حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اتاه جبريل عليه السلام وهو يلعب مع الغلمان، فاخذه فصرعه، فشق عن قلبه، فاستخرج القلب، فاستخرج منه علقة، فقال: هذا حظ الشيطان منك، ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم، ثم لامه، ثم اعاده في مكانه، وجاء الغلمان يسعون إلى امه يعني ظئره، فقالوا: إن محمدا قد قتل، فاستقبلوه وهو منتقع اللون، قال انس: وقد كنت ارى اثر ذلك المخيط في صدره "حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً، فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ لَأَمَهُ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ، فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ، قَالَ أَنَسٌ: وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ "
(سلیمان بن مغیرہ کے بجائے) حماد بن سلمہ نے ثابت کے واسطے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل رضی اللہ عنہ آئے جبکہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، انہوں نے آپ کو پکڑا، نیچے لٹایا، آپ کا سینہ چاک کیا اور دل نکال لیا، پھر اس سےایک لوتھڑا نکالا اور کہا: یہ آپ (کے دل میں) سے شیطان کا حصہ تھا، پھر اس (دل) کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اس کو جوڑا اور اس کی جگہ پر لوٹا دیا، بچے دوڑتے ہوئے آپ کی والدہ، یعنی آپ کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (یہ سن کر لوگ دوڑے) تو آپ کے سامنے سےآتے ہوئے پایا، آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس سلائی کا نشان آپ کے سینے پر دیکھا کرتا تھا۔ (یہ بچپن کا شق صدر ہے۔)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ؑ اس وقت آئے جب کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر گرایا اور آپ کا سینہ چاک کر کے دل نکال لیا، پھر اس سے جما ہوا خون نکالا اور کہا: یہ آپ میں شیطان کا حصہ تھا۔ پھر اس کو سونے کے تھال (طشت) میں رکھ کر زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اس کو (دل کو) جوڑا اور اس کی جگہ پر لوٹا دیا، اور بچے دوڑتے ہوئے آپ کی والدہ یعنی آپ کی انا (رضاعی ماں) کے پاس آئے اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردیا گیا ہے (یہ سن کر لوگ آئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے سے ملے اور آپ کا رنگ (خوف یا گھبراہٹ کی بنا پر) بدل چکا ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: میں اس سلائی کا نشان آپ کے سینہ پر دیکھا کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (346)»
شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے حدیث سنائی (کہا): میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ہمیں اس رات کے بارے میں حدیث سنا رہے تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد کعبہ سے رات کے سفر پر لے جایا گیا کہ آپ کی طرف وحی کیے جانے سے پہلے آپ کے پاس تین نفر (فرشتے) آئے، اس وقت آپ مسجد حرام میں سوئے تھے۔ شریک نے ”واقعہ اسراء“ ثابت بنانی کی حدیث کی طرح سنایا اور اس میں کچھ چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا اور (کچھ میں) کمی بیشی کی۔ (امام مسلم نے یہ تفصیل بتا کر پوری ورایت نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔)
حضرت انس بن مالک ؓ اسرا کی رات کے بارے میں بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کی مسجد سے اسرا کروایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی آنے سے پہلے آپ کے پاس تین اشخاص (فرشتے) آئے اور آپ مسجدِ حرام میں سوئے ہوئے تھے۔ شریکؒ نے واقعہ اسرا، ثابت بُنانیؒ کی حدیث کی طرح سنایا اور اس میں کچھ چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا، اور کمی بیشی بھی کی۔ (اس لیے امام مسلمؒ نے پوری روایت نقل نہیں کی)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في ((المناقب)) باب: كيف كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم عينه ولا ينام قلبه برقم (3570) وفي التوحيد، باب: ما جاء في قوله عز وجل: ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴾ برقم (7517) انظر ((التحفة)) برقم (909)»
وحدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، قال: كان ابو ذر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فرج سقف بيتي وانا بمكة، فنزل جبريل عليه السلام، ففرج صدري، ثم غسله من ماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فافرغها في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء، فلما جئنا السماء الدنيا، قال جبريل عليه السلام لخازن السماء الدنيا: افتح، قال: من هذا؟ قال: هذا جبريل، قال: هل معك احد؟ قال: نعم، معي محمد صلى الله عليه وسلم، قال: فارسل إليه؟ قال: نعم، ففتح، قال: فلما علونا السماء الدنيا، فإذا رجل عن يمينه اسودة، وعن يساره اسودة، قال: فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، قال: فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قال: قلت: يا جبريل، من هذا؟ قال: هذا آدم عليه السلام وهذه الاسودة عن يمينه، وعن شماله نسم بنيه، فاهل اليمين اهل الجنة والاسودة التي عن شماله اهل النار، فإذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، قال: ثم عرج بي جبريل، حتى اتى السماء الثانية، فقال لخازنها: افتح، قال: فقال له خازنها: مثل ما قال خازن السماء الدنيا، ففتح، فقال انس بن مالك: فذكر انه وجد في السماوات، آدم، وإدريس، وعيسى، وموسى، وإبراهيم صلوات الله عليهم اجمعين، ولم يثبت كيف منازلهم، غير انه ذكر، انه قد وجد آدم عليه السلام في السماء الدنيا وإبراهيم في السماء السادسة، قال: فلما مر جبريل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بإدريس صلوات الله عليه، قال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قال: ثم مر، فقلت: من هذا؟ فقال: هذا إدريس، قال: ثم مررت بموسى عليه السلام، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قال: قلت: من هذا؟ قال: هذا موسى، قال: ثم مررت بعيسى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا عيسى ابن مريم، قال: ثم مررت بإبراهيم عليه السلام، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قال: قلت: من هذا؟ قال: هذا إبراهيم. