عطاء سے روایت ہے، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی، کہا: میرے رضاعی چچا ابوالجعد نے میرے پاس آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں انکار کر دیا۔ ہشام نے مجھ سے کہا: یہ ابوقعیس ہی تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ نے فرمایا: "تم نے انہیں اجازت کیوں نہ دی؟ تمہارا دایاں ہاتھ یا تمہارا ہاتھ خاک آلود ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے میرے رضاعی چچا نے ملنے کی اجازت طلب کی جو ابو الجعد تھا، میں نے اس کو واپس لوٹا دیا۔ ہشام نے بتایا وہ ابو القعیس تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اسے اجازت کیوں نہ دی؟ تیرا دایاں ہاتھ یا (صرف) ہاتھ خاک آ لود ہو۔“
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث. ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن عراك ، عن عروة ، عن عائشة ، انها اخبرته، ان عمها من الرضاعة يسمى افلح، استاذن عليها فحجبته، فاخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها: " لا تحتجبي منه، فإنه يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب ".حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ. ح وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، أَخْبَرَنا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عِرَاكٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ عَمَّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ يُسَمَّى أَفْلَحَ، اسْتَأْذَنَ عَلَيْهَا فَحَجَبَتْهُ، فَأَخْبَرَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لَهَا: " لَا تَحْتَجِبِي مِنْهُ، فَإِنَّهُ يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ ".
یزید بن ابی حبیب نے عراک (بن مالک غفاری) سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے اسے خبر دی کہ ان کے رضاعی چچا نے، جن کا نام افلح تھا، ان کے ہاں آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے ان کے آگے پردہ کیا (انہیں روک دیا) اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: "تم ان سے پردہ نہ کرو کیونکہ رضاعت سے بھی وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے افلح نامی رضاعی چچا نے مجھ سے ملنے کی اجازت طلب کی، میں نے اس سے پردہ کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”اس سے پردہ نہ کرو، کیونکہ رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔“
حکم نے عراک بن مالک سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: قعیس کے بیٹے افلح نے میرے ہاں آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا، انہوں نے پیغام بھیجا: میں آپ کا چچا ہوں، میرے بھائی کی بیوی نے آپ کو دودھ پلایا ہے، اس پر بھی میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعے کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: "وہ تمہارے سامنے آ سکتا ہے وہ تمہارا چچا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے افلح بن قعیس نے ملنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اجازت نہ دی، اس نے پیغام دیا، میں تیرا چچا ہوں، میرے بھائی کی بیوی نے تمہیں دودھ پلایا ہے میں نے اجازت دینے سے (پھر بھی) انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرے پاس آ سکتا ہے، کیونکہ وہ تیرا چچا ہے۔“
ابومعاویہ نے ہمیں اعمش سے خبر دی، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے آپ (نکاح کے لیے) قریش (کی عورتوں) کے انتخاب کا اہتمام کرتے ہیں اور ہمیں (بنو ہاشم کو) چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تمہارے پاس کوئی شے (رشتہ) ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں، حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ میرے لیے حلال نہیں (کیونکہ) وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے انتخاب کرتے ہیں اور ہمیں (بنو ہاشم کو) نظر انداز کر دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے ہاں کوئی رشتہ ہے؟“ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔“
وحدثنا هداب بن خالد ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن جابر بن زيد ، عن ابن عباس : ان النبي صلى الله عليه وسلم اريد على ابنة حمزة، فقال: " إنها لا تحل لي، إنها ابنة اخي من الرضاعة، ويحرم من الرضاعة ما يحرم من الرحم ".وحدثنا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حدثنا هَمَّامٌ ، حدثنا قَتَادَةُ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدَ عَلَى ابْنَةِ حَمْزَةَ، فقَالَ: " إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، وَيَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّحِمِ ".
ہمام نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قتادہ نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی (کے ساتھ نکاح کرنے) کے بارے میں خواہش کا اظہار کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ میرے لیے حلال نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو رحم (ولادت اور نسب) سے حرام ہوتے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے نکاح کر لیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میرے لیے جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت سے وہ رشتہ حرام ہو جاتا ہے جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے۔“
یحییٰ قطان اور بشر بن عمر نے شعبہ سے حدیث بیان کی، شعبہ اور سعید بن ابی عروبہ دونوں نے قتادہ سے ہمام کی (سابقہ) سند کے ساتھ بالکل اسی طرح روایت کی، مگر شعبہ کی حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: "میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے" پر ختم ہو گئی اور سعید کی حدیث میں ہے: "رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔" اور بشر بن عمر کی روایت میں (جابر بن زید سے روایت ہے کی بجائے یہ) ہے: "میں نے جابر بن زید سے سنا
امام صاحب اپنے تین مختلف اساتذہ کی سند سے ہمام کی مذکورہ سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں مگر شعبہ کی حدیث آپ کے اس قول پر ختم ہو گئی ہے ”وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔“ اور سعید کی روایت میں ہے ”واقعہ یہ ہے رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔“(ہمام کی روایت میں نسب کی جگہ رحم کا لفظ ہے) اور بشر بن عمر کی روایت میں قتادہ نے سماع کی تصریح کی ہے۔ قتادہ مدلس راوی ہے اس لیے اس کا عنعنہ معتبر نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! آپ حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی (کے ساتھ نکاح کرنے) سے (دور یا قریب) کہاں ہیں؟ یا کہا گیا: کیا آپ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو نکاح کا پیغام نہیں بھیجیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حمزہ رضاعت کی بنا پر یقینی طور پر میرے بھائی ہیں
حضرت ام سلمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ بن عبدالمطلب کی بیٹی کو نکاح کا پیغام کیوں نہیں دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ میرا رضاعی بھائی ہے۔“
ابواسامہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہشام نے خبر دی، کہا: مجھے میرے والد (عروہ بن زبیر) نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی، انہوں نے ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں نے آپ سے عرض کی: کیا آپ میری بہن (عَزہ) بنت ابوسفیان کے بارے میں کوئی سوچ رکھتے ہیں؟ آپ نے پوچھا: "میں کیا کروں؟" میں نے عرض کی: آپ اس سے نکاح کر لیں، آپ نے فرمایا: "کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو؟" میں نے عرض کی: میں اکیلی ہی آپ کی بیوی نہیں ہوں اور اپنے ساتھ خیر میں شریک ہونے (کے معاملے) میں (میرے لیے) سب سے زیادہ محبوب میری بہن ہے۔ آپ نے فرمایا: "وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔" میں نے عرض کی: مجھے خبر دی گئی ہے کہ آپ دُرہ بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نکاح کا پیغام بھیج رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: "ام سلمہ کی بیٹی کے لئے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اگر وہ میری گود میں پروردہ (ربیبہ) نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی، وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور اس کے والد کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا، اس لیے تم خواتین میرے سامنے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے بارے میں پیش کش نہ کیا کرو
حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری بہن، ابو سفیان کی بیٹی سے رغبت نہیں رکھتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”میں کیا کروں؟“ میں نے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اس کو پسند کرتی ہے؟“ میں نے کہا، میں اکیلی ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہیں ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی خیر میں مجھے اپنی بہن کی شراکت بہت محبوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری موجودگی میں وہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔“ میں نے کہا، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمہ کی بیٹی دُرہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ام سلمہ کی بیٹی۔“ میں نے کہا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میری گود میں پروردہ نہ بھی ہوتی تو بھی میرے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور اس کے باپ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا، اس لیے مجھے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی پیشکش نہ کیا کرو۔“