679 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لا يقيمن احدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه، ولكن تفسحوا وتوسعوا» 679 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ، وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا»
679- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کوئی بھی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے بلکہ تم کشاد گی اور وسعت اختیار کرو“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، 2183، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581، 582، 584، 586، 587، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1091، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4828، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2749، 2750، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2695، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5975، 5976، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4536 برقم: 4653»
680 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا صدقة بن يسار، عن نافع، ان ابن عمر كان يمر بشجرة بين مكة والمدينة، «كان النبي صلي الله عليه وسلم يستظل فيها فيحمل لها الماء من المكان البعيد حتي يصبه تحتها» 680 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا صَدَقَةُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَمُرُّ بِشَجَرَةٍ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، «كَانَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَظِلُّ فِيهَا فَيَحْمِلُ لَهَا الْمَاءَ مِنَ الْمَكَانِ الْبَعِيدِ حَتَّي يَصُبَّهُ تَحْتَهَا»
680- نافع بیان کرتے ہیں ؛ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک درخت کے پاس سے جب بھی گزرتے تو اس کے لیے دور سے پانی لا کر اس کو پانی دیا کرتے تھے کہ یہ وہ درخت تھا، جس کے نیچے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سائے میں آرام فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7074، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10378، والبزار فى «مسنده» برقم: 5908، 5909، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 3968»
681 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: سمعت عبد الله بن عمر كم مرة، قال: سمعت نافعا، يقول: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: لست انهي احدا صلي اي ساعة شاء من ليل او نهار، ولكني إنما افعل كما رايت اصحابي يفعلون، وقد قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس، ولا غروبها» ، قيل لسفيان: هذا يروي عن هشام، قال: «ما سمعت هشاما ذكره قط» 681 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَمْ مَرَّةٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: لَسْتُ أَنْهَي أَحَدًا صَلَّي أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، وَلَكِنِّي إِنَّمَا أَفْعَلُ كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يَفْعَلُونَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ، وَلَا غُرُوبَهَا» ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: هَذَا يُرْوَي عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: «مَا سَمِعْتُ هِشَامًا ذَكَرَهُ قَطُّ»
681- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں کسی بھی شخص کو رات یا دن کے کسی بھی وقت میں نماز ادا کرنے سے منع نہیں کرتا، میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا میں نے اپنے ساتھیوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تم لوگ بطور خاص سورج طلوع ہونے کے قریب یا غروب ہونے کے قریب نماز ادا کرنے کی کوشش نہ کرو۔“ سفیان سے کہا گیا: یہ روایت تو ہشام کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، تو وہ بولے: میں نے ہشام کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 582، 583، 585، 589، 1629، 3272، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 828، 829، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1545، 1548، 1566، 1567، 1569، 5996، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 562، 563، 570، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4449، 4450، 4451، 4494، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4702»
682 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابن جريج، عن نافع، قال: رايت ابن عمر يقول علي الصفا في مكان اظن ذلك: «والله انه راي رسول الله صلي الله عليه وسلم يقوم فيه» 682 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ عَلَي الصَّفَا فِي مَكَانٍ أَظُنُّ ذَلِكَ: «وَاللَّهِ أَنَّهُ رَأَي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ فِيهِ»
682- نا فع بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو صفا پہاڑ پر ایک مخصوص جگہ پر کھڑے ہوئے دیکھا،میرا خیال ہے،اللہ کی قسم! انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کھڑے ہوئے دیکھا ہوگا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وما وجدته عند غير الحميدي ولكن أخرجه الطبرني فى «الكبير» برقم: 10036 والبيهقي فى الحج 95/5 وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 5773»
