سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے، اور جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه، في الحدود، من شهر السلاح برقم (2575) انظر ((التحفة)) برقم (12692)»
وحدثني يحيى بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، قال ابن ايوب: حدثنا إسماعيل، قال: اخبرني العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر على صبرة طعام فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: " ما هذا يا صاحب الطعام؟ "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: " افلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش، فليس مني ".وحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ عَلَى صُبْرَةِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ "، قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ، فَلَيْسَ مِنِّي ".
علاء نےاپنے والد عبدالرحمن بن یعقوب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ” غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ” توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“(ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلّہ کے ایک ڈھیر سے گزرے تو اس میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا، اس سے آپؐ کی انگلیوں کو تری محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے غلّہ کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! رات اس پر بارش برسی تھی تو آپؐ نے فرمایا: ”تو نے اس بھیگے ہوئے غلّہ کواوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا وہ مجھ سے نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في البيوع، باب: في كراهية الفتن في البيوع، وقال: حدیث حسن صحيح برقم (1315) انظر ((التحفة)) برقم (13979)»
یحییٰ بن یحییٰ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابو معاویہ اور وکیع نے حدیث بیان کی، نیز (محمد بن عبد اللہ) ابن نمیر نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی، ان سب (ابو معاویہ، وکیع اور ابن نمیر) نے اعمش سے، انہوں نے عبد اللہ بن مرہ سے، انہو ں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کیا یا اہل جاہلیت کی طرح پکارا، وہ ہم میں سے نہیں۔“ یہ یحییٰ کی حدیث ہے (جو انہوں نے ابو معاویہ کے واسطے سے بیان کی۔) البتہ (محمد) ابن نمیر اور ابو بکر بن ابی شیبہ (جنہوں نے ابو معاویہ او روکیع دونوں سے روایت کی) نے ”او“ کے بجائے الف کے بغیر ’و، (”یا“ کےبجاےئ”اور“) کہا ہے۔
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کیا یا جاہلیت کی پکار پکاری، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ یہ یحییٰؒ کی حدیث ہے، لیکن ابنِ نمیرؒ اور ابوبکرؒ دونوں نے کہا: شَقَّ اور دَعَا الف کے بغیر (یعنی "او" کی جگہ "و" کہا۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب: ليس منا من ضرب الخدود برقم (1235 و 1236) وفى ((المناقب)) باب: ما ينهى من دعوى الجاهلية برقم (3331) والنسائي في ((المجتبى)) 19/4 في الجنائز، باب: دعوى الجاهلية، وابن ماجه في ((سننه)) في الجنائز، باب: ما جاء في النهى عن ضرب الخدود وشق الجيوب برقم (1584) انظر ((التحفة)) برقم (9569)»
قاسم بن مخیمرہ نے بیان کیا کہ مجھے ابو بردہ بن ابی موسیٰ (اشعری) نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا: ” حضرت ابو موسیٰ (اشعری) نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایسے شدید بیمار ہوئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی، ا ن کا سر ان کے اہل خانہ میں سے ایک عورت کی گود میں تھا، (اس موقع پر) ان کے اہل میں سے ایک عورت چیخنے لگی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ (شدید کمزوری کی وجہ سے) اسے کوی جواب نہ دے سکے۔ جب افاقہ ہوا تو کہنے لکے: میں اس بات سے بری ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت کا اظہار فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا کر ماتم کرنےوالی، سر منڈانے و الی اور گریبان چاک کرنے والی (عورتون) سے لا تعلقی کا اظہار فرمایا تھا۔
