Chapter: Ila', Keeping away from one's wives and giving them the choice, And the saying of Allah, The Most High: "But if you help one another against him
وحدثنا وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب : واللفظ لابي بكر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن يحيى بن سعيد ، سمع عبيد بن حنين وهو مولى العباس، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: كنت اريد ان اسال عمر : عن المراتين اللتين تظاهرتا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلبثت سنة ما اجد له موضعا حتى صحبته إلى مكة، فلما كان بمر الظهران ذهب يقضي حاجته، فقال: ادركني بإداوة من ماء، فاتيته بها، فلما قضى حاجته ورجع، ذهبت اصب عليه وذكرت، فقلت له: يا امير المؤمنين " من المراتان، فما قضيت كلامي حتى، قال: عائشة، وحفصة ".وحدثنا وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَّيرُ بْنُ حَرْبٍ : وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ وَهُوَ مَوْلَى الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ : عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَبِثْتُ سَنَةً مَا أَجِدُ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى صَحِبْتُهُ إِلَى مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ ذَهَبَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فقَالَ: أَدْرِكْنِي بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَرَجَعَ، ذَهَبْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَذَكَرْتُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " مَنِ الْمَرْأَتَانِ، فَمَا قَضَيْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ ".
سفیان بن عیینہ نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبید بن حنین سے سنا، وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایکا کیا تھا، میں سال بھر منتظر رہا، مجھے کوئی مناسب موقع نہ مل رہا تھا، حتی کہ میں مکہ کے سفر میں ان کے ساتھ گیا، جب ہم مر الظہران پہنچے تو وہ قضائے حاجت کے لیے گئے اور کہا: میرے پاس پانی کا ایک لوٹا لے آنا، میں نے انہیں لا دیا۔ جب وہ اپنی حاجت سے فارغ ہو کر لوٹے، میں جا کر ان (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالنے لگا، تو مجھے (سوال) یاد آ گیا، میں نے ان سے پوچھا: اے امیر المومنین! وہ کون سی دو عورتیں تھیں؟ میں نے ابھی اپنی بات ختم نہ کی تھی کہ انہوں نے جواب دیا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنھن تھیں
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں، میں حضرت عمر ؓ سے ان عورتوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (آپ کے خلاف) ایکا اور اتحاد کیا تھا۔ مجھے ایک سال تک اس کا موقع و محل نہ مل سکا، حتی کہ میں ان کے ساتھ مکہ روانہ ہوا (واپسی پر) جب ہم مر الظہران جگہ پر پہنچے وہ قضائے حاجت کے لیے گئے اور کہا تم پانی کا لوٹا لے کر مجھے ملو، میں ان کے لیے پانی کا لوٹا لایا، جب وہ حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے، تو میں ان پر پانی ڈالنے لگا، اور مجھے اپنا سوال یاد آ گیا، تو میں نے پوچھا، اے امیر المومنین! وہ کون سی دو عورتیں ہیں؟ میں نے ابھی اپنی بات بھی مکمل نہیں کی تھی، حتی کہ انہوں نے کہہ دیا، عائشہ اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ امام سفیان بن عیینہ نے عبید بن حنین کو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مولیٰ قرار دیا ہے حالانکہ وہ زید بن خرکاب کا مولیٰ تھا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3694
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا اور اتحاد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس ہدایت کے ساتھ بتائی تھی کہ تم نے اسے آ گے کسی کو نہیں بتانا، انھوں نے وہ بات بربنائےمحبت و اخلاص حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتا دی جب اللہ تعالیٰ نے اس افشائے راز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آ گاہ فرما دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس پر استفسار فرمایا۔ تو انھوں نے تعجب سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ مجھے علیم و خبیر ذات نے اطلاع دی ہے۔ اور انہیں اس حرکت پر تنبیہ کی لیکن انھوں نے اس تنبیہ کو کوئی زیادہ اہمیت نہ دی کہ میں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دوسری معتمد اور محبوب بیوی کو بتا کر کوئی سنگین جرم نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر میری گرفت فرمائیں تو انھوں نے اس تدلل و ناز اور اعتماد کی بنا پر جو میاں بیوی میں باہمی محبت و پیار کی بنا پر ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خفگی اور کچھ لاتعلقی کا اظہار کیا اور دوسری بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اس خفگی اور ناراضگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ساتھ دیا کہ اگر اس نے مجھے یہ بات بتا دی تو کیا ہوا۔ آخر میں بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہی ہوں، کوئی غیر یا اجنبی تو نہیں ہوں۔ تو پھر اس پر عتاب کیوں اس کا معنی تو یہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غیر خیال کیا ہے۔ اس طرح انھوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے ناز اور تدلل کی بنا پر ناراضگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ساتھ دیا۔ تو انہیں بتا دیا گیا اگر تم روٹھ جاؤ گی تو یہ نہ سمجھو، اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سونی ہو جائے گی پیغمبر کی دلچسپی اور توجہ کا اصل مرکز تو اللہ تعالیٰ ہے جو ان کا مولیٰ اور مرجع ہے۔ پھر جبریل امین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لاتے ہیں۔ پھر مؤمنین صالحین ہیں، جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تربیت اور تزکیہ فرماتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر مشکل میں رفیق اور معاون و مدد گار ہیں۔ اس لیے اللہ کا رسول ان کی محبت و رفاقت کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ اس کی محبت اور رفاقت و معیت کی محتاج ہیں۔