 504، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1494، 1506، وأبو داود فى «سننه» برقم: 394، 407، والترمذي فى «جامعه» برقم: 159، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 668، 683، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1723، 1728، 1729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17364، 22785، شركة الحروف نمبر: 1، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 2»
وحدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عن وقت صلاة الصبح. قال: فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان من الغد، صلى الصبح حين طلع الفجر، ثم صلى الصبح من الغد بعد ان اسفر، ثم قال:" اين السائل عن وقت الصلاة؟" قال: هانذا يا رسول الله، فقال: " ما بين هذين وقت" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ الصُّبْحِ. قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ مِنَ الْغَدِ بَعْدَ أَنْ أَسْفَرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟" قَالَ: هَأَنَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ"
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا نماز صبح کا وقت، تو چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، جب دوسرا روز ہوا نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے منہ صبح صادق نکلتے ہی۔ پھر تیسرے روز نماز پڑھی فجر کی روشنی میں اور فرمایا: ”کہاں ہے وہ شخص جس نے نماز فجر کا وقت دریافت کیا تھا؟“ اور وہ شخص بول اٹھا، میں ہوں یا رسول اللہ! فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”نماز فجر کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيرہ، وأخرجه النسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 645، وأحمد فى «مسنده» برقم: 182، 189، شركة الحروف نمبر: 2، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 3» شیخ سلیم ہلالی نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے، شیخ احمد علی سلیمان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے اس کی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
وحدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح فينصرف النساء، متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ"
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے فجر کی نماز، پھر عورتیں نماز سے فارغ ہو کر پلٹتی تھیں چادریں لپیٹی ہوئیں اور پہچانی نہ جاتی تھیں اندھیرے سے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 372، 578، 867، 872، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 645، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1498، 1499، 1500، 1501، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 544، 545، 1361، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1287، 1539، 1540، وأبو داود فى «سننه» برقم: 423، والترمذي فى «جامعه» برقم: 153، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1252، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 669، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2168، 2169، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24685، 24730، والحميدي فى «مسنده» برقم: 174، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4415، شركة الحروف نمبر: 3، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 4»
وحدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، وعن بسر بن سعيد ، وعن الاعرج كلهم يحدثونه، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ادرك ركعة من الصبح قبل ان تطلع الشمس، فقد ادرك الصبح، ومن ادرك ركعة من العصر قبل ان تغرب الشمس، فقد ادرك العصر" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، وَعَنْ الْأَعْرَجِ كُلُّهُمْ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ایک رکعت نماز صبح کی آفتاب نکلنے سے پہلے پا لی تو وہ صبح کو پا چکا، اور جس شخص نے ایک رکعت نماز عصر کی آفتاب ڈوبنے سے پہلے پا لی تو اس نے عصر کو پا لیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 579، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 608، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1484، 1557، 1582، 1583، 1585، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 513، 516، 549، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1513، 1514، 1547، وأبو داود فى «سننه» برقم: 412، والترمذي فى «جامعه» برقم: 186، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1258، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 699، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1747، 1748، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7913، 9306، شركة الحروف نمبر: 4، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 5»
وحدثني، عن مالك، عن نافع مولى عبد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب ، كتب إلى عماله:" إن اهم امركم عندي الصلاة، فمن حفظها وحافظ عليها، حفظ دينه، ومن ضيعها فهو لما سواها اضيع. ثم كتب: ان صلوا الظهر، إذا كان الفيء ذراعا إلى ان يكون ظل احدكم مثله، والعصر والشمس مرتفعة بيضاء نقية قدر ما يسير الراكب فرسخين او ثلاثة قبل غروب الشمس، والمغرب إذا غربت الشمس، والعشاء إذا غاب الشفق إلى ثلث الليل، فمن نام فلا نامت عينه، فمن نام فلا نامت عينه، فمن نام فلا نامت عينه، والصبح والنجوم بادية مشتبكة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ:" إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ. ثُمَّ كَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّهْرَ، إِذَا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ مِثْلَهُ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ، وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ"
نافع سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے، سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عالموں کو لکھا کہ تمہاری سب خدمتوں میں نماز بہت ضروری اور اہم ہے میرے نزدیک، جس نے نماز کے مسائل اور احکام یاد کیے اور وقت پر پڑھی تو اس نے اپنا دین محفوظ رکھا۔ جس نے نماز کو تلف کیا تو اور خدمتیں زیادہ تلف کرے گا۔ پھر لکھا: نماز پڑھو ظہر کی جب آفتاب ڈھل جائے اور سایہ آدمی کے ایک ہاتھ برابر ہو یہاں تک کہ سایہ آدمی کا اس کے برابر ہو جائے، اور نماز پڑھو عصر کی جب تک کہ آفتاب بلند اور سفید رہے ایسا کہ بعد نماز عصر کے اونٹ کی سواری پر چھ میل یا نو میل قبل غروب کے آدمی پہنچ سکے، اور نماز پڑھو مغرب کی جب سورج ڈوب جائے اور عشاء کی نماز پڑھو جب شفق غائب ہو جائے تہائی رات تک، جو شخص سو جائے عشاء کی نماز سے پہلے تو اللہ کرے نہ لگے آنکھ اس کی، نہ لگے آنکھ اس کی، نہ لگے آنکھ اس کی اور نماز پڑھو صبح کی اور تارے صاف گہنے ہوئے ہوں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2130، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2037، 2038، 2039، 2076، 2128، 2142، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3249، 7256، 7257، 37589، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 953، 1152، شركة الحروف نمبر: 5، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 6» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اسے ضعیف اور امام ابن البرََ نے منقطع کہا ہے۔