ابو بردہ بن ابی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ ؓ اس قدر شدید بیمار ہوئے کہ ان پر غشی طاری ہوگئی، اور ان کا سر ان کے خاندان کی کسی عورت کی گود میں تھا، تو ان کے خاندان کی ایک عورت چیخنے لگی۔ حضرت ابو موسیٰ (بے ہوشی کی وجہ سے) اس کو کچھ کہہ نہ سکے (منع نہ کر سکے) جب ہوش میں آئے، تو کہنے لگے: میں اس سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلّانے والی، سر منڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی سے براءت کا اظہا ر فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب ما ينهی عن الحلق عند المصيبة برقم (1234) انظر ((التحفة)) برقم (9125)»
ابو صخرہ نے عبد الرحمن بن یزید اور ابوبردہ بن ابی موسیٰ سے (حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں) ذکر کیا، ان دونوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پرغشی طاری ہو ئی اور ان کی بیوی ام عبد اللہ چیختے ہوئے رونے کی آواز نکالتی آئیں، کہا: پھر انہیں افاقہ ہوا تو اسے حدیث سناتے ہوئے بولے: کیا تو نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ میں اس سے بری ہوں جو (غم کے اظہار کے لیے) سرمونڈتے، چیخے چلائے اور کپڑے پھاڑے۔“
عبدالرحمٰن بن یزیدؒ اور ابو بردہؒ بن ابی موسیٰ اشعری دونوں نے بتایا: کہ ابو موسیٰؓ پر غشی طاری ہو گئی اور ان کی بیوی ام عبد اللہ بلند آواز سے روتی ہوئی آئی۔ دونوں نے کہا: پھر انھیں ہوش آیا تو انھوں نے کیا کہا: تمھیں معلوم نہیں ہے وہ حدیث اسے بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سر منڈانے والے، چلانے والے اور کپڑے پھاڑنے والے سے بیزار ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في الجنائز، باب: الحلق 18/4 - وابن ماجه في ((سننه)) في الجنائز، باب: ما جاء في النهى عن ضرب الخدود وشق الجيوب برقم (1586) انظر ((التحفة)) برقم (9020 و 9081)»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت بھی ایسی ہی ہے اس میں یوں ہے: ” ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جو یہ کام کرے۔“ اور یہ نہیں کہا کہ ”بیزار ہوں۔ “
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبي)) 21/4 في الجنائز، باب: شق الجيوب عن أبي موسی عن طريق امراته ام عبدالله - انظر ((التحفة)) برقم (9153)»
ابووائل نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی کہ ان کو پتہ چلا کہ ایک آدمی (لوگوں کی باہمی) بات چیت کی چغلی کھاتا ہے توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: ” چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حضرت حذیفہ ؓ کو پتا چلا ایک آدمی لگائی بجھائی کرتا ہے تو حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ”چغل خور جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3347)»
منصور نے ابراہیم سے اور انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی (لوگوں کی) باتیں حاکم تک پہنچاتا تھا، ہم مسجد میں بیٹھے ہوئےتھے تو لوگوں نے کہا: یہ ان میں سے ہے جو باتیں حاکم تک پہنچاتے ہیں۔ (ہمام نے) نےکہا: وہ شخص آیا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ” چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔“
ہمام بن حارثؒ بیان کرتے ہیں: کہ ایک آدمی لوگوں کی باتیں حاکم تک پہنچاتا تھا، ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، تو لوگوں نے کہا: یہ ان میں سے ہے جو باتیں حاکم تک پہنچاتے ہیں، اور وہ آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ حذیفہ ؓ فرمانے لگے میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ”لگائی بجھائی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري ((صحيحه)) في الادب، باب: ما يكره من النميمة برقم (5709) وابوداؤد في ((سننه)) في الادب، باب: في القتات برقم (4871) والترمذي في ((جامعه)) في البر والصلة باب: ما جاء في النمام، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2026) انظر ((التحفة)) برقم (3386)»
اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتایا گیاکہ یہ شخص (لوگوں کی) باتیں حکمران تک پہنچاتا ہے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے سنانے کی غرض سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ” چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔“
ہمام بن حارثؒ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ حذیفہ ؓ کو بتایا گیا کہ یہ انسان بادشاہ تک لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے، تو حذیفہ ؓ نے اس کو سنانے کے لیے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ: ”چغل خور جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (287)»