حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا۔یاکسی اور شخص سے پوچھا اور وہ سن رہے تھے:۔"اےفلاں!کیا تم نے اس مہینے کے وسط میں روزے رکھے ہیں؟"اس نے جواب دیا نہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تو جب (رمضان مکمل کرکے) روزے ترک کروتو (ہرمہینے) دو دن کے روزے رکھتے رہو۔"
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی اور شخص سے پوچھا، جبکہ وہ سن رہے تھے: ”اے فلاں شخص! کیا تم نے اس ماہ کے آخر میں روزے رکھے ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب افطار کرو تو روزے اور رکھو۔“(آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سوال شعبان کے روزوں کے بارے میں سوال کیا تھا)-
وحدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، وقتيبة بن سعيد جميعا، عن حماد ، قال يحيى: اخبرنا حماد بن زيد، عن غيلان ، عن عبد الله بن معبد الزماني ، عن ابي قتادة : رجل اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كيف تصوم؟، " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فلما راى عمر رضي الله عنه غضبه، قال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، نعوذ بالله من غضب الله، وغضب رسوله فجعل عمر رضي الله عنه يردد هذا الكلام حتى سكن غضبه، فقال عمر: يا رسول الله، كيف بمن يصوم الدهر كله؟، قال: " لا صام ولا افطر "، او قال: " لم يصم ولم يفطر "، قال: كيف من يصوم يومين، ويفطر يوما؟، قال: " ويطيق ذلك احد "، قال: كيف من يصوم يوما، ويفطر يوما؟، قال: " ذاك صوم داود عليه السلام "، قال: كيف من يصوم يوما، ويفطر يومين؟، قال: " وددت اني طوقت ذلك "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاث من كل شهر، ورمضان إلى رمضان، فهذا صيام الدهر كله، صيام يوم عرفة احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده، وصيام يوم عاشوراء، احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اورانھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟اس کی بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔"یا فرمایا۔"اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔"کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیاکوئی اس کی طاقت رکھتاہے؟"پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔" پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور دو دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کاروزہ، میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔"
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستورکیا ہے) تو اس کی بات سے (سوال سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا ضابطہ حیات مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان کر، اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اللہ کی ناراضی اور اس کے رسول کی ناراضی سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باربار ان کلمات کو دہرانے لگے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا (آپصلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا) تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نےروزہ رکھا نہ افطار کیا۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟“(یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل اس لیے اس کا ارادہ نہیں کرنا چاہیے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: اس کے بارے میں کیا فرمان ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ صوم داؤد علیہ السلام ہے۔“(جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان تا رمضان یہ (اجرو ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ اورمیں عرفہ کے دن (نو ذوالحجہ) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا، یعنی اس کی برکت سے دو سال کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں گی۔اور میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ عاشورہ (دس محرم) کے روزے سے گزشتہ سال کے صغیرہ گناہ دھل جائیں گے۔“
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن غيلان بن جرير ، سمع عبد الله بن معبد الزماني ، عن ابي قتادة الانصاري رضي الله عنه، رسول الله صلى الله عليه وسلم: سئل عن صومه، قال: " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فقال عمر رضي الله عنه: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا وببيعتنا بيعة، قال: فسئل عن صيام الدهر، فقال: " لا صام ولا افطر، او ما صام وما افطر "، قال: فسئل عن صوم يومين وإفطار يوم، قال: " ومن يطيق ذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يومين، قال: " ليت ان الله قوانا لذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يوم، قال: " ذاك صوم اخي داود عليه السلام "، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين، قال: " ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت او انزل علي فيه "، قال: فقال: " صوم ثلاثة من كل شهر، ورمضان إلى رمضان صوم الدهر "، قال: وسئل عن صوم يوم عرفة، فقال: " يكفر السنة الماضية والباقية "، قال: وسئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: " يكفر السنة الماضية "، وفي هذا الحديث من رواية شعبة، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين والخميس، فسكتنا عن ذكر الخميس لما نراه وهما،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ واللفظ لابن المثنى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ، قَالَ: " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، فَقَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ، أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ "، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمَيْنِ، قَالَ: " لَيْتَ أَنَّ اللَّهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ "، قَالَ: فَقَالَ: " صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ "، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ رِوَايَةِ شُعْبَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَسَكَتْنَا عَنْ ذِكْرِ الْخَمِيسِ لَمَّا نُرَاهُ وَهْمًا،
