حدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني سليمان يعني ابن بلال ، اخبرني يحيى ، اخبرني عبيد بن حنين، انه سمع عبد الله بن عباس ، يحدث قال: مكثت سنة وانا اريد ان اسال عمر بن الخطاب : عن آية فما استطيع ان اساله هيبة له، حتى خرج حاجا فخرجت معه، فلما رجع فكنا ببعض الطريق عدل إلى الاراك لحاجة له، فوقفت له حتى فرغ، ثم سرت معه، فقلت: يا امير المؤمنين، " من اللتان تظاهرتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من ازواجه؟ فقال: تلك حفصة، وعائشة، قال: فقلت له: والله إن كنت لاريد ان اسالك عن هذا منذ سنة، فما استطيع هيبة لك، قال: فلا تفعل ما ظننت ان عندي من علم، فسلني عنه، فإن كنت اعلمه اخبرتك، قال: وقال عمر: والله إن كنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتى انزل الله تعالى فيهن ما انزل، وقسم لهن ما قسم، قال: فبينما انا في امر ااتمره، إذ قالت لي امراتي: لو صنعت كذا وكذا فقلت لها: وما لك انت ولما هاهنا وما تكلفك في امر اريده؟ فقالت لي: عجبا لك يا ابن الخطاب ما تريد ان تراجع انت، وإن ابنتك لتراجع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان، قال عمر: فآخذ ردائي ثم اخرج مكاني حتى ادخل على حفصة، فقلت لها: يا بنية، إنك لتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان؟ فقالت: حفصة والله إنا لنراجعه، فقلت: تعلمين اني احذرك عقوبة الله وغضب رسوله يا بنية، لا يغرنك هذه التي قد اعجبها حسنها وحب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياها ثم خرجت حتى ادخل على ام سلمة لقرابتي منها فكلمتها، فقالت لي ام سلمة: عجبا لك يا ابن الخطاب، قد دخلت في كل شيء حتى تبتغي ان تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وازواجه، قال: فاخذتني اخذا كسرتني، عن بعض ما كنت اجد فخرجت من عندها وكان لي صاحب من الانصار إذا غبت اتاني بالخبر، وإذا غاب كنت انا آتيه بالخبر، ونحن حينئذ نتخوف ملكا من ملوك غسان، ذكر لنا انه يريد ان يسير إلينا، فقد امتلات صدورنا منه، فاتى صاحبي الانصاري يدق الباب، وقال: افتح افتح، فقلت: جاء الغساني، فقال: اشد من ذلك اعتزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ازواجه، فقلت: رغم انف حفصة، وعائشة، ثم آخذ ثوبي فاخرج حتى جئت، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مشربة له يرتقى إليها بعجلة وغلام لرسول الله صلى الله عليه وسلم اسود على راس الدرجة، فقلت: هذا عمر فاذن لي، قال عمر: فقصصت على رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، فلما بلغت حديث ام سلمة تبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه لعلى حصير ما بينه وبينه شيء، وتحت راسه وسادة من ادم حشوها ليف، وإن عند رجليه قرظا مضبورا، وعند راسه اهبا معلقة، فرايت اثر الحصير في جنب رسول الله صلى الله عليه وسلم فبكيت، فقال: " ما يبكيك؟ "، فقلت: يا رسول الله، إن كسرى، وقيصر فيما هما فيه وانت رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما ترضى ان تكون لهما الدنيا ولك الآخرة "،حدثنا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، يُحَدِّثُ قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ : عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ، حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، " مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ؟ فقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عَنْدِي مِنْ عِلْمٍ، فَسَلْنِي عَنْهُ، فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ، إِذْ قَالَت لِي امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا لَكِ أَنْتِ وَلِمَا هَاهُنَا وَمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ؟ فقَالَت لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، قَالَ عُمَرُ: فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ، إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ؟ فقَالَت: حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ، لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَحُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا، فقَالَت لِي أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، قَالَ: فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي، عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عَنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ، ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ، فَأَتَى صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، وَقَالَ: افْتَحِ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ، فقَالَ: أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ، ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ فَأُذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عَنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا، وَعَنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَكَيْتُ، فقَالَ: " مَا يُبْكِيكَ؟ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ كِسْرَى، وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَلَكَ الْآخِرَةُ "،
سلیمان بن بلال نے کہا: مجھے یحییٰ نے عبید بن حنین سے خبر دی کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے سال بھر کے انتظار کیا، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا مگر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ پاتا تھا، حتی کہ وہ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ نکلا، جب لوٹے تو ہم راستے میں کسی جگہ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لیے پیلو کے درخت کی طرف چلے گئے، میں ان کے انتظار میں ٹھہر گیا، حتی کہ وہ فارغ ہو گئے، پھر میں ان کے ساتھ چل پڑا، میں نے عرض کی: امیر المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے وہ کون سی دو خواتین تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا کر لیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ایک سال سے اس کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ پاتا تھا۔ انہوں نے کہا: ایسا نہیں کرنا، جو بات بھی تم سمجھو کہ مجھے علم ہے، اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو، اگر میں جانتا ہوا تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہا: اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت کے زمانے میں تھے تو عورتوں کو کسی شمار میں نہ رکھتے تھے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو نازل کیا، سو نازل کیا، اور جو (مرتبہ) انہیں دینا تھا سو دیا۔ انہوں نے کہا: ایک مرتبہ میں کسی معاملے میں لگا ہوا تھا، اس کے متعلق سوچ بچار کر رہا تھا کہ مجھے میری بیوی نے کہا: اگر آپ ایسا ایسا کر لیں (تو بہتر ہو گا۔) میں نے اسے جواب دیا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اور یہاں (اس معاملے میں) تمہیں کیا دلچسپی ہے؟ اور ایک کام جو میں کرنا چاہتا ہوں اس میں تمہارا تکلف (زبردستی ٹانگ اڑانا) کیسا؟اس نے مجھے جواب دیا: ابن خطاب! آپ پر تعجب ہے! آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے بارے آگے بات کی جائے، جبکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں (اسی وقت) اپنی چادر پکڑتا ہوں اور اپنی جگہ سے نکل کھڑا ہوتا ہوں، یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچتا ہوں۔ جا کر میں نے اس سے کہا: بٹیا! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جواب دیتی ہو کہ وہ سارا دن ناراض رہتے ہیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں۔ میں نے کہا: جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی سے ڈرا رہا ہوں، میری بیٹی! تمہیں وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے رویے کی بنا پر) دھوکے میں نہ ڈال دے جسے اپنے حسن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے سے محبت پر ناز ہے۔ پھر میں نکلا حتی کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آیا، کیونکہ میری ان سے قرابت داری تھی۔میں نے ان سے بات کی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے جواب دیا: ابن خطاب تم پر تعجب ہے! تم ہر کام میں دخل اندازی کرتے ہو حتی کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے مابین بھی دخل دو؟ انہوں نے مجھے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ جو (عزم) میں (دل میں) پا رہا تھا (کہ میں ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب دینے سے روک لوں گا) مجھے توڑ کر اس سے الگ کر دیا۔ چنانچہ میں ان کے ہاں سے نکل آیا۔ میرا ایک انصاری ساتھی تھا، جب میں (آپ کی مجلس سے) غیر حاضر ہوتا تو وہ میرے پاس (وہاں کی) خبر لاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے آتا۔ ہم اس زمانے میں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ سے ڈر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر چڑھائی کرنا چاہتے ہے۔ اس (کی وجہ) سے ہمارے سینے (اندیشوں سے) بھرے ہوئے تھے۔ (اچانک ایک دن) میرا انصاری دوست آ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا اور کہنے لگا: کھولو، کھولو! میں نے پوچھا: غسانی آ گیا ہے؟ اس نے کہا: اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن کی ناک خاک آلود ہو! پھر میں اپنے کپرے لے کر نکل کھڑا ہوا، حتی کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانے میں تھے جس پر سیڑھی کے ذریعے چڑھ کر جانا ہوتا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا: یہ عمر ہے (خدمت میں حاضری کی اجازت چاہتا ہے)، تو مجھے اجازت عطا ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ساری بات بیان کی، جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ آپ ایک چٹائی پر (لیٹے ہوئے) تھے، آپ کے (جسم مبارک) اور اس (چٹائی) کے درمیان کچھ نہ تھا۔ آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ کے پاؤں کے قریب کیکر کی چھال کا چھوٹا سا گٹھا پڑا تھا اور آپ کے سر کے قریب کچھ کچے چمڑے لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو رو پڑا۔ آپ نے پوچھا: "تمہیں کیا رلا رہا ہے؟" عرض کی: اے اللہ کے رسول! کسریٰ اور قیصر دونوں (کفر کے باوجود) اُس ناز و نعمت میں ہیں جس میں ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لیے (صرف) دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت ہو
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں سال بھر یہ ارادہ کرتا رہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آیت کا مفہوم پوچھوں، لیکن ان کی ہیبت کی بنا پر ان سے پوچھ نہ سکا حتی کہ وہ حج کے لیے نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب واپس پلٹے، تو وہ راستہ کے کسی حصہ پر اپنی ضرورت (قضائے حاجت) کے لیے پیلو کے درخت کی طرف ہٹ گئے، (مڑ گئے) میں بھی ان کی فراغت کے انتظار میں ٹھہر گیا۔ پھر ان کے ساتھ چل پڑا۔ تو میں نے کہا، اے امیر المومنین! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا یا اتحاد کر لیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا، وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا، اللہ کی قسم! میں ایک سال سے آپ سے اس کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کے رعب کی بنا پر ہمت نہیں کر سکا، انہوں نے کہا، ایسا مت کرو، جس چیز کے بارے میں تم یہ سمجھو کہ مجھے اس کا علم ہے تو مجھ سے پوچھ لو، اگر مجھے علم ہو گا تو میں تمہیں بتا دوں گا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم جاہلیت کے دور میں عورت کو کسی شمار قطار میں نہیں سمجھتے تھے (انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے) حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو اتارنا چاہا، اتارا اور ان کو جو دینا تھا، دیا (ان کے حقوق مقرر فرمائے) اور انہوں نے بتایا۔ اس اثنا میں کہ میں ایک معاملہ پر غوروفکر یا سوچ و بچار کر رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھے کہہ دیا، اگر آپ ایسا، ایسا کر لیں تو بہتر ہے۔ تو میں نے اس سے کہا، تجھے میرے معاملہ سے کیا دلچسپی یا تعلق ہے؟ اور جو کام میں کرنا چاہتا ہوں، تجھے اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس نے مجھ سے کہا، تم پر حیرت ہے، اے خطاب کے بیٹے! آپ باہمی گفتگو کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، حالانکہ تیری بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہے، جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے اسی وقت اپنی چادر اٹھائی اور نکل کھڑا ہوا، حتی کہ حفصہ کے پاس پہنچ گیا، اور اس سے پوچھا، اے میری بیٹی! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا جواب دیتی ہو جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں۔ تو حفصہ نے کہا، اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں۔ تو میں نے کہا، جان لو میں تمہیں، اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں۔ اے میری بیٹی! تمہیں یہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جو اپنے حسن و جمال پر نازاں ہے، دھوکا میں نہ ڈال دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس سے نکل کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا۔ کیونکہ وہ میری عزیزہ تھیں، اور میں نے ان سے گفتگو کی۔ تو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے کہا، تجھ پر تعجب ہے، اے خطاب کے بیٹے! تو ہر چیز میں دخل دیتا ہے، حتی کہ یہ بھی چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے درمیان دخل دے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، تو اس نے مجھے اس طرح نشانہ بنایا کہ میں دل میں جو پاتا تھا اس سے پھیر دیا گیا۔ میں نے اس سلسلہ میں مزید گفتگو نہ کی۔ اور میں اس کے ہاں سے نکل گیا اور میرا ایک انصاری ساتھی تھا جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غیر حاضر ہوتا تو وہ آ کر مجھے (دن بھر کی) باتیں بتاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اسے جا کر باتیں بتاتا۔ اور ہم ان دنوں ایک غسانی بادشاہ سے خوف زدہ تھے، ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ اس سے ہمارے سینے خوف سے لبریز (بھرے ہوئے) تھے۔ تو میرا انصاری ساتھی آیا، دروازہ پر دستک دی اور کہا، کھولو، کھولو، میں نے پوچھا کیا غسانیوں نے حملہ کر دیا ہے؟ تو اس نے کہا، اس سے بھی سنگین واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ تو میں نے کہا، حفصہ اور عائشہ کا ناک خاک آلود ہو، پھر میں نے اپنے کپڑے لیے اور نکل کھڑا ہوا حتی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچ گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تھے، جس تک سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا تھا۔ میں نے کہا، میں عمر ہوں (اجازت چاہتا ہوں) تو مجھے اجازت مل گئی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ بات چیت سنائی، تو جب میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات پر پہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی بچھونا نہ تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے پاس کیکر کے پتے جمع تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس کچے چمڑے لٹک رہے تھے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے اور میں رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں روتے ہو؟“ تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کسریٰ اور قیصر کس قدر آرام و سہولت میں ہیں۔ اور آپ اللہ کے رسول ہیں (اور اس قدر تنگی)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان دونوں کو دنیا نصیب ہو اور تمہارے حصہ میں آخرت آئے؟“
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني يحيى بن سعيد ، عن عبيد بن حنين ، عن ابن عباس ، قال: اقبلت مع عمر حتى إذا كنا بمر الظهران، وساق الحديث بطوله كنحو حديث سليمان بن بلال، غير انه قال: قلت شان المراتين، قال: حفصة، وام سلمة، وزاد فيه: واتيت الحجر، فإذا في كل بيت بكاء، وزاد ايضا: وكان آلى منهن شهرا، فلما كان تسعا وعشرين نزل إليهن.وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَفَّانُ ، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ مَعَ عُمَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ كَنَحْوِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ شَأْنُ الْمَرْأَتَيْنِ، قَالَ: حَفْصَةُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ، وَزَادَ فِيهِ: وَأَتَيْتُ الْحُجَرَ، فَإِذَا فِي كُلِّ بَيْتٍ بُكَاءٌ، وَزَادَ أَيْضًا: وَكَانَ آلَى مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَلَمَّا كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ نَزَلَ إِلَيْهِنَّ.
حماد بن سلمہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں یحییٰ بن سعید نے عبید بن حنین سے خبر دی، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (حج سے) واپس آیا حتی کہ جب ہم مرالظہران میں تھے۔۔۔ آگے سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند پوری لمبی حدیث بیان کی، مگر انہوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے عرض کی: دو عورتوں کا معاملہ کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: (وہ) حفصہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن (تھیں۔) اور اس میں یہ اضافہ کیا: میں (ازواج مطہرات کے) حجروں کے پاس آیا تو ہر گھر میں رونے کی آواز تھی، اور یہ بھی اضافہ کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک ماہ ایلاء کیا تھا، جب 29 دن ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بالا خانے سے) اتر کر ان کے پاس تشریف لے آئے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ (حج سے) واپس آیا، حتی کہ جب ہم مر الظہران نامی جگہ پر پہنچے، آ گے مذکورہ بالا سلیمان بن بلال کی طویل حدیث بیان کی، ہاں یہ فرق ہے کہ میں نے پوچھا، دو عورتوں کا معاملہ کیا ہے؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، حفصہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور اس میں یہ اضافہ ہے۔ میں (ازواج مطہرات کے) گھروں کے پاس آیا، اور ہر گھر میں رونے کی آواز تھی اور یہ بھی اضافہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک ماہ کا ایلاء کیا تھا۔ تو جب انتیس دن گزر گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اتر آئے۔
وحدثنا وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب : واللفظ لابي بكر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن يحيى بن سعيد ، سمع عبيد بن حنين وهو مولى العباس، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: كنت اريد ان اسال عمر : عن المراتين اللتين تظاهرتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلبثت سنة ما اجد له موضعا حتى صحبته إلى مكة، فلما كان بمر الظهران ذهب يقضي حاجته، فقال: ادركني بإداوة من ماء، فاتيته بها، فلما قضى حاجته ورجع، ذهبت اصب عليه وذكرت، فقلت له: يا امير المؤمنين " من المراتان، فما قضيت كلامي حتى، قال: عائشة، وحفصة ".وحدثنا وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَّيرُ بْنُ حَرْبٍ : وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ وَهُوَ مَوْلَى الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ : عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَبِثْتُ سَنَةً مَا أَجِدُ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى صَحِبْتُهُ إِلَى مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ ذَهَبَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فقَالَ: أَدْرِكْنِي بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَرَجَعَ، ذَهَبْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَذَكَرْتُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " مَنِ الْمَرْأَتَانِ، فَمَا قَضَيْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ ".
