صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
حدیث نمبر: 3331
Save to word اعراب
وحدثنا ابو بكر بن النضر بن ابي النضر ، حدثني ابو النضر ، حدثني عبيد الله الاشجعي ، عن سفيان ، عن الاعمش ، بهذا الإسناد مثله، ولم يقل: يوم القيامة، وزاد: وذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم، فمن اخفر مسلما، فعليه: لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة عدل، ولا صرف.وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَقُلْ: يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَزَادَ: وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا، فَعَلَيْهِ: لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلٌ، وَلَا صَرْفٌ.
سفیان نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی، اور انھوں نے "قیامت کے دن" کے الفاظ نہیں کہے اور یہ اضافہ کیا: " اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک (جیسا) ہے ان کا ادنیٰآدمی بھی پناہ کی پیش کش کر سکتا ہے جس نے کسی مسلمان کی امان توڑی اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔قیامت کے دن اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جا ئے گا نہ کوئی عذر۔
امام صاحب ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن قیامت کے دن کا ذکر نہیں ہے، اور یہ اضافہ ہے، مسلمانوں کا عہد و پیمان برابر ہے، ان کا ادنیٰ فرد بھی یہ کام سر انجام دے سکتا ہے، تو جو شخص کسی مسلمان کی پناہ کو توڑے گا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کے نفل اور فرض قبول نہیں ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3332
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة : انه كان يقول: لو رايت الظباء ترتع بالمدينة ما ذعرتها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بين لابتيها حرام ".حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ تَرْتَعُ بِالْمَدِينَةِ مَا ذَعَرْتُهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ ".
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث سنا ئی کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے۔ انھوں نے سعید بن مسیب سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، وہ کہا کرتے تھے: اگر میں مدینہ میں ہرنیاں چرتی ہو ئی دیکھوں، تو میں انھیں ہراساں نہیں کروگا (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کے دو سیاہ پتھریلے میدانوں کے درمیان کا علاقہ حرم ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے، اگر میں مدینہ میں ہرنیاں چرتی دیکھوں تو میں انہیں پریشان یا ہراساں نہیں کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اس کے دونوں حروں کا درمیان کا علاقہ حرم ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3333
Save to word اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال إسحاق: اخبرنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: " حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين لابتي المدينة، قال ابو هريرة: فلو وجدت الظباء ما بين لابتيها ما ذعرتها، وجعل اثني عشر ميلا حول المدينة حمى ".وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ إِسْحَاقَ: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حدثنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَوْ وَجَدْتُ الظِّبَاءَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا مَا ذَعَرْتُهَا، وَجَعَلَ اثْنَيْ عَشَرَ مِيلًا حَوْلَ الْمَدِينَةِ حِمًى ".
معمر نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی انھوں نے سعید بن مسیب سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دو سیاہ پتھروں والے میدانوں کے درمیانی حصے کو حرم قرار دیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ان دو سیاہ پتھریلے میدانوں کے درمیان ہرنیوں کو پاؤں تو میں انھیں ہراساں نہیں کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اردگرد بارہ میل کا علاقہ محفوظ چراگاہ قراردیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دونوں حروں کے درمیانی علاقہ کو حرمت والا قرار دیا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، تو اگر میں اس کے دونوں حروں کے درمیان ہرنیوں کو پاؤں تو انہیں ہراساں یا خوف زدہ نہیں کروں گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے گرد بارہ (12) میل کے علاقہ کو حمیٰ (ممنوعہ علاقہ جس میں نہ کوئی درخت کاٹا جا سکتا ہے، اور نہ کسی جانور کا شکار کیا جا سکتا ہے) قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3334
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، فيما قرئ عليه، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، انه قال: كان الناس إذا راوا اول الثمر جاءوا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا اخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اللهم بارك لنا في ثمرنا، وبارك لنا في مدينتنا، وبارك لنا في صاعنا، وبارك لنا في مدنا، اللهم إن إبراهيم عبدك، وخليلك، ونبيك، وإني عبدك، ونبيك، وإنه دعاك لمكة، وإني ادعوك للمدينة، بمثل ما دعاك لمكة، ومثله معه "، قال: ثم يدعو اصغر وليد له، فيعطيه ذلك الثمر.حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ "، قَالَ: ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ، فَيُعْطِيهِ ذَلِكَ الثَّمَرَ.
