وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلإِقَامَةِ ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 686
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 686]
686 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہو گا۔
➋ گیارہ رکعت تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراویح بن جاتی تھیں، البتہ آپ انہیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔
➌ سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والا سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔
➍ ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 686
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1316
´نماز میں کم سے کم کتنا عمل کافی ہو گا؟`
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے (تہجد کے) لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ جب آپ کو رات میں بیدار کرنا چاہتا بیدار کر دیتا، آپ اٹھ کر مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۱؎، ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، اللہ عزوجل کا ذکر کرتے، اور دعائیں کرتے، پھر اتنی اونچی آواز میں آپ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنا دیتے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1316]
1316۔ اردو حاشیہ:
➊ ”نہیں بیٹھتے تھے“ گویا نفل نماز میں اگر ہر دو رکعت کے بعد نہ بیٹھے، صرف آخری رکعت کے بعد بیٹھ جائے اور تشہد وغیرہ پڑھ لے تو کافی ہے، نماز میں ہو جائے گی، البتہ فرض نماز میں ہر دو رکعت کے بعد تشہد بیٹھنا چاہیے۔ اگربھول جائے تو نماز ہو جائے گی مگر سجدۂ سہو ضروری ہے۔ قصداً چھوڑے تو نماز دہرائے۔
➋ ”آٹھ رکعات پڑھتے“ وتر اس کے علاوہ پڑھتے۔ وتر (طاق نماز) پڑھنے کے بعد پہلے پڑھے ہوئے سب نوافل بھی وتر میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ نماز ایک ہی ہے۔ صرف رکعات کی تعداد (طاق) کے مدنظر اسے وتر کہہ دیتے ہیں ورنہ یہ سب صلاۃ اللیل ہے، تاہم خالی وتر کے لیے بعض نے کم از کم تین کی حد مقرر کی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے صرف ایک رکعت بھی ثابت ہے، لہٰذا ایک رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ لیکن اس پرہمیشگی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1316
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1329
´نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فجر تک کے بیچ میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر کرتے ۱؎، اور ایک سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ کوئی اس سے پہلے کہ آپ سجدہ سے سر اٹھائیں پچاس آیتیں پڑھ لے۔ اس حدیث کے رواۃ (ابن ابی ذئب، عمرو بن حارث اور یونس بن یزید) ایک دوسرے پر اضافہ بھی کرتے ہیں اور یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر کی گئی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1329]
1329۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب رحمہ اللہ کا اس روایت سے نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کرنے پر استدلال کرنا محل نظر ہے کیونکہ اس روایت میں جو سجدے کا ذکر ہے، اس سے مراد نماز سے فراغت کے بعد کا سجدہ نہیں بلکہ نماز میں کیے جانے والے سجدے کی طوالت کا بیان ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (تہجد) گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ رات کے وقت آپ کی یہی نماز ہوتی تھی، اس نماز میں سجدہ اس قدر طویل کرتے کہ آپ کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص پچاس آیات تلاوت کر سکتا تھا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوتر، حدیث: 994]
➋ اس روایت میں عشاء کی مابعد سنتوں کو عشاء ہی میں شمار کیا گیا ہے، یعنی یہ گیارہ رکعات عشاء کی سنتوں کے علاوہ تھیں۔
➌ اگر صرف تین وتر پڑھنے ہوں تو پھر دو رکعت نماز الگ اور ایک رکعت الگ پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔ احادیث کی روشنی میں اسی طریقے کی افضیلت متی ہے۔ احناف کسی حال میں ایک رکعت الگ پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ صحیح، کثیر اور صریح احادیث کی موجودگی میں ان کا ایک وتر سے انحراف قابل افسوس ہے۔
➍ رات کی نماز لمبی پڑھنا مستحب ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1329
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1602
´قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1602]
1602۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہو گئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکروددعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 746) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہو گئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
➋ ”عین قرآن کے مطابق تھے۔“ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہو گئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کر دی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔
➍ قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنی بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کر کے پڑھنا۔ تراوی میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہو چکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔
➎ رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضادی جا سکتی ہے۔
➏ ”مجھے علم نہیں“ مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
➐ ”اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا“ دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
➑ سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمہ اللہ۔