683 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: سالنا ابن عمر عن رجل اعتمر فطاف بالبيت سبعا ولم يطف بين الصفا والمروة، ايقع بامراته؟ فقال ابن عمر: «قدم رسول الله صلي الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلي خلف المقام ركعتين، وطاف بين الصفا والمروة» وقال:" والله ﴿ لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة﴾"683 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ اعْتَمَرَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَيْقَعُ بِامْرَأَتِهِ؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّي خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ» وَقَالَ:" وَاللَّهِ ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾"
683- عمر وبن دینار بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو عمرہ کرتے ہوئے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کرتا ہے، لیکن صفا و مروہ کا چکر نہیں لگاتا تو کیا وہ اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرسکتا ہے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کا طواف کیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: «لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ»(33-الأحزاب:21)”تمہارے لیے اللہ کے رسول کے طریقے میں بہترین نمونہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 395، 1623، 1627، 1645، 1647، 1793، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1233، 1234، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3809، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2929، 2930، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2959، 2974، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9338، 9420، 9457، 9458، 9459، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4600»
684 - قال عمرو: وسالنا جابر بن عبد الله، فقال: «لا يقربها حتي يطوف بين الصفا والمروة» 684 - قَالَ عَمْرٌو: وَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «لَا يَقْرَبُهَا حَتَّي يَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ»
684- عمر و بن دینار کہتے ہیں: ہم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: تم اپنی بیوی کے قریب اس وقت تک نہیں جاسکتے جب تک تم صفاومروہ کا چکر نہیں لگا لیتے۔
تخریج الحدیث: «حديث جابر هذا موصول بلإسناد السابق وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 396، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9458، 9911، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5634، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14944»
685 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: قيل لابن عمر: إن ابا نهيك رجل من اهل مكة ياكل اكلا كثيرا، فقال ابن عمر: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «المؤمن ياكل في معي واحد، والكافر ياكل في سبعة امعاء» فقال الرجل: «اما انا فاؤمن بالله ورسوله» 685 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّ أَبَا نَهِيكٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَأْكُلُ أَكْلًا كَثِيرًا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًي وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ» فَقَالَ الرَّجُلُ: «أَمَّا أَنَا فَأُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ»
685- عمر و بن دینار کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا: مکہ کا ایک شخص ابو نہیک بہت زیادہ کھاتا ہے، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کا فر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ راوی کہتے ہیں:تو وہ صاحب بولے: جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5393، 5394، 5395، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2060، 2061، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5238، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6740، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1818، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2084، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3257، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4809»
686 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: «ايما عبد كان بين اثنين فاعتق احدهما نصيبه، فإن كان موسرا فإنه يقوم عليه باعلي القيمة» ، او قال: «قيمة عدل لا وكس، ولا شطط ثم يغرم لصاحبه حصته ثم يعتق» ، قال سفيان: «كان عمرو يشك فيه هكذا» 686 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا عَبْدٍ كَانَ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ، فَإِنْ كَانَ مُوسِرًا فَإِنَّهُ يَقُومُ عَلَيْهِ بِأَعْلَي الْقِيمَةِ» ، أَوْ قَالَ: «قِيمَةُ عَدْلٍ لَا وَكْسٍ، وَلَا شَطَطٍ ثُمَّ يَغْرُمُ لِصَاحِبِهِ حِصَّتَهُ ثُمَّ يُعْتَقُ» ، قَالَ سُفْيَانُ: «كَانَ عَمْرٌو يَشُكُّ فِيهِ هَكَذَا»
686- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو غلام دو آدمیوں کی ملکیت ہوان دونوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے حصے کو آزاد کر دے۔ اگر وہ شخص خوشحال ہو، تو اس غلام کی منصفانہ طور پر کسی کمی بیشی کے بغیر مناسب قیمت لگائی جائے گی اور پھر وہ شخص اپنے ساتھی کو اس کے حصے کی تاوان کی رقم ادا کرے گا اوراس غلام کو (مکمل طور پر) آزاد کردے گا۔“ سفیان کہتے ہیں:عمر و کو اس روایت کے اس طرح ہونے میں شک ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2491، 2503، 2521، 2522، 2523، 2524، 2525، 2553، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1501، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4315، 4316، 4317، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4712 وأبو داود فى «سننه» برقم: 3940، 3947، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1346، 1347، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2528، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11636، 21377، 21378، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 404»
