وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا جرير ، عن مغيرة ، عن إبراهيم ، قال: اتى علقمة الشام، فدخل مسجدا فصلى فيه، ثم قام إلى حلقة فجلس فيها، قال: فجاء رجل، فعرفت فيه تحوش القوم وهيئتهم، قال: فجلس إلى جنبي، ثم قال: اتحفظ كما كان عبد الله يقرا، فذكر بمثله.وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: أَتَى عَلْقَمَةُ الشَّامَ، فَدَخَلَ مَسْجِدًا فَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ قَامَ إِلَى حَلْقَةٍ فَجَلَسَ فِيهَا، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ، فَعَرَفْتُ فِيهِ تَحَوُّشَ الْقَوْمِ وَهَيْئَتَهُمْ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، ثُمَّ قَالَ: أَتَحْفَظُ كَمَا كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ، فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ.
مغیرہ نے ابرا ہیم سے روا یت کی، انھوں نے کہا: علقم ہشام آئے اور ایک مسجد میں داخل ہو ئے اس میں نماز پڑھی، پھر لو گو ں کے ایک حلقے میں جا کر بیٹھ گئے اتنے میں ایک صاحب آئے تو مجھے ان کے (ارد گرد) لو گوں کے اکٹھا ہو نے اور (انکی وجہ سے) ایک خاص ہیئت اختیار کر لینے کا پتہ چل گیا (اس سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ خاص شخصیت ہیں)(علقمہ نے کہا: وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔پھر فرمایا: عبد اللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) جس طرح پڑھا کرتے تھے کیا تمھیں وہ یاد ہے؟ اس کے بعد اسی (پہلی حدیث کی) طرح بیان کیا۔
علقمہ شام آئے اور ایک مسجد میں داخل ہوئے اس میں نماز پڑھی،پھر لو گو ں کے ایک حلقے میں جا کر بیٹھ گئے، ایک آدمی آیا تو میں نے محسوس کیا وہ لوگوں سے کچھ انقباض رکھتا ہے اور ان کی کیفیت وہیئت سے ناراض ہے، وہ میرے پہلو میں بیٹھ گیا، پھر اس نے پوچھا، کیا تمہیں یاد ہے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے پڑھتے تھے؟ آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
حدثنا علي بن حجر السعدي ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن داود بن ابي هند ، عن الشعبي ، عن علقمة ، قال: لقيت ابا الدرداء ، فقال لي: ممن انت؟ قلت: من اهل العراق، قال: من ايهم؟ قلت: من اهل الكوفة، قال: هل تقرا على قراءة عبد الله بن مسعود؟ قال: قلت: نعم، قال: " فاقرا والليل إذا يغشى سورة الليل آية 1، قال: فقرات 0 والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والانثى 0، قال: فضحك، ثم قال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها ".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ لِي: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالَ: مِنْ أَيِّهِمْ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ: هَلْ تَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاقْرَأْ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1، قَالَ: فَقَرَأْتُ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى 0، قَالَ: فَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا ".
اسماعیل بن ابرا ہیم (ابن علیہ) نے داودبن ابی ہند سے انھوں نے شعبی سے اور انھوں نے علقمہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملا انھوں نے مجھ سے پو چھا: تم کہاں سے ہو؟ میں نے کہا: اہل عراق سے انھوں نے پو چھا: ان کے کو ن سے لو گو ں میں سے؟ میں نے کہا: اہل کو فہ سے انھوں نے پوچھا: کیاتم (قرآن مجید) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کے مطا بق پڑھتے ہو؟میں نے کہا: جی ہاں انھوں نے کہا: وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ پڑھو۔ میں نے پڑھا وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ ﴿﴾ وَالنَّہَارِإِذَا تَجَلَّیٰ ﴿﴾ وَ الذَّکَرَوَالْأُنثَیٰ کہا: وہ ہنس پڑے پھر فرمایا: میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے سنا۔
علقمہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم کن لوگوں سے ہو؟ میں نے کہا: اہل عراق سے، انھوں نے پوچھا: ان کے کن لوگو ں سے؟ میں نے کہا: اہل کو فہ سے، انھوں نے پوچھا: کیا تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت کے مطا بق پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ پڑھو۔ میں نے پڑھا ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ وہ ہنس پڑے پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی پڑھتے سنا ہے۔
عبد الاعلیٰ نے کہا: ہم سے داودنے عامر (شعبی) سے اور انھوں نے علقمہ سے روا یت کی، انھوں نے کہا: میں شام آیا اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملا۔۔۔۔آگے ابن علیہ (اسماعیل بن ابرا ہیم) کی (مذکورہ با لا) حدیث کی طرح بیا ن کیا۔
علقمہ سے روایت ہے کہ میں شام آیا،اور ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا، آگے ابن علیہ (اسماعیل بن ابراہیم) کی مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد سورج غروب ہو نے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔اور صبح کے بعد سورج طلوع ہو نے تک نماز سے منع فرمایا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد سورج کے غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور صبح کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جائے۔
منصور نے قتادہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: ہمیں ابو عالیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خبر دی انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سے زیادہ ساتھیوں سے سنا ہے ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور وہ مجھے ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہو نے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو نے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی ساتھیوں سے (یعنی بہت سے صحابہ سے) سنا ہے ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی داخل ہیں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہو نے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
شعبہ سعید اور معاذ بن ہشام نے اپنے والد کے واسطے سے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ یہ روا یت بیان کی، البتہ سعید اور ہشام کی حدیث میں (نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہو نے تک کے بجا ئے) "صبح کے بعد سورج چمکنے تک "کے الفاظ ہیں۔
یہی حدیث امام صاحب اپنے اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، سعید اور ہشام کی حدیث میں ہے، صبح کے بعد حتی کہ سورج روشن ہو جائے یا سورج بلند اور روشن ہو جائے۔
عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ انھوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے اور نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔"
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز عصر کے بعد سے غروب شمس تک کوئی نماز نہیں ہے اور نماز فجر سےطلوع شمس تک کوئی نماز نہیں ہے۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يتحرى احدكم فيصلي عند طلوع الشمس، ولا عند غروبها ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّيَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلَا عِنْدَ غُرُوبِهَا ".
نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص (جان بوجھ کر) طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت کا قصد کرکے ان اوقات میں نماز نہ پڑھے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔“
ہشام کے والد عروہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی نماز کے لئے جان بوجھ کر نہ سورج کے طلوع ہونے کا قصد کرو اور نہ اس کے غروب ہونے کا کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نماز کےلیے طلوع شمس کا قصد نہ کرو اور نہ اس کے غروب کا، کیونکہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔“
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب سورج کا کنارہ نمودار ہوجائے تو نماز موخر کردو حتیٰ کہ وہ (سورج) نکل آئے (بلند ہوجائے) اور جب سورج کا کنارہ غروب ہوجائے تو نماز موخر کردو حتیٰ کہ وہ (سورج) پوری طرح غائب ہوجائے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز مؤخرکر دو، حتی کہ وہ پورا نمایاں ہو جائے یعنی بلند ہو جائے اور جب سورج کا کنارہ غروب ہو جائے تو نماز مؤخر کر دو حتی کہ پوری طرح غروب ہو جائے۔“