انس رضی اللہ عنہ نےحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلےگا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ سے جھلسا دے گی۔ جب و ہ آگ سے نکل آ ئے گا توپلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا: بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔ اسے بلندی پر ایک درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں۔ اس پر اللہ عز وجل فرمائے گا: اے ابن آدم! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دےدوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو۔ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور اللہ کے ساتھ عہد کرے گا کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا۔ اس کا پروردگار اس کے عذر قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گاجس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور اس کاپانی پیے گا، پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گاجو پہلے درخت سےزیادہ خوبصورت ہو گا تووہ کہے گا: اےمیرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے مجھ سےوعدہ نہ کیا تھا کہ تم مجھ سے کچھ اورنہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا: مجھے لگتا ہے اگر میں تمہیں اس کے قریب کردوں تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا، اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کےپانی سے پیاس بجھائے گا۔ اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ او رکچھ نہیں مانگو گے؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں میرے رب! (وعدہ کیا تھا) بس یہی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اس کا رب اس کاعذر قبول کر لے گاکیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو وہ اس شخص کے اس (درخت) کے قریب کر دے گاتو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب!مجھے اس میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اوردے دوں؟وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تومیری ہنسی اڑاتا ہے جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔“ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھوگے کہ میں کیوں ہنسا؟ سامعین نے پوچھا: آپ کیوں ہنسے؟ کہا: اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے تھے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”رب العالمین کے ہنس پڑے پر، جب اس نے کہا کہ تو سارے جہانوں کارب ہے، میری ہنسی اڑاتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔“
حضرت ابنِ مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا آدمی، تو وہ کبھی چلے گا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی اسے آگ جھلسے گی، جب وہ آگ سے نکل جائے گا، پلٹ کر اس کو دیکھے گا، اور کہے گا: بڑی برکت والی ہے وہ ذات، جس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔ اللہ نے مجھے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے، جو پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی ایک کو عطا نہیں کی۔ تو اسے ایک درخت دکھائی دے گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے سایہ حاصل کروں، اور اس کے (پھلوں کا) پانی پیوں۔ تو اللہ عز و جل فرمائے گا: اے ابنِ آدم! ہو سکتا ہے اگر میں تیری درخواست پوری کر دوں، تو تُو اور درخواست پیش کر دے۔ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور وہ اللہ سے اور سوال نہ کرنے کا معاہدہ کرے گا، اور اس کا رب اس کو معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا، جس پر صبر کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ تو وہ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا۔ تو وہ اس کے سایہ سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے پانی کو پیے گا۔ پھر اس کے سامنے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا، جو پہلے سے زیادہ حسین ہو گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے آرام حاصل کر سکوں، اور اس کا پانی پیوں، میں تجھ سے کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔ تو اللہ فرمائے گا: کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا، کہ میں اور سوال نہیں کروں گا اور فرمائے گا، ممکن ہے اگر میں تجھے اس کے قریب کردوں، تو تُو اور سوال کردے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرے گا، کہ وہ اس کے سوا سوال نہیں کرے گا، اور اس کا رب اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی(چیز) نعمت دیکھ رہا ہے، جس کی (خواہش کیے) بغیر صبر نہیں ہو سکتا، تو وہ اسے اس کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سایہ سے راحت حاصل کرے گا اور اس کا پانی پیے گا۔ پھر اس کو جنت کے دروازے کے پاس ایک درخت دکھائی دے گا، جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا، تو وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے اس کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ سے آرام حاصل کروں، اور اس کا پانی پیوں، میں اور سوال نہیں کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے میرے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا، کہ اور سوال نہیں کروں گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں (معاہدہ کیا تھا) یہی سوال ہے اور سوال نہیں کروں گا۔ اس کا رب اس کو معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہے، جس کے سوال کیے بغیر صبر نہیں ہو سکتا، تو وہ اسے اس کے قریب کر دے گا۔ تو جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا، تو وہ جنتیوں کی آوازیں سنے گا، تو کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کون سی چیز تجھے مجھ سے سوال کرنے سے روک سکتی ہے؟ کیا تجھے یہ چیز راضی کر دے گی، کہ میں تجھے دنیا اور اس کے برابر دے دوں؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو رب اللعالمین ہو کر میرا مذاق اڑاتا ہے۔ اس پر ابنِ مسعود ؓ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گے، کہ میں کیوں ہنسا؟ تو سامعین نے پوچھا: آپ کیوں ہنسے؟ کہا اسی طرح رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہنستے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی بات پر رب اللعالمین کے ہنسنے کی بنا پر، کیا تو رب اللعالمین ہو کر میرے ساتھ مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ فرمائے گا: میں مذاق نہیں کرتا، میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9188)»
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا زهير بن محمد ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن النعمان بن ابي عياش ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن ادنى اهل الجنة منزلة، رجل صرف الله وجهه عن النار قبل الجنة، ومثل له شجرة ذات ظل، فقال: اي رب، قدمني إلى هذه الشجرة، اكون في ظلها "، وساق الحديث بنحو حديث ابن مسعود، ولم يذكر، فيقول: يا ابن آدم، ما يصريني منك، إلى آخر الحديث وزاد فيه، ويذكره الله: سل كذا وكذا، فإذا انقطعت به الاماني، قال الله: هو لك وعشرة امثاله، قال: ثم يدخل بيته، فتدخل عليه زوجتاه من الحور العين، فتقولان: الحمد لله الذي احياك لنا واحيانا لك، قال: فيقول: ما اعطي احد مثل ما اعطيت.حَدّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، رَجُلٌ صَرَفَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنَ النَّارِ قِبَلَ الْجَنَّةِ، وَمَثَّلَ لَهُ شَجَرَةً ذَاتَ ظِلٍّ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، قَدِّمْنِي إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ، أَكُونُ فِي ظِلِّهَا "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَا يَصْرِينِي مِنْكَ، إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ وَزَادَ فِيهِ، وَيُذَكِّرُهُ اللَّهُ: سَلْ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ: هُوَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ يَدْخُلُ بَيْتَهُ، فَتَدْخُلُ عَلَيْهِ زَوْجَتَاهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، فَتَقُولَانِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَاكَ لَنَا وَأَحْيَانَا لَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُعْطِيتُ.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت میں سب سے کم درجے پر وہ آدمی ہوگا جس کے چہرے کو اللہ تعالیٰ دوزخ کی طرف سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دے گا اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت دکھائی جائے گی، وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں ہو جاؤں .....“ آگے انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح روایت بیان کی لیکن یہ الفاظ ذکر نہیں کیے: ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے..... ” البتہ انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا: ”اور ا للہ تعالیٰ اسے یاد دلاتا جائے گا: فلاں چیز مانگ، فلاں چیزطلب کر۔ اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تمہارا ہے اور اس سے دس گناہ اور بھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا اور خوبصورت آنکھوں والی حوروں میں اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی: اللہ کی حمد جس نے تمہیں ہمارے لیے زندہ کیا اور ہمیں تمہارے لیے زندگی دی۔ آپ نے فرمایا: تو وہ کہے گا: جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے ایسا کسی کو نہیں دیا گیا۔“