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال ابن شهاب : واخبرني ابن حزم ، ان ابن عباس وابا حبة الانصاري ، كانا يقولان: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثم عرج بي، حتى ظهرت لمستوى اسمع فيه صريف الاقلام، قال ابن حزم وانس بن مالك: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ففرض الله على امتي خمسين صلاة، قال: فرجعت بذلك حتى امر بموسى، فقال موسى عليه السلام: ماذا فرض ربك على امتك؟ قال: قلت: فرض عليهم خمسين صلاة، قال لي موسى عليه السلام: فراجع ربك، فإن امتك لا تطيق ذلك، قال: فراجعت ربي فوضع شطرها، قال: فرجعت إلى موسى عليه السلام فاخبرته، قال: راجع ربك، فإن امتك لا تطيق ذلك، قال: فراجعت ربي، فقال: هي خمس، وهي خمسون لا يبدل القول لدي، قال: فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: قد استحييت من ربي، قال: ثم انطلق بي جبريل، حتى ناتي سدرة المنتهى، فغشيها الوان لا ادري ما هي، قال: ثم ادخلت الجنة، فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ وإذا ترابها المسك ". وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جِئْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام لِخَازِنِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِيَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَفَتَحَ، قَالَ: فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَإِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، قَالَ: فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، قَالَ: فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ عَلَيْهِ السَّلامُ وَهَذِهِ الأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ الْيَمِينِ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، قَالَ: ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ، حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا: مِثْلَ مَا قَالَ خَازِنُ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَفَتَحَ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَاوَاتِ، آدَمَ، وَإِدْرِيسَ، وَعِيسَى، وَمُوسَى، وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ، وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ، أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قَالَ: ثُمَّ مَرَّ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُوسَى، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ِ إبْرَاهِيمُ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَبَّةَ الأَنْصَارِيَّ ، كَانَا يَقُولَانِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثُمَّ عَرَجَ بِي، حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الأَقْلَامِ، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: مَاذَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ لِي مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: فَرَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ، وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ، حَتَّى نَأْتِيَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، قَالَ: ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤَ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ ".
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ” میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی، جبریل رضی اللہ عنہ اترے، میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کاطشت لائے جو حکمت او رایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا، پھر اس کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑ ا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے، جب ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان پر پہنچے تو جبریل رضی اللہ عنہ نے (اس) نچلے آسمان کے دربان سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے کہا: یہ کون ہیں؟ کہا: یہ جبریل رضی اللہ عنہ ہے۔ پوچھا: کیا تیرے ساتھ کوئی ہے؟ کہا ہاں، میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اس نے پوچھا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں، پھر اس نے دروازہ کھولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس کے دائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے اور اس کے بائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے جب وہ آدمی اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور اپنے بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے۔ اس نے کہا: خوش آمدید!اے نیک نبی اور اے نیک بیٹےکو۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: کہ یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے کہا کہ یہ آدم رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے دائیں طرف جنتی اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں اس لئے جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو روتے ہیں۔ پھر حضرت جبرائیل مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے گئے اور اس کے پہرے دار سے کہا دروازہ کھولئے آپ نے فرمایا کہ دوسرے آسمان کے پہرے دار نے بھی وہی کچھ کہا جو آسمان دنیا کے خازن (پہرےدار) سے کہا: دروازہ کھولو۔اس کے خازن نے بھی پہلے آسمان والے کی طرح بات کی اور دروازہ کھول دیا۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ مجھے آسمانوں پر آدم، ادریس، موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام ملے (اختصار سے بتاتے ہوئے) انہوں (ابو ذر) نے یہ تعیین نہیں کی کہ ان کی منزلیں کیسے تھیں؟ البتہ یہ بتایا کہ آدم رضی اللہ عنہ آپ کو پہلے آسمان پر ملے اور ابراہیم رضی اللہ عنہ چھٹے آسمان پر (یہ کسی راوی کا وہم ہے۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر ہوئی)، فرمایا: جب جبریل رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادریس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا: صالح بنی اور صالح بھائی کو خوش آمدید، پھر وہ آ گے گزرے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو (جبریل نے) کہا: یہ ادریس رضی اللہ عنہ ہیں، پھر میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید، فرمایا: میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ موسیٰ رضی اللہ عنہ ہیں، پھر میں عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، انہوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟کہا: عیسیٰ بن مریم ہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر میں ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزراتو انہوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے، مرحبا! میں نےپوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا: یہ ابراہیم رضی اللہ عنہ ہیں۔“ ابن شہاب نے کہا: مجھے ابن حزم نے بتایا کہ ابن عباس اور ابو حبہ انصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر (جبریل) مجھے (اور) اوپر لے گئے حتی کہ میں ایک اونچی جگہ کے سامنے نمودار ہوا، میں اس کے اندر سے قلموں کی آواز سن رہا تھا۔“ ابن حزم اور انس بن مالک ؓ نے کہا: رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا یہاں تک کہ موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: میں نے جواب دیا: ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔موسیٰ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی۔ فرمایا: اس پر میں نے اپنےرب سے رجوع کیا تو اس نے اس کا ایک حصہ مجھ سے کم کر دیا۔آپ نے فرمایا: میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف واپس آیا اور انہیں بتایا۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں کیونکہ آپ کی امت اس کی (بھی) طاقت نہیں رکھے گی۔ آپ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو اس نے فرمایا: یہ پانچ ہیں اور یہی پچاس ہیں، میرے ہاں پر حکم بدلا نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: میں لوٹ کر موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طر ف آیا تو انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ تو میں نے کہا: (بار بارسوال کرنے پر) میں اپنےرب سے شرمندہ ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پھر جبریل مجھے لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سدرۃ المنتہی پر پہنچ گئے تو اس کو (ایسے ایسے) رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے؟ پھر مجھے جنت کے اندر لے جایا گیا، اس میں گنبد موتیوں کے تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی۔“
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: مکہ میں میرے گھر کی چھت کھولی گئی، جبریل ؑ اترے اور میرا سینہ چاک کیا، پھراسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا طشت لا کر جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینہ کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آسمان کی طرف لے کر چڑھا۔ جب ہم آسمانِ دنیا پر پہنچے تو جبریلؑ نے پہلے آسمان کے دربان سے کہا: دروازہ کھولو! اس نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا: جبریل ہے۔ پوچھا: کیا تیرے ساتھ کوئی ہے؟ کہا: ہاں! میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ کہا: ہاں! دروازہ کھولو! اس نے دروازہ کھول دیا۔ جب ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، تو دیکھا ایک آدمی ہے اس کے دائیں بھی صورتیں ہیں اور بائیں طرف بھی صورتیں ہیں۔ جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے ہنستا ہے، اور جب بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے۔ اس نے کہا: نیک شعار نبی اور نیک شعار بیٹے کو خوش آمدید! میں نے جبریلؑ سے پوچھا یہ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: یہ آدم ؑ ہیں، اور یہ دائیں اور بائیں طرف شکلیں اس کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں والے جنتی ہیں، اور بائیں طرف والی صورتیں دوزخی ہیں، تو جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے ہنستا ہے، اور جب اپنے بائیں جانب دیکھتا ہے تو رو دیتا ہے۔ پھر جبریلؑ مجھے لے کر اوپر چڑھے، حتیٰ کہ ہم دوسرے آسمان تک پہنچ گئے، تو اس کے پہرے دار سے کہا: دروازہ کھولو! تو اس کے خازن نے پہلے آسمان والے کی طرح پوچھا، پھر دروازہ کھولا۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: آسمانوں پر آدمؑ، ادریسؑ، عیسیٰؑ، موسیٰؑ اور ابراہیمؑ، سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں، ملے اور ان کی جگہوں کی تعین نہیں کی۔ ہاں اس نے یعنی (ابوذرؓ) نے یہ بتایا: کہ آدمؑ پہلے آسمان پر ملے، اور ابراہیمؑ چھٹے آسمان پر، اور بتایا جب جبریلؑ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادریسؑ کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید۔ پھر آگے گزرے، تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو جبریلؑ نے جواب دیا: یہ ادریسؑ ہیں۔ پھر میں موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا، تو انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا: یہ موسیٰؑ ہیں، پھر میں عیسیٰؑ کے پاس سے گزرا، انھوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ اس نے کہا: یہ عیسیؑ ابنِ مریم ؑ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں ابراہیم ؑ کے پاس سے گزرا، تو انھوں نے کہا: مرحبا! اے صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ اس (جبریلؑ) نے کہا: یہ ابراہیم ؑ ہیں۔“ ابنِ شہابؒ کہتے ہیں: مجھے ابنِ حزمؒ نے ابن عباسؓ اور ابوحَبّہ انصاری ؓ سے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر مجھے چڑھایا گیا، تو میں ایک ہموار جگہ پر چڑھ گیا، میں وہاں قلموں کی آواز سنتا تھا۔“ ابنِ حزمؒ اور انس بن مالک ؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ تعالی نے میری امّت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا، حتیٰ کہ موسیٰؑ کے پاس سے گزرا۔ موسیٰ ؑ نے پوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا فرض کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جواب دیا: ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ موسیٰؑ نے مجھ سے کہا: اپنے رب کے پاس جاؤ، کیوں کہ تیری امت کے یہ بس میں نہیں ہے، تو میں اپنے رب کی طرف لوٹ گیا، اس نے کافی حصہ کم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں موسیٰؑ کے پاس واپس آیا اور ان کو بتایا، انھوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ، کیوں کہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لوٹ کر اپنے رب کے پاس گیا، اس نے (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: یہ پانچ ہیں اور پچاس کے برابر ہیں۔ میرے ہاں بات بدلا نہیں کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لوٹ کر موسیٰؑ کے پاس آیا، تو نھوں نے کہا: اپنے رب کے پاس جاؤ! تو میں نے کہا میں اپنے رب سے (باربار سوال کر کے) شرم محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پھر مجھے جبریلؑ لے کر چلا، حتیٰ کہ ہم سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ گئے، اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپ لیا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے، پھر مجھے جنت میں داخل کر دیا گیا، اس میں موتیوں کے گنبد تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحـه)) في الصلاة، باب: كيف فرضت الصلوات في الاسراء برقم (349) وفى احاديث الانبياء، باب: ذكر ادريس عليه السلام، وقول الله تعالى: ﴿ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ﴾ برقم (3342) وفى الحج، باب: ما جاء في زمزم برقم (1636) مختصراً - والنسائي في ((المجتبى)) في الصلاة، باب: فرض الصلاة وذكر اختلاف الناقلين فی اسناد حدیث انس بن مالك رضى الله عنه واختلاف الفاظهم فيه 221/1 وابن ماجه في کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء فى فرض الصلوات الخمس والمحافظة عليها 448/1، رقم (1399) انظر ((التحفة)) برقم (11901 و 1556)»
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن انس بن مالك لعله، قال: عن مالك بن صعصعة رجل من قومه، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " بينا انا عند البيت بين النائم واليقظان، إذ سمعت قائلا، يقول: احد الثلاثة بين الرجلين، فاتيت فانطلق بي، فاتيت بطست من ذهب فيها من ماء زمزم، فشرح صدري إلى كذا وكذا، قال قتادة: فقلت للذي معي: ما يعني؟ قال: إلى اسفل بطنه، فاستخرج قلبي، فغسل بماء زمزم، ثم اعيد مكانه، ثم حشي إيمانا وحكمة، ثم اتيت بدابة ابيض، يقال له: البراق فوق الحمار ودون البغل، يقع خطوه عند اقصى طرفه، فحملت عليه، ثم انطلقنا حتى اتينا السماء الدنيا، فاستفتح جبريل عليه السلام، فقيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: نعم، قال: ففتح لنا، وقال: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، قال: فاتينا على آدم عليه السلام، وساق الحديث بقصته، وذكر انه لقي في السماء الثانية عيسى ويحيى عليها السلام، وفي الثالثة يوسف، وفي الرابعة إدريس، وفي الخامسة هارون، صلوات الله عليهم، قال: ثم انطلقنا حتى انتهينا إلى السماء السادسة، فاتيت على موسى عليه السلام، فسلمت عليه، فقال: مرحبا بالاخ الصالح، والنبي الصالح، فلما جاوزته بكى، فنودي ما يبكيك، قال: رب، هذا غلام بعثته بعدي يدخل من امته الجنة اكثر مما يدخل من امتي، قال: ثم انطلقنا حتى انتهينا إلى السماء السابعة، فاتيت على إبراهيم، وقال في الحديث: وحدث نبي الله صلى الله عليه وسلم، انه راى اربعة انهار يخرج من اصلها نهران ظاهران، ونهران باطنان، فقلت: يا جبريل، ما هذه الانهار؟ قال: اما النهران الباطنان فنهران في الجنة، واما الظاهران فالنيل والفرات، ثم رفع لي البيت المعمور، فقلت: يا جبريل، ما هذا؟ قال: هذا البيت المعمور، يدخله كل يوم سبعون الف ملك، إذا خرجوا منه لم يعودوا فيه آخر ما عليهم، ثم اتيت بإناءين احدهما خمر والآخر لبن، فعرضا علي فاخترت اللبن، فقيل: اصبت، اصاب الله بك امتك على الفطرة، ثم فرضت علي كل يوم خمسون صلاة "، ثم ذكر قصتها إلى آخر الحديث.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لَعَلَّهُ، قَالَ: عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا، يَقُولُ: أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ فَانْطُلِقَ بِي، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشُرِحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا، قَالَ قَتَادَةُ: فَقُلْتُ لِلَّذِي مَعِي: مَا يَعْنِي؟ قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِهِ، فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي، فَغُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ، ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ، يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، يَقَعُ خَطْوُهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ، فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَم، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفَتَحَ لَنَا، وَقَالَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، قَالَ: فَأَتَيْنَا عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَذَكَرَ أَنَّهُ لَقِيَ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ عِيسَى وَيَحْيَى عَلَيْهَا السَّلَام، وَفِي الثَّالِثَةِ يُوسُفَ، وَفِي الرَّابِعَةِ إِدْرِيسَ، وَفِي الْخَامِسَةِ هَارُونَ، صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، فَنُودِيَ مَا يُبْكِيكَ، قَالَ: رَبِّ، هَذَا غُلَامٌ بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: وَحَدَّثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَأَى أَرْبَعَةَ أَنْهَارٍ يَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، وَنَهْرَانِ بَاطِنَان، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذِهِ الأَنْهَارُ؟ قَالَ: أَمَّا النَّهْرَانِ الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرُ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا خَمْرٌ وَالآخَرُ لَبَنٌ، فَعُرِضَا عَلَيَّ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقِيلَ: أَصَبْتَ، أَصَابَ اللَّهُ بِكَ أُمَّتُكَ عَلَى الْفِطْرَةِ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسُونَ صَلَاةً "، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّتَهَا إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ.
سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی (انہوں نے غالباً یہ کہا) کہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے (جو ان کی قوم کے فرد تھے) کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں ایک کہنے والے کو میں نے یہ کہتے سنا: ” تین آدمیوں میں سے ایک، دو کے درمیان والا“ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا، اس کے بعد میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا، پھر میرا سینہ کھول دیا گیا، فلاں سے فلاں جگہ تک (قتادہ نےکہا: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا: اس سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ اس نے کہا، پیٹ کے نیچے کےحصے تک) پھر میرا دل نکالا گیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی، مجھے اس پر سوار کیا گیا، پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان تک پہنچے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا: تو پوچھا گیا: یہ (دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا (آسمانوں پر لانے کےلیے) ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں۔ تو اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا: مرحبا! آپ بہترین طریقے سے آئے! فرمایا: پھر ہم آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے پہنچ گئے۔ آگے پورے قصے سمیت حدیث سنائی اور بتایا کہ دوسرے آسمان پر آپ عیسیٰ اور یحییٰ رضی اللہ عنہ سے، تیسرے پر یوسف رضی اللہ عنہ سے اور چوتھے پر ادریس رضی اللہ عنہ سے، پانچویں پر ہارون رضی اللہ عنہ سے ملے، کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس پہنچا اور ان کو سلام کیا، انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، جب میں ان سے آگے چلا گیا تو وہ رونے لگے، انہیں آواز دی گئی آپ کو کس بات نے رلا دیا؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان ہیں جن کو تو نے میرےبعد بھیجا ہے ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے تو میں ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا۔“ اور انہوں نے حدیث میں کہا کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں۔ ”میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: جو دو پوشیدہ ہیں تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں، تو اس (زمانے) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے، پھر میرےپاس دو برتن لائے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا، دونوں میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا، اس پر کہا گیا، آپ نے ٹھیک (فیصلہ) کیا، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے (سب کو) صحیح (فیصلہ) تک پہنچائے، آپ کی امت (بھی) فطرت پر ہے، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں .....“ پھر (سابقہ) حدیث کے آخر تک کا سارا واقعہ بیان کیا۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے شاید اپنی قوم کے ایک آدمی حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں، میں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا: کہ تین آدمیوں میں سے دو کے درمیان والا ہے۔ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا۔ پھر میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا اور یہاں سے لے کر یہاں تک میرا سینہ کھولا گیا۔“ قتادہؒ کہتے ہیں: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا: پیٹ کے نیچے تک۔ (سینہ کھولا گیا)”پھر میرا دل نکالا گیا، اور اسے زمزم کے پانی سے صاف کر کے اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا۔ پھر میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا، جسے براق کہا جاتا ہے۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، جو اپنا قدم اپنے منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ (جس جگہ اس کی نگاہ پڑتی تھی وہاں قدم رکھتا تھا) مجھے اس پر سوار کردیا گیا۔ پھر ہم چل دیے یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان پر پہنچے۔ جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا: (یہ دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: ہاں! تو ہمارے لیے اس نے دروازہ کھول دیا اور کہا مرحبا! اور وہ بہترین آمد آئے ہیں، اور ہم آدمؑ کے پاس پہنچ گئے۔“ آگے پورا واقعہ بیان کیا اور بتایا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے آسمان پر عیسیٰؑ اور یحیی ٰ ؑ کو ملے۔ تیسرے پر یوسفؑ کو اور چوتھے پر ادریسؑ سے ملے، پانچویں پر ہارونؑ سے۔ کہا: ”پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا۔ جب میں ان کے آگے سے گزر گیا، تو وہ رونے لگے۔ آواز دی گئی: آپ کیوں روتے ہیں؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان جس کو تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے، تو میں ابراہیمؑ تک پہنچ گیا۔“ اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ”میں نے اس (یعنی سدرۃ المنتہیٰ) کی جڑ سے چار نہریں نکلتی دیکھیں۔ دو کھلی اور دو پوشیدہ۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ اس نے کہا باطنی (پوشیدہ) جنت کی نہریں ہیں، اور ظاہری (کھلی) نیل وفرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیت المعمورکیا گیا، تو میں نے پوچھا: اے جبریلؑ! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت المعمور ہے اس میں ہر روزستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں پھر آخر تک اس میں واپس نہیں آتے۔ (ان کو دوبارہ حاضری کا موقع نہیں ملے گا) پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا، دونوں مجھ پر پیش کیے گئے۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو مجھے کہا گیا: آپ نے درست کیا (فطرت کو اختیار کیا)، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا۔ آپ کی امت فطرت پر رہے گی، یا اللہ تعالیٰ آپ کے سبب آپ کی امت کو فطرت پر پہنچائے گا (آپ کی امت بھی آپ کی اتباع میں فطرت کو اختیار کرے گی)، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔“ پھر سارا واقعہ بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((بدء الخلق)) باب: ذخر الملائكة برقم (3207) وفى امناقب الانصار، باب: المعراج برقم (3887) وفى احاديث الانبياء، باب: قول الله عز وجل: ﴿ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ، إِذْ رَأَىٰ نَارًا ﴾ الى قوله ﴿ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ برقم (3393) وفي، باب: قوله تعالى ﴿ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ﴾ الآيات برقم (3430) والترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة الم نشرح برقم (3346) وقال: هذا حديث حسن صحيح والنسائي في ((المجتبى)) 220/1 في الصلاة، باب: فرض الصلاة وذكر اختلاف الناقلين...... الخ - انظر ((التحفة)) برقم (11202)»
ہشام نے قتادہ سے حدیث سنائی، (انہوں نے کہا:) ہمیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.... پھر سابقہ حدیث کی طرح بیان کیا اور اس میں اضافہ کیا: ” تو میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرا سونے کا طشت لایا گیا اور (میری) گردن کے قریب سے پیٹ کے پتلے حصے تک چیرا گیا، پھر زم زم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسےحکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا 0“(وضاحت کتاب الایمان کے تعارف میں دیکھیے۔)
حضرت انس ؓ نے حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اوپر والی حدیث کی طرح بیان کیا، اور اس میں اضافہ کیا: ”تو میرے پاس سونے کا حکمت و ایمان سے بھرا ہوا طشت لایا گیا، اور سینے کے اوپر سے پیٹ تک چیرا گیا، اور زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھرحکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (415)»
حدثني محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت ابا العالية ، يقول: حدثني ابن عم نبيكم صلى الله عليه وسلم، يعني ابن عباس ، قال: " ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اسري به، فقال موسى: آدم طوال، كانه من رجال شنوءة، وقال عيسى: جعد مربوع، وذكر مالكا خازن جهنم، وذكر الدجال ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُسْرِيَ بِهِ، فَقَالَ مُوسَى: آدَمُ طُوَالٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَقَالَ عِيسَى: جَعْدٌ مَرْبُوعٌ، وَذَكَرَ مَالِكًا خَازِنَ جَهَنَّمَ، وَذَكَرَ الدَّجَّالَ ".
شعبہ نے ا بو قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے ابو عالیہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: مجھے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے، یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: ” موسیٰ رضی اللہ عنہ گندمی رنگ کے اونچے لمبے تھے جیسے وہ قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں اور فرمایا: عیسی رضی اللہ عنہ گٹھے ہوئے جسم کے میانہ قامت تھے۔“ اور آپ نے دوزخ کے داروغے مالک اور دجال کا بھی ذکر فرمایا۔
حضرت ابنِ عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: ”موسیٰؑ گندمی رنگ اور لمبے قد کے تھے، گویا کہ وہ شنوءہ قبیلہ کے لوگوں میں سے ہیں۔ اور فرمایا: عیسیٰؑ گٹھے ہوئے جسم کے متوسط قد والے تھے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کے داروغہ مالک اور دجال کا تذکرہ بھی فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في بدء الخلق، باب: اذا قال احدكم: آمين والملائكة في السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3239) وفي احادیث الانبياء، باب قول الله تعالى: ﴿ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴾، ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴾ برقم (3396) انظر ((التحفة)) برقم (5423)»
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا يونس بن محمد ، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن ، عن قتادة ، عن ابي العالية ، حدثنا ابن عم نبيكم صلى الله عليه وسلم، ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مررت ليلة اسري بي على موسى بن عمران عليه السلام، رجل آدم طوال جعد، كانه من رجال شنوءة، ورايت عيسى ابن مريم مربوع الخلق إلى الحمرة، والبياض سبط الراس، واري مالكا خازن النار، والدجال في آيات اراهن الله إياه، فلا تكن في مرية من لقائه "، قال: كان قتادة يفسرها، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قد لقي موسى عليه السلام.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ عَلَيْهِ السَّلَام، رَجُلٌ آدَمُ طُوَالٌ جَعْدٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ مَرْبُوعَ الْخَلْقِ إِلَى الْحُمْرَةِ، وَالْبَيَاضِ سَبِطَ الرَّأْسِ، وَأُرِيَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ، وَالدَّجَّالَ فِي آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللَّهُ إِيَّاهُ، فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ "، قَالَ: كَانَ قَتَادَةُ يُفَسِّرُهَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لَقِيَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام.