امام مالک بن انس کے سامنے جن احادیث کی قراءت کی گئی ان میں سے سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: لوگ جب (کسی موسم کا) پہلا پھل دیکھتے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے پکڑ تے تو فرماتے: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ» اے اللہ!ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ہمارے لیے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما ہمارے لیے ہمارے صاع میں بر کت عطا فر ما اور ہمارے مد میں بر کت عطا فر ما۔اےاللہ!بلا شبہ ابرا ہیم ؑتیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے میں تیرا بندہ اور نبی ہوں انھوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی، میں تجھ سے مدینہ کے لیے اتنی (برکت) کی دعا کرتا ہوں جو انھوں نے مکہ کے لیے کی اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید برکت کی بھی۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر آپ اپنے بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ پھل اسے دے دیتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر پہلا پھل (نیا پھل) دیکھتے (تو اس کو لا کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قبول فرما کر یوں دعا فرماتے: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ» اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت پیدا کر، اور ہمارے پھلوں اور پیداوار میں برکت فرما، اور ہمارے صاع میں برکت رکھ اور ہمارے مد میں برکت دے، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور انہوں نے مکہ کے لیے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں، جیسی انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی، اور اس کے ساتھ اتنی ہی مزید، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ نیا پھل اسے دے دیتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3335
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا عبد العزيز بن محمد المدني ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى باول الثمر، فيقول: " اللهم بارك لنا في مدينتنا، وفي ثمارنا، وفي مدنا، وفي صاعنا بركة مع بركة، ثم يعطيه اصغر من يحضره من الولدان ".حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِأَوَّلِ الثَّمَرِ، فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَفِي ثِمَارِنَا، وَفِي مُدِّنَا، وَفِي صَاعَنْا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ، ثُمَّ يُعْطِيهِ أَصْغَرَ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنَ الْوِلْدَانِ ".
عبد العزیز بن محمد مدنی نے ہمیں سہیل بن ابی صالح سے خبر دی انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب (کسی موسم کا) پہلا پھل پیش کیا جا تا تو آپ فرماتے: " اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے شہر (مدینہ) میں ہمارے پھلوں میں ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت پر بر کت فر ما "پھر آپ وہ پھل اپنے پاس موجود بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سب سے پہلا پھل لایا جاتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا فرماتے: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مد میں اور ہمارے صاع میں برکت در برکت فرما۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھل موجود بچوں میں سب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
86. باب التَّرْغِيبِ فِي سُكْنَى الْمَدِينَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى لأْوَائِهَا:
86. باب: مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنے کی ترغیب اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرنے کا بیان۔
Chapter: Encouragement to live in Al-Madinah and to be patient on bearing its distress and hardships
حدیث نمبر: 3336
Save to word اعراب
حدثنا حماد بن إسماعيل ابن علية ، حدثنا ابي ، عن وهيب ، عن يحيى بن ابي إسحاق ، انه حدث، عن ابي سعيد مولى المهري: انه اصابهم بالمدينة جهد وشدة، وانه اتى ابا سعيد الخدري، فقال له: إني كثير العيال، وقد اصابتنا شدة، فاردت ان انقل عيالي إلى بعض الريف، فقال ابو سعيد : لا تفعل الزم المدينة، فإنا خرجنا مع نبي الله صلى الله عليه وسلم، اظن انه قال: حتى قدمنا عسفان، فاقام بها ليالي، فقال الناس: والله ما نحن ها هنا في شيء وإن عيالنا لخلوف، ما نامن عليهم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا الذي بلغني من حديثكم، ما ادري كيف، قال: " والذي احلف به، او والذي نفسي بيده لقد هممت او إن شئتم لا ادري ايتهما قال لآمرن بناقتي ترحل، ثم لا احل لها عقدة حتى اقدم المدينة، وقال: " اللهم إن إبراهيم حرم مكة، فجعلها حرما، وإني حرمت المدينة حراما ما بين مازميها، ان لا يهراق فيها دم، ولا يحمل فيها سلاح لقتال، ولا تخبط فيها شجرة إلا لعلف، اللهم بارك لنا في مدينتنا، اللهم بارك لنا في صاعنا، اللهم بارك لنا في مدنا، اللهم بارك لنا في صاعنا، اللهم بارك لنا في مدنا، اللهم بارك لنا في مدينتنا، اللهم اجعل مع البركة بركتين، والذي نفسي بيده، ما من المدينة شعب ولا نقب، إلا عليه ملكان يحرسانها حتى تقدموا إليها "، ثم قال للناس: " ارتحلوا "، فارتحلنا، فاقبلنا إلى المدينة، فوالذي نحلف به او يحلف به، الشك من: حماد ما وضعنا رحالنا حين دخلنا المدينة حتى اغار علينا بنو عبد الله بن غطفان، وما يهيجهم قبل ذلك شيء.