سفیان بن عیینہ نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبید بن حنین سے سنا، وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایکا کیا تھا، میں سال بھر منتظر رہا، مجھے کوئی مناسب موقع نہ مل رہا تھا، حتی کہ میں مکہ کے سفر میں ان کے ساتھ گیا، جب ہم مر الظہران پہنچے تو وہ قضائے حاجت کے لیے گئے اور کہا: میرے پاس پانی کا ایک لوٹا لے آنا، میں نے انہیں لا دیا۔ جب وہ اپنی حاجت سے فارغ ہو کر لوٹے، میں جا کر ان (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالنے لگا، تو مجھے (سوال) یاد آ گیا، میں نے ان سے پوچھا: اے امیر المومنین! وہ کون سی دو عورتیں تھیں؟ میں نے ابھی اپنی بات ختم نہ کی تھی کہ انہوں نے جواب دیا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھن تھیں
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں، میں حضرت عمر ؓ سے ان عورتوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (آپ کے خلاف) ایکا اور اتحاد کیا تھا۔ مجھے ایک سال تک اس کا موقع و محل نہ مل سکا، حتی کہ میں ان کے ساتھ مکہ روانہ ہوا (واپسی پر) جب ہم مر الظہران جگہ پر پہنچے وہ قضائے حاجت کے لیے گئے اور کہا تم پانی کا لوٹا لے کر مجھے ملو، میں ان کے لیے پانی کا لوٹا لایا، جب وہ حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے، تو میں ان پر پانی ڈالنے لگا، اور مجھے اپنا سوال یاد آ گیا، تو میں نے پوچھا، اے امیر المومنین! وہ کون سی دو عورتیں ہیں؟ میں نے ابھی اپنی بات بھی مکمل نہیں کی تھی، حتی کہ انہوں نے کہہ دیا، عائشہ اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ امام سفیان بن عیینہ نے عبید بن حنین کو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مولیٰ قرار دیا ہے حالانکہ وہ زید بن خرکاب کا مولیٰ تھا۔
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، ومحمد بن ابي عمر ، وتقاربا في لفظ الحديث، قال ابن ابي عمر: حدثنا، وقال إسحاق: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور ، عن ابن عباس ، قال: لم ازل حريصا ان اسال عمر ، عن المراتين من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم: اللتين، قال الله تعالى: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4، حتى حج عمر، وحججت معه، فلما كنا ببعض الطريق عدل عمر، وعدلت معه بالإداوة فتبرز ثم اتاني، فسكبت على يديه فتوضا، فقلت: يا امير المؤمنين، " من المراتان من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتان قال الله عز وجل لهما: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4، قال عمر: واعجبا لك يا ابن عباس، قال الزهري: كره والله ما ساله عنه ولم يكتمه، قال: هي حفصة، وعائشة "، ثم اخذ يسوق الحديث، قال: كنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة، وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، قال: وكان منزلي في بني امية بن زيد بالعوالي، فتغضبت يوما على امراتي، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، فانطلقت فدخلت على حفصة، فقلت: اتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقالت: نعم، فقلت: اتهجره إحداكن اليوم إلى الليل؟، قالت: نعم، قلت: قد خاب من فعل ذلك منكن وخسر، افتامن إحداكن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله صلى الله عليه وسلم، فإذا هي قد هلكت، لا تراجعي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تساليه شيئا وسليني ما بدا لك، ولا يغرنك ان كانت جارتك هي اوسم واحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، يريد عائشة، قال: وكان لي جار من الانصار، فكنا نتناوب النزول إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فينزل يوما وانزل يوما، فياتيني بخبر الوحي وغيره وآتيه بمثل ذلك، وكنا نتحدث ان غسان تنعل الخيل لتغزونا فنزل صاحبي ثم اتاني عشاء، فضرب بابي ثم ناداني، فخرجت إليه، فقال: حدث امر عظيم، قلت ماذا، اجاءت غسان؟ قال: لا بل اعظم من ذلك واطول: طلق النبي صلى الله عليه وسلم نساءه، فقلت: قد خابت حفصة وخسرت، قد كنت اظن هذا كائنا حتى إذا صليت الصبح شددت علي ثيابي، ثم نزلت فدخلت على حفصة وهي تبكي، فقلت: اطلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: لا ادري ها هو ذا معتزل في هذه المشربة، فاتيت غلاما له اسود، فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فانطلقت حتى انتهيت إلى المنبر فجلست، فإذا عنده رهط جلوس يبكي بعضهم، فجلست قليلا، ثم غلبني ما اجد، ثم اتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت فوليت مدبرا، فإذا الغلام يدعوني، فقال: ادخل فقد اذن لك، فدخلت فسلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو متكئ على رمل حصير قد اثر في جنبه، فقلت: اطلقت يا رسول الله نساءك؟ فرفع راسه إلي، وقال: " لا "، فقلت: الله اكبر لو رايتنا يا رسول الله، وكنا معشر قريش قوما نغلب النساء فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فتغضبت على امراتي يوما فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، فقلت: قد خاب من فعل ذلك منهن وخسر، افتامن إحداهن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله صلى الله عليه وسلم فإذا هي قد هلكت، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، قد دخلت على حفصة، فقلت: لا يغرنك ان كانت جارتك هي اوسم منك واحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، فتبسم اخرى، فقلت: استانس يا رسول الله، قال: " نعم "، فجلست فرفعت راسي في البيت فوالله ما رايت فيه شيئا يرد البصر إلا اهبا ثلاثة، فقلت: ادع الله يا رسول الله، ان يوسع على امتك فقد وسع على فارس، والروم، وهم لا يعبدون الله، فاستوى جالسا، ثم قال: " افي شك انت يا ابن الخطاب "، اولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا "، فقلت: استغفر لي يا رسول الله، وكان اقسم ان لا يدخل عليهن شهرا من شدة موجدته عليهن، حتى عاتبه الله عز وجل. وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حدثنا، وقَالَ إِسْحَاقَ: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ، عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّتَيْنِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، حَتَّى حَجَّ عُمَرُ، وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، " مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، قَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ، قَالَ: هِيَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ "، ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعَنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فقَالَت: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فقَالَت: نَعَمْ، فَقُلْتُ: أَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟، قَالَت: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي ثُمَّ نَادَانِي، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ مَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ: طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فقَالَت: لَا أَدْرِي هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ، فَإِذَا عَنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: " لَا "، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعَنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فقَالَت: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمُ مِنْكِ وَأَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " نَعَمْ "، فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أُهَبًا ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ "، أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا "، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
