وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي سعيد مولى المهري: انه جاء ابا سعيد الخدري ليالي الحرة، فاستشاره في الجلاء من المدينة، وشكا إليه اسعارها، وكثرة عياله، واخبره ان لا صبر له على جهد المدينة ولاوائها، فقال له: ويحك لا آمرك بذلك إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يصبر احد على لاوائها فيموت، إلا كنت له شفيعا، او شهيدا يوم القيامة إذا كان مسلما ".وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ جَاءَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ لَيَالِي الْحَرَّةِ، فَاسْتَشَارَهُ فِي الْجَلَاءِ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَشَكَا إِلَيْهِ أَسْعَارَهَا، وَكَثْرَةَ عِيَالِهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنْ لَا صَبْرَ لَهُ عَلَى جَهْدِ الْمَدِينَةِ وَلَأْوَائِهَا، فقَالَ لَهُ: وَيْحَكَ لَا آمُرُكَ بِذَلِكَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا فَيَمُوتَ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا ".
سعید بن ابوسعید نے مہری کے آزاد کردہ غلام، ابو سعید سے روایت کی وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس حرہ کی راتوں میں آئے (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا تھا اور ظالموں نے مدینہ کو لوٹا تھا) اور ان سے مشورہ کیا کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور ان سے وہاں کی گرانی نرخ (مہنگائی) اور کثرت عیال کی شکایت کی اور خبر دی کہ مجھے مدینہ کی محنت اور بھوک پر صبر نہیں آ سکتا تو سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیری خرابی ہو میں تجھے اس کا مشورہ نہیں دوں گا (کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کوئی شخص یہاں کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا اور پھر مر جاتا ہے، مگر یہ کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اگر وہ مسلمان ہو۔
مہری کے مولیٰ ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ حرہ کے زمانہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے مدینہ سے کہیں اور چلے جانے کا مشورہ لیا، اور ان سے وہاں کی مہنگائی (گرانی) اور اپنے بال بچوں کی کثرت کی شکایت کی، اور ان سے عرض کیا، میں مدینہ کی بھوک اور تکالیف پر صبر نہیں کر سکتا، تو انہوں نے اسے جواب دیا، تجھ پر افسوس، میں تمہیں یہ مشورہ نہیں دے سکتا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ”کوئی انسان یہاں کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے نہیں مرتا، مگر میں اس کی قیامت کے دن، بشرطیکہ وہ مسلمان ہو، سفارش کروں گا، یا شہادت دوں گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3339
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: واقعہ حرہ سے مراد، وہ واقعہ جو 63 ہجری میں پیش آیا، جس میں مدینہ منورہ میں بہت قتل وغارت ہوئی تھی کیونکہ اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کے خلیفہ بننے کے بعد، اس کی بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اورحضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما زین العابدین نے اس میں یزید کا ساتھ دیا تھا (طبقات لابن سعد ج5 ص215) امام زین العابدین یزید کے سپہ سالار کے پاس گئے اس نے آپ کو خوش آمدید کہا اور کہا: (إِنَّ أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَوْصَانِيْ بِكَ، خَيْراً) (مجھے امیر المومنین نے آپ کے ساتھ خوش اسلوبی اور بہترین رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی تھی) ۔ امام زین العابدین نے فرمایا: (وَصَلّى الله اَميرِ الْمُؤْمِنينَ) (اللہ امیر المومنین کو اپنے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنے کی توفیق دے۔ ) (حوالہ بالا) گویا حضرت زین العابدین یزید کے طرز عمل پر مطمئن تھے۔