حضرت سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اہلِ جنت میں سےسب سے کم مرتبہ وہ آدمی ہوگا، کہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو دوزخ سے جنت کی طرف پھیر دے گا، اور اس کو ایک سایہ دار درخت کی صورت نظر آئے گی، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے میں، اس کے سایہ میں رہوں گا۔“ اور ابنِ مسعود ؓ کی طرح حدیث بیان کی اور یہ الفاظ بیان نہیں کیے: ”کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! تجھے مجھ سے مانگنےسے کون سی چیز روک سکتی ہے.....۔“ آخر تک، اور اس میں اتنا اضافہ ہے ” اور اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا، فلاں فلاں چیز کا سوال کر! اور جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے ملے گا اور اس سے دس گنا زائد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگا، اور حور العین سے اس کی دونوں بیویاں اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی: شکر کے لائق وہ اللہ ہے جس نے تجھے ہمارے لیے زندہ کیا، اور ہمیں تیرے لیے زندگی دی۔ آپ نے فرمایا: تو وہ کہے گا: جو کچھ مجھے عنایت کیا گیا ہے، وہ کسی ایک کو نہیں دیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4392)»
حدثنا سعيد بن عمرو الاشعثي ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن مطرف ، وابن ابجر ، عن الشعبي ، قال: سمعت المغيرة بن شعبة رواية إن شاء الله. ح وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، حدثنا مطرف بن طريف ، وعبد الملك بن سعيد، سمعا الشعبي يخبر، عن المغيرة بن شعبة ، قال: سمعته على المنبر يرفعه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وحدثني بشر بن الحكم واللفظ له، حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا مطرف ، وابن ابجر ، سمعا الشعبي ، يقول: سمعت المغيرة بن شعبة يخبر به الناس على المنبر، قال سفيان: رفعه احدهما، اراه ابن ابجر، قال: " سال موسى ربه: ما ادنى اهل الجنة منزلة؟ قال: هو رجل يجيء بعد ما ادخل اهل الجنة الجنة، فيقال له: ادخل الجنة، فيقول: اي رب كيف؟ وقد نزل الناس منازلهم واخذوا اخذاتهم، فيقال له: اترضى ان يكون لك مثل ملك ملك من ملوك الدنيا؟ فيقول: رضيت رب، فيقول: لك ذلك، ومثله، ومثله، ومثله، ومثله، فقال: في الخامسة رضيت رب، فيقول: هذا لك وعشرة امثاله، ولك ما اشتهت نفسك ولذت عينك، فيقول: رضيت رب، قال: رب فاعلاهم منزلة، قال: اولئك الذين اردت غرست كرامتهم بيدي وختمت عليها، فلم تر عين، ولم تسمع اذن، ولم يخطر على قلب بشر، قال: ومصداقه في كتاب الله عز وجل فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين سورة السجدة آية 17 الآية ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الأَشْعَثِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، وَابْنِ أَبْجَرَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ رِوَايَةً إِنْ شَاءَ اللَّهُ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدٍ، سمعا الشعبي يخبر، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَرْفَعُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، وَابْنُ أَبْجَرَ ، سمعا الشعبي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ سُفْيَانُ: رَفَعَهُ أَحَدُهُمَا، أُرَاهُ ابْنَ أَبْجَرَ، قَالَ: " سَأَلَ مُوسَى رَبَّهُ: مَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً؟ قَالَ: هُوَ رَجُلٌ يَجِيءُ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ كَيْفَ؟ وَقَدْ نَزَلَ النَّاسُ مَنَازِلَهُمْ وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مِثْلُ مُلْكِ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: لَكَ ذَلِكَ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، وَمِثْلُهُ، فَقَالَ: فِي الْخَامِسَةِ رَضِيتُ رَبِّ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ، وَلَكَ مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ رَبِّ، قَالَ: رَبِّ فَأَعْلَاهُمْ مَنْزِلَةً، قَالَ: أُولَئِكَ الَّذِينَ أَرَدْتُ غَرَسْتُ كَرَامَتَهُمْ بِيَدِي وَخَتَمْتُ عَلَيْهَا، فَلَمْ تَرَ عَيْنٌ، وَلَمْ تَسْمَعْ أُذُنٌ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، قَالَ: وَمِصْدَاقُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ سورة السجدة آية 17 الآيَة ".