➒ جس سے سوال پوچھا: جا رہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔
➓ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔ (11)محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (12)ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1602
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1652
´جب نماز کھڑے ہو کر شروع کرے تو کیسے کرے؟ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والوں کے اختلاف کا بیان۔`
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعد بن ہشام بن عامر ہوں، انہوں نے کہا: اللہ تمہارے باپ پر رحم کرے، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق کچھ بتائیے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ایسا کرتے تھے، میں نے کہا: اچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں عشاء کی نماز پڑھتے تھے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف آتے اور سو جاتے، پھر جب آدھی رات ہوتی، تو قضائے حاجت کے لیے اٹھتے اور وضو کے پانی کے پاس آتے، اور وضو کرتے، پھر مسجد آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، تو پھر ایسا محسوس ہوتا کہ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے سب برابر برابر ہیں، اور ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر آپ اپنے پہلو کے بل لیٹ جاتے، تو کبھی اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ لگے بلال رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آپ کی آنکھ لگ جاتی، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ سوئے یا نہیں سوئے یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی، یہاں تک کہ آپ عمردراز ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا، پھر انہوں نے آپ کے جسم پر گوشت چڑھنے کا حال بیان کیا جو اللہ نے چاہا، وہ کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے، پھر اپنے بچھونے کی طرف آتے، تو جب آدھی رات ہو جاتی تو آپ اپنی پاکی اور حاجت کے لیے اٹھ کر جاتے، پھر وضو کرتے، پھر مسجد آتے تو چھ رکعتیں پڑھتے، ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے میں برابری رکھتے ہیں، پھر آپ ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، پھر اپنے پہلو کے بل لیٹتے تو کبھی بلال رضی اللہ عنہ آپ کی آنکھ لگنے سے پہلے ہی آ کر نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آنکھ لگ جانے پر آتے، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ کی آنکھ لگی یا نہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، وہ کہتی ہیں: تو برابر یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رہی۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1652]
1652۔ اردو حاشیہ: وتر کے بعد بیٹھ کر دو رکعات پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول نہ تھا۔ بہت سی روایات میں ان کا ذکر نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کبھی یہ رکعات پڑھتے، کبھی نہیں۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ ان کو بیٹھ کر ہی پڑھا جائے۔ ممکن ہے آپ تہجد کی لمبی لمبی رکعات میں تھک جانے کی وجہ سے یہ دو رکعات بیٹھ کر پڑھتے ہوں۔ ویسے بھی آپ کو بیٹھ کر نوافل پڑھنے کا ثواب، کھڑے ہو کر پڑھنے کے برابر ملتا تھا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 735) ہمیں پورے ثواب کے لیے نوافل کھڑے ہو کر پڑھنے چاہییں، اگرچہ بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ دو رکعات وتر کا تتمہ ہیں، مغرب کی دو سنتوں کی طرح۔ ورنہ آپ نے وتر کو آخر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ گویا ان کے باوجود وتر آخر ہی میں رہتے ہیں کیونکہ یہ وتر کے تابع ہیں۔ یا امر استحباب کے لیے ہے اور فعل جواز پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1652
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1697
´ایک رکعت وتر کیسے پڑھی جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1697]
1697۔ اردو حاشیہ: مذکورہ اور آئندہ آنے والی روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز ہی کو وتر کہا جاتا ہے، وہ جتنی بھی ہو۔ جب آخر میں ایک رکعت پڑھی جائے گی تو ساری نماز ہی وتر (طاق) بن جائے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1697
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1710
´وتر کے سلسلے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی حدیث میں حبیب بن ابی ثابت پر اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے، جب آپ بوڑھے اور (گوشت چڑھ جانے کی وجہ سے) بھاری بھر کم ہو گئے تو (صرف) سات رکعتیں پڑھنے لگے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1710]
1710۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول گیارہ کا تھا۔ جن روایات میں تیر ہ رکعات کا ذکر ہے ان میں عشاء یا فجر کی دو سنتیں یا قیام اللیل سے قبل کی افتتاحی دورکعتیں شامل ہیں۔ جب آپ کچھ بوڑھے ہوئے تو نو شروع کر دیں۔ مزید بوڑھے ہوئے تو سات پڑھنے لگے۔ اس طرح کوئی اختلاف نہیں۔
➋ ان تینوں روایتوں (1708، 1709 اور 1710) کا راوی ایک ہے یحییٰ بن حزار ان کے کسی شاگرد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما ذکر کیا، کسی نے ام سلمہ کا اور کسی نے عائشہ کا۔ یہ اختلاف بتانا مقصود ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1710
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1720
