ایک خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کے درمیان سعی فرما رہے تھے اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرماتے جا رہے تھے کہ سعی کرو، کیونکہ اللہ نے تم پر سعی کو واجب قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال موسي بن عبيد
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا محمد بن إسحاق , عن ضمرة بن سعيد , عن جدته , عن امراة من نسائهم وكانت قد صلت القبلتين مع النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " اختضبي , تترك إحداكن الخضاب , حتى تكون يدها كيد الرجل" , قالت: فما تركت الخضاب حتى لقيت الله تعالى , وإن كانت لتختضب وهي بنت ثمانين.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنِ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ جَدَّتِهِ , عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِمْ وَكَانَتْ قَدْ صَلَّتْ الْقِبْلَتَيْنِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " اخْتَضِبِي , تَتْرُكُ إِحْدَاكُنَّ الْخِضَابَ , حَتَّى تَكُونَ يَدُهَا كَيَدِ الرَّجُلِ" , قَالَتْ: فَمَا تَرَكَتْ الْخِضَابَ حَتَّى لَقِيَتْ اللَّهَ تَعَالَى , وَإِنْ كَانَتْ لَتَخْتَضِبُ وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِينَ.
ایک خاتون (جنہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے) کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: م”ہندی لگایا کرو، تم لوگ مہندی لگانا چھوڑ دیتی ہو اور تمہارے ہاتھ مردوں کے ہاتھ کی طرح ہو جاتے ہیں“، میں نے اس کے بعد سے مہندی لگانا کبھی نہیں چھوڑی اور میں ایسا ہی کروں گی تاآنکہ اللہ سے جا ملوں، راوی کہتے ہیں کہ وہ اسی سال کی عمر میں بھی مہندی لگایا کرتی تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة ابن إسحاق ، وابن ضمرة بن سعيد، كذا وقع فى النسخ عندنا ، وفي النسخ المعتمدة: محمد بن إسحاق عن ضمرة بن سعيد، ليس فيه: "ابن" وهو الصواب
حضرت ام مسلم اشجعیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، وہ اس وقت قبے میں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنا اچھا تھا جبکہ اس میں کوئی مردار نہ ہوتا، وہ کہتی کہ یہ سن کر میں اسے تلاش کرنے لگی۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام الراوي عن أم مسلم الأشجعية
حدثنا إبراهيم بن ابي العباس , ويونس بن محمد , قالا: حدثنا عبد الرحمن بن عثمان , قال إبراهيم بن ابي العباس ابن إبراهيم بن محمد بن حاطب: قال: حدثني ابي , عن جده محمد بن حاطب , عن امه ام جميل بنت المجلل , قالت: اقبلت بك من ارض الحبشة , حتى إذا كنت من المدينة على ليلة , او ليلتين , طبخت لك طبيخا , ففني الحطب , فخرجت اطلبه , فتناولت القدر , فانكفات على ذراعك , فاتيت بك النبي صلى الله عليه وسلم , فقلت: بابي انت وامي يا رسول الله , هذا محمد بن حاطب , فتفل في فاك , ومسح على راسك , ودعا لك , وجعل يتفل على يدك , ويقول: " اذهب الباس رب الناس , واشف وانت الشافي , لا شفاء إلا شفاؤك , شفاء لا يغادر سقما" , قالت: فما قمت بك من عنده حتى برات يدك .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ , وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ , قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ابْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ: قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ جَدِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ , عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَمِيلٍ بِنْتِ الْمُجَلِّلِ , قَالَتْ: أَقْبَلْتُ بِكَ مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ , حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى لَيْلَةٍ , أَوْ لَيْلَتَيْنِ , طَبَخْتُ لَكَ طَبِيخًا , فَفَنِيَ الْحَطَبُ , فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ , فَتَنَاوَلْتُ الْقِدْرَ , فَانْكَفَأَتْ عَلَى ذِرَاعِكَ , فَأَتَيْتُ بِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ , فَتَفَلَ فِي فَاكَ , وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِكَ , وَدَعَا لَكَ , وَجَعَلَ يَتْفُلُ عَلَى يَدِكَ , وَيَقُولُ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ , وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي , لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ , شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا" , قَالَتْ: فَمَا قُمْتُ بِكَ مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى بَرَأَتْ يَدُكَ .
حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کی والدہ ام جمیل کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں تمہیں سرزمین حبشہ سے لے کر آ رہی تھی، جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لئے کھانا پکانا شروع کیا، اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہو گئیں، میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ الٹ کر تمہارے بازو پر گر گئی، میں تمہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ محمد بن حاطب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لئے دعا فرمائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: «أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ , وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي , لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ , شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا»”اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما اور شفاء عطا فرما کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کسی کی شفاء نہیں ہے، ایسی شفاء عطاء فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے“، میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لے کر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن عثمان، وروي عن ابيه عثمان احاديث منكرة
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں فاطمہ بنت علی کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا کہ مجھے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے نسبت تھی، البتہ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس تشریف لا کر فرمایا: ”تین دن تک سوگ کے کپڑے پہننا، پھر جو چاہو کرنا۔“ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري , قال: اخبرني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام , عن اسماء بنت عميس , قالت: اول ما اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة , فاشتد مرضه حتى اغمي عليه , فتشاور نساؤه في لده , فلدوه , فلما افاق , قال:" ما هذا؟" , فقلنا: هذا فعل نساء جئن من هاهنا , واشار إلى ارض الحبشة , وكانت اسماء بنت عميس فيهن , قالوا: كنا نتهم فيك ذات الجنب يا رسول الله , قال: " إن ذلك لداء ما كان الله عز وجل ليقرفني به , لا يبقين في هذا البيت احد إلا التد إلا عم رسول الله صلى الله عليه وسلم" , يعني العباس , قال: فلقد التدت ميمونة يومئذ وإنها لصائمة , لعزمة رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ , عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ , قَالَتْ: أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ , فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ حَتَّى أُغْمِيَ عَلَيْهِ , فَتَشَاوَرَ نِسَاؤُهُ فِي لَدِّهِ , فَلَدُّوهُ , فَلَمَّا أَفَاقَ , قَالَ:" مَا هَذَا؟" , فَقُلْنَا: هَذَا فِعْلُ نِسَاءٍ جِئْنَ مِنْ هَاهُنَا , وَأَشَارَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ , وَكَانَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ فِيهِنَّ , قَالُوا: كُنَّا نَتَّهِمُ فِيكَ ذَاتَ الْجَنْبِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " إِنَّ ذَلِكَ لَدَاءٌ مَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيَقْرَفُنِي بِهِ , لَا يَبْقَيَنَّ فِي هَذَا الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلَّا الْتَدَّ إِلَّا عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , يَعْنِي الْعَبَّاسَ , قَالَ: فَلَقَدْ الْتَدَّتْ مَيْمُونَةُ يَوْمَئِذٍ وَإِنَّهَا لَصَائِمَةٌ , لِعَزْمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بیمار ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھتا گیا، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہوشی طاری ہو گئی، ازواجِ مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک میں دوا ڈالنے کے لئے باہم مشورہ کیا، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک میں دوا ڈال دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب افاقہ ہو گیا، تو پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ ہم نے عرض کیا کہ یہ آپ کی ازواجِ مطہرات کا کام ہے جو یہاں سے آئی ہیں اور ارض حبشہ کی طرف اشارہ کیا، ان میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا خیال تھا کہ آپ کو ذات الجنت کی بیماری کا عارضہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی بیماری ہے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے مبتلا نہیں کرے گا، اس گھر میں کوئی بھی آدمی ایسا نہ رہے جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی جائے، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے، چنانچہ اس دن حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے منہ میں دوا ڈالی گئی، حالانکہ وہ اس دن روزے سے تھیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید سے اس کا حکم دیا تھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! جعفر کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے، کیا میں ان پر دم کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عروة بن عامر، وعبيد بن رفاعة مختلف فى صحبته