ہمیں سعید بن عمر و اشعثی نے حدیث بیان سنائی، کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی، انہوں نے مطرف اور (عبد الملک) ابن ابجر سے، انہوں نے شعبی سے روایت کی، کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے، انشاء ا للہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ) روایت کے طور پر سنا، نیز ابن ابی عمر نے سفیان سے، انہوں نے مطرف اور عبدالملک بن سعید سے اور ان دونوں نے شعبی سے سن کر حدیث بیان کی، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خبر دی، کہا: میں نے ان سے منبر پر سنا، وہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے تھے، نیز بشر بن حکم نے مجھ سے بیان کیا (روایت کے الفاظ انہیں کے ہیں) سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں مطرف اور ابن ابجر نے حدیث بیان کی، ان دونوں نے شعبی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ منبر پر لوگوں کو (یہ) حدیث سنا رہے تھے۔ سفیان نے کہا: ان دونوں (استادوں) میں سےایک (میرا خیال ہے ابن ابجر) نے اس روایت کو مرفوعاً (جسے صحابی نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو) بیان کیا، آپ نے فرمایا: ”موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رب تعالیٰ سے پوچھا: جنت میں سب سے کم درجے کا (جنتی) کون ہو گا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ (ایسا) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا، وہ کہے گا: میرے رب! کیسے؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر ہو چکے ہیں اور جولینا تھا سب کچھ لے چکے ہین۔ تو اس سے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں، اللہ فرمائے گا: وہ (ملک) تمہاراہوا، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر بار وہ آدمی (بے اختیار) کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوگیا۔ اللہ عز وجل فرمائے گا: یہ (سب بھی) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا، اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، پھر (موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پروردگار!تو وہ سب سے اونچے درجے کا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں، ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی (جس کے لیے چاہا محفوظ کر لیا۔)(عزت کا) وہ (مقام) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔ فرمایا: اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے: ”کوئی ذی روح نہین جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی کسی ٹھنڈک چھپاکے رکھی گئی ہے۔“
امام صاحب مختلف اساتذہ کی سندوں سے شعبی سے بیان کرتے ہیں، کہ میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے منبر پر سنا وہ لوگوں کو بتا رہے تھے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ ؑ نے اپنے رب سے پوچھا، جنت میں سب سے کم مرتبہ جنتی کون ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ ایک شخص ہے۔ جب جنتی جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، اس کے بعد آئے گا، تو اسے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا! تو وہ کہے گا: اے میرے رب! کیونکر؟ لوگ اپنی اپنی جگہوں میں اتر چکے ہیں اور اپنی عزت وکرامت لے چکے ہیں، یا اپنے گھروں کارخ کر چکے ہیں۔ تو اسے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو، کہ تمھیں جنت میں اتنا علاقہ دے دیا جائے جتنا دنیا میں بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کی ملکیت میں ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے اتنا علاقہ دیا اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، پانچویں بار وہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ فرمائے گا- یہ تجھے دیا اور اس سے دس گنا اور دیا اور تیرے لیے جس کو تیرا جی چاہے، اور تیری آنکھوں کو بھائے۔ تو وہ کہے گا: میں راضی ہوں، اے میرے رب! پھر موسیٰؑ نے پوچھا: اے میرے رب! تو سب سے بلند مرتبہ کو کیا ملے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے چنا، ان کی عزت و راحت کو اپنے ہاتھوں سے جمایا اور میں نے اس پر مہر لگائی۔ (ان نعمتوں کو) کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور کسی دل میں ان کا خیال نہیں گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تصدیق اللہ عز و جل کی کتاب میں موجود ہے ”کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا نعمتیں چھپائی گئی ہیں۔“(السجدہ: 17)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة السجدة وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3198) انظر ((التحفة)) برقم (11503) 329»