حدثنا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ وُهَيْبٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ حَدَّثَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ أَصَابَهُمْ بِالْمَدِينَةِ جَهْدٌ وَشِدَّةٌ، وَأَنَّهُ أَتَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فقَالَ لَهُ: إِنِّي كَثِيرُ الْعِيَالِ، وَقَدْ أَصَابَتْنَا شِدَّةٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْقُلَ عِيَالِي إِلَى بَعْضِ الرِّيفِ، فقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : لَا تَفْعَلِ الْزَمِ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّا خَرَجْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَظُنُّ أَنَّهُ قَالَ: حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ، فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ، فقَالَ النَّاسُ: وَاللَّهِ مَا نَحْنُ هَا هُنَا فِي شَيْءٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ، مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مَا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِكُمْ، مَا أَدْرِي كَيْفَ، قَالَ: " وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ، أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ إِنْ شِئْتُمْ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَ لَآمُرَنَّ بِنَاقَتِي تُرْحَلُ، ثُمَّ لَا أَحُلُّ لَهَا عُقْدَةً حَتَّى أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، فَجَعَلَهَا حَرَمًا، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا، أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ، وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ، وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنَ الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ، إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا "، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: " ارْتَحِلُوا "، فَارْتَحَلْنَا، فَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَالَّذِي نَحْلِفُ بِهِ أَوْ يُحْلَفُ بِهِ، الشَّكُّ مِنْ: حَمَّادٍ مَا وَضَعَنْا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَمَا يَهِيجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ.
حماد بن اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ہمیں حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں میرے والد نے وہیب سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نےمہری کےمولیٰ ابو سعید سے حدیث بیان کی کہ انھیں مدینہ میں بدحالی اورسختی نےآلیا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: میں کثیر العیال ہوں اورہمیں تنگدستی نے آلیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ میں ا پنے افراد خانہ کو کسی سر سبز وشاداب علاقے کی طرف منتقل کردوں۔تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نےکہا: ایسا مت کرنا، مدینہ میں ہی ٹھہرے رہو، کیونکہ ہم اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پر) نکلے۔میرا خیال ہے انھوں نےکہا۔حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا: ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں ٹھہر ے ہوئے، اور ہمارے افراد خانہ پیچھے (اکیلے) ہیں ہم انھیں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟"۔میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکس طرح فرمایا۔"اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں۔"یا (فرمایا) "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں نےارادہ کیایا (فرمایا) اگرتم چاہو۔میں نہیں جانتا کہ آپ نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا: میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم د وں، پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جاؤں۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اے اللہ!بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا، اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے اور اس میں چارے کے سوا (کسی اورغرض سے) اس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید عطا) کردے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!مدینہ کی کوئی گھاٹی اور درہ نہیں مگر اس پر دوفرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کریں گے یہاں تکہ کہ تم اس میں واپس آجاؤ۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا"کوچ کرو۔"تو ہم نے کوچ کیا اور مدینہ آگئے۔اس ذات کی قسم جس کی ہم قسم کھاتے ہیں! یا جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔یہ شک حماد کی طرف سےہے۔مدینہ میں داخل ہوکر ہم نے اپنی سواریوں کے پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کردیا اور اس سے پہلے کوئی چیز انھیں مشتعل نہیں کررہی تھی۔
