Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
36. باب اسْتِحْبَابِ صِياَمِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ.
باب: ہر مہینے تین دن کے روزے اور یوم عرفہ کا روزہ اور عاشورہ اور سوموار اور جمعرات کے دن کے روزے کے استحباب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2746
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اورانھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟اس کی بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔"یا فرمایا۔"اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔"کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیاکوئی اس کی طاقت رکھتاہے؟"پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔" پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور دو دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کاروزہ، میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔"
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستورکیا ہے) تو اس کی بات سے (سوال سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا ضابطہ حیات مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان کر، اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اللہ کی ناراضی اور اس کے رسول کی ناراضی سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باربار ان کلمات کو دہرانے لگے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا (آپصلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا) تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ اس نےروزہ رکھا نہ افطار کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل اس لیے اس کا ارادہ نہیں کرنا چاہیے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: اس کے بارے میں کیا فرمان ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صوم داؤد علیہ السلام ہے۔ (جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان تا رمضان یہ (اجرو ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ اورمیں عرفہ کے دن (نو ذوالحجہ) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا، یعنی اس کی برکت سے دو سال کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں گی۔اور میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ عاشورہ (دس محرم) کے روزے سے گزشتہ سال کے صغیرہ گناہ دھل جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2746 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2746  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حدیث کا اصل مفہوم اور مقصد تو بالکل واضح ہے،
لیکن چند ضمنی باتیں وضاحت طلب ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال سے ناراض ہو گئے تو آپﷺ کے رخ انور پر ناگواری اور برہمی کے آثار نمایاں ہو گئے کہ آپﷺ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کا سوال غلط اور نامناسب تھا اس کو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ میں کس طرح روزے رکھوں اور میرے لیے کون سا طرز عمل مناسب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے شعبوں اور امورزندگی میں،
منصب نبوت اور مصالح امت کی رعایت کی بنا پر ایسا طرز عمل بھی اختیار فرماتے تھے جس کی پیروی ہر ایک شخص کے بس میں نہیں اور نہ ہی مناسب ہے۔
اس لیے سائل کو روزے رکھنے کے لیے آپﷺ کا معمول نہیں پوچھنا چاہیے تھا کیونکہ آپﷺ شفیق استاد اور مربی بھی تھے،
اس لیے آپﷺ کی ناگواری دراصل تربیت کا ہی حصہ تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سوال سے آپﷺ کی ناگواری محسوس کر کے تمام مسلمانوں کی طرف سے بار بار ایسے کلمات دہرائے جن سے آپﷺ کی ناگواری زائل ہو گئی اور اس کے بعد نفلی روزوں کے بارے میں صحیح طریقے سے سوالات کیے اورآپﷺ نے جوابات مرحمت فرمائے۔
(لا صام ولا أفطر - أو لم يصم ولم يفطر)
کا مقصد یہ ہے کہ یہ پسندیدہ طرز عمل نہیں ہے کیونکہ روزہ عادت بن جائےگا تو اس کو اثر اور احساس ختم ہو جائے گا۔
آخر میں آپﷺ نے فرمایا:
روزوں کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کے لیے یہی کافی ہے کہ رمضان کے فرض روزے رکھا لیا کریں اور اس کے علاوہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کریں،
جو (بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا)
ہر نیک عمل کا اجر کم از کم دس گناہ کے اصول کے مطابق،
پورے ماہ کا ثواب مل جائے گا اوریہ صوم الدہر بن جائیں گے،
مزید اجروثواب کے لیے یوم عرفہ اور یوم عاشورہ کاروزہ رکھا لیا کریں،
لیکن واضح رہے عرفہ کا روزہ غیر حاجیوں کو اس دن کی رحمتوں اور برکتوں میں حصہ دار بنانے کے لیے ہے جو عرفات میں حاجیوں پر نازل ہوتی ہیں،
حاجیوں کے لیے اس دن کی مخصوص اور مقبول ترین عبادت میدان عرفات کا وقوف ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2746