ہا: میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ منبر پر کہہ رہے تھے: بے شک موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اللہ عز وجل سے اہل جنت میں سے سب سے کم حصہ پانے والے کے بارے میں پوچھا........ اور سابقہ حدیث کی طرح روایت (سفیان کے بجائے) عبیداللہ اشجعی نے عبدالملک ابن ابجر سے روایت کی، انہوں نے ک بیان کی۔
حضرت مغیرہ ؓ نے منبر پر کہا: ”بے شک موسیٰؑ نے اللہ عزوجل سے پوچھا: کہ اہلِ جنت سے سب سے کم تر درجہ یا قلیل حصہ کس کا ہو گا؟“ اور مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی-
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (464)»
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم آخر اهل الجنة دخولا الجنة، وآخر اهل النار خروجا منها، رجل يؤتى به يوم القيامة، فيقال: اعرضوا عليه صغار ذنوبه، وارفعوا عنه كبارها، فتعرض عليه صغار ذنوبه، فيقال: عملت يوم، كذا، وكذا، كذا، وكذا، وعملت يوم، كذا، وكذا، كذا، وكذا؟ فيقول: نعم، لا يستطيع ان ينكر، وهو مشفق من كبار ذنوبه ان تعرض عليه، فيقال له: فإن لك مكان كل سيئة حسنة، فيقول: رب قد عملت اشياء لا اراها ها هنا "، فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك، حتى بدت نواجذه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، رَجُلٌ يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ صِغَارُ ذُنُوبِهِ، فَيُقَالُ: عَمِلْتَ يَوْمَ، كَذَا، وَكَذَا، كَذَا، وَكَذَا، وَعَمِلْتَ يَوْمَ، كَذَا، وَكَذَا، كَذَا، وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنْكِرَ، وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْهِ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، فَيَقُولُ: رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هَا هُنَا "، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اپنے والد سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے معرور بن سوید سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں اہل جنت میں سے سب کے بعد جنت میں جانے والے اور اہل دوزخ میں سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے کو جانتا ہوں، وہ ایک آدمی ہے جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا: اس کے سامنے اس کے چھوٹے گنا ہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ اٹھا رکھو (ایک طرف ہٹادو۔) تو اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے لائے جائیں گے اور کہا جائے گا: فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے۔ وہ کہے گا: ہاں، وہ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگا، (اس وقت) اسے کہا جائے گا: تمہارے لیے ہر برائی کے عوض ایک نیکی ہے۔ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے بہت سے ایسے (برے) کام کیے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔“ میں (ابو ذر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک نمایاں ہو گئے۔
حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے جنتی کو جانتا ہوں، اور جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلنے والا ہوگا، ایک آدمی ہے اسے قیامت کے دن لایا جائے گا، تو کہا جائے گا، تو کہا جائے گا: اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہ اٹھا رکھو، تو اس کے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں گے اور کہا جائے گا: تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے؟ اور فلاں فلاں دن تو نے فلاں فلاں کام کیے؟ وہ کہے گا: ہاں! وہ انکار نہیں کر سکے گا، اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہوگا، تو اسے کہا جائے گا: تیرے لیے ہر بدی کے عوض نیکی ہے۔ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے بہت سے ایسے کام کیے ہیں، جنھیں میں یہاں دیکھ نہیں رہا ہوں۔“(حضرت ابو ذر ؓ کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ کو ہنستے دیکھا، یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في صفة جهنم، باب: ما جاء ان للنار نفسين، وما ذكر من يخرج من النار من اهل التوحيد وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2596) انظر ((التحفة)) برقم (11983)»