مہری رحمۃ اللہ علیہ کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت ہے کہ مدینہ میں گزران کی مشکل اور شدت سے دوچار ہونا پڑا تو وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا کہ میرے بال بچے بہت ہیں، اور ہم مشقت و تنگی میں مبتلا ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں، اپنے اہل و عیال کو کسی سرسبز و شاداب علاقہ میں منتقل کر لوں، تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ایسے نہ کر، مدینہ کو ہی لازم پکڑ، کیونکہ ہم نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، میرا خیال ہے، انہوں نے کہا، حتی کہ ہم عسفان پہنچ گئے، تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا، ہم یہاں بے مقصد یا بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور پیچھے ہمارے بال بچوں کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے، ہم ان کے بارے میں بے خوف نہیں ہیں اور یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہاری طرف سے یہ کیا بات پہنچی ہے؟ (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا الفاظ فرمائے) اس ذات کی قسم، جس کی میں قسم اٹھاتا ہوں، یا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں پختہ ارادہ کر چکا ہوں، یا اگر تم چاہو (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کیا کہا) میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم دوں اور جب تک مدینہ نہ پہنچ جاؤں، اس کی کوئی گرہ نہ کھولوں (یعنی مدینہ تک مسلسل سفر کروں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کی حرمت کا اعلان کیا، میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں طرف کے دروں (پہاڑوں) کے درمیان کا علاقہ واجب الاحترام ہے، اس میں خون ریزی نہ کی جائے اور نہ اس میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے، اور کسی درخت کے پتے جانوروں کی ضرورت کے سوا نہ جھاڑے جائیں، اے اللہ! ہمارے شہر میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے مد میں برکت ڈال، ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے مد میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ! ہمارے شہر مدینہ میں برکت نازل فرما، برکت کے ساتھ دو برکتیں اور نازل فرما، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس کی قسم! مدینہ کی کوئی گھاٹی یا درہ نہیں ہے، جس پر تمہاری واپسی تک دو فرشتے پہرہ نہ دے رہے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: کوچ کرو۔ تو ہم چل پڑے، اور ہم مدینہ کی طرف بڑھے، پس اس ذات کی قسم! جس کی ہم قسم اٹھاتے ہیں، یا جس کی قسم اٹھائی جاتی ہے، حماد کو شک ہے کیا لفظ کہا، ہم نے مدینہ میں داخل ہو کر ابھی پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا، اس سے پہلے انہیں کسی چیز نے (حملہ پر) برانگیختہ نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3337
Save to word اعراب
وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن علي بن المبارك ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، حدثنا ابو سعيد مولى المهري، عن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اللهم بارك لنا في صاعنا، ومدنا واجعل مع البركة بركتين "،وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حدثنا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ "،
علی بن مبارک سے روایت ہے، (کہا:) ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں مہری کے مولیٰ ابوسعید نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نے فرمایا: "اللہ ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا فرما اورایک برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید) عطافرما۔"
مہری کے آزاد کردہ غلام ابو سعید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، اے اللہ! ہمارے لیے، ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اور ایک برکت کے ساتھ دو برکتیں عطا فرما، (یعنی مکہ کی ایک برکت کے مقابلہ میں مدینہ میں دگنی برکت پیدا کر۔)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3338
Save to word اعراب
وحدثناه ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبيد الله بن موسى ، اخبرنا شيبان . ح وحدثني إسحاق بن منصور ، اخبرنا عبد الصمد ، حدثنا حرب يعني ابن شداد ، كلاهما عن يحيى بن ابي كثير ، بهذا الإسناد مثله.وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنا شَيْبَانُ . ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حدثنا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، كِلَاهُمَا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
شیبان اورحرب، یعنی ابن شداد دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سندکے ساتھ، اسی کے مانند حدیث بیان کی،
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3339
Save to word اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي سعيد مولى المهري: انه جاء ابا سعيد الخدري ليالي الحرة، فاستشاره في الجلاء من المدينة، وشكا إليه اسعارها، وكثرة عياله، واخبره ان لا صبر له على جهد المدينة ولاوائها، فقال له: ويحك لا آمرك بذلك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يصبر احد على لاوائها فيموت، إلا كنت له شفيعا، او شهيدا يوم القيامة إذا كان مسلما ".وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ جَاءَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ لَيَالِي الْحَرَّةِ، فَاسْتَشَارَهُ فِي الْجَلَاءِ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَشَكَا إِلَيْهِ أَسْعَارَهَا، وَكَثْرَةَ عِيَالِهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنْ لَا صَبْرَ لَهُ عَلَى جَهْدِ الْمَدِينَةِ وَلَأْوَائِهَا، فقَالَ لَهُ: وَيْحَكَ لَا آمُرُكَ بِذَلِكَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا فَيَمُوتَ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا ".