شیبان بن عبد الرحمن نے قتادہ کے حوالے سے سابقہ سند کے ساتھ حدیث سنائی کہ ہمیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے حدیث سنائی، کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں اسراء کی رات موسیٰ بن عمران رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، وہ گندمی گوں، طویل قامت کے گٹھے ہوئے جسم کے انسان تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں۔ اور میں نے عیسیٰ ابن مریم رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ا ن کا قد درمیانہ، رنگ سرخ وسفید اور سر کے بال سیدھے تھے۔“(سفر معراج کے دوران میں) ان بہت سی نشانیوں میں سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھائیں آپ کو دورخ کا داروغہ مالک اور دجال بھی دکھایا گیا۔”آپ ان (موسیٰ) سے ملاقات کے بارے میں شک میں نہ رہیں۔“ شیبان نےکہا: قتادہ اس آیت کی تفسیر بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملے تھے۔ (یہ ملاقات حقیقی تھی، معراج محض خواب نہ تھا۔)
حضرت ابنِ عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات مجھے اسراء کروایا گیا میں موسیٰ بن عمران ؑ کے پاس سے گزرا، وہ شنوءۃ قبیلہ کے مردوں کی طرح گندمی رنگ، طویل القامت اور گھنگریالے بالوں والے تھے، اور میں نے عیسیٰ بن مریمؑ کو دیکھا، ان کا قد درمیانہ، رنگ سرخ و سفید، سر کے بال سیدھے تھے۔“ اور مالک دوزخ کا داروغہ اور دجال دکھائے گئے۔ بہت سی نشانیوں میں جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھائیں ”تو آپ ان سے ملاقات میں شک نہ کریں۔“(سورۂ سجدہ، آیت: 23) راوی نے کہا: قتادہؒ اس آیت کی تفسیر بتاتے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ ؑ سے ملاقات کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (417)»
حدثنا احمد بن حنبل ، وسريج بن يونس ، قالا: حدثنا هشيم ، اخبرنا داود بن ابي هند ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر بوادي الازرق، فقال: اي واد هذا؟ فقالوا: هذا وادي الازرق، قال: كاني انظر إلى موسى عليه السلام هابطا من الثنية، وله جؤار إلى الله بالتلبية، ثم اتى على ثنية هرشى، فقال: اي ثنية هذه؟ قالوا: ثنية هرشى، قال: كاني انظر إلى يونس بن متى عليه السلام، على ناقة حمراء، جعدة عليه جبة من صوف خطام، ناقته خلبة، وهو يلبي "، قال ابن حنبل في حديثه: قال هشيم: يعني ليفا.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِوَادِي الأَزْرَقِ، فَقَالَ: أَيُّ وَادٍ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا وَادِي الأَزْرَقِ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام هَابِطًا مِنَ الثَّنِيَّةِ، وَلَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ، ثُمَّ أَتَى عَلَى ثَنِيَّةِ هَرْشَى، فَقَالَ: أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟ قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَام، عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ، جَعْدَةٍ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ خِطَامُ، نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ، وَهُوَ يُلَبِّي "، قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ هُشَيْمٌ: يَعْنِي لِيفًا.
احمد بن حنبل اور سریج بن یونس نے کہا: ہمیں ہشیم نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں داؤد بن ابی ہند نے ابوعالیہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی ازرق سے گزرے تو آپ نے پوچھا: ” یہ کون سے وادی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ وادی ازرق ہے۔ آپ نے فرمایا: ” مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کو وادی کے موڑ سے اترتے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے اللہ کے سامنے زاری کر رہے ہیں۔“ پھر آپ ہرشیٰ کی گھاتی پر پہنچے تو پوچھا: ” یہ کو ن سی گھاٹی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ ہرشیٰ کی گھاٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ” جیسے میں یونس بن متی رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں جو سرخ رنگ کی مضبوط بدن اونٹنی پر سوار ہیں، ان کے جسم پر اونی جبہ ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ لبیک کہہ رہے ہیں۔“ ابن حنبل نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ ہشیم نے کہا: خلبۃ سے لیف، یعنی کھجور کی چھال مراد ہے۔
حضرت ابنِ عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازرق وادی میں سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں موسیٰؑ کو چوٹی سے اترتے دیکھ رہا ہوں، اور وہ بلند آواز سے اللہ کے حضور تلبیہ کہہ رہے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرشیٰ کی چوٹی پر پہنچے تو پوچھا: ”یہ کون سی چوٹی ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ ہرشیٰ کی چوٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں یونس بن متیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں، سرخ رنگ کی گھٹی ہوئی اونٹنی پر سوار ہیں، اونی جبہ پہنا ہوا ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ لبیک کہہ رہے ہیں۔“ ابنِ حنبلؒ نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ ہشیمؒ نے کہا: "خُلْبَةٌ" سے مراد "لِیْفٌ" ہے، یعنی کھجور کی کھال۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في المناسك، باب: الحج علی الرحل برقم (2891) انظر ((التحفة)) برقم (5424)»
وحدثني محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود ، عن ابي العالية ، عن ابن عباس ، قال: " سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين مكة والمدينة، فمررنا بواد، فقال: اي واد هذا؟ فقالوا: وادي الازرق، فقال: كاني انظر إلى موسى عليه السلام، فذكر من لونه، وشعره، شيئا لم يحفظه داود، واضعا إصبعيه في اذنيه، له جؤار إلى الله بالتلبية، مارا بهذا الوادي، قال: ثم سرنا، حتى اتينا على ثنية، فقال: اي ثنية هذه؟ قالوا: هرشى او لفت، فقال: كاني انظر إلى يونس على ناقة حمراء، عليه جبة صوف خطام، ناقته ليف خلبة، مارا بهذا الوادي ملبيا ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ: أَيُّ وَادٍ هَذَا؟ فَقَالُوا: وَادِي الأَزْرَقِ، فَقَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَذَكَرَ مِنْ لَوْنِهِ، وَشَعَرِهِ، شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ دَاوُدُ، وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ، مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا، حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ: أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ؟ قَالُوا: هَرْشَى أَوْ لِفْتٌ، فَقَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ، عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ خِطَامُ، نَاقَتِهِ لِيفٌ خُلْبَةٌ، مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا ".