حدثني عبيد الله بن سعيد ، وإسحاق بن منصور كلاهما، عن روح ، قال عبيد الله، حدثنا روح بن عبادة القيسي، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، " يسال عن الورود، فقال: نجيء نحن يوم القيامة عن كذا، وكذا، انظر اي ذلك فوق الناس، قال: فتدعى الامم باوثانها، وما كانت تعبد الاول فالاول، ثم ياتينا ربنا بعد ذلك، فيقول: من تنظرون؟ فيقولون: ننظر ربنا، فيقول: انا ربكم، فيقولون: حتى ننظر إليك، فيتجلى لهم يضحك، قال: فينطلق بهم، ويتبعونه، ويعطى كل إنسان منهم منافق، او مؤمن نورا، ثم يتبعونه وعلى جسر جهنم كلاليب، وحسك تاخذ من شاء الله، ثم يطفا نور المنافقين، ثم ينجو المؤمنون، فتنجو اول زمرة وجوههم، كالقمر ليلة البدر سبعون الفا لا يحاسبون، ثم الذين يلونهم كاضوإ نجم في السماء، ثم كذلك، ثم تحل الشفاعة، ويشفعون حتى يخرج من النار من قال: لا إله إلا الله، وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة، فيجعلون بفناء الجنة ويجعل اهل الجنة يرشون عليهم الماء، حتى ينبتوا نبات الشيء في السيل ويذهب حراقه، ثم يسال حتى تجعل له الدنيا وعشرة امثالها معها ".حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ كلاهما، عَنْ رَوْحٍ ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ الْقَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، " يُسْأَلُ عَنِ الْوُرُودِ، فَقَالَ: نَجِيءُ نَحْنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْ كَذَا، وَكَذَا، انْظُرْ أَيْ ذَلِكَ فَوْقَ النَّاسِ، قَالَ: فَتُدْعَى الأُمَمُ بِأَوْثَانِهَا، وَمَا كَانَتْ تَعْبُدُ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: مَنْ تَنْظُرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْظُرُ رَبَّنَا، فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: حَتَّى نَنْظُرَ إِلَيْكَ، فَيَتَجَلَّى لَهُمْ يَضْحَكُ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِمْ، وَيَتَّبِعُونَهُ، وَيُعْطَى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مُنَافِقٍ، أَوْ مُؤْمِنٍ نُورًا، ثُمَّ يَتَّبِعُونَهُ وَعَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ كَلَالِيبُ، وَحَسَكٌ تَأْخُذُ مَنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يُطْفَأُ نُورُ الْمُنَافِقِينَ، ثُمَّ يَنْجُو الْمُؤْمِنُونَ، فَتَنْجُو أَوَّلُ زُمْرَةٍ وُجُوهُهُمْ، كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ سَبْعُونَ أَلْفًا لَا يُحَاسَبُونَ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَأَضْوَإِ نَجْمٍ فِي السَّمَاءِ، ثُمَّ كَذَلِكَ، ثُمَّ تَحِلُّ الشَّفَاعَةُ، وَيَشْفَعُونَ حَتَّى يَخْرُجَ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، فَيُجْعَلُونَ بِفِنَاءِ الْجَنَّةِ وَيَجْعَلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ يَرُشُّونَ عَلَيْهِمُ الْمَاءَ، حَتَّى يَنْبُتُوا نَبَاتَ الشَّيْءِ فِي السَّيْلِ وَيَذْهَبُ حُرَاقُهُ، ثُمَّ يَسْأَلُ حَتَّى تُجْعَلَ لَهُ الدُّنْيَا وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهَا مَعَهَا ".
ابو زبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے (جنت اور جہنم میں) وارد ہونے کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا: ہم قیامت کے دن فلاں فلاں (سمت) سے آئیں گے (دیکھو)، یعنی اس سمت سے جو لوگوں کےاوپر ہے۔ کہا: سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور جن (معبودوں) کی بندگی کرتی تھیں ان کے ساتھ بلائی جائیں گی، ایک کے بعد ایک، پھر اس کے بعد ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا اور پوچھے گا: تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ وہ فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ توسب کہیں گے: (اس وقت) جب ہم تمہیں دیکھ لیں۔ تو وہ ہنستا ہوا ان کےسامنے جلوہ افروز ہو گا۔ انہوں نے کہا: وہ انہیں لے کر جائے گااور وہ اس کے پیچھے ہوں گے، ان میں ہر انسان کو، منافق ہویا مومن، ایک نور دیا جائے گا، وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے۔ اور جہنم کے پل پر کئی نوکوں والے کنڈے اور لوہے کے سخت کانٹے ہوں گے اور جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ اسے پکڑ لیں گے، پھر منافقوں کا نور بجھا دیا جائے گا اور مومن نجات پائیں گے تو سب سے پہلا گروہ (جو) نجات پائے گا، ان کے چہرے چودہویں کے چاند جیسے ہوں گے (وہ) ستر ہزار ہوں گے، ان کا حساب نہیں کیا جائے گا، پھر جو لوگ ان کے بعد ہوں گے، ان کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر اسی طرح (درجہ بدرجہ۔) اس کے بعد پھرشفاعت کا مرحلہ آئے گااور (شفاعت کرنے والے) شفاعت کریں گے حتی کہ ہر وہ شخص جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو گا اور جس کےدل میں جو کے وزن کے برابر بھی نیکی (ایمان) ہو گی۔ ان کی جنت کے آگے کے میدان میں ڈال دیا جائے گا اور اہل جنت ان پر پانی چھڑکنا شروع کر دیں گے حتی کہ وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں اگ آتی ہے اور اس (کے جسم) کا جلا ہوا حصہ ختم ہو جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا حتی کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ اس سے دس گنا مزید عطا کر دیا جائے گا۔
