صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
73. باب بَدْءِ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
73. باب: اس بات کا بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی (یعنی اللہ کا پیام) اترنا کیونکر شروع ہوا۔
Chapter: The beginning of the revelation to the messenger of Allah (saws)
حدیث نمبر: 403
Save to word اعراب
حدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح ، اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته انها، قالت: " كان اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي، الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، فكان يخل وبغار حراء يتحنث فيه، وهو التعبد الليالي اولات العدد، قبل ان يرجع إلى اهله ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك، فقال: اقرا، قال: ما انا بقارئ، قال: فاخذني، فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قال: قلت: ما انا بقارئ، قال: فاخذني، فغطني الثانية، حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، فقلت: ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثالثة، حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3} الذي علم بالقلم {4} علم الإنسان ما لم يعلم {5} سورة العلق آية 1-5 فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ترجف بوادره حتى دخل على خديجة، فقال: زملوني، زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، ثم قال لخديجة: اي خديجة: ما لي، واخبرها الخبر "، قال: لقد خشيت على نفسي، قالت له خديجة: كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، والله إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة، حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد ابن عبد العزى وهو ابن عم خديجة اخي ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: اي عم، اسمع من ابن اخيك، قال ورقة بن نوفل: يا ابن اخي، ماذا ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رآه، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي انزل على موسى عليه السلام، يا ليتني فيها جذعا، يا ليتني اكون حيا حين يخرجك قومك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مخرجي هم، قال ورقة: نعم، لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا، قَالَتْ: " كَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ، الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ، فَكَانَ يَخْلُ وَبِغَارِ حِرَاءٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ، وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ أُولَاتِ الْعَدَدِ، قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي، فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي، فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ، حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ {4} عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ {5} سورة العلق آية 1-5 فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ: أَيْ خَدِيجَةُ: مَا لِي، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ "، قَالَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ، حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ ابْنِ عَبْدِ الْعُزَّى وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: أَيْ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَآهُ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ، قَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا.
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث سنائی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچےخواب آنے سے ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے اس کی تعبیر صبح کے روشن ہونے کی طرح سامنے آ جاتی، پھر خلوت نشینی آپ کو محبوب ہو گئی، آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور گھر واپس جا کر (دوبارہ) اسی غرض کے لیے زاد راہ لانے سے پہلے (مقررہ) تعداد مں راتیں تحنث میں مصروف رہتے، تحنث عبادت گزاری کو کہتے ہیں، (اس کے بعد) آپ پھر خدیجہ ؓ کے پاس واپس آ کر، اتنی ہی راتوں کے لیے زاد (سامان خور و نوش) لے جاتے، (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ اچانک آپ کے پاس حق (کا پیغام) آ گیا، اس وقت آ پ غار حراء ہی میں تھے، چنانچہ آپ کے فرشتہ آیا اور کہا: پڑھیے! آپ نے جواب دیا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، آپ نے فرمایا: تو اس (فرشتے) نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا یہاں تک کہ (اس کا دباؤ) میری برداشت کی آخری حد کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں میں نے کہا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، پھر اس نے مجھے پکڑا اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی اور دوبارہ بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھ سکنے والا نہیں ہوں، پھر اس نے تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر پوری قوت سے بھینچا یہاں تک کہ میری برداشت کی آخری حد آ گئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے پیدا کیا، اس نے انسان کو گوشت کے جونک جیسے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی اور انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے ساتھ واپس لوٹے، (اس وقت) آپ کے کندھوں اور گردن کے درمیان کے گوشت کے حصے لرز رہے تھے یہاں تک کہ آپ خدیجہ ؓ کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھے کپڑے اوڑھا ؤ، مجھے کپڑا اوڑھا ؤ۔ انہوں (گھر والوں) نے کپڑا اوڑھا دیا دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہو گیا تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا: خدیجہ! یہ مجھے کیا ہوا ہے؟ خدیجہ نے جواب دیا: ہر گز نہیں! (بلکہ) آپ کو خوش خبری ہو اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، اللہ کی قسم! آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اسے کما کر دیتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کے لیے پیش آنےوالی مشکلات میں اعانت کرتے ہیں، پھر خدیجہؓ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس پہنچیں، وہ حضرت خدیجہ ؓ کے چچازاد، ان کووالد کے بھائی کے بیٹے تھے، وہ ایسے آدمی تھے جو جاہلیت کے دور میں عیسائی ہو گئے تھے، عربی خط میں لکھتے تھے، اور جس قدر الہ کو منظور تھا، انجیل کوعربی زبان میں لکھتے تھے، بہت بوڑھے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی۔ خدیجہ ؓ نے ان سےکہا: چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیے، ورقہ بن نوفل نے پوچھا: برادرز دے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا، ا س کا حال بتایا تو ورقہ نے آپ سے کہا: یہ وہی ناموس (رازوں کا محافظ) ہے جسے موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا گیا تھا، کاش! اس وقت میں جوان ہوتا، کا ش! میں اس وقت زندہ (موجود) ہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا؟ تو کیا یہی لوگ مجھے نکالنے والے ہوں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں، کبھی کوئی آدمی آپ جیسا پیغام لے کر نہیں آیا مگر اس سے دشمنی کی گئی اور اگر آپ کا (وہ) دن میری زندگی میں آ گیا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: کہ وحی کا آغاز سب سے پہلے نیند میں سچے خوابوں سے ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے، اس کی تعبیر روشن صبح کی طرح ہوتی۔ پھر خلوت گزینی آپ کے نزدیک محبوب بنا دی گئی اور آپ غارِ حرا میں تنہائی اختیار کرتے، اور اپنے اہل کی طرف واپسی سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں گناہ سے بچتے، یعنی: بندگی کرتے، اور اس کے لیے خورد ونوش کا سامان لے جاتے۔ پھرخدیجہؓ کے پاس واپس آکر اتنی ہی راتوں کے لیے پھر سامانِ خوردونوش لے جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس اچانک حق (فرشتۂ وحی) آگیا اور آپ غارِ حرا میں تھے، چنانچہ آپ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا: پڑھیے! آپؐ نے جواب دیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تو اس نے مجھے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! تو میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر اس نے مجھے پکڑا اور دوبارہ مجھے بھینچا یہاں تک اس کا دباؤ میری طاقت کی انتہا کو پہنچ گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھیے! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر اس نے مجھے پکڑا اور تیسری دفعہ دبوچا حتیٰ کہ مجھے پوری قوت سے دبایا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: اپنے اس رب کے نام کی برکت و توفیق سے پڑھیے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (سورۃ علق آیت: 1-5) یہ آیات لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں واپس خدیجہؓ کے پاس پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے کپڑا اوڑھاؤ! مجھ پر کپڑا ڈالو۔ گھر والوں نے کپڑا اوڑھایا، یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہؓ سے کہا: اے خدیجہ! مجھے کیا ہوا؟ اور اسے پورا واقعہ سنایا، کہا: کہ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ پڑ گیا۔ خدیجہؓ نے آپؐ کو جواب دیا: ہر گز نہیں! خوش ہو جائیے، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ شاہد ہے آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، نایاب چیزیں دیتے ہیں (نایاب سے مراد: وہ چیز ہے جو کسی اور سے نہ مل سکتی ہو، اس کی توجیہ آگے موجود ہے)، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کے لیے پیش آمدہ مصائب میں مدد کرتے ہیں۔ خدیجہؓ آپؐ کو لے کر اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں، جس نے جاہلیت کے دور میں عیسائیت اختیار کر لی تھی، اور وہ عربی خط میں لکھتے تھے، اور انجیل کا عربی میں ترجمہ، جس قدر اللہ کو منظور ہوتا کرتے تھے، بہت بوڑھے تھے اور بینائی جاتی رہی تھی۔ خدیجہؓ نے اس سے کہا: اے چچا! اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ بن نوفل نے پوچھا: اے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اسے بتایا، تو ورقہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہی وہ رازداں (فرشتہ) ہے جسے موسیٰ ؑ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت میں جواں ہوتا۔ اے کاش! میں اس وقت زندہ ہوں، جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں! کبھی کوئی آدمی آپ جیسا پیغام لے کر نہیں آیا، مگر اس سے دشمنی کی گئی، اور اگر آپ کے اس دن کو میں نے پا لیا! تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ برقم (4953) انظر ((التحفة)) برقم (16706)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 404
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، قال: قال الزهري : واخبرني عروة ، عن عائشة ، انها قالت: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي، وساق الحديث بمثل حديث يونس، غير انه قال: فوالله لا يحزنك الله ابدا وقال: قالت خديجة: اي ابن عم اسمع من ابن اخيك.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ : وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَوَاللَّهِ لَا يُحْزِنُكَ اللَّهُ أَبَدًا وَقَالَ: قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ.
