وحدثني، عن مالك، عن عمه ابي سهيل ، عن ابيه ، ان عمر بن الخطاب ، كتب إلى ابي موسى:" ان صل الظهر إذا زاغت الشمس، والعصر والشمس بيضاء نقية قبل ان يدخلها صفرة، والمغرب إذا غربت الشمس، واخر العشاء ما لم تنم، وصل الصبح والنجوم بادية مشتبكة، واقرا فيها بسورتين طويلتين من المفصل" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَمِّهِ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى:" أَنْ صَلِّ الظُّهْرَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَهَا صُفْرَةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَخِّرِ الْعِشَاءَ مَا لَمْ تَنَمْ، وَصَلِّ الصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ، وَاقْرَأْ فِيهَا بِسُورَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ مِنَ الْمُفَصَّلِ"
مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ظہر کی نماز پڑھ جب سورج ڈھل جائے، اور عصر کی نماز پڑھ اور آفتاب سفید صاف ہو زرد نہ ہونے پائے، اور مغرب کی نماز پڑھ جب سورج ڈوبے، اور دیر کر عشاء کی نماز میں جہاں تک تو جاگ سکے، اور نماز پڑھ صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوں اور پڑھ فجر کی نماز میں دو سورتیں لمبی مفصل سے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1760، 1793، 2130، 2179، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» ، 251، 253، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 2035، 2036، 2108، 2170، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3250، 3254، 3358، وأخرجه الطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 933، 954، 955، 956، 1086، 1087، شركة الحروف نمبر: 6، فواد عبدالباقي نمبر: 1 - كِتَابُ وُقُوتِ الصَّلَاةِ-ح: 7» شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اسے موقوف صحیح کہا ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسے متصل ثابت قرار دیا ہے۔
موطا امام مالك رواية يحييٰ کی حدیث نمبر 6 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 6
فائدہ: ”مفصل“ سے مراد قرآن مجید کی ساتویں منزل ہے، اور اس پوری منزل میں ساٹھ سے زیادہ سورتیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو پارے کے چوتھائی حصے کے برابر ہو، اس لیے احناف کا یہ تاویل کرنا بالکل غلط اور صریح دھوکا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نماز فجر کو تاروں کی موجودگی میں یعنی تاریکی ہی میں ادا کرنے کا حکم صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو سورۃ بقرہ جتنی لمبی تلاوت کرنا چاہتے ہوں۔
نمازِ عشاء کو نیند کی آمد تک مؤخر کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے نصف رات سے بھی لیٹ کر دیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واضح فرما چکے ہیں کہ «وقت الْعِشَاءِ إِلى نِصْفِ الليل»”عشاء کا وقت نصف رات تک ہے۔“[صحيح مسلم: 612]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 6