ابو زبیر بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے (جہنم پر) گزرنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا: ”ہم قیامت کے دن فلاں فلاں طرف سے آئیں گے دیکھ لیجیے، یعنی: اس کو لوگوں کے اوپر سے کہا، تو امتیں اپنے اپنے بتوں سمیت بلائی جائیں گی اور جن کی بندگی کرتی تھیں۔ پہلی پھر پہلی، (ترتیب کے ساتھ) پھر ہمارے پاس، اس کے بعد ہمارا رب آئے گا اور پوچھے گا: تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ تو وہ کہیں گے: ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ تو وہ فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں! تو وہ کہیں گے: یہاں تک کہ ہم تجھے دیکھ لیں، وہ ہنستا ہوا ان کو دکھائی دے گا، تو وہ ان کے ساتھ چلے گا، اور وہ اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اور ان میں سے ہر انسان کو، وہ منافق ہو یا مومن، نور دیا جائے گا، پھر وہ اس نور کے پیچھے چلیں گے۔ اور جہنم کے پل پر گوشت بھوننےکی لوہے کی سلاخیں اور گھوکرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا، وہ پکڑ لیں گے، پھر منافقوں کا نور بجھ جائے گا، پھر مومن نجات پا لیں گے، تو پہلا گروہ، جن کے چہرے چودھویں کے چاند جیسے ہوں گے، نجات پائے گا۔ ستر ہزار، جن کا محاسبہ نہیں ہو گا۔ پھر ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے، جن کے چہرے آسمان کے سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، پھر ان کے بعد ان سے کم درجہ لوگ ہوں گے۔ پھر شفاعت شروع ہوگی اور لوگ سفارش کریں گےحتیٰ کہ آگ سے وہ انسان نکل جائے گا جس نے (خلوصِ نیت سے) "لا إلٰه إلا اللہ" کہا ہوگا، اور اس کے دل میں جَو برابر نیکی ہوگی۔ تو ان کو جنت کے آنگن (سامنے کی کھلی جگہ) میں ڈال دیا جائے گا، اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکنے لگیں گے حتیٰ کہ وہ ایسے پھلے پھولیں گے جیسے کوئی چیز سیلاب میں نشوون پاتی ہے، حتیٰ کہ آگ سے نکلنے والے کی سوزش (جلن) ختم ہو جائے گی، پھر اللہ اس سے پوچھے گا: یہاں تک کہ اس کو دنیا اور اس کے ساتھ، اس کا دس گنا دے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2841)»
سفیان بن عیینہ نے عمر (بن دینار) سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: انہوں نے اپنے دونوں کانٔن سے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنی، آپ فرما رہے تھے: ” اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔“
حضرت جابر ؓسے روایت ہے، کہ انھوں نے اپنے کان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فر ما رہے تھے: ”اللہ تعالی کچھ لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (2545)»
حماد بن زید نے کہا: میں نے عمر وبن دینارسے پوچھا: کیا آپ نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو شفاعت کے ذریعے سے آگ میں سے نکالے گا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔
حماد بن زید کہتے ہیں، عمرو بن دینار سے پوچھا گیا: کیا آپ نے جابر بن عبداللہ ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو سفارش سے آگ سے نکالے گا؟“ تو اس نے کہا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب صفة الجنة والنار برقم (6558) انظر ((التحفة)) برقم (2514)»
قیس بن سلیم عنبری سے کہا: یزید الفقیر نے مجھے حدیث بیان کی کہ حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی، انہوں نےکہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ کچھ لوگ آگ میں سے نکالے جائیں گے، وہ اپنے چہروں کے علاوہ (پورے کے پورے) اس میں جل چکے ہوں گے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“
حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ لوگ آگ سے نکالے جائیں گے، ان کے چہروں کے اطراف کے سوا وہ اس میں جل چکے ہوں گے، حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»