´سات رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نو رکعت وتر پڑھتے تو صرف آٹھویں رکعت میں قعدہ کرتے، اللہ کی حمد کرتے، اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر کھڑے ہو جاتے، اور سلام نہیں پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ عزوجل کا ذکر کرتے، دعا کرتے، پھر ایک سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے، صرف چھٹی میں قعدہ کرتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے، اور ساتویں رکعت پڑھتے، پھر ایک سلام پھیرتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1720]
1720۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا سات وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔ ہر رکعت کے بعد بغیر بیٹھے کھڑا ہوتا رہے، صرف ساتویں میں بیٹھے یا چھٹی اور ساتویں دونوں میں بیٹھے مگر سلام ساتویں ہی پر پھیرے۔ دونوں طریقے جائز ہیں اور یہی ان دو روایتوں میں تطبیق ہے کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلا طریقہ اختیار فرماتے، کبھی دوسرا۔
➋ وتر کے بعد دو رکعت کا مسئلہ دیکھیے حدیث نمبر: 1652 اور اس کا فائدہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1720
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1721
´نو رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیا کرتے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا تورات میں آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے (پھر) وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اور اللہ کی حمد کرتے، اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور ان کے درمیان دعائیں کرتے، اور کوئی سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعات پڑھتے اور قعدہ کرتے، راوی نے اس طرح کی کوئی بات ذکر کی کہ آپ اللہ کی حمد کرتے، اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1721]
1721۔ اردو حاشیہ: اس میں پہلے تشہد میں بھی درودشریف پڑھنے کا ذکر ہے، یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن اسے فرضوں میں بھی پڑھا جا سکتا ہے بلکہ مستحب ہے جیسا کہ پہلے بھی اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1721
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1722
´نو رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اس ہستی کو نہ بتاؤں یا اس ہستی کی خبر نہ دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زمین والوں میں سب سے زیادہ جانتی ہے؟ میں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، تو ہم ان کے پاس آئے، اور ہم نے انہیں سلام کیا، اور ہم اندر گئے، اور اس بارے میں میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، سوائے آٹھویں کے ان میں سے کسی میں قعدہ نہیں کرتے، اللہ کی حمد کرتے اس کا ذکر کرتے، اور دعا مانگتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے آپ ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، میرے بیٹے! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں، لیکن جب آپ بوڑھے ہو گئے اور آپ کے جسم پر گوشت چڑھ گیا تو آپ وتر سات رکعت پڑھنے لگے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، اس طرح میرے بیٹے! یہ کل نو رکعتیں ہوتی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1722]
1722۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا نو رکعت وتر اکٹھے پڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تشہد صرف آٹھویں میں بیٹھے، پھر اٹھ کر نویں رکعت پڑھے، پھر بیٹھ کر سلام پھیردے۔
➋ پچھلی حدیث میں آٹھویں رکعت والے تشہد میں درود کا بھی ذکر ہے۔ گویا نفل نماز میں درمیانی تشہد میں بھی درود پڑھا جا سکتا ہے اور فرضوں میں بھی۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1722
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1727
´گیارہ رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے، اور آپ ایک کے ذریعہ اسے وتر کر لیتے، پھر آپ اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1727]
1727۔ اردو حاشیہ:
➊ گیارہ وتر (نماز تہجد مع وتر) پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کر کے پڑھتے جائیں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔ سب وتر بن جائے گی۔
➋ ”پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔“ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ لیٹنا فجر کی دو سنتوں کے بعد تھا۔ صحیح روایات سے یہی ثابت ہے۔ (جس کی تفصیل حدیث: 1763 کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔) اس لیٹنے کی بابت اہل علم میں اختلاف ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فجر کی دو سنتوں کے بعد اس کو جائز اور درست قرار دیا ہے جبکہ بعض اہل علم اس کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے اقرب الی الصواب یہی رائے معلوم ہوتی ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنا مستحب اور افضل ہے کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی ہے اور آپ کا اپنا ذاتی عمل بھی۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو رکعت پڑھ کر اپنے دائیں پہلو پر لیٹا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 226، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 736) نیز صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: «اذا صلی احدکم الرکعتین قبل الصبح فلیضطحع علی بمینہ» ”جب تم سے کوئی شخص نماز صبح سے پہلے دو رکعت (سنت) پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے۔“ (سنن ابی داود، النطوع، حدیث: 1261) بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص گھر میں سنتیں پڑھے تو لیٹ جائے۔ اگر مسجد میں پڑھے تو نہ لیٹے۔ یہ بات محل نظر ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں فضیۃ الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح منۃ المنعم میں رقمطراز ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں پہلو پر لیٹنا اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔ سنتیں گھر میں پڑھی جائیں یا مسجد میں، اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ آگے فرماتے ہیں: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کا حکم مطلق ہے، جہاں سنتیں پڑھے، گھر میں ہو یا مسجد میں، وہیں لیٹے کیونکہ اس (حکم اضطحاع) کے مطلق ہونے کی وجہ سے گھر اور مسجدہر دو جگہ میں لیٹنا مستحب ہے۔ دیکھیے: (منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین: 1؍464، شرح حدیث: (122)۔ 734)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1727