ابن ابی عدی نے داؤد سے حدیث سنائی، انہوں نےابو عالیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان رات کے وقت سفر کیا، ہم ایک وادی سے گزرے توآپ نے پوچھا: ” یہ کون سی وادی ہے؟“ لوگوں نے کہا: وادی ازرق ہے، آپ نے فرمایا: ”جیسے میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں (آپ نے موسیٰ رضی اللہ عنہ کے رنگ اور بالوں کے بارے میں کچھ بتایا جو داود کویاد نہیں رہا) موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی دو انگلیاں اپنے (دونوں) کانوں میں ڈالی ہوئی ہیں، اس وادی سے گزرتے ہوئے، تلبیہ کے ساتھ، بلند آواز سے اللہ کے سامنے زاری کرتے جا رہے ہیں۔“(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک (اور) گھاٹی پر پہنچے تو آپ نے پوچھا: ”یہ کون سی گھاٹی ہے؟“ لوگوں نے جواب دیا: ہرشیٰ یا لفت ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ” جیسے میں یونس رضی اللہ عنہ کو سرخ اونٹنی پر سوار دیکھ رہا ہوں، ان کے بدن پر اونی جبہ ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے، وہ تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔“
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں (صحابہ) نے کہا: وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں موسیٰ ؑ کو دیکھ رہا ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰؑ کے رنگ اور بالوں کے بارے میں کچھ بتا یا جو داؤد کو یاد نہیں۔ ”موسیٰؑ نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھی ہیں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔“ ابنِ عباس ؓ کہتے ہیں: پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک اور گھاٹی پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سی گھاٹی ہے؟“ صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا: ہرشیٰ یا لفت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں یونسؑ کو دیکھ رہا ہوں، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، اونی جبہ پہنا ہے، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے، وہ تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (419)»
حدثني حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن مجاهد ، قال: كنا عند ابن عباس، " فذكروا الدجال، فقال: إنه مكتوب بين عينيه كافر، قال: فقال ابن عباس : لم اسمعه، قال: ذاك، ولكنه قال: اما إبراهيم، فانظروا إلى صاحبكم، واما موسى، فرجل آدم جعد على جمل احمر، مخطوم بخلبة، كاني انظر إليه إذا انحدر في الوادي يلبي ".حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، " فَذَكَرُوا الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَمْ أَسْمَعْهُ، قَالَ: ذَاكَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: أَمَّا إِبْرَاهِيمُ، فَانْظُرُوا إِلَى صَاحِبِكُمْ، وَأَمَّا مُوسَى، فَرَجُلٌ آدَمُ جَعْدٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، مَخْطُومٍ بِخُلْبَةٍ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ إِذَا انْحَدَرَ فِي الْوَادِي يُلَبِّي ".
مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو لوگوں نے دجال کا تذکرہ چھیڑ دیا، (اس پر کسی نے) کہا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ نے یہ کہا ہو لیکن آپ نے یہ فرمایا: ”جہاں تک حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو اپنے صاحب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھ لو اور موسیٰ رضی اللہ عنہ گندمی رنگ، گٹھے ہوئے جسم کے مرد ہیں، سرخ اونٹ پر سوار ہیں جس کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے جیسے میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ جب وادی میں اترے ہیں تو تلبیہ کہہ رہے ہیں۔“
مجاہدؒ نے کہا: ہم ابنِ عباس ؓ کے پاس تھے، تو لوگوں نے دجال کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ مجاہدؒ نےکہا: اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا۔ ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا، کہ آپ نے یہ کہا ہو، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ”رہا ابراہیمؑ، تو اپنے ساتھی کو (آپ کو) دیکھ لو۔ اور رہے موسیٰؑ ایک آدمی ہیں گندمی رنگ، گھنگریالے بال، سرخ اونٹ پر سوار ہیں، جس کی نکیل کھجور کی چھال ہے گویا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں، اور جب وادی میں اترتے ہیں تو تلبیہ کہتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الحج، باب: التلبية اذا انحدر في الوادئ برقم (1555) وفي احاديث الانبياء، باب: قول الله تعالي: ﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾ وقوله: ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ ﴾ برقم (3355) وفي اللباس، باب: الجعد برقم (5913) انظر ((التحفة)) برقم (6400)»