وحدثني، عن مالك، عن عمه ابي سهيل ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب ، كتب إلى ابي موسى:" ان صل الظهر إذا زاغت الشمس، والعصر والشمس بيضاء نقية قبل ان يدخلها صفرة، والمغرب إذا غربت الشمس، واخر العشاء ما لم تنم، وصل الصبح والنجوم بادية مشتبكة، واقرا فيها بسورتين طويلتين من المفصل" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَمِّهِ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى:" أَنْ صَلِّ الظُّهْرَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَهَا صُفْرَةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَخِّرِ الْعِشَاءَ مَا لَمْ تَنَمْ، وَصَلِّ الصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ، وَاقْرَأْ فِيهَا بِسُورَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ مِنَ الْمُفَصَّلِ"
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ظہر کی نماز پڑھ جب سورج ڈھل جائے، اور عصر کی نماز پڑھ اور آفتاب سفید صاف ہو زرد نہ ہونے پائے، اور مغرب کی نماز پڑھ جب سورج ڈوبے، اور دیر کر عشاء کی نماز میں جہاں تک تو جاگ سکے، اور نماز پڑھ صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوں اور پڑھ فجر کی نماز میں دو سورتیں لمبی مفصل سے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1760، 1793، 2130، 2179، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» ، 251، 253، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2035، 2036، 2108، 2170، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3250، 3254، 3358، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 933، 954، 955، 956، 1086، 1087، شركة الحروف نمبر: 6، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 7» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اسے موقوف صحیح کہا ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسے متصل ثابت قرار دیا ہے۔
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب ، كتب إلى ابي موسى الاشعري:" ان صل العصر والشمس بيضاء نقية قدر ما يسير الراكب ثلاثة فراسخ، وان صل العشاء ما بينك وبين ثلث الليل، فإن اخرت فإلى شطر الليل ولا تكن من الغافلين" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ:" أَنْ صَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ ثَلَاثَةَ فَرَاسِخَ، وَأَنْ صَلِّ الْعِشَاءَ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ثُلُثِ اللَّيْلِ، فَإِنْ أَخَّرْتَ فَإِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ نماز عصر پڑھ اور آفتاب سفید ہو، اتنا دن ہو کہ اونٹ کا سوار بعد نماز عصر کے نو میل جا سکے، اور پڑھ عشاء کی نماز تہائی رات تک، آخر درجہ آدھی رات تک اور غافل مت ہو۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1760، 1793، 2130، 2179، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» ، 251، 253، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2035، 2036، 2108، 2170، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3250، 3254، 3358، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 933، 954، 955، 956، 1086، 1087، شركة الحروف نمبر: 7، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 8» شیخ سلیم ہلالی کہتے ہیں کہ یہ روایت موقوف ضعیف ہے، اس کی سند منقطع ہے کیونکہ عروہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔
وحدثني، عن مالك، عن يزيد بن زياد ، عن عبد الله بن رافع مولى ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انه سال ابا هريرة عن وقت الصلاة، فقال ابو هريرة :" انا اخبرك صل الظهر إذا كان ظلك مثلك، والعصر إذا كان ظلك مثليك، والمغرب إذا غربت الشمس، والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل، وصل الصبح بغبش يعني الغلس" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ :" أَنَا أُخْبِرُكَ صَلِّ الظُّهْرَ إِذَا كَانَ ظِلُّكَ مِثْلَكَ، وَالْعَصْرَ إِذَا كَانَ ظِلُّكَ مِثْلَيْكَ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَصَلِّ الصُّبْحَ بِغَبَشٍ يَعْنِي الْغَلَسَ"
حضرت عبداللہ بن رافع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ ہیں، انہوں نے پوچھا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نماز کا وقت، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بتاؤں تجھ کو، نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ تیرا تیرے برابر ہو جائے، اور عصر کی جب سایہ تیرا تجھ سے دگنا ہو، اور مغرب کی جب آفتاب ڈوب جائے، اور عشاء کی تہائی رات کی، اور صبح کی اندھیرے منہ۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 08، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2041، وانظر: والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 503، والترمذي فى «جامعه» برقم: 151، الاوسط لابم المنذر: 376/2، شركة الحروف نمبر: 8، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 9» شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو موقوف صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اوقاتِ نماز صحیح سند کے ساتھ مرفوعاََ بھی مروی ہیں، دیکھیے سنن النسائی، کتاب المواقیت۔ باب آخر وقت الظہر، حدیث: 503، وانظر جامع الترمذی: 151۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھتے تھے، پھر ہم میں سے کوئی بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں جاتا تو ان کو عصر کی نماز میں پاتا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 548، 550، 551، 7329، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 621، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1518، 1519، 1520، 1522، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 505، 506، 507، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1507، وأبو داود فى «سننه» برقم: 404، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1244، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 682، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2106، 2107، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12525، 12839، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3593، 3604، 3605، 4318، شركة الحروف نمبر: 9، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 10»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، انه قال: " كنا نصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فياتيهم والشمس مرتفعة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْرَ ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى قُبَاءٍ فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے، پھر ہم میں کوئی قبا کو جاتا تھا پھر وہاں کے لوگوں کو ملتا تھا اور آفتاب بلند رہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 548، 550، 551، 7329، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 621، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1518، 1519، 1520، 1522، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 505، 506، 507، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1507، وأبو داود فى «سننه» برقم: 404، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1244، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 682، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2106، 2107، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12525، 12839، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3593، 3604، 3605، شركة الحروف نمبر: 10، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 11»