وحدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عن وقت صلاة الصبح. قال: فسكت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان من الغد، صلى الصبح حين طلع الفجر، ثم صلى الصبح من الغد بعد ان اسفر، ثم قال:" اين السائل عن وقت الصلاة؟" قال: هانذا يا رسول الله، فقال: " ما بين هذين وقت" وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ الصُّبْحِ. قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ مِنَ الْغَدِ بَعْدَ أَنْ أَسْفَرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟" قَالَ: هَأَنَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ"
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا نماز صبح کا وقت، تو چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، جب دوسرا روز ہوا نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے منہ صبح صادق نکلتے ہی۔ پھر تیسرے روز نماز پڑھی فجر کی روشنی میں اور فرمایا: ”کہاں ہے وہ شخص جس نے نماز فجر کا وقت دریافت کیا تھا؟“ اور وہ شخص بول اٹھا، میں ہوں یا رسول اللہ! فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”نماز فجر کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيرہ، وأخرجه النسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 645، وأحمد فى «مسنده» برقم: 182، 189، شركة الحروف نمبر: 2، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 3» شیخ سلیم ہلالی نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے، شیخ احمد علی سلیمان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے اس کی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 2 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 2
فائده:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں میں نماز فجر کو اول اور آخر وقت میں پڑھ کر دکھا دیا ہے، لہذا یہ دونوں اوقات بھی نمازِ فجر ہی کے ہیں اور ان دونوں کا درمیانی وقت بھی نماز فجر کی ادائیگی کا وقت ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آشکار ہوتی ہے کہ وہ کس طرح دینی تعلیم کے لیے بے تاب رہتے تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ از روئے مصلحت سائل کو فوری جواب دینا بھی لازم نہیں۔ نیز عمل کے ذریعے جواب دینا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور زیادہ مؤثر، دیرپا اور دور رس ثابت ہوتا ہے، نیز اساتذہ کو چاہیے کہ طلباء کو اپنی صحبت، رفاقت اور معیت کا شرف بخشنے میں وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 2