687 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول: سمعت ابن عمر، يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم، يقول للمتلاعنين: «حسابكما علي الله، احدكما كاذب لا سبيل لك عليها» ، فقال: يا رسول الله مالي مالي قال:" لا مال لك، إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها فذلك ابعد لك منه، او قال: منها"687 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَي اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا» ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي مَالِي قَالَ:" لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَلِكَ أَبْعَدُ لَكِ مِنْهُ، أَوْ قَالَ: مِنْهَا"
687- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کولعان کرنے والے (میاں بیوی سے) یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ”تم دونوں کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے، لیکن اب (تمہیں یعنی مرد کو) اس عورت پر کوئی حق حاصل نہیں ہے۔“ ان صاحب نے عرض کی: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرا مال، میرامال۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں مال نہیں ملے گا اگر تم نے اس عورت کے بارے میں سچ کہا ہے، تویہ مال اس چیز کا عوض بن جائے گا، جو تم نے اس کی شر مگاہ کو حلال کیا تھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹا الزام لگا یا ہے، تو پھر تو وہ تم سے اور بھی زیادہ دور ہوجائے گا۔“(یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4748، 5306، 5311، 5312، 5313، 5314، 5315، 5349، 5350، 6748، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1493، 1494، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4286، 4287، 4288، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3473، 3474، 3475، 3476، 3477، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2257، 2258، 2259، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1202، 1203، 3178، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2277، 2278، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2069، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15394، 15421، 15422، 15423، 15424، 15435، 15437، 15438، 15449، 15450، 15451، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3706، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 405 برقم: 4563»
688 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ايوب السختياني، انه سمع سعيد بن جبير، يقول: سالت ابن عمر، فقلت: يا ابا عبد الرحمن رجل لاعن امراته، فقال لي ابن عمر بيده هكذا بإصبعه السبابة والوسطي: «فرق رسول الله صلي الله عليه وسلم بين اخوي بني عجلان» ، وقال: «الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟» ، قال سفيان:" وكان ايوب حدثناه اولا في مجلس عمرو، ثم حدث عمرو بحديثه هذا، فقال له ايوب: انت يا ابا محمد احسن له حديثا مني"688 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَجُلٌ لَاعَنَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ بِيَدِهِ هَكَذَا بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَي: «فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيِ بَنِي عَجْلَانَ» ، وَقَالَ: «اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟» ، قَالَ سُفْيَانُ:" وَكَانَ أَيُّوبُ حَدَّثَنَاهُ أَوَّلَا فِي مَجْلِسِ عَمْرٍو، ثُمَّ حَدَّثَ عَمْرٌو بِحَدِيثِهِ هَذَا، فَقَالَ لَهُ أَيُّوبُ: أَنْتَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَحْسَنُ لَهُ حَدِيثًا مِنِّي"
688- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا میں نے کہا:اے ابوعبدالرحمن! کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرسکتا ہے؟ سیدنا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ کیا اس طرح۔انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دومیاں بیوی کے درمیان علیحدگی کروادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ یہ بات جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے، تو کیا تم دونوں، توبہ کرو گے؟“ سفیان کہتے ہیں: پہلے ایوب نے ہمیں یہ روایت عمرو کی محفل میں سنائی تھی پھر عمرونے ان کی حدیث کے حوالے سے یہ روایت اس طرح بیان کی، تو ایوب نے ان سے کہا:اے ابو محمد! آپ اس روایت کو مجھ سے زیادہ بہتر طورپر بیان کرسکتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4748، 5306، 5311، 5312، 5313، 5314، 5315، 5349، 5350، 6748، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1493، 1494، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4286، 4287، 4288، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3473، 3474، 3475، 3476، 3477، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2257، 2258، 2259، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1202، 1203، 3178، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2277، 2278، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2069، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15394، 15421، 15422، 15423، 15424، 15435، 15437، 15438، 15449، 15450، 15451، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3706، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 405 برقم: 4563»