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1750
´وتر کے بعد سجدہ کی مقدار کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں عشاء کی نماز سے فارغ ہونے سے لے کر فجر ہونے تک فجر کی دو رکعتوں کے علاوہ گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ تم میں سے کوئی پچاس آیتوں کے بقدر پڑھ لے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1750]
1750۔ اردو حاشیہ: حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ یہ سجدہ وتر سے فراغت کے بعد ہوتا تھا جیسا کہ مصنف رحمہ اللہ نے سمجھا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ رات کی نماز میں کیے جانے والے سجدوں کی طوالت کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت تفصیل سے آئی ہے۔ اس میں یہ وضاحت ہے کہ یہ قیام اللیل کے سجدوں کی بات ہے نہ کہ وتر کے بعد کی۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: «کان یصلی احدی عشرۃ رکعا، کانت تلک صلاتہ، یسجد السجدۃ من ذلک قدر مایقرا احدکم خمسین آی قبل ان یرفع راسہ۔۔۔» ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (رات کے وقت) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ کی (رات کی) نماز یہی تھی۔ آپ اس نماز میں سجدہ اتنا (طویل) کرتے کہ آپ کے سرمبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے۔“ (صحیح البخاری، التہجد، حدیث: 1123) اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر «باب طول السجود فی قیام اللیل» کے نام سے عنوان قائم کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1750
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1757
´وتر اور فجر کی دو رکعت سنت کے درمیان نفل پڑھنے کا بیان۔`
یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے، نو رکعت کھڑے ہو کر، اس میں وتر بھی ہوتی اور دو رکعت بیٹھ کر، تو جب آپ رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے، اور رکوع اور سجدہ کرتے، اور ایسا آپ وتر کے بعد کرتے تھے، پھر جب آپ فجر کی اذان سنتے تو کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1757]
1757۔ اردو حاشیہ: وتر کے بعد دورکعات کا مسئلہ پیچھے گزر چکا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 1652
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1757
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1334
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1334]
1334. اردو حاشیہ: فائدہ: فجر کی سنتوں کو بھی بعض روایات میں رات کی نماز میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اول وقت میں پڑھی جاتی تھیں اور وتروں کے ساتھ گویا متصل ہوتی تھیں۔ اس طرح رات کی نماز کی تعداد تیرہ ہوجاتی ہے۔ تاہم زیادہ روایات میں یہ تعداد گیارہ ہی بیان ہوئی ہے، یعنی ان میں فجر کی دوسنتیں شامل نہیں کی گئی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1339
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر کی اذان سنتے تو ہلکی سی دو رکعتیں اور پڑھتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1339]
1339. اردو حاشیہ: فائدہ: یہ تیرہ رکعتیں، ان مختصر دو رکعتوں کو ملا کر ہوتی ہیں جوقیام اللیل (نماز تہجد) کے آغاز میں بعض دفعہ نبیﷺ پڑھا کرتےتھے۔ درج ذیل روایت میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1339
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1352
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کے بارے میں بتائیے، وہ بولیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عشاء پڑھاتے، پھر بستر پر آ کر سو جاتے، جب آدھی رات ہو جاتی تو قضائے حاجت اور وضو کے لیے اٹھتے اور وضو کر کے مصلیٰ پر تشریف لے جاتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں قرآت، رکوع اور سجدہ برابر برابر کرتے، پھر ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا دیتے، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پھر اپنا پہلو (زمین پر) رکھتے، کبھی ایسا ہوتا کہ بلال رضی اللہ عنہ آ کر نماز کی خبر دیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی نیند سوتے، بسا اوقات میں شبہ میں پڑ جاتی کہ آپ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، یہی آپ کی نماز (تہجد) ہے یہاں تک کہ آپ بوڑھے اور موٹے ہو گئے، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوشت بڑھ جانے کا حال جو اللہ نے چاہا ذکر کیا پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1352]
1352. اردو حاشیہ: فائدہ: امام نووی لکھتے ہیں کہ وتروں کے بعد دورکعت پڑھنا نبیﷺ کا بعض اوقات کا معمول ہے جو بیان جواز کےلیے، ہمیشہ کا عمل نہیں۔ اور احادیث میں وارد لفظ [کان]
ہر جگہ دوام و استمرار کا معنی نہیں دیتا۔ کئی مشہور صحیح احادیث میں آیا ہے کہ نبیﷺکی نماز تہجد میں وتر آخر میں ہوا کرتے تھے جیسے کہ اما م ابوداؤد نے پیش آمدہ احادیث میں ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ ”اپنی رات کی نماز کا آخر وتروں کا بناؤ۔“ الغرض وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنا اورترک کرنا دونوں ثابت ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1352