معمر نے زہری سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں شدت سے خواہش مند رہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ان دو کے بارے میں سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو تو یقینا تمہارے دل آگے جھک گئے ہیں" حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حج (کا سفر) کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، (واپسی پر) ہم راستے کے ایک حصے میں تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ (اپنی ضرورت کے لیے راستے سے) ایک طرف ہٹ گئے اور میں بھی پانی کا برتن لیے ان کے ساتھ ہٹ گیا، وہ صحرا میں چلے گئے، پھر میرے پاس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی انڈیلا، انہوں نے وضو کیا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرو تو یقینا تمہارے دل جھک گئے ہیں؟" عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن عباس! تم پر تعجب ہے!۔۔۔ زہری نے کہا: اللہ کی قسم! انہوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے جو سوال ان سے کیا، وہ انہیں برا لگا اور انہوں نے (اس کا جواب) چھپایا بھی نہیں۔۔ انہوں نے کہا: وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن تھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات سنانے لگے اور کہا: ہم قریش کے لوگ ایسی قوم تھے جو اپنی عورتوں پر غالب تھے، جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن پر ان کی عورتیں غالب تھیں، چنانچہ ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے سیکھنا شروع کر دیا۔ (مردوں کو پلٹ کر جواب دینے لگیں۔) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا گھر بالائی علاقے بنی امیہ بن زید کے محلے میں تھا، ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا، تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے اس کا جواب دینا بڑا ناگوار گزرا تو اس نے کہا: تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے دیتی ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تک پورا دن چھوڑ بھی دیتی ہے (روٹھی رہتی ہے۔) میں چلا، حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا اور کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب دے دیتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے (پھر) پوچھا: کیا تم میں سے کوئی انہیں رات تک دن بھر کے لیے چھوڑ بھی دیتی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو جاتی ہے کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کی وجہ سے اللہ (بھی) اس پر ناراض ہو جائے گا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گی؟ (آیندہ) تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، تمہیں جو چاہئے مجھ سے مانگ لینا۔ تمہیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی (سوکن) تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے۔۔ ان کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:۔۔ انصار میں سے میرا ایک پڑوسی تھا۔۔ ہم باری باری (بالائی علاقے سے) اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ ایک دن وہ اترتا اور ایک دن میں اترتا، وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی (اپنی باری کے دن) اس کے پاس اسی طرح کی خبریں لاتا۔ اور (ان دنوں) ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی ہمارے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے گھوڑوں کو کھڑیاں لگا رہے تھے، میرا ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے عوالی سے) اترا، پھر عشاء کے وقت میرے پاس آیا، میرا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر مجھے آواز دی، میں باہر نکلا تو اس نے کہا: ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ وہ اس سے بھی بڑا اور لمبا چوڑا (معاملہ) ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ تو ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑ گئی۔ میں تو (پہلے ہی) سمجھتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ (دوسرے دن) جب میں صبح کی نماز پڑھ چکا تو اپنے کپڑے پہنے، مدینہ میں آیا اور حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتی، البتہ آپ الگ تھلگ اس بالاخانے میں ہیں۔ میں آپ کے سیاہ فام غلام کے پاس آیا، اور اسے کہا، عمر کے لیے اجازت مانگو۔ وہ گیا، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا: میں نے آُ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا مگر آپ خاموش رہے۔ میں چلا آیا حتی کہ منبر کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے، ان میں سے بعض رو رہے تھے، میں تھوڑی دیر بیٹھا، پھر جو کیفیت مجھ پر طاری تھی وہ مجھ پر غالب آ گئی۔ میں پھر غلام کے پاس آیا اور کہا: عمر کے لیے اجازت مانگو، وہ اندر داخل ہوا، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا ذکر کیا، مگر آپ خاموش رہے۔ میں پیٹھ پھیر کر مڑا تو اچانک غلام مجھے بلانے لگا، اور کہا: اندر چلے جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔ میں اندر داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا تو دیکھا کہ آپ بنتی کی ایک چٹائی پر سہارا لے کر بیٹھے تھے، جس نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے تھے، میں نے عرض کی: کیا آپ نے اللہ کے رسول! اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف (دیکھتے ہوئے) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: "نہیں۔" میں نے کہا: اللہ اکبر۔اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں دیکھتے تو ہم قریش ایسی قوم تھے جو اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں، تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں (کی عادت) سے سیکھنا شروع کر دیا، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی پر برہم ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی۔ مجھے اس کا جواب دینا انتہائی ناگوار گزرا، اس نے کہا: تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دیتی ہوں؟ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دے دیتی ہیں، اور ان میں سے کوئی تو آپ کو رات تک چھوڑ بھی دیتی (روٹھ بھی جاتی) ہے۔ تو میں نے کہا: ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی۔ کیا (یہ کام کر کے) ان میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو سکتی ہے کہ اپنے رسول کی ناراضی کی وجہ سے اللہ اس پر ناراض ہو جائے (اگر ایسا ہوا) تو وہ تباہ ہو گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حفصہ کے پاس گیا اور اس نے کہا: تمہیں یہ بات کسی دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی (سوکن) تم سے زیادہ خوبصورت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر آپ دوبارہ مسکرائے تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (کچھ دیر بیٹھ کر) بات چیت کروں، آپ نے فرمایا: "ہاں۔" چنانچہ میں بیٹھ گیا اور میں نے سر اوپر کر کے گھر میں نگاہ دوڑائی تو اللہ کی قسم! اس میں تین چمڑوں کے سوا کچھ نہ تھا جس پر نظر پڑتی، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ اللہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے۔ فارسیوں اور رومیوں پر وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: "ابن خطاب! کیا تم کسی شک میں مبتلا ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان (کے حصے) کی اچھی چیزیں جلد ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں۔" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب کیجیے۔ اور آپ نے ان (ازواج) پر سخت غصے کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ ایک مہینہ ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب فرمایا۔ (کہ بیویوں کی بات پر آپ کیوں غمزدہ ہوتے اور حلال چیزوں سے دور رہنے کی قسم کھاتے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں کافی عرصہ سے خواہش مند (آرزو مند) تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں دریافت کروں۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو تمہارے لیے زیبا ہے، تمہارے دل تو اللہ کی طرف مائل ہو ہی چکے ہیں۔“(تحریم: 4)
(حديث موقوف) قال قال الزهري : فاخبرني عروة ، عن عائشة ، قالت: لما مضى تسع وعشرون ليلة دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، بدا بي، فقلت: يا رسول الله، إنك اقسمت ان لا تدخل علينا شهرا، وإنك دخلت من تسع وعشرين اعدهن، فقال: " إن الشهر تسع وعشرون "، ثم قال: " يا عائشة، إني ذاكر لك امرا، فلا عليك ان لا تعجلي فيه حتى تستامري ابويك "، ثم قرا علي الآية: يايها النبي قل لازواجك، حتى بلغ اجرا عظيما سورة الاحزاب آية 28 - 29، قالت عائشة: قد علم والله ان ابوي لم يكونا ليامراني بفراقه، قالت: فقلت: او في هذا استامر ابوي، فإني اريد الله ورسوله والدار الآخرة، قال معمر : فاخبرني ايوب : ان عائشة قالت: لا تخبر نساءك اني اخترتك، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الله ارسلني مبلغا ولم يرسلني متعنتا "، قال قتادة: صغت قلوبكما مالت قلوبكما.(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا مَضَى تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَدَأَ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّكَ دَخَلْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ أَعُدُّهُنَّ، فقَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ، حَتَّى بَلَغَ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29، قَالَت عَائِشَةُ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: فَقُلْتُ: أَوَ فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ مَعْمَرٌ : فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ : أَنَّ عَائِشَةَ قَالَت: لَا تُخْبِرْ نِسَاءَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ، فقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي مُبَلِّغًا وَلَمْ يُرْسِلْنِي مُتَعَنْتًا "، قَالَ قَتَادَةُ: صَغَتْ قُلُوبُكُمَا مَالَتْ قُلُوبُكُمَا.
زہری نے کہا: مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا: جب انتیس راتیں گزر گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، آپ نے میرے (گھر) سے ابتدا کی، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر ہمارے پاس نہیں آئیں گے، اور آپ انتیسویں دن تشریف لائے ہیں، میں انہیں شمار کرتی رہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔" پھر فرمایا: "عائشہ! میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں، تمہارے لیے کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے بھی مشورہ کرنے تک اس میں جلدی نہ کرو۔" پھر آپ نے میرے سامنے تلاوت فرمائی: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے" سے لے کر "بہت بڑا اجر ہے" تک پہنچ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دیں گے۔ کہا: تو میں نے عرض کی: کیا میں اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ میں یقینا اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہوں۔ معمر نے کہا: مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہ بتائیں کہ میں نے آپ کو چن لیا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلغ (پہنچانے والا) بنا کر بھیجا ہے، کمزوریاں ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔" قتادہ نے کہا: (صَغَتْ قُلُوبُکُمَا ۖ)(التحریم: 4: 66) کا معنی ہے: تم دونوں کے دل مائل ہو چکے ہیں
امام زہری بیان کرتے ہیں، مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بتایا کہ جب انتیس راتیں گزر گئیں (دن سمیت) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، ابتدا مجھ سے کی، تو میں نے پوچھا، (آپ کہیں بھول تو نہیں گئے) اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ایک ماہ تک نہیں آئیں گے اور آپ انتیسویں دن تشریف لے آئے ہیں۔ میں انہیں (بڑی بے صبری سے) گنتی رہی ہوں، آپ نے فرمایا: ”یہ مہینہ انتیس کا ہے۔“ پھر فرمایا: ”اے عائشہ! میں تجھے ایک بات بتانے لگا ہوں تم پر کوئی تنگی نہیں ہے، اگر اس کے جواب میں جلد بازی نہ کرو، حتی کہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آیت سنائی: (اے نبی! اپنی بیویوں کو فرما دیجئے، سے لے کر ﴿أَجْرًا عَظِيمًا﴾
حدثنا يحيى بن يحيى قال قرات على مالك عن عبد الله بن يزيد مولى الاسود بن سفيان عن ابى سلمة بن عبد الرحمن عن فاطمة بنت قيس ان ابا عمرو بن حفص طلقها البتة وهو غائب فارسل إليها وكيله بشعير فسخطته فقال والله ما لك علينا من شىء. فجاءت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فذكرت ذلك له فقال «ليس لك عليه نفقة» . فامرها ان تعتد فى بيت ام شريك ثم قال «تلك امراة يغشاها اصحابى اعتدى عند ابن ام مكتوم فإنه رجل اعمى تضعين ثيابك فإذا حللت فآذنينى» . قالت فلما حللت ذكرت له ان معاوية بن ابى سفيان وابا جهم خطبانى. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «اما ابو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه واما معاوية فصعلوك لا مال له انكحى اسامة بن زيد» . فكرهته ثم قال «انكحى اسامة» . فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَىْءٍ. فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ «لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ» . فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِى بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ «تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِى اعْتَدِّى عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِى» . قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِى سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- «أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتَقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ انْكِحِى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ» . فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ «انْكِحِى أُسَامَةَ» . فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ.