ہمیں معمر نے خبر دی کہ انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا...... آگے یونس کی حدیث کی طرح بیا کیا، سوائے اس کے کہ معمر نے لایحزنک اللہ أبداً آپ کو اللہ کبھی غمگین نہ کرے گا کہا۔ انہوں نے (یہ بھی) کہا کہ حضرت خدیجہ ؓ نے یہ الفاظ کہا: چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتدا.... آگے یونسؒ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی صرف اتنا فرق ہے کہ معمرؒ نے کہا: "لَا يُحْزِنُكَ اللهُ أَبَدًا" اللہ کی قسم! اللہ کبھی تمھیں پریشان نہیں کرے گا۔ اور خدیجہؓ کے الفاظ یہ نقل کیے: اے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سن۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التعبير اول ما بدی به رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من الوحى الرويا الصالحة مطولا برقم (6982) وفي التفسير، باب: قوله ﴿ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴾ برقم (4956) انظر ((التحفة)) برقم (16637)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 405
Save to word اعراب
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث ، قال: حدثني ابي ، عن جدي ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، قال ابن شهاب : سمعت عروة بن الزبير ، يقول: قالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: فرجع إلى خديجة يرجف فؤاده، واقتص الحديث بمثل حديث يونس ومعمر، ولم يذكر اول حديثهما من قوله، اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة، وتابع يونس على قوله، فوالله لا يخزيك الله ابدا، وذكر قول خديجة: اي ابن عم اسمع من ابن اخيك.وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَرَجَعَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ وَمَعْمَرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَوَّلَ حَدِيثِهِمَا مِنْ قَوْلِهِ، أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ، وَتَابَعَ يُونُسَ عَلَى قَوْلِهِ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، وَذَكَرَ قَوْلَ خَدِيجَةَ: أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ.
عقیل بن خالد نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا: میں نے عروہ بن زبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے، آپ کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا..... پھر (عقیل نے) یونس اور معمر کی طرح حدیث بیان کی۔ اور ان دونوں کی روایت کا ابتدائی حصہ، یعنی ان کا یہ قول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سچے خوابوں کی صورت میں ہوا، بیان ہیں کیا۔ نیز عقیل بن خالد نے یونس کے ان الفاظ فواللہ!لا یخزیک اللہ أبداً اللہ کی قسم! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا میں متابعت کرنے کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے: چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہؓ کے پاس آئے، آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا۔ پھر یونسؒ اور معمرؒ کی طرح حدیث بیان کی اور ان دونوں کی روایت کا ابتدائی حصہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کا آغاز سچے خوابوں کی صورت میں ہوا۔ بیان نہیں کیا، اور عقیل بن خالدؒ نے یونسؒ کی طرح "فَوَاللهِ ِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا" کے الفاظ استعمال کیے۔ اور خدیجہؓ کا قول "أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ" اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اے چچا کے بیٹے! بھتیجے کی بات سن۔ نقل کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى بدء الوحى، باب: كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (3) مطولا بتمامه، وفي التفسير، باب: قوله ﴿خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ﴾ مختصرا برقم (4955) انظر ((التحفة)) برقم (16540)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 406
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، قال: حدثني يونس ، قال: قال ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان جابر بن عبد الله الانصاري وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يحدث، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحدث عن فترة الوحي، قال في حديثه: " فبينا انا امشي، سمعت صوتا من السماء، فرفعت راسي، فإذا الملك الذي جاءني بحراء، جالسا على كرسي بين السماء والارض، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فجئثت منه فرقا، فرجعت، فقلت: زملوني، زملوني، فدثروني، فانزل الله تبارك وتعالى يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} وثيابك فطهر {4} والرجز فاهجر {5} سورة المدثر آية 1-5، وهي الاوثان، قال: ثم تتابع الوحي ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ: " فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي، سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ، جَالِسًا عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَجُئِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا، فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ {5} سورة المدثر آية 1-5، وَهِيَ الأَوْثَانُ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ ".