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1361
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں فجر کی دونوں اذانوں کے درمیان پڑھیں، انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ جعفر بن مسافر کی روایت میں ہے: اور دو رکعتیں دونوں اذانوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھیں۔ انہوں نے «جالسا» (بیٹھ کر) کا اضافہ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1361]
1361. اردو حاشیہ: فائدہ: اس روایت میں شیخ البانی کے نزدیک [بین الأذانین]
”دونوں اذانوں کے درمیان“ کے الفاظ ثابت نہیں۔ بلکہ اصل الفاظ (جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے) [بعد الوتر]
ہیں۔ یعنی وتروں کے بعد نبیﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1361
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1363
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رات کو آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر گیارہ رکعتیں پڑھنے لگے اور دو رکعتیں چھوڑ دیں، پھر وفات کے وقت آپ نو رکعتیں پڑھنے لگے تھے اور آپ کی رات کی آخری نماز وتر ہوتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1363]
1363. اردو حاشیہ: فائدہ: شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت صرف ان الفاظ کےساتھ ہے: ”رسول اللہﷺ رات کو (نفلی) نماز پڑھتے تھے، حتی کہ آپ کی آخری نماز وتر ہوتی تھی۔“ (حدیث:740)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1363
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1177
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1177]
اردو حاشہ:
فائده:
اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ تین وتر بھی دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے۔
یعنی دو رکعت پڑھ کرسلام پھیر دیتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔
اس اعتبارسے تین وتر دوسلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔
اگرچہ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ بھی جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1177
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1191
´وتر میں تین، پانچ، سات اور نو رکعات پڑھنے کا بیان۔`
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا رات میں آپ کو بیدار کر دیتا، آپ مسواک اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، بیچ میں کسی بھی رکعت پر نہ بیٹھتے، ہاں آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے، اس کا ذکر کرتے اور حمد کرتے ہوئے اسے پکارتے، پھر اٹھ جاتے، سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1191]
اردو حاشہ:
فوائد ز مسائل:
(1)
نو رکعت وتر اصل میں تہجد مع وتر ہے۔
جو ایک سلام سے پڑھی جاتی ہے۔
(2)
نو وتر پڑھتے وقت آٹھ رکعت کے بعد تشہد پڑھنا چاہیے۔
(3)
وتر کی نماز کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا جائز ہے۔
لیکن بہتر یہ ہے کہ وتر سب سے آخر میں پڑھے۔
رسو ل اللہ ﷺ کا حکم ہے۔ (اِجْعَلُوا آخِرَ صَلاَتِكُمْ بِاللَّيْل وِتْراً)
(صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب الصلاة الليل مثنیٰ مثنیٰ، والوتر رکعة من آخیر اللیل حدیث 751)
اپنی رات کی نمازوتر پر ختم کرو۔
دو رکعت بعد میں پڑھنا بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیونکہ یہ اسی طرح ہیں جسطرح مغرب کی نمازکے بعد دوسنتیں ہیں۔
(4)
تہجد کی نماز آٹھ رکعت سے کم پڑھنا بھی جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1191
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1358
´تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1358]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد کا وقت نماز عشاء سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے اور صبح صادق کے طلوع ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔
(2)
نمازتہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول وتر سمیت گیارہ رکعت پڑھنے کا تھا۔
(3)
نماز تہجد میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا بھی درست ہے۔
اور چار چار رکعت ایک سلام سے پڑھنا بھی درست ہے۔
(4)
تہجد کی نماز کے بعد ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔
اور تین یا پانچ رکعت پڑھنا بھی درست ہے۔
(5)
نماز تہجد میں جب قیام طویل کیا جائے تو اسی نسبت سےرکوع اور سجدہ بھی طویل کرنا چاہیے۔
(6)
فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔
جب کہ اس وقت تہجد اوروتر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
(7)
فجر کی سنتوں میں قراءت مختصر ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1358
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1359
´تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1359]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت گیارہ رکعت والی حدیث کے مخالف نہیں بلکہ ان کے درمیان علمائے حدیث یوں تطبیق دیتے ہیں۔
عشاء کی سنت یا فجر کی سنت کی دو رکعت ملا کر تیرہ رکعت کہا جا سکتا ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجہ حدیث: 1361، تیرہ رکعت کی ایک اور صورت آگے آ رہی ہے۔
دیکھئے:(حدیث 1362)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1359
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1360
´تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1360]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس میں آٹھ رکعت تہجد اور ایک رکعت وتر شامل ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ چھ رکعت تہجد پڑھ کرتین رکعت وتر کی نماز ادا کی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1360
