حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ریشمی لباس پہنتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے آگ کا لباس پہنائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده مسلسل بالضعفاء والمجاهيل على نسق
حدثنا هاشم , حدثنا ليث بن سعد , حدثني ابن شهاب , قال: إن عبيد بن السباق يزعم , ان جويرية زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها , فقال:" هل من طعام؟" , قالت: لا والله , ما عندنا طعام إلا عظما من شاة اعطيتها مولاتي من الصدقة , فقال صلى الله عليه وسلم: " قربيه , فقد بلغت محلها" .حَدَّثَنَا هاشم , حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ , قَالَ: إِنَّ عُبَيْدَ بْنَ السَّبَّاقِ يَزْعُمُ , أَنَّ جُوَيْرِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا , فَقَالَ:" هَلْ مِنْ طَعَامٍ؟" , قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ , مَا عِنْدَنَا طَعَامٌ إِلَّا عَظْمًا مِنْ شَاةٍ أُعْطِيَتْهَا مَوْلَاتِي مِنَ الصَّدَقَةِ , فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَرِّبِيهِ , فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، البتہ نسیبہ نے ہمارے یہاں اسی بکری کا کچھ حصہ بھیجا ہے جو آپ نے ان کے یہاں بھیجی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی، اب اسے لے آؤ۔“
حدثنا عفان , حدثنا همام , حدثنا قتادة , حدثني ابو ايوب العتكي , عن جويرية بنت الحارث , قالت: إن النبي صلى الله عليه وسلم , دخل عليها يوم جمعة وهي صائمة , فقال لها: " اصمت امس؟" , قالت: لا , قال:" اتريدين ان تصومي غدا؟" , قالت: لا , قال:" فافطري" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , حَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْعَتَكِيُّ , عَنْ جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ , قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمَ جُمُعَةٍ وَهِيَ صَائِمَةٌ , فَقَالَ لَهَا: " أَصُمْتِ أَمْس؟" , قَالَتْ: لَا , قَالَ:" أَتُرِيدِينَ أَنْ تَصُومِي غَدًا؟" , قَالَتْ: لَا , قَالَ:" فَأَفْطِرِي" .
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن ”جبکہ وہ روزے سے تھیں“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آئندہ کل کا روزہ رکھو گی؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اپنا روزہ ختم کر دو۔“
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , وحجاج , حدثني شعبة , قال: سمعت قتادة , يحدث , عن انس بن مالك , عن ام سليم , انها قالت: يا رسول الله , انس خادمك , ادع الله له , قال: فقال صلى الله عليه وسلم: " اللهم اكثر ماله وولده , بارك له فيما اعطيته" , قال حجاج في حديثه: قال: فقال انس: اخبرني بعض ولدي , انه قد دفن من ولدي , وولد ولدي اكثر من مائة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , وَحَجَّاجٌ , حَدَّثَنِي شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ , يُحَدِّثُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ , أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَسٌ خَادِمُكَ , ادْعُ اللَّهَ لَهُ , قَالَ: فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ , َبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ" , قَالَ حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: فَقَالَ أَنَسٌ: أَخْبَرَنِي بَعْضُ وَلَدِي , أَنَّهُ قَدْ دُفِنَ مِنْ وَلَدِي , وَوَلَدِ وَلَدِي أَكْثَرُ مِنْ مِائَةٍ.