یونس نے (اپنی سند کے ساتھ) ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، یہ حدیث سنایا کرتے تھے، کہا: وقفہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دوران میں جب میں چل رہا تھا، میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، اس پر میں اپنا سر اٹھایا تو اچانک (دیکھا) وہی فرشتہ تھا جومیرے پاس غار حراء میں آیاتھا، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا تھا۔ آپ نے فرمایا: اس کے خوف کی وجہ سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور میں گھر واپس آگیا اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھاؤ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ تو انہوں (گھر والوں) نے مجھے کمبل اوڑھا دیا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبردار کرواور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور گندگی سے دور رہیے۔ اور اس (الرجزیعنی گندگی) سے مراد بت ہیں۔ فرمایا: پھر وحی مسلسل نازل ہونے لگی۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ جو صحابہ کرام ؓ میں سے تھے، بندش ِوحی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: دریں اثنا کہ میں چل رہا تھا، میں نے آسمان سے آواز سنی تو میں نے سر اٹھایا، دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں خوف زدہ ہو کر گھبرا کر گھر واپس آگیا، اور میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھاؤ! مجھ پر کپڑا ڈالو، تو گھر والوں نے مجھ پر کپڑا ڈال دیا۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھیے! پھر لوگوں کو ڈرائیے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجیے اور اپنے کپڑے پاک رکھیے اور بتوں سے الگ رہیے۔ (مدثر:1-5) رجز سے مراد بت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وحی مسلسل نازل ہونے لگی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في بدء الوحي، باب: كيف كان بدء الوحي الی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (3) وفي التفسير برقم (4922 و 4923 و 4925) وفي، باب: سورة ﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ برقم (4953) وفى بدء الخلق، باب: اذا قال احدکم آمین والملائكة في السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3238) وفى الادب، باب: رفع البصر الى السماء، وقوله تعالى ﴿ أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴾ برقم (6214) والترمذى في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة المدثر وقال: هذا حدیث حسن صحيح برقم (3325) انظر ((التحفة)) برقم (3152)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 407
Save to word اعراب
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث ، قال: حدثني ابي ، عن جدي ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن ، يقول: اخبرني جابر بن عبد الله ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ثم فتر الوحي عني فترة، فبينا انا امشي، ثم ذكر مثل حديث يونس، غير انه قال: فجثثت منه فرقا حتى هويت إلى الارض، قال: وقال ابو سلمة: والرجز الاوثان، قال: ثم حمي الوحي بعد وتتابع.وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ثُمَّ فَتَرَ الْوَحْيُ عَنِّي فَتْرَةً، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي، ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَجُثِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الأَرْضِ، قَالَ: وقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرُّجْزُ الأَوْثَانُ، قَالَ: ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ بَعْدُ وَتَتَابَعَ.
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: پھر وحی ایک وقفے کے لیے مجھ سے منقطع ہو گئی، اسی دوران میں جب میں چل رہا تھا..... پھر (عقیل نے) یونس کی طرح روایت بیان کی، البتہ انہوں نے (مزید یہ) کہا: تو خوف سے مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی حتی کہ میں زمین پر گر پڑا (ابن شہاب نےکہا: ابوسلمہ نےبتایا: الرجز سے بت مراد ہیں) کہا: پھر نزول وحی (کی رفتار) میں گرمی آ گئی اور مسلسل نازل ہونے لگی۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: پھر مجھ سے کچھ وقت وحی بالکل بند ہو گئی، اس اثنا میں کہ میں چل رہا تھا۔ پھر یونسؒ کی طرح روایت بیان کی صرف اتنا فرق ہے کہ عقیلؒ نے کہا: تو میں خوف سے مرعوب ہو گیا حتیٰ کہ میں زمین پر گر گیا۔ اور ابو سلمہؒ نے بتایا: رِجز سے مراد: بت ہیں اور کہا: پھر وحی گرم ہو گئی اور اس میں تسلسل پیدا ہوگیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 408
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، بهذا الإسناد نحو حديث يونس، وقال: فانزل الله تبارك وتعالى: يايها المدثر، إلى قوله والرجز فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5، قبل ان تفرض الصلاة وهي الاوثان، وقال: فجثثت منه، كما قال عقيل.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ، وَقَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ وَهِيَ الأَوْثَانُ، وَقَالَ: فَجُثِثْتُ مِنْهُ، كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ.