حدثنا عثمان بن عمر , قال: حدثنا يونس يعنى ابن يزيد الايلي , قال: حدثنا ابو شداد , عن مجاهد , عن اسماء بنت عميس , قالت: كنت صاحبة عائشة التي هياتها وادخلتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعي نسوة , قالت: فوالله ما وجدنا عنده قرى إلا قدحا من لبن , قالت: فشرب منه , ثم ناوله عائشة , فاستحيت الجارية , فقلنا: لا تردي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم , خذي منه , فاخذته على حياء , فشربت منه , ثم قال: ناولي صواحبك" , فقلنا: لا نشتهه , فقال:" لا تجمعن جوعا وكذبا" , قالت: فقلت: يا رسول الله , إن قالت إحدانا لشيء تشتهيه لا اشتهيه , يعد ذلك كذبا؟ قال: " إن الكذب يكتب كذبا حتى تكتب الكذيبة كذيبة" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِى ابْنَ يَزِيدَ الْأَيْلِيَّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو شَدَّادٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ , قَالَتْ: كُنْتُ صَاحِبَةَ عَائِشَةَ الَّتِي هَيَّأَتْهَا وَأَدْخَلَتْهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي نِسْوَةٌ , قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا عِنْدَهُ قِرًى إِلَّا قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ , قَالَتْ: فَشَرِبَ مِنْهُ , ثُمَّ نَاوَلَهُ عَائِشَةَ , فَاسْتَحْيَتْ الْجَارِيَةُ , فَقُلْنَا: لَا تَرُدِّي يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , خُذِي مِنْهُ , فَأَخَذَتْهُ عَلَى حَيَاءٍ , فَشَرِبَتْ مِنْهُ , ثُمَّ قَالَ: نَاوِلِي صَوَاحِبَكِ" , فَقُلْنَا: لَا نَشْتَهِهِ , فَقَالَ:" لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنْ قَالَتْ إِحْدَانَا لِشَيْءٍ تَشْتَهِيهِ لَا أَشْتَهِيهِ , يُعَدُّ ذَلِكَ كَذِبًا؟ قَالَ: " إِنَّ الْكَذِبَ يُكْتَبُ كَذِبًا حَتَّى تُكْتَبَ الْكُذَيْبَةُ كُذَيْبَةً" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کرنے والی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں، واللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم نے مہمان نوازی کے لئے دودھ کے ایک پیالے کے علاوہ کچھ نہیں پایا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود نوش فرمایا، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ پیالہ پکڑا دیا، وہ شرما گئیں، ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ واپس نہ لوٹاؤ، بلکہ یہ برتن لے لو، چنانچہ انہوں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی سہیلیوں کو دے دو“، ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا مت کرو“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم میں سے کوئی عورت کسی چیز کی خواہش رکھتی ہو اور وہ کہہ دے مجھے خواہش نہیں ہے تو کیا اسے جھوٹ میں شمار کیا جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹ کو جھوٹ لکھا جاتا ہے اور چھوٹے جھوٹ کو چھوٹا جھوٹ لکھا جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى شداد، ومجاهد لم يسمع من أسماء بنت عميس
حدثنا محمد بن جعفر , قال: حدثنا شعبة , عن حبيب رجل من الانصار , عن مولاة لهم يقال لها: ليلى , تحدث , عن جدتي وهي ام عمارة بنت كعب , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها , فقربت إليه طعاما , فقال لها:" كلي" , فقالت: إني صائمة , فقال: " إن الملائكة تصلي على الصائم إذا اكل عنده حتى يفرغوا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ حَبِيبٍ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ , عَنْ مَوْلَاةٍ لَهُمْ يُقَالُ لَهَا: لَيْلَى , تُحَدِّثُ , عَنْ جَدَّتِي وَهِيَ أُمُّ عُمَارَةَ بِنْتُ كَعْبٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا , فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ طَعَامًا , فَقَالَ لَهَا:" كُلِي" , فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ , فَقَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُصَلِّي عَلَى الصَّائِمِ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ حَتَّى يَفْرُغُوا" .
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھجوریں پیش کیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بھی کھاؤ“، میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی روزے دار کے سامنے روزہ توڑنے والی چیز کھائی جا رہی ہو تو ان کے اٹھنے تک فرشتے اس روزے دار کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ليلي مولاة حبيب، وقد اختلف على شعبة فيه