سعید بن ابوسعید نے مہری کے آزاد کردہ غلام، ابو سعید سے روایت کی وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حرہ کی راتوں میں آئے (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا تھا اور ظالموں نے مدینہ کو لوٹا تھا) اور ان سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور ان سے وہاں کی گرانی نرخ (مہنگائی) اور کثرت عیال کی شکایت کی اور خبر دی کہ مجھے مدینہ کی محنت اور بھوک پر صبر نہیں آ سکتا تو سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیری خرابی ہو میں تجھے اس کا مشورہ نہیں دوں گا (کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص یہاں کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا اور پھر مر جاتا ہے، مگر یہ کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اگر وہ مسلمان ہو۔
مہری کے مولیٰ ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ حرہ کے زمانہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے مدینہ سے کہیں اور چلے جانے کا مشورہ لیا، اور ان سے وہاں کی مہنگائی (گرانی) اور اپنے بال بچوں کی کثرت کی شکایت کی، اور ان سے عرض کیا، میں مدینہ کی بھوک اور تکالیف پر صبر نہیں کر سکتا، تو انہوں نے اسے جواب دیا، تجھ پر افسوس، میں تمہیں یہ مشورہ نہیں دے سکتا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: کوئی انسان یہاں کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے نہیں مرتا، مگر میں اس کی قیامت کے دن، بشرطیکہ وہ مسلمان ہو، سفارش کروں گا، یا شہادت دوں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 3340
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبد الله بن نمير ، وابو كريب ، جميعا عن ابي اسامة واللفظ لابي بكر، وابن نمير، قالا: حدثنا ابو اسامة، عن الوليد بن كثير ، حدثني سعيد بن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري ، ان عبد الرحمن ، حدثه، عن ابيه ابي سعيد ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إني حرمت ما بين لابتي المدينة كما حرم إبراهيم مكة "، قال: ثم كان ابو سعيد ياخذ، وقال ابو بكر: يجد احدنا في يده الطير فيفكه من يده ثم يرسله.حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ "، قَالَ: ثُمَّ كَانَ أَبُو سَعِيدٍ يَأْخُذُ، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَجِدُ أَحَدَنَا فِي يَدِهِ الطَّيْرُ فَيَفُكُّهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ يُرْسِلُهُ.
سعید بن عبدالرحمان بن ابی سعیدخدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ عبدالرحمان نے انھیں اپنےوالد ابوسعید رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: " میں مدینہ کی دوسیاہ پتھروں والی زمین کے درمیانی حصے کوحرم قرار دیتا ہوں، جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کوحرم قرار دیا تھا۔"کہا: پھر ابو سعید رضی اللہ عنہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیتے، اور ابو بکر نے کہا: ہم میں سے کسی کو دیکھتے کہ اس کے ہاتھ میں پرندہ ہے۔تو اسے اس کے ہاتھ سے چھڑاتے، پھر اسے آزاد کردیتے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے مدینہ کے دونوں سنگریزوں (پتھریلے میدانوں) کا درمیانی علاقہ حرم قرار دیا ہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبدالرحمٰن کہتے ہیں، ابو سعید ہم میں سے کسی کے ہاتھ میں پرندہ دیکھتے یا کسی کو اس حال میں پکڑ لیتے کہ اس کے ہاتھ میں پرندہ ہے، تو وہ اس کے ہاتھ سے چھڑوا کر اسے آزاد کر دیتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    51    52    53    54    55    56    57    58    59    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.