اسود بن سفیان کے مولیٰ عبداللہ بن یزید نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ (حتمی، تیسری طلاق) دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھے، ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کچھ جَو (وغیرہ) بھیجے، تو وہ اس پر ناراض ہوئیں، اس (وکیل) نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور یہ بات آپ کو بتائی۔ آپ نے فرمایا: "اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں۔" اور آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت گزاریں، پھر فرمایا: "اس عورت کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے ہیں، تم ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں عدت گزر لو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم اپنے (اوڑھنے کے) کپڑے بھی اتار سکتی ہو۔ تم جب (عدت کی بندش سے) آزاد ہو جاؤ تو مجھے بتانا۔" جب میں (عدت سے) فارغ ہوئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہم دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا، اور رہا معاویہ تو وہ انتہائی فقیر ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لو۔" میں نے اسے ناپسند کیا، آپ نے پھر فرمایا: "اسامہ سے نکاح کر لو۔" تو میں نے ان سے نکاح کر لیا، اللہ نے اس میں خیر ڈال دی اور اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کیا جانے لگا
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے الگ کرنے والی طلاق دے دی یعنی تیسری طلاق دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھا۔ اس لیے اس کے وکیل نے، اس کے پاس کچھ جو بھیجے، جو اس (فاطمہ) نے پسند نہ کیے، تو وکیل نے کہا، اللہ کی قسم! تیرا ہمارے ذمہ کوئی حق نہیں ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا نان و نفقہ خاوند کے ذمہ نہیں ہے۔“ اور اسے فرمایا: ”اپنی عدت ام شریک کے گھر پوری کر۔ پھر فرمایا: ”وہ ایک ایسی عورت ہے، جس کے پاس میرے ساتھی جمع ہو جاتے ہیں، ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزار لے کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، وہاں (پردہ کے) کپڑے اتار سکو گی، تو جب عدت پوری ہو جائے، تو مجھے آگاہ کرنا۔“ جب میری عدت پوری ہو گئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم نے مجھے پیغام بھیجا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو جہم تو اپنے کندھے سے اپنی لاٹھی نہیں اتارتا اور معاویہ تو فقیر (تنگدست) ہے۔ اس کے پاس مال نہیں ہے، تو اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لے۔“ میں نے اس کو ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”اسامہ سے نکاح کر لے۔“ تو میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر) اس سے نکاح کر لیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت خیر پیدا کی اور مجھ پر رشک ہونے لگا۔
ابوحازم نے ابوسلمہ سے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی، اور اس نے انہیں بہت حقیر سا خرچ دیا، جب انہوں نے اسے دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم! میں (اس بات سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور آگاہ کروں گی، اگر میرے لیے خرچ ہے تو اتنا لوں گی جو میری گزران درست کر دے، اگر میرے لیے خرچ نہیں ہے تو میں اس سے کچھ بھی نہیں لوں گی۔ انہوں نے کہا: میں نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "تمہارے لیے نہ خرچ ہے اور نہ رہائش۔"
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اس کے خاوند نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسم کے دور میں طلاق دے دی، اور اسے کم تر نفقہ دیا، تو جب اس نے یہ معاملہ دیکھا تو کہا، اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گی، اگر میرے لیے نفقہ ہوا تو اپنی حیثیت کے مطابق لوں گی اور اگر میرے لیے نفقہ نہ ہوا، تو کچھ نہ لوں گی، تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے نفقہ اور مسکن دونوں ہی نہیں ہیں۔“
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن عمران بن ابي انس ، عن ابي سلمة ، انه قال: سالت فاطمة بنت قيس ، فاخبرتني: ان زوجها المخزومي طلقها، فابى ان ينفق عليها، فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا نفقة لك، فانتقلي فاذهبي إلى ابن ام مكتوم، فكوني عنده، فإنه رجل اعمى تضعين ثيابك عنده ".حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، فَأَخْبَرَتْنِي: أَنَّ زَوْجَهَا الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا، فَأَبَى أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نَفَقَةَ لَكِ، فَانْتَقِلِي فَاذْهَبِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَكُونِي عَنْدَهُ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ عَنْدَهُ ".