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! انس آپ کا خادم ہے، اس کے لئے اللہ سے دعا کر دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں اضافہ فرما اور جو کچھ اس کو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت عطاء فرما“، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی اولاد میں سے کسی نے بتایا ہے کہ اب تک میرے بیٹوں اور پوتوں میں سے سو سے زیادہ افراد دفن ہو چکے ہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر , وروح المعنى , قالا: حدثنا سعيد , عن قتادة , عن عكرمة ، انه كان بين ابن عباس، وزيد بن ثابت في المراة تحيض بعدما تطوف بالبيت يوم النحر مقاولة في ذلك , فقال زيد: لا تنفر حتى يكون آخر عهدها بالبيت , وقال ابن عباس: وإذا طافت يوم النحر , وحلت لزوجها , نفرت إن شاءت , ولا تنتظر , فقالت الانصار: يا ابن عباس , إنك إذا خالفت زيدا لم نتابعك , فقال ابن عباس: سلوا ام سليم , فسالوها عن ذلك , فاخبرت ان صفية بنت حيي بن اخطب اصابها ذلك , فقالت عائشة: الخيبة لك , حبستينا , فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فامرها ان تنفر , واخبرت ام سليم انها لقيت ذلك , " فامرها رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تنفر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , وَرَوْحٌ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عِكْرِمَةَ ، أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي الْمَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَمَا تَطُوفُ بِالْبَيْتِ يَوْمَ النَّحْرِ مُقَاوَلَةٌ فِي ذَلِكَ , فَقَالَ زَيْدٌ: لَا تَنْفِرُ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهَا بِالْبَيْتِ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وإِذَا طَافَتْ يَوْمَ النَّحْرِ , وَحَلَّتْ لِزَوْجِهَا , نَفَرَتْ إِنْ شَاءَتْ , وَلَا تَنْتَظِرُ , فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ , إِنَّكَ إِذَا خَالَفْتَ زَيْدًا لَمْ نُتَابِعْكَ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَلُوا أُمَّ سُلَيْمٍ , فَسَأَلُوهَا عَنْ ذَلِكَ , فَأَخْبَرَتْ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ أَصَابَهَا ذَلِكَ , فَقَالَتْ عَائِشَةُ: الْخَيْبَةُ لَكِ , حَبَسْتِينَا , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْفِرَ , وَأَخْبَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ أَنَّهَا لَقِيَتْ ذَلِكَ , " فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَنْفِرَ" .
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان اس عورت کے حوالے سے اختلاف رائے ہو گیا جو دس ذی الحجہ کو طواف زیارت کر لے اور اس کے فوراً بعد ہی اسے ”ایام“ شروع ہو جائیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جب تک وہ طواف وداع نہ کر لے واپس نہیں جا سکتی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ اگر وہ دس دی الحجہ کو طواف کر چکی ہے اور اپنے خاوند کے لئے حلال ہو چکی ہے تو وہ اگر چاہے تو واپس جا سکتی ہے اور انتظار نہ کرے، انصار کہنے لگے: اے ابن عباس! اگر آپ کسی مسئلے میں زید سے اختلاف کریں گے تو ہم اس میں آپ کی پیروی نہیں کریں گے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس کے متعلق حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہائے افسوس! تم ہمیں روکو گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوچ کا حکم دیا اور خود حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق بتایا کہ انہیں بھی یہی کیفیت پیش آ گئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی کوچ کا حکم دے دیا تھا۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، ان کے گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس مشکیزے سے منہ لگا کر پانی پیا، بعد میں میں نے اس مشکیزے کا منہ (جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ لگا کر پانی پیا تھا) کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا۔
حدثنا يعلى , ومحمد , قالا: حدثنا عثمان بن حكيم , عن عمرو الانصاري , عن ام سليم بنت ملحان وهي ام انس بن مالك , قال محمد: اخبرته , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة اولاد لم يبلغوا الحنث , إلا ادخلهما الله الجنة بفضل رحمته" , قالها ثلاثا , قيل: يا رسول الله , واثنان؟ قال:" واثنان" .حَدَّثَنَا يَعْلَى , وَمُحَمَّدٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ , عَنْ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ بِنْتِ مِلْحَانَ وَهِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ مُحَمَّدٌ: أَخْبَرَتْهُ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ لَهُمَا ثَلَاثَةُ أَوْلَادٍ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ , إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ" , قَالَهَا ثَلَاثًا , قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَاثْنَانِ؟ قَالَ:" وَاثْنَانِ" .
