حدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثنا انس بن مالك ، عن معاذ بن جبل ، قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم، ليس بيني وبينه إلا مؤخرة الرحل، فقال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، ثم سار ساعة، ثم قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟ قال: قلت الله ورسوله اعلم، قال: فإن حق الله على العباد، ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا، ثم سار ساعة، قال: يا معاذ بن جبل، قلت: لبيك رسول الله وسعديك، قال: هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: ان لا يعذبهم ".حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی، کہا: میں (سواری کے ایک جانور پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی (جتنی جگہ) کے سوا کچھ نہ تھا، چنانچہ (اس موقع پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول!ز ہے نصیب۔ (اس کے بعد) آپ پھر گھڑی بھرچلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: ” اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول! زہے نصیب۔ آپ نے فرمایا: ” کیاجانتے ہو کہ بندوں پر ا للہ عز وجل کا کیا حق ہے؟“ کہا: میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ ارشاد فرمایا: ” بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرین۔“ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: ” اے معاذ بن جبل!“ میں عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول! ز ہے نصیب۔ آپ نے فرمایا: ”کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کاحق ادا کریں تو پھر ا للہ پر ان کا حق کیا ہے؟“ میں نے عرض کی، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے سوار تھا میرے اور آپؐ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں، اور خدمت کے لیے تیار ہوں! پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا میں خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں! پھر کچھ وقت چلنے کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل! “ میں نے عرض کیا میں حاضرِ خدمت ہوں اور اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہوکہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ارشاد فرمایا: ”اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔“ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا: حاضر ہوں اور خدمت کے لیے تیار ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”کیا جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا یہ حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟۔“ میں نے عرض کیا: اللہ اورسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”یہ کہ انھیں عذاب میں نہ ڈالے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى (صحيحه)) فى اللباس، باب: ارداف الرجل خلف الرجل برقم (5967) وفي الاستئذان، باب: من اجاب بلبيك وسعديك برقم (6267) وفي الرقاق، باب: من جاهد نفسه فى طاعة الله برقم (6500) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11308)»
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص سلام بن سليم ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن معاذ بن جبل ، قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار يقال له: عفير، قال: فقال: يا معاذ، تدري ما حق الله على العباد، وما حق العباد على الله؟ قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن حق الله على العباد، ان يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئا، وحق العباد على الله عز وجل، ان لا يعذب من لا يشرك به شيئا "، قال: قلت: يا رسول الله، افلا ابشر الناس؟ قال: لا تبشرهم فيتكلوا.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ: عُفَيْرٌ، قَالَ: فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، أَنْ يَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا.
عمرو بن میمون نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر سوار تھا جسے عفیر کہا جاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”اے معاذ! جانتے ہو، بندوں پر اللہ کاکیا حق ہے اور اللہ پربندوں کا کیا حق ہے؟“ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” بندوں پر اللہ کاحق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو بندہ اس کے ساتھ (کسی چیزکو) شریک نہ ٹھہرائے، اللہ اس کو عذاب نہ دے۔“ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ نے فرمایا: ” ان کو خوش خبری نہ سناؤ وورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ میں عفیر نامی گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے سوار تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ”اے معاذ! جانتے ہو اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ”اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے، جو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے اس کو عذاب نہ دے۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سناؤں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”ان کو خوش خبری نہ دو وہ اسی پر بھروسا کر لیں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((الجهاد)) باب: اسم الفرس والحمار برقم (2701) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الجهاد، باب: فى الرجل يسمى دابته باختصار برقم (2856) والترمذى فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى افتراق هذه الامة۔ ولم يذكر قصه الحمار، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2643) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11351)»
