Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الطَّلَاقِ
طلاق کے احکام و مسائل
5. باب فِي الإِيلاَءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}:
باب: ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا۔
حدیث نمبر: 3696
(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا مَضَى تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَدَأَ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّكَ دَخَلْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ أَعُدُّهُنَّ، فقَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ، حَتَّى بَلَغَ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29، قَالَت عَائِشَةُ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: فَقُلْتُ: أَوَ فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ مَعْمَرٌ : فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ : أَنَّ عَائِشَةَ قَالَت: لَا تُخْبِرْ نِسَاءَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ، فقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي مُبَلِّغًا وَلَمْ يُرْسِلْنِي مُتَعَنْتًا "، قَالَ قَتَادَةُ: صَغَتْ قُلُوبُكُمَا مَالَتْ قُلُوبُكُمَا.
زہری نے کہا: مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے کہا: جب انتیس راتیں گزر گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، آپ نے میرے (گھر) سے ابتدا کی، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر ہمارے پاس نہیں آئیں گے، اور آپ انتیسویں دن تشریف لائے ہیں، میں انہیں شمار کرتی رہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔" پھر فرمایا: "عائشہ! میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں، تمہارے لیے کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے والدین سے بھی مشورہ کرنے تک اس میں جلدی نہ کرو۔" پھر آپ نے میرے سامنے تلاوت فرمائی: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے" سے لے کر "بہت بڑا اجر ہے" تک پہنچ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کو بخوبی علم تھا کہ میرے والدین مجھے کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دیں گے۔ کہا: تو میں نے عرض کی: کیا میں اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ میں یقینا اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہوں۔ معمر نے کہا: مجھے ایوب نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہ بتائیں کہ میں نے آپ کو چن لیا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلغ (پہنچانے والا) بنا کر بھیجا ہے، کمزوریاں ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔" قتادہ نے کہا: (صَغَتْ قُلُوبُکُمَا ۖ) (التحریم: 4: 66) کا معنی ہے: تم دونوں کے دل مائل ہو چکے ہیں
امام زہری بیان کرتے ہیں، مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بتایا کہ جب انتیس راتیں گزر گئیں (دن سمیت) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، ابتدا مجھ سے کی، تو میں نے پوچھا، (آپ کہیں بھول تو نہیں گئے) اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ایک ماہ تک نہیں آئیں گے اور آپ انتیسویں دن تشریف لے آئے ہیں۔ میں انہیں (بڑی بے صبری سے) گنتی رہی ہوں، آپ نے فرمایا: یہ مہینہ انتیس کا ہے۔ پھر فرمایا: اے عائشہ! میں تجھے ایک بات بتانے لگا ہوں تم پر کوئی تنگی نہیں ہے، اگر اس کے جواب میں جلد بازی نہ کرو، حتی کہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آیت سنائی: (اے نبی! اپنی بیویوں کو فرما دیجئے، سے لے کر ﴿أَجْرًا عَظِيمًا﴾

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3696 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3696  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
انصاری کی بات سننے کے بعد صبح کی نماز کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی۔
پھر اس دن کے بعد بھی وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔
جب انتیسویں دن حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ نیچے اتر آئے۔
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا آپ بالا خانہ میں انتیس دن ٹھہرے ہیں آپ نے تو ایک ماہ کی قسم اٹھائی تھی اور یہی بات جب آپ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے انھوں نے عرض کی۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے الگ ہونے کا علم تو پہلے ہی ہو،
جیسا کہ حدیث نمبر30 سے معلوم ہوتا ہے اور اٹھائیسویں دن انصاری سے طلاق دینے کی اطلاع دی ہو تو پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتیسویں دن آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلاق دینے کے بارے میں سوال کیا یہی بات ازواج تک بھی پہنچ چکی تھی اس لیے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رو رہی تھیں آپ نے جب یہ جواب دیا۔
میں نے طلاق نہیں دی،
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی سے بلند آواز سے اللہ اکبرکہا،
جس کو ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے اپنے گھروں میں سنا تو انہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا پتا چل گیا۔
اور پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نیچے اترے تو انھوں نے آپ سے مہینے کے بارے میں سوال کیا۔
اور شام کے بعد جب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انھوں نے بھی آپ سے یہی سوال کیا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول تو نہیں گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم ایک ماہ کے لیے اٹھائی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3696