حدثنا عفان , حدثنا همام ، قال: حدثنا محمد بن جحادة ، قال: حدثني المغيرة بن عبد الله اليشكري ، عن ابيه ، قال: انطلقت إلى الكوفة لاجلب بغالا، قال: فاتيت السوق ولم تقم، قال: قلت: لصاحب لي: لو دخلنا المسجد وموضعه يومئذ في اصحاب التمر، فإذا فيه رجل من قيس، يقال له: ابن المنتفق ، وهو يقول: وصف لي رسول الله صلى الله عليه وسلم وحلي، فطلبته بمكة فقيل لي: هو بمنى فطلبته بمنى، فقيل لي، هو بعرفات، فانتهيت إليه , فزاحمت عليه، فقيل لي: إليك عن طريق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " دعوا الرجل ارب ما له"، قال: فزاحمت عليه حتى خلصت إليه، قال: فاخذت بخطام راحلة رسول الله صلى الله عليه وسلم او قال: زمامها هكذا حدث محمد , حتى اختلفت اعناق راحلتينا، قال: فما يزعني رسول الله صلى الله عليه وسلم او قال: ما غير علي , هكذا حدث محمد، قال: قلت: ثنتان اسالك عنهما: ما ينجيني من النار، وما يدخلني الجنة؟ قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السماء، ثم نكس راسه، ثم اقبل علي بوجهه، قال:" لئن كنت اوجزت في المسالة، لقد اعظمت واطولت، فاعقل عني إذا: اعبد الله لا تشرك به شيئا، واقم الصلاة المكتوبة، واد الزكاة المفروضة، وصم رمضان، وما تحب ان يفعله بك الناس، فافعله بهم، وما تكره ان ياتي إليك الناس، فذر الناس منه"، ثم قال:" خل سبيل الراحلة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ إِلَى الْكُوفَةِ لِأَجْلِبَ بِغَالًا، قَالَ: فَأَتَيْتُ السُّوقَ وَلَمْ تُقَمْ، قَالَ: قُلْتُ: لِصَاحِبٍ لِي: لَوْ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ وَمَوْضِعُهُ يَوْمَئِذٍ فِي أَصْحَابِ التَّمْرِ، فَإِذَا فِيهِ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْمُنْتَفِقِ ، وَهُوَ يَقُولُ: وُصِفَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحُلِّيَ، فَطَلَبْتُهُ بمكة فقيل لي: هو بمنى فطلبته بِمِنًى، فَقِيلَ لِي، هُوَ بِعَرَفَاتٍ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ , فَزَاحَمْتُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لِي: إِلَيْكَ عَنْ طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعُوا الرَّجُلَ أَرِبَ مَا لَهُ"، قَالَ: فَزَاحَمْتُ عَلَيْهِ حَتَّى خَلَصْتُ إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِخِطَامِ رَاحِلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ: زِمَامِهَا هَكَذَا حَدَّثَ مُحَمَّدٌ , حَتَّى اخْتَلَفَتْ أَعْنَاقُ رَاحِلَتَيْنَا، قَالَ: فَمَا يَزَعُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ: مَا غَيَّرَ عَلَيَّ , هَكَذَا حَدَّثَ مُحَمَّدٌ، قَالَ: قُلْتُ: ثِنْتَانِ أَسْأَلُكَ عَنْهُمَا: مَا يُنَجِّينِي مِنَ النَّارِ، وَمَا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ؟ قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ نَكَسَ رَأْسَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ بِوَجْهِهِ، قَالَ:" لَئِنْ كُنْتَ أَوْجَزْتَ فِي الْمَسْأَلَةِ، لَقَدْ أَعْظَمْتَ وَأَطْوَلْتَ، فَاعْقِلْ عَنِّي إِذًا: اعْبُدْ اللَّهَ لَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَأَقِمْ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَأَدِّ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَصُمْ رَمَضَانَ، وَمَا تُحِبُّ أَنْ يَفْعَلَهُ بِكَ النَّاسُ، فَافْعَلْهُ بِهِمْ، وَمَا تَكْرَهُ أَنْ يَأْتِيَ إِلَيْكَ النَّاسُ، فَذَرْ النَّاسَ مِنْهُ"، ثُمَّ قَالَ:" خَلِّ سَبِيلَ الرَّاحِلَةِ" .