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مسلمان آدمی جس کے تین نابالغ بچے فوت ہو گئے ہوں، اللہ ان بچوں کے ماں باپ کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخلہ عطاء فرمائے گا“، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر دو ہوں تو؟ فرمایا: ”دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو الأنصاري
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے، ان کے گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس مشکیزے سے منہ لگا کر پانی پیا، بعد میں میں نے اس مشکیزے کا منہ (جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ لگا کر پانی پیا تھا) کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا۔
حدثنا روح , حدثنا ابن جريج , قال: وقال عكرمة بن خالد , عن زيد , وابن عباس , قال ابن عباس لزيد: فاسال نساءك: ام سليم وصواحبها , هل امرهن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فسالهن زيد , فقلن: نعم , قد امرنا بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: وَقَالَ عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ زَيْدٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِزَيْدٍ: فَاسْأَلْ نِسَاءَكَ: أُمَّ سُلَيْمٍ وَصَوَاحِبَهَا , هَلْ أَمَرَهُنّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَسَأَلَهُنَّ زَيْدٌ , فَقُلْنَ: نَعَمْ , قَدْ أَمَرَنَا بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زید بن ثابٹ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان اس عورت کے حوالے سے اختلاف رائے ہو گیا جو دس ذی الحجہ کو طواف زیارت کر لے اور اس کے فوراً بعد ہی اسے ”ایام“ شروع ہو جائیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس کے متعلق حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ظاهرة الانقطاع، ابن جريج لم يصرح بسماعه من عكرمة، وعكرمة لم يسمع من ابن عباس
حدثنا عبد الصمد , حدثنا هشام , عن قتادة , عن عكرمة , قال: إن زيد بن ثابت وابن عباس اختلفا في المراة تحيض بعد الزيارة في يوم النحر بعدما طافت بالبيت , فقال زيد: يكون آخر عهدها الطواف بالبيت , وقال ابن عباس: تنفر إن شاءت , فقال الانصار: لا نتابعك يا ابن عباس , وانت تخالف زيدا , وقال: واسالوا صاحبتكم ام سليم , فقالت: حضت بعدما طفت بالبيت يوم النحر , فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان انفر , وحاضت صفية , فقالت لها عائشة: الخيبة لك , إنك لحابستنا , فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" مروها فلتنفر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عِكْرِمَةَ , قَالَ: إِنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَابْنَ عَبَّاسٍ اخْتَلَفَا فِي الْمَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الزِّيَارَةِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ بَعْدَمَا طَافَتْ بِالْبَيْتِ , فَقَالَ زَيْدٌ: يَكُونُ آخِرَ عَهْدِهَا الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَنْفِرُ إِنْ شَاءَتْ , فَقَالَ الْأَنْصَارُ: لَا نُتَابِعُكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ , وَأَنْتَ تُخَالِفُ زَيْدًا , وَقَالَ: وَاسْأَلُوا صَاحِبَتَكُمْ أُمَّ سُلَيْمٍ , فَقَالَتْ: حِضْتُ بَعْدَمَا طُفْتُ بِالْبَيْتِ يَوْمَ النَّحْرِ , فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَنْفِرَ , وَحَاضَتْ صَفِيَّةُ , فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: الْخَيْبَةُ لَكِ , إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" مُرُوهَا فَلْتَنْفِرْ" .
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان اس عورت کے حوالے سے اختلاف رائے ہو گیا جو دس ذی الحجہ کو طواف زیارت کر لے اور اس کے فوراً بعد ہی اسے ”ایام“ شروع ہو جائیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جب تک وہ طواف وداع نہ کر لے واپس نہیں جا سکتی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ اگر وہ دس دی الحجہ کو طواف کر چکی ہے اور اپنے خاوند کے لئے حلال ہو چکی ہے تو وہ اگر چاہے تو واپس جا سکتی ہے اور انتظار نہ کرے، انصار کہنے لگے: اے ابن عباس! اگر آپ کسی مسئلے میں زید سے اختلاف کریں گے تو ہم اس میں آپ کی پیروی نہیں کریں گے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس کے متعلق حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھا: تو انہوں نے بتایا کہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہائے افسوس! تم ہمیں روکو گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوچ کا حکم دیا اور خود حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق بتایا کہ انہیں بھی یہی کیفیت پیش آ گئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی کوچ کا حکم دے دیا تھا۔