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 994
994. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی نماز شب یہی ہوتی تھی۔ ان رکعات میں آپ کا سجدہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ آپ کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی بھی پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ نماز فجر سے پہلے آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ رہتے تاآنکہ مؤذن نماز کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:994]
حدیث حاشیہ:
پس گیارہ رکعتیں انتہا ہیں۔
وتر کی دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
اب ابن عباس کی حدیث میں جو تیرہ رکعتیں مذکورہ ہیں تو اس کی رو سے بعضوں نے انتہا وتر کی تیرہ رکعت قرار دی ہیں۔
بعضوں نے کہا ان میں دو رکعتیں عشاء کی سنت تھیں تو وتر کی وہی گیارہ رکعتیں ہوئیں۔
غرض وتر کی ایک رکعت سے لے کر تین پانچ نو گیارہ رکعتوں تک منقول ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ان گیارہ رکعتوں میں آٹھ تہجد کی تھیں اور تین وتر کی اور صحیح یہ ہے کہ تراویح تہجد وتر صلوۃ اللیل سب ایک ہی ہیں (وحید الزمان ؒ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 994
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1123
1123. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ یہ آپ کی (رات کی) نماز تھی۔ اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے، نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1123]
حدیث حاشیہ:
فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے داہنی کروٹ پر لیٹنا آنحضرت ﷺ کا معمول تھا۔
جس قدر روایات فجر کی سنتوں کے بارے میں مروی ہیں ان سے بیشتر میں اس ''اضطجاع'' کا ذکر ملتا ہے۔
اسی لیے اہل حدیث کا یہ معمول ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی ہر سنت اور آپ کی ہر مبارک عادت کو اپنے لیے سرمایہ نجات جانتے ہیں۔
پچھلے کچھ متعصب ومتشدد قسم کے بعض حنفی علماء نے اس لیٹنے کو بدعت قرار دے دیا تھا مگر آج کل سنجیدگی کا دور ہے اس میں کوئی اوٹ پٹانگ بات ہانک دینا کسی بھی اہل علم کے لیے زیبا نہیں، اسی لیے آج کل کے سنجیدہ علماء احناف نے پہلے متشدد خیال والوں کی تردید کی ہے اور صاف لفظوں میں آنحضرت ﷺ کے اس فعل کا اقرار کیا ہے۔
چنانچہ صاحب تفہیم البخاری کے یہاں یہ الفاظ ہیں:
”اس حدیث میں سنت فجر کے بعد لیٹنے کا ذکر ہے۔
احناف کی طرف اس مسئلے کی نسبت غلط ہے کہ ان کے نزدیک سنت فجر کے بعد لیٹنا بدعت ہے۔
اس میں بدعت کا کوئی سوال ہی نہیں۔
یہ تو حضور اکرم ﷺ کی عادت تھی، عبادات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں البتہ ضروری سمجھ کر فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا پسندیدہ نہیں خیال کیا جا سکتا، اس حیثیت سے کہ یہ حضور اکرم ﷺ کی ایک عادت تھی اس میں اگر آپ ﷺ کی اتباع کی جائے تو ضرور اجر وثواب ملے گا۔
“ فاضل موصوف نے بہرحال اس عادت نبوی پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر و ثواب کا فتویٰ دے ہی دیا ہے۔
باقی یہ کہنا کہ عبادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں غلط ہے، موصوف کو معلوم ہو گا کہ عبادت ہر وہ کام ہے جو آنحضرت ﷺ نے دینی امور میں تقرب الی اللہ کے لیے انجام دیا۔
آپ ﷺ کا یہ لیٹنا بھی تقرب الی اللہ ہی کے لیے ہوتا تھا کیونکہ دوسری روایات میں موجود ہے کہ آپ ﷺ اس وقت لیٹ کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
«اللهُمَّ اجْعَلْ لِي فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَمِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ شِمَالِي نُورًا، وَمِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُورًا، وَمِنْ خَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًااللهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا» . (صحیح مسلم)
اس دعا کے بعد کون ذی عقل کہہ سکتا ہے کہ آپ کا یہ کام محض عادت ہی سے متعلق تھا اور بالفرض آپ ﷺ کی عادت ہی سہی بہرحال آپ کے سچے فدائیوں کے لیے آپ ﷺ کی ہر ادا آپ کی ہر عادت آپ کا ہر طور طریقہ زندگی باعث صد فخر ومباہات ہے۔
اللہ عمل کی توفیق بخشے آمین۔
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست وگر با ونہ رسیدی تمام بولبہی است آپ ﷺ سجدے میں یہ بار بار کہا کرتے:
سُبحنَكَ اللھم رَبنَا وبِحمدِكَ اللھم اغفِرلِي۔
ایک روایت میں یوں ہے:
سُبحنَكَ لا إلهَ إِلا أَنتَ۔
سلف صالحین بھی آنحضرت ﷺ کی پیروی میں لمبا سجدہ کرتے۔
عبد اللہ بن زبیر ؓ اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے کہ چڑیاں اتر کر ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتیں اور سمجھتیں کہ یہ کوئی دیوار ہے (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1140
1140. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر اور فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1140]
حدیث حاشیہ:
وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجد کی دو دو کر کے پڑھتے۔
پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے۔
یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
جن روایات میں آپ کا بیس رکعات تراویح پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1140
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1170
1170. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پھر جب صبح کی اذان سنتے تو ہلکی پھلکی دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1170]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ فجر کی سنتوں میں چھوٹی چھوٹی سورتوں کو پڑھنا چاہیے۔