معمر نے زہری سے اسی سند کےساتھ یونس کی طرح حدیث بیان کی (اس میں یہ) کہا: تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے: ﴿﴾ سے لے کر﴿﴾ تک (کی آیتیں) نازل فرمائیں (نماز فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے) اور اس (الرجز ‎) سے بت مراد ہیں، نیز معمر نے عقیل کی طرح مجھ پر خوف طاری ہو گیا کہا۔
امام صاحبؒ ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں آخر میں ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتارا: اے کپڑے میں لپٹنے والے سے لے کربتوں سے دور رہیے۔ (مدثر: 1-5) یہ نماز کی فرضیت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ رجز سے مراد: بت ہیں اور عقیلؒ کی طرح کہا: "فَجُثِثْتُ مِنْهُ" میں اس سے گھبرا گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 409
Save to word اعراب
وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، قال: سمعت يحيى ، يقول: سالت ابا سلمة : اي القرآن انزل قبل؟ قال: يا ايها المدثر، فقلت: او اقرا، فقال: سالت جابر بن عبد الله: اي القرآن انزل قبل؟ قال: يا ايها المدثر، فقلت: او اقرا، قال جابر : احدثكم ما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " جاورت بحراء شهرا، فلما قضيت جواري، نزلت فاستبطنت بطن الوادي، فنوديت فنظرت امامي، وخلفي، وعن يميني، وعن شمالي، فلم ار احدا، ثم نوديت فنظرت فلم ار احدا، ثم نوديت فرفعت راسي، فإذا هو على العرش في الهواء يعني جبريل عليه السلام، فاخذتني رجفة شديدة فاتيت خديجة، فقلت: دثروني، فدثروني، فصبوا علي ماء "، فانزل الله عز وجل: يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} وثيابك فطهر {4} سورة المدثر آية 1-4.وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ : أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، فَقَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، قَالَ جَابِرٌ : أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي، وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ فِي الْهَوَاءِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً "، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} سورة المدثر آية 1-4.
اوزاعی نے کہا: میں نے یحییٰ سے سنا، کہتے تھے: میں نے ابوسلمہ سے سوال کیا: قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا؟ کہا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾۔ میں نے کہا: یا ﴿اِقْرَاْ﴾؟ ابو سلمہ نے کہا: میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قرآن کا کون سا حصہ پہلے اتارا گیا؟ انہوں نے جواب دیا: ﴿ یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ﴾۔ میں نےکہا: یا ﴿ اِقْرَاْ ﴾؟ جابر رضی اللہ عنہ نےکہا: میں تمہیں وہی بات بتاتا ہوں جوہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے حراء میں ایک ماہ اعتکاف کیا۔ جب میں نے اپنا اعتکاف ختم کیا تو میں اترا، پھر میں وادی کے درمیان پہنچا تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا، مجھے پھر آواز دی گئی میں میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر (تیسری بار) مجھے آواز دی گئی تو میں نے سر اوپر اٹھایا تو وہی (فرشت (فضا میں تخت (کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا (یعنی جبرییل رضی اللہ عنہ) اس کی وجہ سے مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا اور مجھ پرپانی ڈالا۔ تو اس (موقع) پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: اے کمبل اوڑھنے والے! اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔
یحییٰ نے ابو سلمہ ؒ سے سوال کیا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ نازل ہوا؟ اس نے جواب دیا: ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: کیا ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ تو ابو سلمہؒ نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ اتارا گیا؟ تو جابر نے جواب دیا ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ جابر ؓ نے کہا میں تمھیں وہی بتاتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک ماہ حرا میں گزارا، جب میں نے اپنا اعتکاف مکمل کر لیا، تو میں اتر کر وادی کے درمیان پہنچ گیا، تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے اور اپنے پیچھے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے آواز دی گئی تو میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر مجھے (تیسری بار) آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہ، یعنی جبرائیل علیہ السلام فضا میں عرش (تخت کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا، تو مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہؓ کے پاس آگیا اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو! انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں: اے کپڑے میں لِپٹنے والے! اٹھ کر ڈرا اور اپنے رب کی کبریائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھ۔ (سورۃ المدثر: 1-4)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 410
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا علي بن المبارك ، عن يحيى بن ابي كثير ، بهذا الإسناد، وقال: فإذا هو جالس على عرش بين السماء والارض.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى عَرْشٍ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ.
