ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی نماز کا بہت سا حصہ بیٹھے ہوئے ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن کو بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے نماز کا بہت سا حصہ بیٹھ کر پڑھنے لگے یا بہت سی نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
عبداللہ بن عروہ کے والد عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن زرا بڑھ گیا اور آپ بھاری ہوگئے تو آپ کی نماز کا زیادہ تر حصہ بیٹھے ہوئے (ادا) ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے یا آپصلی اللہ علیہ وسلم کا بدن بھاری اور بوجھل ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم زیادہ نماز بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
۔ امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے سائب بن یزید سے، انھوں نے مطلب بن ابی وداعہ سہمی سے اور انھوں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفل نماز بیٹھ کر کبھی نہ پڑھتے دیکھاتھا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال پہلے کا زمانہ ہوا تو آپ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنےلگے۔آپ سورت کی قراءت کرتے تو اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے حتیٰ کہ وہ طویل ترین سورت سے بھی لمبی ہوجاتی۔ (یعنی بیٹھ کر لیکن اور بھی زیادہ لمبی نماز پڑھتے) -
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفلی نماز بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وفات سےایک سال پہلے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز بیٹھ کر پڑھنے لگے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سورہ پڑھتے اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے حتیٰ کہ وہ اپنے سے طویل سورت سے بھی لمبی ہو جاتی۔
حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ (رات کو) بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن ابي يحيى ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: حدثت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة، قال: فاتيته فوجدته يصلي جالسا، فوضعت يدي على راسه، فقال: ما لك يا عبد الله بن عمرو؟ قلت: حدثت يا رسول الله، " انك قلت صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة، وانت تصلي قاعدا، قال: اجل، ولكني لست كاحد منكم ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي جَالِسًا، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو؟ قُلْتُ: حُدِّثْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، " أَنَّكَ قُلْتَ صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا عَلَى نِصْفِ الصَّلَاةِ، وَأَنْتَ تُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ ".
جریر نے مجھے حدیث سنائی، انھوں نے منصور سے، انھوں نے ہلال بن یساف سے، انھوں نے ابو یحییٰ سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو (بن حوص) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیٹھ کر آدمی کی نماز (اجر میں) آدھی نماز ہے۔"انھوں نے کہا: ایک بار میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا تو میں نے اپنا ہاتھ آپ کے سر مبارک پر لگایا۔آپ نے ہوچھا: "اے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تمھیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتایا گیا کہ آپ نے فرمایا ہے"بیٹھ کر آدمی کی نماز آدھی نماز کے برابر ہے۔"جب کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔آپ نے فرمایا: "ہاں ایسا ہی ہے لیکن میں تم میں سے کسی ایک طرح کا نہیں ہوں۔"
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، آدمی کی بیٹھ کر نماز آدھی نماز ہے۔ تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے پایا تو میں نے اپنا ہاتھ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر رکھ دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”اے عبداللہ بن عمرو! تمہیں کیا ہوا ہے؟“ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”آدمی کی بیٹھ کر نماز آدھی نماز کے برابر ہے۔“ یعنی بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں آدھا اجر ملتا ہے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔“
شعبہ اور سفیان دونوں نے منصور سے اسی سابقہ سند کے ساتھ حدیث بیان کی، البتہ شعبہ کی روایت میں ہے: "ابو یحییٰ الاعرج سے روایت ہے" (انھوں نے ابو یحییٰ کے ساتھ ان کے لقب الاعرج کا بھی ذکر کیا ہے) -
17. باب: نماز شب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل میں رکعتوں کی تعداد، وتر کے ایک ہونے کا بیان اور اس بات کا بیان کہ ایک رکعت صحیح نماز ہے۔
Chapter: Night prayers and the number of rak`ah offered by the Prophet (saws) at night, and that Witr is one rak`ah, and a one-rak`ah prayer is correct
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة، يوتر منها بواحدة، فإذا فرغ منها، اضطجع على شقه الايمن، حتى ياتيه المؤذن، فيصلي ركعتين خفيفتين ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا، اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ".
مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ سے، اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوگیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک کے ذریعے وتر ادا فرماتے، جب آپ اس (ایک رکعت) سے فارغ ہوجاتے تو آپ اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس موذن آجاتا تو آپ دو (نسبتاً) ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے ان میں سے ایک وتر ہوتا تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم جب اس سے فارغ ہو جاتے تو دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آ جاتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
وحدثني حرملة بن يحيى ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي فيما بين ان يفرغ من صلاة العشاء، وهي التي يدعو الناس العتمة إلى الفجر إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة، فإذا سكت المؤذن من صلاة الفجر، وتبين له الفجر وجاءه المؤذن، قام فركع ركعتين خفيفتين، ثم اضطجع على شقه الايمن، حتى ياتيه المؤذن للإقامة ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلإِقَامَةِ ".
عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے جس کو لوگ عتمہ کہتے ہیں فراغت کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور وتر ایک رکعت پڑھتے۔جب موذن صبح کی نماز کی اذان کہہ کر خاموش ہوجاتا آپ کے سامنے صبح واضح ہوجاتی۔اور موذن آپ کے پاس آجاتا تو آپ اٹھ کر دو ہلکی رکعتیں پڑھتےپھر اپنے داہنے پہلو کے بل لیٹ جاتے حتیٰ کہ موذن آپ کے پاس اقامت (کی اطلاع دینے) کے لئے آجاتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز جس کو لوگ عَتَمَہ کہتے ہیں سے فراغت لے کر فجر تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے، جب مؤذن صبح کی نماز کی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صبح روشن ہو جاتی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آ جاتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر دو ہلکی رکعات پڑھتے پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، حتیٰ کہ مؤذن آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقامت کی اطلاع کے لیے آ جاتا۔ ان تین امور میں (واو) ترتیب کے لیے نہیں ہے۔ ترتیب اسی طرح ہے (اِذَا تَبَیَّنَ الْفَجْرُ) جب فجر روشن ہو جاتی (وَجَاءَہُ ا لْمُؤَذِّنُ) اس کے لیے مؤذن آ جاتا (وَسَکَتَ الْمُؤَذِّنُ) اور مؤذن اذان سے فارغ ہو جاتا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے۔
حرملہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ابن وہب نے خبر دی، انھوں نے کہا، مجھے یونس نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ خبر دی۔ اگر حرملہ نے سابقہ حدیث کی مانند حدیث بیان کی البتہ اس میں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صبح کے روشن ہوجانے اور موذن آپ کے پاس آتا"کے الفاظ ذکر نہیں کیے اور "اقامت" کا ذکر کیا۔باقی حدیث بالکل عمرو کی حدیث کی طر ح ہے۔
امام صاحب اپنے دوسرے استاد سے زہری کی اس سند سے روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں صبح کے روشن ہو جانے کا تذکرہ نہیں ہے، اس طرح مؤذن کی آمد کا ہےاور اقامت کا ذکر نہیں ہے۔ باقی حدیث اوپر کی طرح ہے۔