شعبہ نے ابوحصین اور اشعث بن سلیم سے حدیث سنائی، ان دونوں نے اسود بن ہلال سے سنا، وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے معاذ! کیا تم جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیاحق ہے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” یہ کہ اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔“ آپ نے پوچھا: ” کیا جانتے ہو اگر وہ (بندے) ایسا کریں تو اللہ پر ان کیا حق ہے؟“ میں نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! کیا تم جانتے ہو اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟“ معاذ (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک قرار نہ دیں۔“ آپ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو، اگر بندے یہ فرض انجام دیں تو ان کا اس پر (اللہ پر) کیا حق ہے؟۔“ میں نے جواب دیا: اللہ اور رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کو عذاب نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى التوحيد، باب: ما جاء فى دعاء النبى صلى الله عليه وسلم امته الى توحيد الله تبارك وتعالى برقم (7373) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11306)»
زائدہ (بن قدامہ) نے ابو حصین سے، انہوں نے اسود بن ہلال سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، میں نے آپ کو جواب دیا تو آپ نے پوچھا: ”کیا جانتے ہو لوگوں پر اللہ کا حق کیا ہے؟ .....“ پھر ان (سابقہ راویوں) کی حدیث کی طرح (حدیث سنائی۔)
اسودؒ کہتے ہیں میں نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا جانتے ہو اللہ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟“ پھر اوپر والی روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (144)»
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثني ابو كثير ، قال: حدثني ابو هريرة ، قال: كنا قعودا حول رسول الله صلى الله عليه وسلم، معنا ابو بكر وعمر في نفر، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين اظهرنا، فابطا علينا، وخشينا ان يقتطع دوننا، وفزعنا فقمنا، فكنت اول من فزع، فخرجت ابتغي رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اتيت حائطا للانصار لبني النجار، فدرت به، هل اجد له بابا؟ فلم اجد، فإذا ربيع، يدخل في جوف حائط من بئر خارجة، والربيع الجدول، فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ابو هريرة؟ فقلت: نعم يا رسول الله، قال: ما شانك؟ قلت: كنت بين اظهرنا، فقمت فابطات علينا، فخشينا ان تقتطع دوننا، ففزعنا، فكنت اول من فزع، فاتيت هذا الحائط فاحتفزت كما يحتفز الثعلب، وهؤلاء الناس ورائي، فقال: يا ابا هريرة، واعطاني نعليه، قال: اذهب بنعلي هاتين، فمن لقيت من وراء هذا الحائط، يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه، فبشره بالجنة، فكان اول من لقيت عمر، فقال: ما هاتان النعلان يا ابا هريرة؟ فقلت: هاتان نعلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعثني بهما من لقيت، يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه بشرته بالجنة، فضرب عمر بيده بين ثديي، فخررت لاستي، فقال: ارجع يا ابا هريرة، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاجهشت بكاء، وركبني عمر، فإذا هو على اثري، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا هريرة؟ قلت: لقيت عمر فاخبرته بالذي بعثتني به، فضرب بين ثديي ضربة خررت لاستي، قال: ارجع، فقال له رسول الله: يا عمر، ما حملك على ما فعلت؟ قال: يا رسول الله، بابي انت وامي، ابعثت ابا هريرة بنعليك، " من لقي يشهد ان لا إله إلا الله، مستيقنا بها قلبه بشره بالجنة "، قال: نعم، قال: فلا تفعل، فإني اخشى ان يتكل الناس عليها فخلهم يعملون، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فخلهم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَار لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ، هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا؟ فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ، يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةَ، وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قُلْتُ: كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي، قَالَ: ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟ قَال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّهِمْ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ایک جماعت (کی صورت) میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے)، پھر آپ نے ہماری طرف (واپسی میں) بہت تاخیر کر دی تو ہم ڈر گئے کہ کہیں ہمارے بغیر آپ کو کوئی گزند نہ پہنچائی جائے۔ اس پر ہم بہت گھبرائے اور (آپ کی تلاش میں نکل) کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں ہی گھبرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ نے نکلا یہاں تک کہ میں انصار کے خاندان بنو نجاز کے چار دیواری (فصیل) سے گھرے ہوئے ایک باغ تک پہنچا اور میں نے اس کے ارد گرد چکر لگایا کہ کہیں پر دروازہ مل جائے لیکن مجھے نہ ملا۔ اچانک پانی کی ایک گزر گاہ دکھائی دی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ربیع آب پاشی کی چھوٹی سی نہر کو کہتے ہیں) میں لومڑی کی طرح سمٹ کر داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ نے پوچھا: ” ابو ہریرہ ہو؟“ میں نے عرض کی: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیا معاملہ درپیش ہے؟“ میں نے عرض کی: آپ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے، پھر وہاں سے اٹھ گئے، پھر آپ نے ہماری طرف (واپس) آنے میں دیر کر دی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ہم سے کاٹ نہ دیے جائیں۔ اس پر ہم گھبرا گئے، سب سے پہلے میں گھبرا کر نکلا تو اس باغ تک پہنچا اور اس طرح سمٹ کر (اندر گھس) آیا ہوں جس طرح لومڑی سمٹ کر گھستی ہے اور یہ دوسرے لوگ میرے پیچھے (آرہے) ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ!“ او رمجھے اپنے نعلین (جوتے) عطا کیے اور ارشاد فرمایا: ”میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس چار دیواری کی دوسری طرف تمہیں جو بھی ایسا آدمی ملے جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی خوش خبری سنا دو۔“ سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے نے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! (تمہاری ہاتھ میں) یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین (مبارک) ہیں۔ آپ نے مجھے یہ نعلین (جوتے) دے کر بھیجا ہے کہ جس کسی کو ملوں جو دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہ کی شہادت دیتا ہو، اسے جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نےمیرے سینے پر اپنے ہاتھ سے ایک ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا اور انہوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے لوٹو۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس عالم میں واپس آیا کہ مجھے رونا آرہا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے لگ کر چلتے آئے تو اچانک میرے عقب سے نمودار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) کہا: ” اے ابوہریرہ!تمہیں کیا ہوا؟ میں نے عرض کی: میں نے عرض: میں عمر سے ملا اور آپ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب لگائی ہے جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا، اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عمر! تم نے جو کیا اس کا سبب کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! کیا آپ نے ابوہریرہ کو اس لیے نعلین دے کر بھیجا تھا کہ دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الااللہکی شہادت دینے والے جس کسی کو ملے، اسے جنت کی بشارت دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ بس اسی (شہادت) پر بھروسا کر بیٹھیں گے، انہیں چھوڑ دیں کہ وہ عمل کرتے رہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو ان کو چھوڑ دو۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردا گرد بیٹھے تھے، ساتھ ابو بکراور عمر رضی اللہ عنہما بھی ایک جماعت کے ساتھ موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف چلے گئے) پھر آپ کی واپسی میں بہت تاخیر ہو گئی تو ہمیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں ہم سے علیحدہ آپؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے (ہماری عدم موجودگی میں دشمن وغیرہ کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے) اس پر ہم بہت گھبرائے اور ہم لوگ (آپ کی تلاش میں) نکل کھڑے ہوئے اور سب سے پہلےمیں ہی گھبرا کر آپ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ انصار کے خاندان بنو النجار کے ایک باغ میں پہنچ گیا، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا، اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا کہ اندر جانے کے لیے مجھے راستہ مل جائے، لیکن نہیں ملا۔ اچانک ایک نالا دکھائی دیا جو باہر کے کنویں سے باغ کے اندر جاتا تھا، ربیع جدول (نالے) کو کہتے ہیں۔ میں لومڑی کی طرح سمٹ اور سکڑ کر اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپؐ نے پوچھا: ”ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں ہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم کیسے آئے؟