ہمیں سعید بن عمر و اشعثی نے حدیث بیان سنائی، کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی، انہوں نے مطرف اور (عبد الملک) ابن ابجر سے، انہوں نے شعبی سے روایت کی، کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے، انشاء ا للہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ) روایت کے طور پر سنا، نیز ابن ابی عمر نے سفیان سے، انہوں نے مطرف اور عبدالملک بن سعید سے اور ان دونوں نے شعبی سے سن کر حدیث بیان کی، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خبر دی، کہا: میں نے ان سے منبر پر سنا، وہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے تھے، نیز بشر بن حکم نے مجھ سے بیان کیا (روایت کے الفاظ انہیں کے ہیں) سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں مطرف اور ابن ابجر نے حدیث بیان کی، ان دونوں نے شعبی سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ منبر پر لوگوں کو (یہ) حدیث سنا رہے تھے۔ سفیان نے کہا: ان دونوں (استادوں) میں سےایک (میرا خیال ہے ابن ابجر) نے اس روایت کو مرفوعاً (جسے صحابی نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو) بیان کیا، آپ نے فرمایا: ”موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رب تعالیٰ سے پوچھا: جنت میں سب سے کم درجے کا (جنتی) کون ہو گا؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ (ایسا) آدمی ہو گا جو تمام اہل جنت کو جنت میں بھیج دیے جانے کے بعد آئے گا تو اس سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا، وہ کہے گا: میرے رب! کیسے؟ لوگ اپنی اپنی منزلوں میں قیام پذیر ہو چکے ہیں اور جولینا تھا سب کچھ لے چکے ہین۔ تو اس سے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر مل جائے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں، اللہ فرمائے گا: وہ (ملک) تمہاراہوا، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر اتنا اور، پھر بار وہ آدمی (بے اختیار) کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوگیا۔ اللہ عز وجل فرمائے گا: یہ (سب بھی) تیرا اور اس سے دس گنا مزید بھی تیرا، اور وہ سب کچھ بھی تیرا جو تیرا دل چاہے اور جو تیری آنکھوں کو بھائے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، پھر (موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پروردگار!تو وہ سب سے اونچے درجے کا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہی لوگ ہیں جو میری مراد ہیں، ان کی عزت و کرامت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیا اور اس پر مہر لگا دی (جس کے لیے چاہا محفوظ کر لیا۔) (عزت کا) وہ (مقام) نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک گزرا۔ فرمایا: اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے: ”کوئی ذی روح نہین جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی کسی ٹھنڈک چھپاکے رکھی گئی ہے۔“
امام صاحب مختلف اساتذہ کی سندوں سے شعبی سے بیان کرتے ہیں، کہ میں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے منبر پر سنا وہ لوگوں کو بتا رہے تھے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ ؑ نے اپنے رب سے پوچھا، جنت میں سب سے کم مرتبہ جنتی کون ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ ایک شخص ہے۔ جب جنتی جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، اس کے بعد آئے گا، تو اسے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جا! تو وہ کہے گا: اے میرے رب! کیونکر؟ لوگ اپنی اپنی جگہوں میں اتر چکے ہیں اور اپنی عزت وکرامت لے چکے ہیں، یا اپنے گھروں کارخ کر چکے ہیں۔ تو اسے کہا جائے گا: کیا تم اس پر راضی ہو، کہ تمھیں جنت میں اتنا علاقہ دے دیا جائے جتنا دنیا میں بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کی ملکیت میں ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے اتنا علاقہ دیا اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، پانچویں بار وہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! میں راضی ہوں، تو اللہ فرمائے گا- یہ تجھے دیا اور اس سے دس گنا اور دیا اور تیرے لیے جس کو تیرا جی چاہے، اور تیری آنکھوں کو بھائے۔ تو وہ کہے گا: میں راضی ہوں، اے میرے رب! پھر موسیٰؑ نے پوچھا: اے میرے رب! تو سب سے بلند مرتبہ کو کیا ملے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے چنا، ان کی عزت و راحت کو اپنے ہاتھوں سے جمایا اور میں نے اس پر مہر لگائی۔ (ان نعمتوں کو) کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور کسی دل میں ان کا خیال نہیں گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تصدیق اللہ عز و جل کی کتاب میں موجود ہے ”کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا نعمتیں چھپائی گئی ہیں۔“ (السجدہ: 17)