عمران بن ابی انس نے ابوسلمہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے مخزومی شوہرنے انہیں طلاق دے دی اور ان پر خرچ کرنے سے بھی انکار کر دیا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے خرچ نہیں ہے۔ (وہاں سے) منتقل ہو کر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے ہاں چلی جاؤ اور وہیں رہو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم وہاں اپنے (اوڑھنے کے) کپڑے بھی اتار سکو گی
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں، میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا، تو اس نے مجھے بتایا کہ میرے مخزومی خاوند نے، مجھے طلاق دے دی، اور پورا خرچ دینے سے انکار کر دیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے نفقہ نہیں ہے، خاوند کے گھر سے منتقل ہو جا، اور ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چلی جا، اور وہاں رہ، کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، تو وہاں اپنا پردے کا کپڑا اتار سکے گی۔“
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن يحيى وهو ابن ابي كثير ، اخبرني ابو سلمة ، ان فاطمة بنت قيس اخت الضحاك بن قيس، اخبرته: ان ابا حفص بن المغيرة المخزومي طلقها ثلاثا، ثم انطلق إلى اليمن، فقال لها اهله: ليس لك علينا نفقة، فانطلق خالد بن الوليد في نفر فاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة، فقالوا: إن ابا حفص طلق امراته ثلاثا، فهل لها من نفقة؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليست لها نفقة، وعليها العدة "، وارسل إليها ان لا تسبقيني بنفسك، وامرها ان تنتقل إلى ام شريك، ثم ارسل إليها ان ام شريك ياتيها المهاجرون الاولون، فانطلقي إلى ابن ام مكتوم الاعمى، فإنك إذا وضعت خمارك لم يرك، فانطلقت إليه، فلما مضت عدتها انكحها رسول الله صلى الله عليه وسلم اسامة بن زيد بن حارثة،وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حدثنا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْيَمَنِ، فقَالَ لَهَا أَهْلُهُ: لَيْسَ لَكِ عَلَيْنَا نَفَقَةٌ، فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فقَالُوا: إِنَّ أَبَا حَفْصٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَهَلْ لَهَا مِنْ نَفَقَةٍ؟ فقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ "، وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنْ لَا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ، وَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنَّ أُمَّ شَرِيكٍ يَأْتِيهَا الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ، فَانْطَلِقِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى، فَإِنَّكِ إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَكِ لَمْ يَرَكِ، فَانْطَلَقَتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ،
یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے، (کہا:) مجھے ابوسلمہ نے خبر دی کہ ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ ابوحفص بن مغیرہ مخزومی نے اسے تین طلاقیں دے دیں، پھر یمن کی طرف طلا گیا، تو اس کے عزیز و اقارب نے اسے کہا: تمہارا خرچ ہمارے ذمے نہیں ہے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چند ساتھیوں کے ہمراہ آئے، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ابوحفص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، کیا اس (کی سابقہ بیوی) کے لیے خرچہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے لیے خرچہ نہیں ہے جبکہ اس کے لیے عدت (گزارنا) ضروری ہے۔" اور آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا: "اپنے بارے میں مجھ سے (مشورہ کرنے سے پہلے) سبقت نہ کرنا۔" اور اسے حکم دیا کہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے ہاں منتقل ہو جائے، پھر اسے پیغام بھیجا: "ام شریک کے ہاں اولین مہاجرین آتے ہیں، تم ابن مکتوم اعمیٰ کے ہاں چلی جاؤ، جب (کبھی) تم اپنی اوڑھنی اتارو گی تو وہ تمہیں نہیں دیکھ سکیں گے۔" وہ ان کے ہاں چلی گئیں، جب ان کی عدت پوری ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہا سے کر دیا
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے بتایا کہ ابو حفص ابن مغیرہ مخزومی نے اسے تیسری طلاق دے دی، پھر یمن چلا گیا، اور اس کے گھر والوں نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہا، تیرا نفقہ ہمارے ذمہ لازم نہیں ہے، خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ چلا، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیے عنہا کے گھر آ گئے، اور پوچھا، ابو حفص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، تو کیا اس کو خرچ ملے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خرچ نہیں ملے گا اور اس کو عدت گزارنی ہو گی۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو پیغام بھیجا: ”مجھے اطلاع دیے بغیر یا مجھ سے پوچھنے سے پہلے اپنے بارے میں (نکاح کا) فیصلہ نہ کرنا۔“ اور اسے حضرت ام شریک کے گھر منتقل ہونے کا حکم دیا، پھر اسے پیغام بھیجا: ”ام شریک کے ہاں مہاجرین اولین آ جاتے ہیں، ابن ام مکتوم نابینا کے ہاں چلی جاؤ، کیونکہ تو وہاں جب اپنا دوپٹہ اتارے گی تو وہ تمہیں دیکھ نہیں سکے گا۔“ وہ ان کے ہاں چلی گئی اور جب اس کی عدت گزر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کر دیا۔“
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید اور ابن حجر نے ہمیں حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں اسماعیل، یعنی ابن جعفر نے محمد بن عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے ہمیں ابوسلمہ سے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی۔ اسی طرح ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔ (کہا:) ہم سے محمد بن بشر نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہم سے محمد بن عمرو نے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حدیث بیان کی: (ابوسلمہ نے) کہا: میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے منہ سے سن کر یہ حدیث لکھی، انہوں نے کہا: میں بنو مخزوم کے ایک آدمی کے ہاں تھی۔ اس نے مجھے تین طلاقیں دے دیں تو میں نے اس کے گھر والوں کے ہاں پیغام بھیجا، میں خرچ کا مطالبہ کر رہی تھی۔۔۔ آگے ان سب نے ابوسلمہ سے یحییٰ بن کثیر کی حدیث کے مانند بیان کیا، البتہ محمد بن عمرو کی حدیث میں ہے: "اپنے (نکاح کے) معاملے میں (ہمارے ساتھ مشورہ کیے بغیر) ہمیں پیچھے نہ چھوڑ دینا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سند سے ابو سلمہ سے روایت کرتے ہیں۔