آپ ﷺ کے ہلکا کرنے کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1170
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6310
6310. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ رات گیارہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر طلوع ہوجاتی تو ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے اس کے بعد آپ اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آتا اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6310]
حدیث حاشیہ:
رات کے بارہ مہینوں کی راتیں مراد ہیں رمضان کی راتوں میں نماز تراویح بھی تہجد ہی کی نماز ہے پس ثابت ہوا کہ آپ نے رمضان میں نماز تراویح بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھی ہیں پس ترجیح اسی کو حاصل ہے جو لوگ آٹھ رکعات تراویح کو بدعت کہتے ہیں وہ سخت ترین غلطی میں مبتلا ہیں کہ سنت کو بدعت کہہ رہے ہیں تقلید ی ضد اور تعصب اتنی بری بیماری ہے کہ آدمی جس کی وجہ سے بالکل اندھا ہو جاتا ہے إلا من ھداہ اللہ۔
فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے دائیں کروٹ لیٹ جانا ہی سنت ہے بعض الناس اس سنت کو بھی بنظر تحقیر دیکھتے ہیں۔
اللہ ان کو نیک فہم دے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6310
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:994
994. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی نماز شب یہی ہوتی تھی۔ ان رکعات میں آپ کا سجدہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ آپ کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی بھی پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ نماز فجر سے پہلے آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ رہتے تاآنکہ مؤذن نماز کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:994]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔
ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے۔
اس کے بعد نماز فجر سے قبل ہلکی پھلکی دو رکعت (سنت)
پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1718 (736)
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں پانچ وتر ہوتے تھے جن میں ایک سلام ہوتا اور آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1720 (737)
ان روایات میں تضاد نہیں بلکہ اس آخری روایت میں صبح کی دو سنتوں کو شامل کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعت سمیت تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1722 (737)
اس روایت کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ آخر میں تین رکعت وتر فصل سے پڑھتے تھے۔
احناف کا موقف اس کے خلاف ہے۔
وہ تین رکعت وتر وصل، یعنی ایک سلام سے پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔
مذکورہ حدیث عائشہ سے ان کے اختیار کردہ موقف کی تردید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 626/2)
نیز احناف کا وتر کی نماز میں دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 994
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1123
1123. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ یہ آپ کی (رات کی) نماز تھی۔ اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے، نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1123]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد میں بہت لمبا سجدہ کرتے تھے۔
آپ سجدے میں اس قدر ٹھہرتے کہ کوئی شخص آپ کے سر مبارک اٹھانے سے پہلے پچاس آیات پڑھ لیتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد ایک انفرادی عمل ہے۔
رسول اللہ ﷺ اس عمل کو تنہا ادا کرتے تھے۔
دوسری نمازوں میں مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے آپ ہلکی نماز پڑھتے تھے۔
نماز تہجد میں سجدہ اس لیے طویل ہوتا تھا کہ اس میں دعائیں فرماتے اور اللہ کی بارگاہ میں تواضع اور عاجزی فرماتے تاکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔
(2)
امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب قدر السجدة بعد الوتر)
”وتر کے بعد سجدے کی مقدار۔
“ (سنن النسائي، قیام اللیل، باب: 63)
ہمارے نزدیک یہ عنوان محل نظر ہے، کیونکہ مذکورہ سجدہ نماز ہی میں تھا، نماز سے باہر نہیں تھا۔
انفرادی سجدہ صرف سجدۂ تلاوت ہے یا کسی حد تک سجدۂ شکر کی گنجائش ہے، تاہم نماز وتر کے بعد انفرادی سجدہ کرنا صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1140
1140. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر اور فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1140]
حدیث حاشیہ:
(1)
مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر حضرت عائشہ ؓ سے نماز تہجد میں رکعات کی تعداد کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
حضرت مسروق نے سات، نو اور گیارہ رکعت بیان کی ہیں۔
مختلف اوقات یا دیگر اعذار کی وجہ سے نماز تہجد میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔
حضرت قاسم کی روایت اکثر اوقات پر محمول ہے، یعنی نماز تہجد کی گیارہ رکعت ہوتیں اور نماز فجر کی دو سنت شامل کر کے اسے تیرہ بیان کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو سلمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ کی نماز تہجد گیارہ رکعت پر مشتمل ہوتی تھی۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1147) (2)
زہری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز تہجد تیرہ رکعت پڑھتے، پھر صبح کی اذان سنتے تو ہلکی پھلکی فجر کی دو سنت ادا کرتے۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1170)
یہ حدیث دیگر احادیث کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔