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے غیلان بن جریر سے حدیث سنائی، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے سنا، انھوں نے حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں سوال کیاگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نارض ہوگئے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے، اور بیعت کے طور پر اپنی بیعت پر راضی ہیں۔ (جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔) کہا: اس کے بعد آپ سے بغیر وقفے کے ہمیشہ روزہ رکھنے (صیام الدھر) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔"اس کے بعد آپ سے دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن ترک کرنے کے بارے میں پوچھاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی طاقت کون رکھتاہے؟"کہا: اور آپ سے ایک دن روزہ رکھنے اور دو دن ترک کرنے کے بارے میں پوچھاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کاش کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کام کی طاقت دی ہوتی۔"کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن روزہ ترک کرنے کے بارے میں سوال کیاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔"کہا: اور آپ سے سوموار کا روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ دن ہے جب میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے (رسول بنا کر) بھیجا گیا۔یا مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا۔"کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر ماہ کے تین روزے اور اگلے رمضان تک رمضان کے روزے ہی ہمیشہ کے روزے ہیں۔"کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیاٍ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کاکفارہ بن جاتا ہے۔"کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیاٍ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے۔" امام مسلمؒ نے کہا: اس حدیث میں شعبہ کی روایت (یوں) ہے: انھوں (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: اور آپ سے سوموار اور جمعرات کے روزے کے بارے میں سوال کیاگیا۔لیکن ہم نے جمعرات کے ذکر سے سکوت کیا ہے، کیونکہ ہمارے خیال میں یہ (راوی کا) وہم ہے۔
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو مقصد زندگی مان کر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر، اور اپنی بیعت کی صحت و درستگی پر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صوم دہر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے روزہ رکھا نہ افطار کیا“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے دو دن کے روزے اور ایک دن کے افطار کے بارے میں پوچھا گیا: آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی کس کو طاقت ہے؟“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن روزہ اور دن افطار کے بارے میں سوال کیا گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش! اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی طاقت دے۔“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کے بارے میں سوال ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال ہوا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے معبوث کیا گیا یا اس میں مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان تا رمضان (اجرو ثواب میں) صوم دہر ہیں۔“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔“ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔“ امام مسلم فرماتے ہیں پس حدیث میں شعبہ کی روایت میں ہے۔ کہ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آپ سے سومواراور جمعرات کے روزے کے بارے میں سوال ہوا، لیکن ہم نے جمعرات کے تذکرہ سے خاموشی اختیار کی، کیونکہ ہمارے خیال میں اس کا ذکر وہم ہے (کیونکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور بعثت کا تعلق صرف پیر سے ہے جمعرات سے نہیں)
ابان عطار نے کہا: ہمیں غیلان بن جریر نے اسی سند کے ساتھ شعبہ کی حدیث کی مانند حدیث بیا ن کی، مگر انھوں نے (اپنی) اس حدیث میں سوموار کا ذکرکیا، جمعرات کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے استاد احمد بن سعید اور اس سے غیلان بن جریر سے شعبہ کی طرح حدیث نقل کرتے ہیں لیکن اس میں سوموار کا ذکر ہے جمعرات کا ذکر نہیں ہے۔
ہمیں مہدی بن میمون نے حدیث سنائی، انھوں نے غیلان سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بار ے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا۔"
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں میری ولادت ہوئی ہے اور اس میں مجھ پر وحی کا نزول ہوا ہے۔“
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن مطرف ولم افهم مطرفا من هداب، عن عمران بن حصين رضي الله عنهما: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له او لآخر: " اصمت من سرر شعبان؟ "، قال: لا، قال: " فإذا افطرت فصم يومين ".حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ وَلَمْ أَفْهَمْ مُطَرِّفًا مِنْ هَدَّابٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَوْ لِآخَرَ: " أَصُمْتَ مِنْ سُرَرِ شَعْبَانَ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ ".
ثا بت نے مطر ف سے انھوں نے حضرت عمرا ن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے۔۔۔یا یا کسی اور آدمی سے۔۔۔فرمایا: "کیا تم نے شعبان کے وسط میں روزے رکھے ہیں؟"اس نے جواب دیا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم روزے ختم کر لو تو دو دن کے روزے رکھنا۔"
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یا دوسرے شخص سے پوچھا: کیا تو نے شعبان کے آخری دنوں کے روزے رکھے ہیں؟ اس نے کہا نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم روزے رکھ چکو تو دو روزے رکھ لینا۔“
ابو علا ء نے مطر ف سے اور انھوں نے حضرت حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پو چھا: کیا تم نے اس مہینے کے دورا ن میں کچھ روزے رکھے ہیں؟ اس نے جواب دیا: نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تم تمضا ن کے روزے ختم کر لو تو اس کی جگہ دو رازے رکھ لینا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا: کیا تو نے اس ماہ کے آخر میں کوئی روزہ رکھا ہے؟ ”اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم رمضان کےروزے رکھ چکو تو اس کی جگہ دو روزے رکھ لینا۔“
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے مطرف بن شخیر کے بھتیجے سے حدیث سنا ئی کہا: میں نے مطرف کو حضرت عمرا ن بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پو چھا: کیا تم نے اس مہینے یعنی شعبا ن کے وسط (یا دوران) میں کچھ روزے رکھے ہیں؟اس نے جواب دیا: نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرما یا: " جب تم رمضا ن کے روزے ختم کر لو اس کے بعد ایک دن یا دو دن کے روزے رکھ لینا۔شعبہ نے۔۔۔جن کو شک ہوا۔۔کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے دو دن کے روزے کہا تھا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے پوچھا: ”کیا تونے اس ماہ کےسرر سے کوئی روزہ رکھا ہے؟“ مراد ماہ شعبان تھا۔ اس نے کہا: نہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہو جاؤ تو ایک یا دو روزے رکھ لینا۔“ شعبہ کو اس میں شک ہے اور خیال یہی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے کہا۔