علی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور کہا: تو وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔
امام صاحبؒ ایک اور سند سے دوسری روایت بیان کرتے ہیں اور آخر میں ہے: اچانک وہ آسمان و زمین کے درمیان تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
74. باب الإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ:
74. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
Chapter: The night journey on which the messenger of Allah (saws) was taken up into the heavens and the prayers were enjoined
حدیث نمبر: 411
Save to word اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اتيت بالبراق وهو دابة ابيض، طويل فوق الحمار، ودون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه، قال: فركبته حتى اتيت بيت المقدس، قال: فربطته بالحلقة التي يربط به الانبياء، قال: ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين، ثم خرجت، فجاءني جبريل عليه السلام بإناء من خمر، وإناء من لبن، فاخترت اللبن، فقال جبريل: اخترت الفطرة، ثم عرج بنا إلى السماء، فاستفتح جبريل، فقيل: من انت؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بآدم فرحب بي، ودعا لي بخير، ثم عرج بنا إلى السماء الثانية، فاستفتح جبريل عليه السلام، فقيل: من انت؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بابني الخالة عيسى ابن مريم ويحيى بن زكرياء صلوات الله عليهما، فرحبا ودعوا لي بخير، ثم عرج بي إلى السماء الثالثة، فاستفتح جبريل، فقيل: من انت؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بيوسف عليه السلام، إذا هو قد اعطي شطر الحسن، فرحب ودعا لي بخير، ثم عرج بنا إلى السماء الرابعة، فاستفتح جبريل عليه السلام، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قال: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بإدريس، فرحب ودعا لي بخير، قال الله عز وجل ورفعناه مكانا عليا سورة مريم آية 57، ثم عرج بنا إلى السماء الخامسة، فاستفتح جبريل، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بهارون عليه السلام، فرحب ودعا لي بخير، ثم عرج بنا إلى السماء السادسة، فاستفتح جبريل عليه السلام، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بموسى عليه السلام، فرحب ودعا لي بخير، ثم عرج إلى السماء السابعة، فاستفتح جبريل، فقيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل ومن معك؟ قال: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد بعث إليه؟ قال: قد بعث إليه ففتح لنا، فإذا انا بإبراهيم عليه السلام مسندا ظهره إلى البيت المعمور، وإذا هو يدخله كل يوم سبعون الف ملك، لا يعودون إليه، ثم ذهب بي إلى السدرة المنتهى، وإذا ورقها كآذان الفيلة، وإذا ثمرها كالقلال، قال: فلما غشيها من امر الله ما غشي تغيرت، فما احد من خلق الله يستطيع ان ينعتها من حسنها، فاوحى الله إلي ما اوحى، ففرض علي خمسين صلاة في كل يوم وليلة، فنزلت إلى موسى عليه السلام، فقال: ما فرض ربك على امتك؟ قلت: خمسين صلاة، قال: ارجع إلى ربك فاساله التخفيف، فإن امتك لا يطيقون ذلك، فإني قد بلوت بني إسرائيل وخبرتهم، قال: فرجعت إلى ربي، فقلت: يا رب، خفف على امتي، فحط عني خمسا، فرجعت إلى موسى، فقلت: حط عني خمسا، قال: إن امتك لا يطيقون ذلك، فارجع إلى ربك فاساله التخفيف، قال: فلم ازل ارجع بين ربي تبارك وتعالى، وبين موسى عليه السلام، حتى قال: يا محمد، إنهن خمس صلوات كل يوم وليلة، لكل صلاة عشر، فذلك خمسون صلاة ومن هم بحسنة، فلم يعملها، كتبت له حسنة، فإن عملها، كتبت له عشرا، ومن هم بسيئة فلم يعملها، لم تكتب شيئا، فإن عملها، كتبت سيئة واحدة، قال: فنزلت حتى انتهيت إلى موسى عليه السلام، فاخبرته، فقال: ارجع إلى ربك فاساله التخفيف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: قد رجعت إلى ربي حتى استحييت منه ".
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُتِيتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ، طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ، وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهِ، قَالَ: فَرَكِبْتُهُ حَتَّى أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الأَنْبِيَاءُ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ، فَجَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ، وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِيلُ: اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ فَرَحَّبَ بِي، وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِابْنَيِ الْخَالَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَيَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّاءَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا، فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِيُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلامُ، إِذَا هُوَ قَدْ أُعْطِيَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِيسَ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا سورة مريم آية 57، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِهَارُونَ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِي بِخَيْرٍ، ثُمَّ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، وَإِذَا هُوَ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَإِذَا وَرَقُهَا كَآذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا ثَمَرُهَا كَالْقِلَالِ، قَالَ: فَلَمَّا غَشِيَهَا مِنْ أَمْرِ اللَّهِ مَا غَشِيَ تَغَيَّرَتْ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْعَتَهَا مِنْ حُسْنِهَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ مَا أَوْحَى، فَفَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَنَزَلْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَإِنِّي قَدْ بَلَوْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَخَبَرْتُهُمْ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَلَى أُمَّتِي، فَحَطَّ عَنِّي خَمْسًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّي خَمْسًا، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا يُطِيقُونَ ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ، فَلَمْ يَعْمَلْهَا، كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا، كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا، لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا، كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً، قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ ".
