حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اورانھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟اس کی بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔"یا فرمایا۔"اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔"کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیاکوئی اس کی طاقت رکھتاہے؟"پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور ایک دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔" پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتاہے اور دو دن افطار کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کاکفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کاروزہ، میں اللہ سے امید رکھتاہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔"
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستورکیا ہے) تو اس کی بات سے (سوال سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا ضابطہ حیات مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان کر، اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اللہ کی ناراضی اور اس کے رسول کی ناراضی سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باربار ان کلمات کو دہرانے لگے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا (آپصلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا) تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نےروزہ رکھا نہ افطار کیا۔“ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟“ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل اس لیے اس کا ارادہ نہیں کرنا چاہیے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: اس کے بارے میں کیا فرمان ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ صوم داؤد علیہ السلام ہے۔“ (جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان تا رمضان یہ (اجرو ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ اورمیں عرفہ کے دن (نو ذوالحجہ) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا، یعنی اس کی برکت سے دو سال کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں گی۔اور میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ عاشورہ (دس محرم) کے روزے سے گزشتہ سال کے صغیرہ گناہ دھل جائیں گے۔“