عبداللہ یشکری کہتے ہیں کہ جب کوفہ کی جامع مسجد پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو میں وہاں گیا، اس وقت وہاں کھجوروں کے درخت بھی تھے اور اس کی دیواریں ریت جیسی مٹی کی تھیں وہاں ایک صاحب جن کا نام ابن منتفق تھا، یہ حدیث بیان کرنے لگے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کی خبر ملی تو میں نے اپنے اونٹوں میں سے ایک قابل سواری اونٹ چھانٹ کر نکالا اور روانہ ہو گیا، یہاں تک کہ عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حلیہ کی وجہ سے پہچان لیا۔ اسی دوران ایک آدمی جو ان سے آگے تھا، کہنے لگا کہ سواریوں کے راستے سے ہٹ جاؤ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی کام ہو، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہوا کہ دونوں سواریوں کے سر ایک دوسرے کے قریب آ گئے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واہ واہ! تم نے اگرچہ بہت مختصر لیکن بہت عمدہ سوال کیا، اگر تم سجھ دار ہوئے تو تم صرف اللہ کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا، اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔“
حدثنا وكيع ، عن عمرو بن حسان يعني المسلي ، قال: حدثني المغيرة بن عبد الله اليشكري ، عن ابيه ، قال: دخلت مسجد الكوفة اول ما بني مسجدها، وهو في اصحاب التمر يومئذ، وجدره من سهلة، فإذا رجل يحدث الناس , قال: بلغني حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع، قال: فاستتبعت راحلة من إبلي، ثم خرجت حتى جلست له في طريق عرفة او وقفت له في طريق عرفة، قال: فإذا ركب عرفت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم بالصفة، فقال رجل امامه: خل عن طريق الركاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ويحه فارب له"، فدنوت منه حتى اختلفت راس الناقتين، قال: قلت: يا رسول الله، دلني على عمل يدخلني الجنة، وينجيني من النار، قال: " بخ بخ، لئن كنت قصرت في الخطبة، لقد ابلغت في المسالة، اتق الله، لا تشرك بالله شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة وتحج البيت، وتصوم رمضان، خل عن طريق الركاب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَسَّانَ يَعْنِي الْمَسْلِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْكُوفَةِ أَوَّلَ مَا بُنِيَ مَسْجِدُهَا، وَهُوَ فِي أَصْحَابِ التَّمْرِ يَوْمَئِذٍ، وَجُدُرُهُ مِنْ سِهْلَةٍ، فَإِذَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ النَّاسَ , قَالَ: بَلَغَنِي حَجَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةُ الْوَدَاعِ، قَالَ: فَاسْتَتْبَعْتُ رَاحِلَةً مِنْ إِبِلِي، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى جَلَسْتُ لَهُ فِي طَرِيقِ عَرَفَةَ أَوْ وَقَفْتُ لَهُ فِي طَرِيقِ عَرَفَةَ، قَالَ: فَإِذَا رَكْبٌ عَرَفْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ بِالصِّفَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ أَمَامَهُ: خَلِّ عَنْ طَرِيقِ الرِّكَابِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَيْحَه فَأَرِب َلَهُ"، فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى اخْتَلَفَتْ رَأْسُ النَّاقَتَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، وَيُنَجِّينِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: " بَخٍ بَخٍ، لَئِنْ كُنْتَ قَصَّرْتَ فِي الْخُطْبَةِ، لَقَدْ أَبْلَغْتَ فِي الْمَسْأَلَةِ، اتَّقِ اللَّهَ، لَا تُشْرِكْ بالله شيئًاِ، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، خَلِّ عَنْ طَرِيقِ الرِّكَابِ" .