ان کی تطبیق بایں طور ہے کہ ان میں نماز عشاء کے بعد والی دو سنت شامل کی گئی ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ انہیں گھر میں ادا کرتے تھے یا ان میں نماز تہجد کی افتتاحی دو رکعت شمار کی گئی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔
دراصل مختلف اوقات اور حالات کے پیش نظر ان کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے، البتہ نماز تہجد گیارہ رکعت سے زائد نہیں ہوتی تھی۔
(3)
اس میں حکمت یہ ہے کہ دن کے فرائض بھی گیارہ ہیں، چار رکعت نماز ظہر، چار رکعت نماز عصر اور تین رکعت نماز مغرب جو دن کے وتر ہیں، اس لیے رات کی نماز بھی اس کے مطابق گیارہ رکعت ہے اور اس میں تین وتر شامل ہیں۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 28/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1140
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1159
1159. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے نماز عشاء پڑھی، پھر نماز تہجد کی آٹھ رکعات ادا کیں (پھر وتر پڑھے) اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں، پھر اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں ادا فرمائیں اور انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1159]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز فجر کی دو سنت خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں سفر و حضر میں کبھی ترک نہیں کیا۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:
”فجر کی دو سنت دنیا اور اس کے تمام سازوسامان سے بڑھ کر ہیں۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1686(725)
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کو بڑی پابندی سے ادا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1686(724) (2)
ان روایات میں نماز وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے کا ذکر ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا، البتہ رسول اللہ ﷺ سے ان کا بیٹھ کر ادا کرنا ہی ثابت ہے اور آپ نے انہیں اتفاقاً نہیں بلکہ قصداً بیٹھ کر ادا کیا ہے، کیونکہ تمام عمر کے اس فعل کو اتفاق پر محمول نہیں کیا جا سکتا، لیکن ہمیں کھڑے ہو کر ادا کرنی چاہئیں کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ آپ کو بیٹھ کر نوافل ادا کرنے سے پورا ثواب ملتا ہے، جبکہ ہمیں کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1159
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1170
1170. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پھر جب صبح کی اذان سنتے تو ہلکی پھلکی دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1170]
حدیث حاشیہ:
علامہ اسماعیلی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا:
”فجر کی سنتوں کو ہلکا پھلکا پڑھنا“ لیکن ان کا اعتراض مبنی بر حقیقت نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ فجر کی سنتوں میں بالکل کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔
انہوں نے تنبیہ فرمائی ہے کہ ان میں بھی قراءت ضروری ہے، اگرچہ احادیث میں انہیں ہلکا پھلکا پڑھنے سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے پہلے دو رکعت پڑھتے اور فرماتے تھے کہ ان میں قراءت کے لیے ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ )
اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ )
دو بہترین سورتیں ہیں۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1150)
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں:
میں نے ایک ماہ تک جائزہ لیا کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں میں ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ )
اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ )
پڑھتے تھے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1148)
البتہ رسول اللہ ﷺ انہیں تخفیف کے ساتھ اس لیے پڑھتے تھے تاکہ نماز صبح اول وقت میں ادا کر سکیں۔
بعض حضرات نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ آپ صلاۃ اللیل کا افتتاح بھی دو ہلکی پھلکی رکعتوں سے کرتے تھے، اس مناسبت سے صلاۃ نہار، یعنی نماز فجر کا افتتاح بھی دو ہلکی پھلکی رکعتوں سے فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 80/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1170
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6310
6310. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ رات گیارہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر طلوع ہوجاتی تو ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے اس کے بعد آپ اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے حتیٰ کہ مؤذن آتا اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6310]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التہجد میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا تھا:
(باب الضجعة علی الشق الأيمن بعد ركعتي الفجر)
”فجر کی دو سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا۔
“ (صحیح البخاري، التھجد، باب: 23)
لیکن اس لیٹنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کچھ تفصیل بیان کی ہے کہ اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کو نماز کی اطلاع دی جاتی۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1161)
اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع)
”جو شخص فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کے بجائے محو گفتگو ہو جائے۔
“ (صحیح البخاري، التھجد، باب: 24)
بہرحال یہ لیٹنا مستحب ہے ضروری نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6310