“(کیا بات ہے؟) میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے، پھر وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، پھر دیر تک آپؐ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں دشمن آپؐ کو تنہا دیکھ کر ایذا نہ پہنچائے، تو اس پر ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا، تو میں اس باغ تک پہنچا اور لومڑی کی طرح سکڑ کے (اندر گھس آیا ہوں) اور دوسرے لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ اور مجھے اپنے نعلین (جوتے) مبارک عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا: ”میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس باغ سے باہر جو آدمی بھی ایسا ملے، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، اس کو جنّت کی خوش خبری سنادو!“ تو سب سے پہلے میری ملاقات عمر بن الخطاب ؓ سے ہوئی، انھوں نے مجھ سے پوچھا: ابو ہریرہ! تمھارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا: یہ نعلین مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، آپؐ نے یہ دونوں جوتیاں مجھے دے کر بھیجا ہے کہ جو کوئی بھی دل کے اطمینان کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دیتا ہو، مجھے ملے، میں اس کو جنّت کی بشارت دے دوں۔ ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں: پس عمر نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس سے میں اپنی سرینوں کے بَل پیچھے کو گر پڑا، اور مجھ سے انھوں نے کہا: اے ابو ہریرہ! پیچھے کو لوٹو۔ میں روتی صورت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا اور عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے ابو ہریرہ! تمھیں کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا: عمرؓ مجھے ملے تھے، آپؐ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا، میں نے انھیں وہ بتلایا، تو انھوں نے میرے سینے پر ایک تھپڑ مارا، جس سے میں اپنی سرین کے بَل گر پڑا اور مجھ سے کہا کہ پیچھے لوٹو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو مخاطب کر کے فرمایا: ”عمر! تم نے ایسا کیوں کیا؟“ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا آپؐ نے ابوہریرہ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لیے بھیجا تھا کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کی شہادت دینے والا ان کو ملے، وہ اس کو جنّت کی بشارت دے دیں؟ آپؐ نے فرمایا: ”ہاں!“(میں نے یہی کہہ کر بھیجا تھا) عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: تو ایسا نہ کیجیے، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت پر بھروسا کر کے (سعی وعمل سے بے پروا ہو کر) نہ بیٹھ جائیں، لہذا انھیں عمل کرنے دیجیے۔“ تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14843)»
حدثنا إسحاق بن منصور ، اخبرنا معاذ بن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن قتادة ، قال: حدثنا انس بن مالك ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم ومعاذ بن جبل، رديفه على الرحل، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: يا معاذ، قال: لبيك رسول الله وسعديك، قال: " ما من عبد يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، إلا حرمه الله على النار "، قال: يا رسول الله، افلا اخبر بها الناس فيستبشروا؟ قال: إذا يتكلوا، فاخبر بها معاذ عند موته تاثما.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أُخْبِرُ بِهَا النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟ قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا، فَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
قتادہ نے کہا: ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے، جب وہ پالان پر آپ کے پیچھے سوار تھے، فرمایا: ”اے معاذ!“ انہوں نےعرض کی: ”میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میرے نصیب روشن ہو گئے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: ”اے معاذ!“ انہوں نے عرض کی: ”میں بار بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! زہے نصیب۔“ پھر آپ نے فرمایا: ” اے معاذ!“ انہوں نے عرض کی، ” میں ہر بار حاضر ہوں اللہ کے رسول! میری خوش بختی۔“(اس پر) آپ نے فرمایا: ”کوئی بندہ ایسا نہیں جو (سچے دل سے) شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں مگر اللہ ایسے شخص کو دوزخ پر حرام کر دیتا ہے۔“ حضرت معاذ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔“ چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے (کتمان علم کے) گناہ کے خوف سے اپنی موت کے وقت یہ بات بتائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کو جب کہ وہ پالان پر آپؐ کے پیچھے سوار تھے، پکارا: ”اے معاذ!“ انھوں نے عرض کیا: لبّیك یا رسول اللہ و سعدیك، تین دفعہ ایسا ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی سچّے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے۔“ حضرت معاذ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں تاکہ وہ سب خوش ہو جائیں۔ آپؐ نے فرمایا: ”پھر وہ اسی پر بھروسا کر کے بیٹھ جائیں گے۔“ پھر حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) نے کتمان علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا برقم (128) انظر ((التحفة)) برقم (1363)»