عبداللہ یشکری کہتے ہیں کہ جب کوفہ کی جامع مسجد پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو میں وہاں گیا، اس وقت وہاں کھجوروں کے درخت بھی تھے اور اس کی دیواریں ریت جیسی مٹی کی تھیں وہاں ایک صاحب یہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کی خبر ملی تو میں نے اپنے اونٹوں میں سے ایک قابل سواری اونٹ چھانٹ کر نکالا اور روانہ ہو گیا، یہاں تک کہ عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حلیہ کی وجہ سے پہچان لیا۔ اسی دوران ایک آدمی جو ان سے آگے تھا، کہنے لگا کہ سواریوں کے راستے سے ہٹ جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی کام ہو، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہوا کہ دونوں سواریوں کے سر ایک دوسرے کے قریب آ گئے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واہ واہ! تم نے اگرچہ بہت مختصر لیکن بہت عمدہ سوال کیا، اگر تم سجھ دار ہوئے تو تم صرف اللہ کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا، اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔“
حضرت ابوسعید خدری اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کا گوشت کھا بھی سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔“
حضرت ابوسعید خدری اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں پہلے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے کی ممانعت کی تھی، اب تم قربانی کا گوشت کھا بھی سکتے ہو اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔“
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے کسی موقع پر قریشی لوگوں کی شان میں سخت کلمات کہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سن لئے اور فرمایا: اے قتادہ! قریش کو برا بھلا مت کہا کرو، کیونکہ تم ان میں سے بہت سے آدمیوں کو دیکھو گے اور ان کے اعمال کے سامنے اپنے عمل کو اور ان کے افعال کے سامنے اپنے فعل کو حقیر سمجھو گے اور جب انہیں دیکھو گے تو ان پر رشک کرو گے، اگر قریش کے سرکشی میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں بتاتا کہ اللہ کے یہاں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناداه ضعيفان: الأول الانقطاعه ، محمد بن إبراهيم لم يسمع من قتادة، والثاني: فيه عمر بن قتادة، وهو مجهول
حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن ابي شريح الخزاعي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه، من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليحسن إلى جاره، من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا، او ليصمت" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا، أَوْ لِيَصْمُتْ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، قال: حدثنا ابن ابي ذئب ، قال: حدثنا سعيد يعني المقبري ، قال: سمعت ابا شريح الكعبي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة: " إن الله عز وجل حرم مكة، ولم يحرمها الناس، فمن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا يسفكن فيها دما، ولا يعضدن فيها شجرا، فإن ترخص مترخص , فقال: احلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن الله احلها لي، ولم يحلها للناس، وهي ساعتي هذه حرام إلى ان تقوم الساعة، إنكم معشر خزاعة قتلتم هذا القتيل، وإني عاقله، فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه، فاهله بين خيرتين، إما ان يقتلوا، او ياخذوا العقل" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، قالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي الْمَقْبُرِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا، فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ , فَقَالَ: أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي، وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ، وَهِيَ سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ، وَإِنِّي عَاقِلُهُ، فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ، فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ، إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا، أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دے دیا تھا، لوگوں نے اسے حرم قرار نہیں دیا، لہٰذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ! اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کر دیا ہے، میں اس کی دیت دے دوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہوگا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں۔“
حدثنا يحيى بن سعيد ، قال: حدثنا مالك ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي شريح الكعبي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرا او ليصمت، من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه , جائزته يوم وليلة، الضيافة ثلاثة ايام، فما كان بعد ذلك، فهو صدقة , لا يحل له ان يثوي عنده حتى يخرجه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ , جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَهُوَ صَدَقَةٌ , لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُخْرِجَهُ" .
حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کا اکرام جائزہ سے کرنا چاہئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! جائزہ سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے اس سے زیادہ جو ہو گا وہ اس پر صدقہ ہو گا اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اچھی بات کہنی چاہئے یا پھر خاموش رہنا چاہئے اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کر دے۔“
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن المقبري ، عن ابي شريح الكعبي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: " والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن" , قالوا: وما ذاك يا رسول الله؟ قال:" الجار لا يامن جاره بوائقه" , قالوا: يا رسول الله , وما بوائقه؟ قال:" شره" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ" , قَالُوا: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْجَارُ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا بَوَائِقُهُ؟ قَالَ:" شَرُّهُ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم کھا کر یہ جملہ دہرایا کہ وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون؟ فرمایا: ”جس کے پڑوسی اس کے «بوائق» سے محفوظ نہ ہوں“، صحابہ نے «بوائق» کا معنی پوچھا تو فرمایا: ”شر۔“