شیبان بن فروخ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میرے پاس براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اپنا سم وہاں رکھتا ہے جہاں اس کی نظر کی آخری حد ہے۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا حتی کہ بیت المقدس آیا۔ فرمایا: میں نے اس کو اسی حلقے (کنڈے) سے باندھ لیاجس کے ساتھ انبیاء رضی اللہ عنہ اپنی سواریاں باندھتے تھے۔ فرمایا: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر (وہاں سے) نکلا تو جبریل صلی اللہ علیہ وسلم میرےپاس ایک برتن شراب کا اور ایک دودھ کالے آئے۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ تو جبرئیل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے (دروازہ) کھولنے کو کہا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: اور (کیا) انہیں بلوایا گیا تھا؟کہا: بلوایا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے (دروازہ) کھول دیا گیا تو میں اچانک آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی، پھر وہ ہمیں اوپر دوسرے آسمان کی طرف لے گئے، جبرئیل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا انہیں بلوایا گیا تھا؟ کہا: بلوایا گیا تھا۔ تو ہمارے لیےدروازہ کھول دیا گیا، اب میں دوخالہ زاد بھائیوں، عیسیٰ ابن مریم بن زکریا کے سامنے تھا (اللہ ان دونوں پررحمت اور سلامتی بھیجے) دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی، پھر جبریل رضی اللہ عنہ ہمیں اوپر تیسرے آسمان تک لے گئے، جبریل نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا ‎: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہاگیا: کیا ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا۔ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میں نے یوسف رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ ایسے تھے کہ (انسانوں کا) آدھا حسن انہیں عطا کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی، پھر ہمیں اوپر چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: ان کے پاس پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تب میرے سامنے ادریس رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ہم نے اسے (ادریس رضی اللہ عنہ کو) بلند مقام تک رفعت عطا کی۔ پھر ہمیں اوپر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا: آپ کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: ان کے لیے پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں بھیجا گیا تھا، چنانچہ ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات ہارون رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا: کیا انہیں پیغام بھیجا گیا تھا؟کہا: ہاں، بھیجا گیا تھا۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ تب میری ملاقات موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی، پھر ہمیں اوپر ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھلوایا۔ کہا گیا: یہ کون ہیں؟ کہا: جبریل۔ کہا گیا: آپ کےساتھ کون ہیں؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا: (ہاں) بھیجا گیا تھا۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا۔ انہوں نے بیت معمور سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اس (بیت معمور) میں ہر روز ستر ہزار فرشتے (عبادت کے لیے) داخل ہوتے ہیں، پھر کبھی دوبارہ اس میں واپس (آکر داخل) نہیں ہو سکتے، پھر جبریل مجھے سدرۃ المنتھیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کے درخت) کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھوں کے کانوں اور اس کے بیر مٹکوں کی طرح ہیں، جب اللہ کے حکم سے جس چیز نے اسے ڈھانپنا تھاڈھانپ لیا، تو وہ بدل گئی، اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی مخلوق نہیں جو اس کے حسن کا وصف بیان کر سکے، پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف سے وحی کی جو کی، اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں، میں اتر کر موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنےرب کے پاس واپس جائیں اور اس سے تخفیف کر درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت (کے لوگوں) کے پاس اس کی طاقت نہ ہو گی، میں بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور پرکھ چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو میں واپس اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کی: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف آیااور کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت کے پاس (اتنی نمازیں پڑھنے کی) طاقت نہ ہو گی۔اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ رضی اللہ عنہ کے درمیان آتا جاتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد!ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں اور (اجر میں) ہر نماز کے لیے دس ہیں، (اس طرح) یہ پچاس نمازیں ہیں اور جو کوئی ایک نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن عمل نہ کرے گا، اس کےلیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر وہ (اس ارادے پر) عمل کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو کوئی ایک برائی کا ارادہ کرے گا اور (وہ برائی) کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا اور اگر اسے کر لے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ نے فرمایا: میں اترا اور موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہیں خبر دی، انہوں نےکہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اس سے (مزید) تخفیف کی درخواست کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نےکہا: میں اپنے رب کے پاس (بار بار) واپس کیا حتی کہ میں اس سے شرمندہ ہو گیا ہوں۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: میرے پاس برّاق لایا گیا (وہ ایک سفید رنگ کا لمبا چوپایہ تھا۔ گدھے سے اونچا اور خچر سے کم (چھوٹا)، اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی) میں اس پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا اور اس کو اس حلقہ (کنڈے) سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں نکلا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا برتن لایا۔ میں نے دودھ کا انتخاب کیا (دودھ کو پسند کیا) تو جبریلؑ نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا۔ پھر وہ ہمیں لے کر آسمان کی طرف چڑھا، جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: تو کون ہے؟ جواب دیا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سوال ہوا: اسے بلوایا گیا ہے؟ کہا: بلایا گیا ہے۔ اس پر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں نے اچانک آدم علیہ السلام کو پایا، انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں دوسرے آسمان پر لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا جبریل ہوں۔ سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو اچانک میں نے دو خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحیٰ بن زکریا علیہم السلام کو پایا (اللہ ان دونوں پر رحمتیں برسائے) دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان پر لے گئے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا: جبریل ہوں! سوال ہوا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں طلب کیا گیا ہے؟ کہا، انھیں بلایا گیا ہے، تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات یوسف علیہ السلام سے ہوئی۔ انھیں حسن کا وافر حصہ ملا ہے۔ اس نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ جبرائیل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو سوال ہوا آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا: اور کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جواب دیا: انھیں بلایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور میری ملاقات ادریسؑ سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ اللہ کا فرمان ہے: ہم نے اسے بلند مقام عنایت کیا ہے۔ (مریم: 57) پھر ہمیں پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، تو جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل ہوں۔ سوال ہوا اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو میری ملاقات ہارون ؑ سے ہوئی انھوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔ پھر ہمیں چھٹے آسمان پر چڑھایا گیا۔ جبریلؑ نے دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل۔ سوال ہوا: اور آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: جی ہاں! انھیں بلوایا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میری ملاقات موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انھوں نے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھر وہ ساتویں آسمان پر چڑھ گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا: یہ کون ہے؟ کہا جبریل۔ سوال کیا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پوچھا گیا: کیا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہا انھیں پیغام بھیجا گیا ہے۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کو پاتا ہوں۔ انھوں نے اپنی پشت کی ٹیک بیت المعمور سے لگائی ہوئی ہے، اور وہ ایسا گھر ہے کہ اس میں ہر روز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، پھر ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر مجھے جبریل علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ (آخری سرحد پر واقع بیری کا درخت) کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں اور بیر مٹکوں کی طرح ہیں۔ تو جب اللہ کے حکم سےجس چیزنے اسے ڈھانپا، ڈھانپنا تو اس میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کو بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف جو چاہا وحی کی اور مجھ پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف اترا تو انھوں نےپوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ ؑ نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو، کیونکہ تیری امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہوں اور ان کو جانچ چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تو میں لوٹ کر اپنے رب کے پاس گیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میری امت کے لیے تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ ؑ کی طرف واپس آیا اور انھیں بتایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ انھوں نے کہا: تیری امت اتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے اور اس سےتخفیف کا سوال کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں اپنے رب تبارک و تعالیٰ اور موسیٰؑ کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! وہ ہر دن، رات میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے، اس طرح یہ پچاس نمازیں ہیں، اور جو انسان کسی نیکی کی نیت کر کے، کرے گا نہیں، اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ کرے گا تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جو برائی کا ارادہ کرے گا اور اسے کرے گا نہیں تو کچھ نہیں لکھا جائے گا، اور اگر کر گزرے گا تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اتر کر موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور انھیں خبر دی تو انھوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جاؤ اور اس سے تخفیف کی درخواست کرو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: میں بار بار اپنے رب کے پاس گیا ہوں حتیٰ کہ اس سے شرما گیا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (345)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 412
Save to word اعراب
حدثني عبد الله بن هاشم العبدي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتيت فانطلقوا بي إلى زمزم، فشرح عن صدري، ثم غسل بماء زمزم، ثم انزلت ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُتِيتُ فَانْطَلَقُوا بِي إِلَى زَمْزَمَ، فَشُرِحَ عَنْ صَدْرِي، ثُمَّ غُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُنْزِلْتُ ".
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس (فرشتے) آئے اور مجھے زمزم کے پاس لے گئے، میرا سینہ چاک کیا گیا، پھر زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر مجھے (واپس اپنی جگہ) اتارا دیا گیا۔ (یہ معراج سے فوراً پہلے کا واقعہ ہے۔)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس فرشتے آئے اور مجھے زمزم کے پاس لے گئے، میرا سینہ چاک کیا گیا، پھر زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا گیا یعنی جس جگہ سے اٹھایا تھا وہیں چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (413)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    28    29    30    31    32    33    34    35    36    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.