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، قال: حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: حدثني محمود بن الربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: قدمت المدينة فلقيت عتبان، فقلت: حديث بلغني عنك، قال: اصابني في بصري بعض الشيء، فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، اني احب ان تاتيني فتصلي في منزلي، فاتخذه مصلى، قال: فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، ومن شاء الله من اصحابه، فدخل وهو يصلي في منزلي، واصحابه يتحدثون بينهم، ثم اسندوا عظم ذلك، وكبره إلى مالك بن دخشم، قالوا: ودوا انه دعا عليه فهلك، وودوا انه اصابه شر، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، وقال: اليس يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله؟ قالوا: إنه يقول ذلك وما هو في قلبه، قال: " لا يشهد احد، ان لا إله إلا الله واني رسول الله، فيدخل النار او تطعمه "، قال انس: فاعجبني هذا الحديث، فقلت لابني: اكتبه، فكتبه.حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عِتْبَانَ، فَقُلْتُ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ، قَالَ: أَصَابَنِي فِي بَصَرِي بَعْضُ الشَّيْءِ، فَبَعَثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَنْزِلِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَخَلَ وَهُوَ يُصَلِّي فِي مَنْزِلِي، وَأَصْحَابُهُ يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ، ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذَلِكَ، وَكِبْرَهُ إِلَى مَالِكِ بْنِ دُخْشُمٍ، قَالُوا: وَدُّوا أَنَّهُ دَعَا عَلَيْهِ فَهَلَكَ، وَوَدُّوا أَنَّهُ أَصَابَهُ شَرٌّ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، وَقَالَ: أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالُوا: إِنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَمَا هُوَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ: " لَا يَشْهَدُ أَحَدٌ، أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَيَدْخُلَ النَّارَ أَوْ تَطْعَمَهُ "، قَالَ أَنَسٌ: فَأَعْجَبَنِي هَذَا الْحَدِيثُ، فَقُلْتُ لِابْنِي: اكْتُبْهُ، فَكَتَبَهُ.
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے محمود بن ریبع رضی اللہ عنہ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی۔ (محمود رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ میں مدینہ آیا تو عتبان رضی اللہ عنہ کو ملا اور میں نےکہا: ایک حدیث مجھے آپ کے حوالے سے پہنچی ہے۔ حضرت عتبان نے کہا: میری آنکھوں کو کوئی بیماری لاحق ہو گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ اے اللہ کے رسول! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسی (جگہ) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں سے جن کو اللہ نے چاہا، تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے، آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ انہوں نے زیادہ اور بڑی بڑی باتیں مالک بن دخشم کے ساتھ جوڑ دیں، وہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں اور وہ ہلاک ہو جائے اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر کوئی آفت آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: ” کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ صحابہ کرام نے جواب دیا: وہ (زبان سے) یہ کہتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کوئی ایسا شخص نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو پھر وہ آگ میں داخل ہو یا آگ اسے اپنی خوراک بنا لے۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا: اسے لکھ لو، اس نے یہ حدیث لکھ لی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی۔ محمود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مدینہ آیا اورعتبان رضی اللہ عنہ کو ملا تو میں نے کہا: آپ کی ایک روایت مجھے پہنچی ہے (وہ مجھے براہ ِراست سنائیے) عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: میری آنکھوں میں کچھ تکلیف پیدا ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ حضور میری تمنا ہے آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز ادا فرمائیں، تاکہ میں اس کو نماز گاہ بنا لوں (وہاں نماز پڑھا کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ بھی ساتھ تھے۔ سو آپؐ داخل ہو کر میرے گھرمیں نماز پڑھنےلگے اور آپ کے ساتھی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتوں کا (موضوع منافقوں کے اعمالِ بد اور ان کی بری حرکات تھیں) اکثر اور بڑا موضوع مالک بن دخشم کی حرکات تھیں۔ صحابہ نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں بد دعا فرمائیں، وہ مر جائے اور خواہش کی کہ اسے کوئی آفت پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور پوچھا: ”کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔“ صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا: وہ زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا نہ اسے جہنم کھائے گی۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی (پسند آئی) تو میں نے اپنے بیٹے کو کہا اسے لکھ لو، اس نے لکھ لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الصلاة، باب: اذا دخل بيتا يصلي حيث شاء، او حيث امر، ولا يتجسس برقم (424) وفي باب: فى المساجد فى البيوت برقم (425) وفي الجماعة والامامة، باب: الرخصة فى المطر والعلة ان يصلى فى رحله برقم (667) وفى باب: زار الامام قـومـا فـامهم برقم (686) وفى كتاب: صفة الصلاة، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد السلام على الامام، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد الاسلام على الامام، واكتفى بتسليم الصلاة برقم (840) وفي التطوع، باب: صلاة النوافل جماعة برقم (1186) مطولا وفي المغازي، باب: شهود الملائكة بدرا برقم (4009) مطولا وفى الاطعمة، باب: الخزيرة برقم (5401) وفي الرقاق، باب: العمل الذى يبتغي به وجه الله مختصراً برقم (6423) وفى استتابة المرتدين والمعائدين، مختصرا برقم (6938) والمولف (مسلم) فى ((صحيحه)) فى المساجد ومواضع الصلاة، باب: الرخصة فى التخلف عن الجماعة لعذر برقم (1494) وبرقم (1595 و 1496) والنسائي فى ((المجتبى من السنن)) فى المامة، باب: امامة الاعمى 80/2 وفي السهود، باب: تسليم الماموم حين يسلم الامام 64/3-65 وابن ماجه فى ((سننه)) فى المساجد والجماعات، باب: المساجد فى الدور مطولا برقم (754) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9750)»
حدثني ابو بكر بن نافع العبدي ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: حدثني عتبان بن مالك ، انه عمي، فارسل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: تعال، فخط لي مسجدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجاء قومه ونعت رجل منهم، يقال له: مالك بن الدخشم، ثم ذكر نحو حديث سليمان بن المغيرة.حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ عَمِيَ، فَأَرْسَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: تَعَالَ، فَخُطَّ لِي مَسْجِدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَاءَ قَوْمُهُ وَنُعِتَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُمِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ.
حماد نے کہا: ہمیں ثابت نےحضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے عتبان بن مالک نے بتایا کہ وہ نابینا ہو گئے تھے، اس وجہ سے انہوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ تشریف لائیں اور میرے لیے مسجد کی اکی جگہ متعین کر دیں (تاکہ میں اس میں نماز پڑھ سکوں) تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان (عتبان) کی قوم کےلوگ بھی آگئے، ان میں سے ایک آدمی، جسے مالک بن دخیشم کہا جاتا تھا، غائب رہا.... اس کے بعد حماد نے بھی (ثابت کے دوسرے شاگرد) سلیمان بن مغیرہ کی طرح روایت بیان کی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا: کہ میں نابینا ہو گیا، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا (تشریف لا کرمیرے مکان میں) مسجد کی ایک جگہ متعین کر دیجیے (تاکہ میں اس میں نماز پڑھ سکوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور عتبان رضی اللہ عنہ کی قوم کے لوگ بھی آگئے، ان میں ایک آدمی جسے مالک بن دحشم کہتے تھے غائب رہا۔ اس کے بعد سلیمان بن مغیرہ کی حدیث کی طرح روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (148)»
11. باب: جو شخص اللہ تعالیٰ کو رب، اسلام کو دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہو وہ مومن ہے اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے۔
Chapter: Evidence that the one who is content with Allah as his Lord, Islam as his religion and Muhammad (saws) as his prophet, then he is a believer, even if he commits major sins
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر (دل سے) راضی ہو گیا۔“
حضرت عبّاس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”ایمان کا مزہ چکھ لیا اس نے جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ماننے پر دل سے راضی ہو گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: من ذاق طعم الايمان وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2623) انظر ((التحفة)) برقم (5127)»
12. باب: ایمان کی شاخوں کی تعداد، اور افضل اور ادنیٰ ایمان کا بیان، اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کا بیان۔
Chapter: Clarifying the number of branches of faith, the best and the least of them, the virtue of modesty (Al-Haya') and the fact that it is part of faith
سلیمان بن بلال نے عبد اللہ بن دینار سے، انہوں ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: امور الايمان برقم (9) وابوداؤد فى ((سننه)) فى السنة، باب: فى رد الارجاء بنحوه برقم (4676) والترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى استكمال الايمان۔ وزيادته ونقصانه۔ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2614) ((سننه)) فى المقدمة، باب: فى الايمان برقم (57) انظر ((التحفة)) برقم (12816)»